کالم نویسی کا ایک عہد تمام ہوا
اپنے عہد کے بے بدل کالم نویس عبدالقادر حسن بھی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اہل صحافت شاید ہی ان کے پائے کا کوئی دوسرا کالم نگار دیکھ پائیں۔ آج تو ہر صحافی خود کوکالم نویس سمجھتا ہے حتیٰ کہ ٹی وی اینکرز بھی خود کو دانشور اورکالم نویس سمجھتے ہیں حالانکہ کالم کیا ہوتا ہے، وہ شاید اس کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں۔
مرحوم عبدالقادر حسن اکثرکہا کرتے تھے، اب تو کالم نویس ریوڑیوں کے بھائو دستیاب ہیں، کئی صاحبان مضمون نگاری کو بھی کالم سمجھتے ہیں۔ چلیں چھوڑیں یہ تذکرہ، بات ملک صاحب کی کرتا ہوں۔ جب سے کورونا کی وباء کا شور اٹھا ہے، تب سے میں احتیاطً زیادہ لوگوں کی مجلس یا اجتماع میں نہیں جاتا لیکن عبدالقادر حسن صاحب کے ساتھ میرا ایسا تعلق تھا کہ کورونا وبا کی پرواہ کیے بغیر انھیں ابدی سفر پر روانہ کرنے کے لیے ان کی نماز جنازہ میں شریک ہوا۔
عبدالقادر حسن دس پندرہ روز بیمار رہے اور صحت مند ہو کر گھر آ گئے۔ مجھے علم نہیں تھا، ان کے صاحبزادے اطہر حسن نے مجھے فون پر بتایا، "چوہدری صاحب! آپ کے دوست اور میرے بابا اﷲ کے فضل سے صحت مند ہو گئے ہیں۔ کل آپ کو کالم بھیجیں گے"۔ ملک صاحب (عبدالقادر حسن) چند روز سے کالم نہیں بھیج رہے تھے، میں نے سمجھا کہ بعض اوقات طبیعت قلم پکڑنے پر مائل نہیں ہوتی، اس لیے ایک دو دن کالم نہ لکھ سکے لیکن اصل میں کہانی یہ تھی جو ان کے صاحبزادے نے سنائی۔ انھوں نے بتایا "بابا چند روز سے اسپتال میں داخل تھے، ان کی طبیعت اچانک خراب ہوئی تھی، اس لیے ہم نے فوراً انھیں اسپتال منتقل کر دیا، ( یہ اسپتال ان کے گھر سے محض ایک دو منٹ کی ڈرائیو پر واقع ہے) یہاں چند روز ان کا علاج چلتا رہا۔ اب ڈاکٹرز نے انھیں مکمل طور پر صحت مند قرار دیدیا ہے اور وہ گھر واپس آگئے ہیں "۔
یہ سن کر میرے ذہن میں کورونا کا خیال کوندا، میں نے اطہر حسن سے پوچھا، " خدا نخواستہ کہیں کورونا… "۔ انھوں نے فوراً نفی میں جواب دیا۔"بابا کورونا وغیرہ سے قطعاً متاثر نہیں تھے، ان کی پرانی بیماری میں اچانک شدت آ گئی تھی لہٰذا انھیں اسپتال میں چند روز رکھنا ضروری تھا۔" میں نے شکوے کے انداز میں کہا، "یہ آپ نے زیادتی کی، مجھے نہیں بتایا، چلو میں ان کی عیادت کے لیے حاضر ہو جاتا"۔ اس پر ان کے صاحبزادے نے جواب دیا"، ہم نے کسی کو بھی نہیں بتایا، ویسے بھی اسپتال میں ایس او پیز پر عمل ہو رہا تھا، اس لیے خاموشی ہی بہتر جانی۔ اب بھی صرف آپ کے علم میں ہی لا رہا ہوں کہ وہ صحت مند ہیں اور کل کالم لکھیں گے۔ انھوں نے مجھ سے بھی کہا کہ آپ بھی کسی سے ذکر نہ کیجیے کیونکہ پھر ملنے کے لیے آنے والوں کو روکنا مشکل ہوجائے گا"۔
یوں مجھے ان کی مختصر علالت اور تندرستی کی اطلاع ملی، میں بھی خاموش رہا، سوچا اگر کسی کو بتائوں گا تو واقعی ان کے گھر میں ملاقاتیوں کی آمدورفت بہت بڑھ جائے گی لہٰذا کورونا وباء کے باعث خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا۔ 27نومبر کو ان کا کالم میرے پاس پہنچاجو 28نومبر کو شایع ہوا کالم کا عنوان تھا "اچھا دوستو!خدا حافظ"۔ اس میں انھوں نے اپنے ان دوستوں اور ہمعصروں کا ذکر کیاتھا جو حال ہی میں دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔ پھر ان کا کالم 28نومبر کو آیا جو 29نومبر کو شایع ہوا۔ اگلے دن سہ پہر کو ان کے انتقال کی خبر آگئی۔ فیض احمد فیضؔ کا ایک شعر یاد آ رہا ہے:
تھک کر یونہی پل بھر کے لیے آنکھ لگی تھی
سو کر ہی نہ اٹھیں، یہ ارادہ تو نہیں تھا
عبدالقادر حسن صاحب نے اپنی آخری سانس تک قلم و قرطاس سے اپنا رشتہ قائم رکھ کر انوکھی تاریخ رقم کی ہے۔ بہت کم ایسی شخصیات گزری ہیں جنھوں نے قلم و قرطاس سے رشتہ قائم کیا اور مرتے دم تک اس رشتے کو نبھایا، وہ بھی اس شاندار اور طرحدار انداز میں کہ ایک مثال بن گئے۔ وہ کسی سے ڈرے نا کبھی مایوس ہوئے، قدرت ان پر ایسی مہربان ہوئی کہ وہ رپورٹر سے چیف رپورٹر بنے، افریشیا کے مدیر بنے، اعلیٰ پائے کے کالم نویس بنے اور بے روزگاری کی اذیت ایک دن بھی نہ سہی۔ کالم نویسی ان کی پہچان بن گئی، بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ رپورٹر بھی رہے اور مدیر بھی۔
وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے عینی شاہد تھے، انھوں نے پاکستان بنتے اور پھر اسے دولخت ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا انھیں حد درجہ دکھ اور رنج رہا۔ اﷲ نے انھیں بے مثال حافظہ عطا کر رکھا تھا، اردو اور فارسی کے نامور شعرا کے اشعار انھیں زبانی یاد تھے۔ وہ قیام پاکستان کے وقت اپنے گائوں کے ہندوئوں کا اکثر ذکر کرتے تھے۔ مسلمانوں کی سوچ کیا تھی، وہ بھی ان کی یادوں کے کمپیوٹر میں محفوظ تھی۔ اس کا ذکر اکثر ان کے کالموں میں ملتا ہے، مشرقی پاکستان کیسے بنگلہ دیش بنا، اس کے بھی وہ عینی شاہدین میں شامل تھے۔
یوں دیکھا جائے تو وہ پاکستان کی چلتی پھرتی تاریخ تھے، میں نے کئی بار ان سے کہا، "ملک صاحب! اپنی یادداشتیں لکھیں تاکہ آنے والی نسل کو آپ کی وساطت سے کچھ حقائق سے آگاہی مل سکے"۔ وہ ہر بار جواب دیتے۔"میں چاہتا ہوں کہ یادداشتیں لکھوں لیکن ابھی دل مائل نہیں ہو رہا"۔ مجھے دکھ ہے کہ ملک صاحب اپنی یادداشتیں قلم بند نہ کر سکے البتہ ان کے کالم نسل نو کو بہت کچھ بتاتے رہیں گے۔
میرا ملک صاحب سے روزانہ کا تعلق 2006 میں ہوا۔ اس سال کے ابتدائی مہینوں میں انھوں نے روزنامہ ایکسپریس جوائن کیاتھا۔ اس وقت عباس اطہر صاحب جنھیں ہم صرف "شاہ جی" کے نام سے پکارتے تھے، روزنامہ ایکسپریس کے گروپ ایڈیٹر تھے، شاہ جی بھی اپنے عہد کے نامور صحافی اور کالم نگار تھے۔ انھیں خبر پر ہیڈ لائن جمانے کا بادشاہ کہا جاتا ہے، ان کی ہیڈ لائنز کتابی شکل میں شایع ہوئیں، یہ صحافتی تاریخ کی شاید واحد مثال ہے کہ کسی کالم نویس کی ہیڈ لائنز کتابی صورت میں شایع ہوئیں۔
کنکریاں، کے نام سے کالم لکھتے تھے۔ وہ ایک شاعر بھی تھے لیکن صحافت سے روزگار وابستہ ہوا تو پھر ان کے اندر کا شاعر صحافت کے بوجھ تلے ایسا دبا کہ ابھر نہ سکا۔ شاہ جی اور عبدالقادر حسن میں گہرا دوستانہ تھا حالانکہ دونوں کے سیاسی نظریات میں مشرق مغرب کا فرق تھا۔ ایک لبرل اور دوسرا قدامت پسند سیاسی نظریات کا علمبردار۔ عبدالقادر حسن اور ان کے عہد کے صحافتی کلچر کی یہ خوبصورتی تھی کہ سیاسی نظریات اپنی جگہ اور ذاتی دوستیاں اپنی جگہ۔ اگر کسی نے اچھا کالم لکھا، کسی رپورٹر نے اچھی خبر دی یا کسی نیوز ایڈیٹر، سب ایڈیٹر نے خبر پر اچھی ہیڈ لائن جمائی، تمام ہم عصر اس کی کھل کر تعریف کرتے تھے۔ آج یہ کلچر ناپید ہے۔
عبدالقادر حسن اپنی مٹی سے جڑے ہوئے انسان تھے۔ بڑے گہرے پنجابی تھے اور "ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے" نظریے کے علمبردار بھی۔ وہ آخری دم تک اپنی جنم بھومی کھوڑہ اور وادی سون کی خوبصورت پہاڑیوں، درختوں، بارشوں اور دلکش موسم کو نہیں بھولے۔ پنجابی میں گفتگو کرتے، اپنے کالموں میں اکثر اپنے علاقے اور 60 کی دہائی کے لاہور کا جس رومانوی انداز میں ذکر کرتے تھے کہ قاری خود کو پچاس برس پہلے کی ٹھنڈی سڑک اور بلند وبالا پیڑوں سے ڈھکے مال روڈ پر چہل قدمی کرتا محسوس کرتا تھا۔ اگر کسی نے غلام عباس کا افسانہ پڑھا ہو تو ان سڑکوں کا ذکر ملے گا۔
میں جو پیدائشی لاہوریا ہوں، ان کی تحریریں پڑھ اور باتیں سن کر حیرت میں گم ہو جاتا اور سوچتا کیا واقعی لاہور اتنا خوبصورت، سرسبز اور صاف ستھرا ہوا کرتا تھا؟ آج کا لاہور ماحولیاتی آلودگی کے طوفان میں گھرا ہوا ہے۔ زیر زمین میٹھے پانی کو بے دردی اور جاہلانہ انداز میں استعمال کیا جا رہا ہے، زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے جا چکی ہے، لیکن لاہور کے شہری، خواہ وہ پروفیسرز ہوں یا بیوروکریٹ اور سیاسی حکمران، خواب غفلت کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ میرے خیال میں ہم سب موت کی بلیک ہول میں گرنے کے لیے سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔ عبدالقادر حسن اکثر اپنے کالموں میں تنبیہ کرتے تھے کہ سیاستدانو اور حکمرانو! سوچ لو۔ لیکن شاید اقتدار کے ایوانوں میں سوچنے والوں کا قحط الرجال ہے۔
عبدالقادر حسن اقتدار کے ایوانوں تک رسائی رکھتے، ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا اصغر خاں، مولانا مودودی ہوں یا مولانا مفتی محمود، نوابزادہ نصراللہ خان ہوں یا چوہدری ظہور الٰہی یا ڈاکٹر قدیر خان، ان سب کے ساتھ ان کے ذاتی تعلقات تھے۔ چوہدری انور عزیز کے ساتھ تو بزم ارائیوں کا تعلق تھا۔ ان کی وفات کا بھی انھیں انتہائی دکھ پہنچا۔ مولانا مودودی سے گہری وابستگی رکھتے تھے۔ انھوں نے دو قومی نظریے کا پرچم آخری سانس تک اٹھا ئے رکھا۔ ان کے سیاسی نظریے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی دوست نوازی اور کالم نگاری اپنی مثال آپ ہے۔ آج اتنا ہی لکھ سکوں گا، زندگی رہی تو مزید لکھوں گا۔ حفیظ ہوشیار پوری کے اس شعر پر غم کی داستان ختم کرتا ہوں۔
سوئیں گے حشر تک کہ سبکدوش ہو گئے
بارے امانت غم ہستی اتار کے