کورونا وائرس اور ہمارے شیرشاہ سوری
ابن مبارک کہتے ہیں کہ، میرا پڑوسی جو مجوسی تھا، وہ میرے پاس آیا، اس نے مجھے ایک نصیحت کی جو آج تک میرے دل پر نقش ہے۔ اس مجوسی نے کہاکہ اے ابن مبارک عقل مند وہ کام پانچ دن پہلے کر لیتا ہے جسے نادان پانچ دن کے بعد کرے گا۔
ساری دنیا میں کورونا وائرس اپنی ہلاکت خیزی اور برق رفتاری سے پنجے گاڑ رہا تھا بقول ہمارے وزیر اعظم کہ ہمیں پتہ تھا کہ اگر یہ وبا چین میں پھیلی ہے تو پاکستان میں بھی آئے گی تو جناب بادشاہ سلامت اگر آپ کو یہ پتہ تھا تو آپ نے جنوری میں ہی اس کی روک تھام کے لیے ہنگامی حالات کا اعلان کیوں نہیں کیا؟ ادھر کورونا ابھی ووہان میں تباہی پھیلا رہاتھا، ادھر آپ اور آپ کی کابینہ، جس کے سارے اراکین عقل میں بقراط، فلسفے میں ارسطو اور حکمت میں لقمان ہیں، انھیں نواز شریف کی فکر پڑی تھی کہ اسے پا بجولاں کیسے واپس لایا جائے؟
اسی دوران میں کورونا قلانچیں بھرتا ہوا پاکستان پہنچ گیا۔ کورونا وائرس نامی بلا کے پاکستان آمد کے دو ہی راستے تھے۔ ایک ایئر پورٹ، دوسرا زمینی سرحد، کابینہ حوریں دیکھتی رہی اور کورونا نے چپکے سے ایئر پورٹ اور شمال مغربی سرحد سے پاکستان میں داخل ہوکر ہمارے شہروں اور دیہات کارخ کر لیا، ہمیں بتایا گیا کہ 15فروری سے ہی تمام ایئر پورٹس پر اسکریننگ شروع کردی گئی تھی، اگر ایسا ہے توجناب ذرا اس سادہ لوح قوم کویہ بھی بتائیے کہ اسکریننگ کے باوجودکورونا وائرس کے متاثرین کونسی سلیمانی ٹوپی پہن کرایئر پورٹس سے باہر نکل آئے۔
جناب ڈاکٹر عمران خان صاحب نے قوم سے اپنے خطاب کے دوران حسب عادت پھر فرمایا ہے کہ گھبرانے والی بات نہیں ہے، کورونا سے متاثرہ97فیصد لوگ صحت یاب ہوجاتے ہیں ( یہ جو دنیامیں سات آٹھ ہزار ہلاکتیں ہو گئی ہیں کیا، انھیں ہٹلرکی نازی فوج نے مارا ہے) مزید فرمایا، سومیں سے صرف دو تین افراد کو اسپتال جانا پڑتا ہے، باقی کو نزلہ زکام ہوتا ہے ( چینی سخت بے وقوف ہیں جنہوں نے ہزار ہزار بسترکا اسپتال بناکر خواہ مخواہ ملکی زرمبادلہ ضایع کیا، کیا اطالوی پاگل ہیں جہاں اسپتالوں کے باہر ہائوس فل کا بورڈلگنے کے بعد سڑکوں پرکیمپ لگائے جا رہے ہیں۔
خان صاحب ان بے وقوفوں کو سمجھائیں کہ سو میں سے صرف تین افراد کوہی اسپتال میں داخل کریں، باقی کو پیناڈول دے کر رخصت کردیں یا پھر ہم سے جو شاندے کے ساشے منگوا لیں، پھر ارشاد فرمایاکہ جن کی قوت مدافعت کم ہے، یہ وائرس ان پرحملہ کرتا ہے۔
تو عرض ہے کہ جب سے تبدیلی سرکار آئی ہے، قوم میں قوت مدافعت باقی رہی ہی کہاں ہے، اگر ان میں ذرا سی بھی قوت مدافعت ہوتی تو جناب وزیراعظم بنی گالہ میں بیٹھ کر وزیر اعظم ہائوس میں گزارے اچھے دنوں کو یاد کرکے آہیں بھر رہے ہوتے یا پھر لندن کی سڑکوں پر گوریوں کو آٹو گراف دے رہے ہوتے، اس کے علاوہ ہاتھ صابن سے دھونے، اجتماعات میں نہ جانے کامشورہ بھی دیا گیاہے، ساتھ ہی یہ بھی کہ اگر نزلہ زکام یاکھانسی ہو توٹیسٹ مت کرائیں۔ یہ توہیں ہمارے لیڈرکی تجاویز اور مشورے۔ آں جناب عظیم کرکٹر بھی ہیں، معیشت دان بھی ہیں، سیلیبریٹی بھی ہیں اور خوبرو تو اس قدر ہیں کہ محترمہ زرتاج گل بھی بے ساختہ کہ اٹھیں کہ وزیر اعظم کی سمائیل بہت کلر ہے۔
ان کی چال بھی بہت پرکشش ہے۔ 92کا ورلڈکپ بھی لائے جسے آج تک بھگتا جا رہا ہے، اتنی ہمہ جہت شخصیت ہونے کے باوجود خدا جانے وہ کس بنیاد پر کورونا جیسی عالمی آفت کو اتنا لائیٹ لے رہے ہیں، سنا ہے، سندھ کی ایک بااثر شخصیت کا بھائی بھی ایران زیارتوں کے لیے گیاہوا تھا۔ کورونا پھیلتے ہی اس کے لیے خصوصی طیارہ بھیجاگیا اور واپس لاکر وی آئی پی قرنطینہ میں داخل کر ادیاگیا۔
اﷲ جانے موصوف کوکوروناہے یا پھر وہ وی آئی پی قرنطینہ میں پروٹوکول انجوائے کرتے ہوئے سفر کی تھکاوٹ اتار رہے ہیں۔ لیجیے صاحب ہمارے لہجے میں پھر تلخی در آئی ہے، ساری دنیا دیکھ رہی تھی کہ کورونا نے ایران میں ایسی تباہی مچائی ہے کہ وہاں کے ذمے داران اور حکومتی طاقتور افراد بھی راہی ملک عدم ہو رہے ہیں۔ چند روز پہلے کسی اخبار میں ایک دل دہلا دینے والی تصویر دیکھی کہ تہران میں ایک بالکل ویران سڑک کے کنارے پر انسانی لاش پڑی ہے جب کہ اسے اٹھانے والاکوئی نہیں۔
ہمارے بزرجمہروں کے سامنے ملکی سلامتی اور انسانی زندگی کی کوئی اہمیت ہے بھی یا نہیں؟ ایئر پورٹس سے کوروناکے مریض کیسے نکل گئے؟ ایران سے آنے والے زائرین کوشروع میں ہی کیوں نہیں سرحد پر مقررہ مدت کے لیے روکا گیا؟ تفتان میں ان کے لیے بنایاگیا قرنطینہ سینٹر پوری دنیا میں ایک لطیفہ بناہوا ہے۔
یہ اپنی نااہلی اپنے پاس رکھیں اور اب بھی انسانی زندگی سے کھلواڑکرنابند کردیں، کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے ایسے فوری اور قابل عمل فیصلے کریں جن سے قوم کو محسوس ہو کہ حکمرانوں کے دل ان کے ساتھ دھڑک رہے ہیں۔ ایک بات گوش گزارکردیں، جو حکمران رعایاکو تنگ کرے، اسے قبر میں بھی بالکل سکون نہیں ملتا بلکہ مسلسل پٹائی ہوتی ہے اور وہاں کوئی پروٹوکول اور سیکیورٹی کا بھی کوئی چکر نہیں، پنجاب میں بھی لاک ڈاون کا اعلان کردیا گیا ہے، اب پولیس کو حکم دیا جائے کہ وہ سڑکوں، گلی محلوں میں بلاوجہ پھرنے والوں کو آوارہ گردی ایکٹ کے تحت گرفتار کرے، اس طرح بلاوجہ گھروں سے نکلنے کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
سلاٹر ہاوسز کم از کم ایک ماہ کے لیے بند کردیے جائیں، کیونکہ دکانوں پر گوشت بغیر کسی حفاظتی انتظام کے بک رہا ہے، لوگ ایک ماہ گوشت نہیں کھائیں تو کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی کیونکہ یہ سب کام آخرکارکرنے ہی پڑنے ہیں لیکن بعد میں کرنے کاکیا فائدہ، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ؎
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کاپشیماں ہونا
ابھی نقصان کی شدت کم ہے، اس کے بے قابو ہونے کا انتظار نہ کیا جائے، اس وباکے بڑھتے ہوئے قدم یہیں روکنے کی زبردست کوشش کی جائے، ورنہ یہ بڑھتی ہوئی موت کسی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے، کورونا کو وار کرنے کے لیے انسانی جسم چاہیے، اسے اس سے غرض نہیں کہ یہ جسم فواد چوہدری کا ہے، فردوس عاشق اعوان کاہے، ظفر مرزا کا ہے، شیخ رشید کاہے یا بذات خود وزیر اعظم پاکستان کاہے، اس بے بس، بھوکی فریب خوردہ، مقروض، کمزور افلاس کی ماری ہوئی قوم پر رحم کریں، انھیں ذلیل وخوارکرنے کے لیے حکومتی ترجمان ہی کافی ہیں۔ ان پر کوروناکو جان بوجھ کر مسلط نہ کیا جائے، اور ہاں افغان اور ایران سرحد پرکرفیو نافذکر دیا جائے، بارڈرکراس کرنے والاسیدھا قرنطینہ سینٹرجائے یا پھر اوپر۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
اگر زمینی سرحدوں پر ہماری غفلت کا یہی عالم رہا تو پھر ہمارا ایران اوراٹلی والاحال ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا، جوکام نادان پانچ دن بعد کرتا ہے عقل مند وہی کام پانچ دن پہلے کر لیتا ہے۔
اور ایک آخری بات شاباش مراد علی شاہ۔ کچھ نہ تو کچھ کیا ورنہ مرکز، پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے شیر شاہ سوری تو مشہور پنجابی محاورے کے مطابق جسم پر راکھ مل کر بیٹھے ہیں۔