یہ بازی کس نے جیتی؟
پاکستان میں گزشتہ 35، 40 سال سے حکمرانی کرنے والے دو ہی خاندان تھے اور ان دونوں خاندانوں نے جس پیمانے کی ٹوٹ مار کی ہے اس سے کسی کو بھی انکار نہیں۔ بے شک فرسودہ نظام کے ہونے کی وجہ سے یہ خاندان نہ صرف احتساب کے عمل سے بچتے آ رہے ہیں بلکہ بار بار اقتدار میں بھی آتے رہے ہیں۔ قومی اداروں کے اعلیٰ افسران کو بدعنوان بننے کے مواقع فراہم کئے گئے ان کو بھی اس کرپشن میں برابر حصہ دیا گیا۔ میرٹ کے خلاف اعلیٰ عہدوں پر ترقیاں دے کر ان افسران کو نوازا گیا۔ کرپشن کے مقدمات چل رہے ہیں، ادارے تحقیقات کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن کرپشن کے ثبوت غائب ہیں۔ جن افسران نے یہ شواہد مرتب کرنے ہوتے ہیں وہ خود اس نظام کا حصہ ہیں۔ یہ سب کیا دھرا ان کا ہے، گزشتہ 35، 40 سال تک جن حکمرانوں نے اقتدار میں رہ کر کرپٹ مافیا کو مضبوط بنایا جس کا نتیجہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ عوامی جلسے ہوں، میڈیا ٹاک شوز ہوں ان سب پر کرپٹ عناصر اپنے آپ کو بے گناہ کہتے ہیں اور پھر عوام ان ہی کے نعرے لگاتے ہیں ذرا اندازہ لگالیں کہ آصف علی زرداری آج زیرک سیاستدان ہیں لندن میں بیٹھے میاں نواز شریف سوشل میڈیا کے ذریعے ہر دوسرے روز قومی اداروں پر برستے ہیں کہ "مجھے کیوں نکالا" میاں شہبازشریف فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی۔
ہائوس آف شریف اور ہائوس آف زرداری سے پوچھا جائے کہ جناب دونوں خاندانوں نے قومی خزانہ لوٹا اس لوٹ مار میں بازی کس نے جیتی؟ امریکہ، برطانیہ اور فرانس میں ان کی جائیدادیں اور اثاثوں کا کوئی شمار ہی نہیں ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں آصف علی زرداری کی لوٹی ہوئی تمام دولت سفارتی ذرائع استعمال کرتے ہوئے برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر واجد شمس الحسن برطانیہ سے لائے اسی طرح میاں نوازشریف کے سمدھی اسحاق ڈار براستہ دبئی لوٹی ہوئی قومی دولت برطانیہ لائے۔ ابھی کل ہی آل شریف نے لندن میں دنیا کی انتہائی مہنگی ترین گاڑیوں کا پورا فلیٹ خریدا ہے۔ عرب ممالک کے شاہی خاندانوں کی دولت بھی ان دو پاکستانی خاندانوں کے آگے مانند پڑ جاتی ہے۔ قومی ترقیاتی منصوبوں میں غیر ملکی کمپنیوں کی شراکت داری اور بڑے بڑے منصوبے جس میں موٹر ویز سرفہرست ہیں ان سب میں کمیشن لیا جاتا رہا اور اس کمیشن کی ادائیگی دبئی، لندن اور سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں کی جاتی رہی۔ غیر ملکی کمپنیوں کو بغیر کمیشن لیے پاکستان میں کسی بھی منصوبے میں شامل نہیں کیا جاتا تھا۔ سندھ میں اویس پٹی اور شرجیل میمن نے اس ضمن میں بھرپور کردار ادا کیا۔ پنجاب اور وفاق میں بھی اعلیٰ افسران نے اس سلسلے میں خوب مال کمایا اور ہائوس آف شریف کو برابر حصہ دیا۔ حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کے علاوہ اسحاق ڈار کے صاحبزادے بھی اس پورے کھیل میں شامل رہے۔
لندن اور دبئی کے علاوہ کویت اور سعودی عرب میں بھی ان سب کے کاروباری روابط ہیں جن میں بے پناہ سرمایہ کاری ہو چکی ہے۔ میاں نوازشریف کے صاحبزدے حسن اور حسین اس وقت لندن میں کروڑوں پائونڈ مالیت کی جائیدادوں کے مالک ہیں اور ان کا کاروبار جوکہ فلیگ شپ نام کی کمپنی کے ذریعے ہورہا ہے اس بھاری سرمایہ کاری کے لیے سرمایہ کہاں سے فراہم کیا گیا؟ اس کا کوئی جواب نہیں۔ 10 دسمبر 2000ء کو اسلام آباد سے رات گئے جاری ہونے والے ایک سرکاری اعلامیے میں اعلان کیا گیا کہ چیف ایگزیکٹو پرویز مشرف کے مشورے پر صدر مملکت محمد رفیق تارڑ نے معزول وزیراعظم میاں نوازشریف کی سزا معاف کردی ہے اور ہائوس آف شریف کے تمام خاندان کو سعودی عرب جانے کی اجازت دے دی گئی۔ میاں نوازشریف کو پاکستانی عدالتوں کی طرف سے دو مقدمات میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی اور ان کو 21 برس کے لیے کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دیا گیا تھا۔ ان تمام عوامل کے باوجود ہائوس آف شریف کو بھرپور ریلیف فراہم کیا گیا۔ جدہ میں واقع سرور پیلس میں شاہانہ طور پر قیام کی سہولتیں فراہم کردی گئیں اس کے بعد 2007ء میں یہ خودساختہ جلاوطنی اختتام پذیر ہوئی یعنی ایک بار پھرپاکستانی سیاست میں عملی کردار ادا کرنے کے مواقع فراہم کر دیا گیا۔ ساتھ ہی محترمہ بے نظیر بھٹو بھی ایک بار پھر پاکستان کی سیاست میں داخل ہوتی ہیں۔ ان دونوں خاندانوں کو قومی خزانہ میں خیانت کرنے اور قومی اداروں کو برباد کرنے کے باوجود اقتدار کے ایوانوں تک رسائی غیر ملکی قوتوں کی مشاورت سے فراہم کی گئی۔ کبھی کسی نے یہ سوچا تھا کہ آصف علی زرداری بھی پاکستان کے صدر اور میاں نوازشریف بھی تیسری مرتبہ وزیراعظم بن جائیں گے۔
یہ سب کچھ پاکستان میں اسی نظام کا کیا دھرا ہے جوکہ ابھی تک برقرار رہے۔ پوری کی پوری بیوروکریسی ان ہی دونوں خاندانوں کی وہ طاقتور مشینری ہے جوکہ ان کے لیے اب بھی درپردہ اپنا کام کر رہی ہے اور موجودہ حکومت کو ناکام بنانے کی پوری کوششیں کر رہی ہے۔ مریم نوازشریف اور مولانا فضل الرحمن کا یہ اعلان کہ ہم 26 مارچ کو نیب کے دفتر پی ڈی ایم کے رہنمائوں اور کارکنوں کے ہمراہ جائیں گے، سے اندازہ لگالیں کہ موجودہ نظام کس قدر غیر موثر ہو چکا ہے۔ اداروں کے خلاف کھلے عام باتیں اور دھمکیاں یہ آہستہ آہستہ خانہ جنگی کی جانب پیشرفت ہے۔ ماضی میں سپریم کورٹ پر حملہ ہو چکا ہے ابھی حال ہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ پر حملہ ہوا۔ یہ سب کیا ہے؟ جیساکہ خبریں ہیں کہ آصف زرداری کے تمام مقدمات سندھ منتقل کردیئے جائیں گے یعنی پیپلزپارٹی اور حکومت کے درمیان کوئی ڈیل ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ دراصل غریب اور معصوم عوام ہر سطح پر ہار چکے ہیں۔ پورا نظام فیل ہو چکا ہے اور یہ دونوں خاندان اپنی لوٹ مار کی بازی جیت چکے ہیں اور ان کی نسلیں آئندہ پھر پاکستانی سیاست میں آ کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ جائیں گی اب اصل حقیقت یہ ہے کہ اب نظام کی تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے۔ یہ تبدیلی صرف اورصرف انقلابی اقدامات ہی کے ذریعے ممکن ہے ورنہ پاکستان چند مخصوص خاندانوں ہی کے نرغے میں جکڑا رہے گا اور قومی دولت ان ہی خاندانوں کے قبضے میں رہے گی۔ پاکستان اپنی تاریخ کے نازک ترین موڑ پر ہے۔ وزیراعظم عمران خان بھی اگر ناکام ہو جاتے ہیں تو پھر آئندہ پاکستان میں کرپشن فری حکومتوں کا قیام ایک خواب ہی رہے گا۔ افسوس یہ بھی ہے کہ عمران خان اب بھی اپنی ٹیم بدلنے کو تیار نہیں۔ یہ بھی المیہ ہے کہ اب قوم قوم نہیں رہی یہ ہجوم ہے، ہجوم کو ہر کوئی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرلیتا ہے۔