درد دل لکھوں کب تک !
میں سب سے پہلے تو بتانا چاہتا ہوں کہ سمت نمائی سے دستبردار ہو رہا ہوں، وجہ یہ ہے، اکیلا چنا کیا بھاڑ جھونکے گا، جب چہار جانب ارسطو اور سقراط قوم کو سیدھی راہ دکھانے کے لیے دن رات محنت کر رہے ہیں، اس ہجوم بزرجمہراں میں میری کیا اوقات، ویسے بھی جب مجھے خود سمت نظر نہیں آ رہی، ہر طرف گرد و غبار چھایا ہے، ایسے میں کہاں کی سمت نمائی۔
آج میں نے سمت نما کو گھر کی الماری میں قید کر دیا ہے اور غبار راہ میں منزل کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا ہوں۔ سوری! آپ میری اس رام کتھا سے بور ہوئے ہیں لیکن کیا کریں، حال دل سنا کر ہی سکون ملتا ہے۔
میں نے سمت نمائی سے جان چھڑائی اور گھر سے نکلتے ہی کالی بلی نے راستہ کاٹ دیا۔ ایک لمحے کے لیے وسوسے کا شکار ہوا لیکن خود کلامی کی، "ایسا ویسا کچھ نہیں ہے"۔ اب اسے میری خوش نصیبی کہہ لیں یا بدقسمتی، ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا، اچانک ایک عجیب الخلقت مخلوق گاڑی کے اسٹیرنگ پر کھڑی نظر آئی۔ میں ڈر گیا، یا اﷲ یہ کہاں سے کار میں داخل ہوئی حالانکہ سارے شیشے بند تھے۔ پھر میں نے سہمی ہوئی آواز میں پوچھا، " بھائی! کون ہو تم؟ اس نے دھیمے لہجے میں جواب دیا، " مجھ خاکسار کو "کورونا عرف کووڈ 19" کہتے ہیں۔
یہ سن کر میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا، کپکپی طاری ہو گئی، گھبراہٹ میں گاڑی کے ڈیش بورڈ پر رکھا ماسک اٹھایا اور جھٹ سے منہ پر چڑھا لیا۔ پھر میں نے اسے ذرا دھمکایا، دفعہ ہو جا خبیث۔ میرا پتہ تجھے کس دشمن نے بتایا، الو کے پٹھے جا "رُولنگ کلاس" پر حملہ آور ہو، مجھ غریب پر قاتلانہ حملہ کر کے تجھے کیا ملے گا؟ بڑے بڑے محلات اور فارم ہاؤسز تیرا اصل ہدف ہونا چاہیے۔
کورونا بھائی جان بدستور سٹئرنگ پر موجود تھے۔ میں نے حواس پر قابو پایا، ذرا غور سے دیکھا تو موصوف ہاتھ جوڑے ہوئے تھے، جیسے معافی کے طلبگار ہوں۔ مجھے تھوڑا حوصلے میں دیکھ کر بولا! "آپ نے مجھے جو مغلظات سنائی اور نصیحت کی ہیں، اس کا مجھے بہت دکھ ہوا ہے حالانکہ میں تو خود مظلوم ہوں۔
میرا نام لے کر عوام کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے، میں اس پر شرمندہ ہوں۔ بڑی مشکل سے بچ بچا کر آپ تک پہنچ پایا ہوں۔ میرا حوصلہ اور بڑھا، "اوئے منحوس 22 کروڑ عوام میں سے تجھے صرف میں ہی نظر آیا ہوں، جا کسی طاقتور وزیر مشیر سے معافی مانگ یا پھر ان سے لپٹ کر خود کش حملہ کر، میری جان بخش دے، وعدہ کرتا ہوں، آیندہ رات کو سوتے وقت بھی ماسک نہیں اتاروں گا، دن میں بیس مرتبہ صابن سے ہاتھ دھوتا رہوں گا۔
کورونا صاحب! مسکین سا منہ بنا کر بولا! "سنا ہے، آپ صحافی ہیں، کچھ لکھتے لکھاتے ہیں اور بولتے بھی ہیں، پلیز میری مدد کریں۔ میرے خلاف دن رات منفی پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ میں نے دو چار بھاری بھر کم گالیاں چھوڑیں، "معصوم نہ بن درندے، تیری تباہ کاریاں پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں، تم دنیا کے سفاک ترین قاتل ہو، تمہاری سزا بھی عبرتناک ہونی چاہیے"۔ میں نے غور کیا، کورونا صاحب! پیج و تاب کھا رہاہے، اس نے مسکین لہجے میں کہا، میں ایک انتہائی حقیر اور بے زبان مخلوق ہوں، کسی الزام کا جواب بھی نہیں دے سکتا لیکن خیبر ٹیچنگ اسپتال پشاور میں جو کچھ ہوا، مجھے اس پر انتہائی افسوس ہے۔
میں غصے میں آ گیا اور بولا، مردود! یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے، جب سے تو منحوس قاتل، میرے ہم وطنوں کو چن چن کر قتل کر رہے ہو اور افسوس بھی کر رہے ہو، تمہیں ذرا ترس نہیں آتا۔ کورونا نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا، "سر! اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اور ہوس پرستی کا ذمے دار مجھے یا میرے قبیلے کو تو قرار نہ دیں، قسم کھاتا ہوں، مریض میری وجہ سے نہیں بلکہ بروقت علاج کی سہولت نہ ملنے کی وجہ سے مرے ہیں۔ آپ جواب دیں، کیا پشاور ٹیچنگ اسپتال میں آکسیجن میں نے ختم کی تھی، اگر آپ لوگ اپنی ذمے داری پورا کرتے تو سب کو با آسانی بچایا جا سکتا تھا۔
باقی ملک کے شہروں اور قصبوں کا بھی یہی حال ہے۔ کیا نجی لیبارٹریز کورونا ٹیسٹ کی بھاری بھر کم فیس میرے حکم پر لے رہی ہیں؟ سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کے لواحقین پاگلوں کی طرح ادھر ادھر بھاگ رہے، کسی کو دوائی نہیں ملتی اور کسی کو اسپتال میں بیڈ میسر نہیں۔ آپ لوگوں نے تو اپنے مسیحاؤں، میرا مطلب ڈاکٹرز اور پیرامیڈکس اسٹاف کو بھی محفوظ نہیں بنایا۔ اس "کارنامے" کا ذمے دار میں تو نہیں۔ ادویات مہنگی بھی سرکار نے ہی کر رکھی ہیں۔ چلیں مختصر بات کرتا ہوں، پشاور کے اسپتال میں جو کچھ ہوا، اس کی شفاف تحقیقات ہی کرا لیں۔ اس سانحہ کے ذمے داران کو ہی سامنے لے آئیں، جرم ثابت ہونے پر ذمے داروں کو قانون کے مطابق سزا دیں۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت 8 برس سے برسراقتدار ہے۔
تحریک انصاف کے لیڈران سندھ کے اسپتالوں کی خراب حالت اور سندھ حکومت کی نااہلی پر تو بے تکان بولتے ہیں، میں یہ نہیں کہتا کہ ایسا کرنا غلط ہے، سندھ حکومت کی نا اہلی اور بدعنوانی کو تشت ازبام کرنا اچھی بات ہے، سیاست کو عبادت انھی کاموں کی وجہ سے کہا جاتا ہے لیکن مجھے محسوس ہوا کہ سانحہ پشاور پر پراسرار خاموشی اختیار کر لی گئی ہے۔ مرنے والوں کو معمولی معاوضہ دینے کا اعلان کر کے صوبائی حکومت خود کو سرخرو سمجھتی ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ آپ صحافی ہیں، اس بے حسی پر کم ازکم آپ کو تو احتجاجی آواز بلند کرنی چاہیے"۔
میں سچائی سن کر شرمندہ ہو رہا تھا۔ کورونا پھر بولا، "ایک ہی جگہ پڑا رہ کر میں زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتا، مرنے سے پہلے آخری بات سنو! میں قاتل اس وقت بنتا ہوں، جب میرے شکار کو بچانے والا کوئی نہ ہو۔ پاکستان میں اچھے اور صاف ستھرے اسپتال ہوں، موثر اور سستی ادویات ہوں، ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف محفوظ ہوں تو میں اپنے شکار کو چند دن تنگ کر کے اپنی موت آپ مر جاؤں گا۔
بس عوام، سرکاری عمال اور حکمران اپنے گریبان میں جھانکنے کی عادت ڈال لیں تو کم ازکم مجھے قابو کرنا کوئی مشکل کام نہیں، زیادہ نہیں بس آئین پاکستان نے جو ذمے داریاں حکومت پر ڈالی ہیں، وہ انھیں ایمانداری اور تندہی سے ادا کر دے تو کورونا کسی کو نہیں مارے گا۔ اچھا میرے دن پورے ہوئے، خدا حافظ۔ یہ کہنا تھاکہ کورونا بھائی وفات پا چکے تھے۔ میں نے ان کی لاش کو کپڑے میں لپیٹا اور جھٹ سے کار کے باہر پھینک دیا۔
میری سانس پھولی ہوئی تھی، اتنی دیر میں دفتر پہنچ گیا۔ تھوڑا نارمل ہوا تو کورونا کی باتیں برچھی بن کر جسم کے آرپار ہو گئیں۔ میں نے خود کلامی کی، "قاتل سچا ہے۔ جب اسے میدان کھلا ملے گا تو وہ قتل کرنے سے باز کیوں آئے گا۔ میں خود کو بے بس سمجھ رہا ہوں، آنکھوں کے سامنے المیے پر المیے ہو رہے ہیں، اک حشر برپا ہے لیکن درد کا درماں کہیں نظر نہیں آتا۔ میری آنکھیں بھیگ گئیں اور بے بسی کے آنسو میرے گال پر اترآئے۔ پتہ نہیں آپ کے جذبات کیا ہیں، کم ازکم میری کیفیت تو یہی ہے۔
درد دل لکھوں کب تک جاؤں ان کو دکھلاؤں
انگلیاں فگار ا پنی، خامہ خوں چکاں اپنا