لائلپور کا گھنٹہ گھر اور ہماری جمہوریت
پاکستان کے مانچسٹر فیصل آباد (لائلپور) کے آٹھ بازاروں کے عین وسط میں گھنٹہ گھر موجود ہے۔ کچہری، چنیوٹ بازار، جھنگ بازار، منٹگمری بازار، بھوانہ بازار، ریل بازار، کارخانہ بازار اور امین پور بازار یعنی جس بازار سے بھی گزریں گھنٹہ گھر چوک ٹھیک وسط ہی میں موجود نظر آئے گا۔ پاکستان کی تمام کی تمام سیاسی جماعتیں سوائے جماعت اسلامی کو چھوڑ کر خاندانی اجارہ داری اور شخصی آمریت کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہیں حتیٰ کہ ان جماعتوں میں سیکنڈ لائن کی قیادت تک کو بھی ابھرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ قومی سطح پر فعال رہنے والی جماعتیں پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن اور دیگر سیاسی جماعتیں جوکہ ہمیشہ ہی قومی سطح کی سیاسی جماعت کے ساتھ اقتدار میں شامل رہتی ہیں۔
یہ جماعتیں جمہوریت کی علمبردار کہلواتی ہیں اور دعویٰ کرتی ہیں کہ جمہوریت کے فروغ کے لیے سرگرم عمل ہیں لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ ان تمام سیاسی جماعتوں کی اپنی صفوں میں نہ تو جمہوریت ہے اور نہ ہی جمہوریت اقدار کو ملحوظ رکھنے کی کوئی روایت ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ کے فلور پر جو کچھ ہوتا ہے سینٹ آف پاکستان، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے دوران جو طریقہ کار عوامی نمائندے اپناتے ہیں یہ کسی طرح سے بھی جمہوری عمل کا ثبوت فراہم نہیں کرتا۔ عوامی نمائندے جمہوری تقاضے کس قدر پورے کرتے ہیں، یہ سب کچھ پوری قوم جان چکی ہے۔ تمام کی تمام سیاسی جماعتوں میں جماعت کی قیادت مخصوص خاندان اور پھر ان ہی خاندانوں کی شخصیات کے ہاتھوں میں ہی چلی آ رہی ہے۔ ان جماعتوں میں شخصی آمریت غالب آ چکی ہے۔
گھوم پھر کر مخصوص چہرے اپنا بھرپور اثر برقرار رکھتے ہیں یعنی ہر جماعت میں لائلپور کے گھنٹہ گھر کی طرح یہ خاندان موجود ہیں۔ ہائوس آف شریف، ہائوس آف زرداری اسی طرح ولی خان خاندان، مولانا مفتی محمود کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمن اور پھر چوہدری برادران حتیٰ کہ خود عمران خان کی شخصیت بھی پی ٹی آئی میں اپنی جگہ پر خاص اہمیت رکھتی ہے۔ جماعتوں میں چونکہ شخصی آمریت بھرپور انداز میں برقرار ہے لٰہذا ان حالات میں جمہوریت کیوں اور پھر کیسے پروان چڑھ سکتی ہے؟ سیاسی جماعتوں میں بلاشبہ انتہائی سینئر رہنمائوں اور نظریاتی کارکنوں کی کمی نہیں ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنی ہی صفوں سے قیادت جمہوری تقاضوں کو بروئے کار لانے کی پالیسی اپنانے کی بجائے مخصوص خاندانوں کی خوشنودی حاصل کر کے شریک اقتدار ہوتی ہیں اور پھر ان ہی خاندانوں کے تمام کے تمام فیصلے مانے جاتے ہیں۔ دراصل یہ ہی اصل کرپشن ہے جوکہ پورے معاشرے کو برباد کر چکی ہے اور ملک کے تمام قومی ادارے تباہ ہو چکے ہیں۔ قومی اداروں میں خطرناک حد تک مخصوص خاندانوں کی گرفت مضبوط ہو چکی ہے۔ قومی خزانہ لوٹنے اور دیگر بدعنوانیوں کے علاوہ سنگین بے ضابطگیوں کے ثبوت اور دستاویزی شواہد کیوں غائب ہو جاتے ہیں؟ کیوں بااثر شخصیات کو کرپشن کے الزامات سے باعزت طور پر بری کردیا جاتا ہے؟ ا۔ سیاسی جماعتوں کے من پسند وکلا حضرات کو اعلیٰ عدالتوں میں جج لگا دیا جاتا ہے نہ تو میرٹ دیکھا جاتا ہے اور نہ ہی تجربہ اور نہ ہی قانونی قابلیت صرف اور مخصوص خاندانوں کی قربت اور پھر سیاسی اثر و رسوخ، یہ معیار اب رہ گیا ہے جوکہ آہستہ آہستہ خطرناک صورتحال پیدا کر رہا ہے۔
ہائوس آف شریف اور ہائوس آف زرداری کی ریکارڈ سطح کی کرپشن کے باوجود پاکستانی معاشرے میں ان دونوں خاندانوں کو بھرپور عزت و احترام فراہم کیا جاتا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا برابر ان دونوں خاندانوں کو کوریج دیتا ہے۔ حد تو یہ کہ آصف علی زرداری کو زیرک سیاستدان کہا جاتا ہے۔ ملک کا وزیر داخلہ زرداری صاحب کو سیاست کے میدان میں اعلیٰ درجے کے سیاستدان کہتے ہیں۔ برطانیہ اور امریکہ کے اہم اخبارات میں ہائوس آف شریف اور ہائوس آف زرداری کی کرپشن کے بارے میں فرنٹ پیج سٹوریز شائع ہو چکی ہیں اس کے علاوہ یورپ میں بے شمار کتابوں میں جوکہ یورپی صحافیوں کی تحقیقاتی رپورٹس پر مبنیٰ ہیں منظر عام پر آ چکی ہیں اس کے باوجو ان خاندانوں کو برابر ریلیف فراہم کیا جاتا ہے۔ آنے والے دنوں میں ان ہی خاندانوں کی نسلوں کو اقتدار میں لانے کے لیے فری ہینڈ فراہم کرنا بدقسمتی ہوگی۔ المیہ تو اب یہ بھی ہے کہ جس طرح پاکستان میں جمہوریت اپنی افادیت کھو چکی ہے وہاں میڈیا بھی اپنا اصل کردار ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہورہا ہے۔
نجی ٹی وی چینلز جن کی تعداد بہت بڑھ چکی ہے یہ جس طرح کے نیوز ٹاک شوز آن ایئر کرتے ہیں اس سے معاشرے میں بہتر آگاہی اور اصلاح کی بجائے نہ صرف غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہوئی ہے بلکہ ان شوز میں جن غیر مصدقہ امور کو زیر بحث لا کر تجزیے اور تبصرے پیش کئے جاتے ہیں یہ معاشرے کو مزید پستی اور ہیجان کی صورت حال سے دوچار کرنے میں معاون ثابت ہورہے ہیں۔ ٹاک شوز نے بے شمار کرپشن اور ناکام عوامی نمائندوں کو جمہوری رہنمائوں کا درجہ دے رکھا ہے یہ بدعنوان عوامی نمائندے جمہوری قدروں کا پرچار کرتے ہوئے ایک دن میں کئی ٹاک شوز کی زینت بنتے ہیں۔ کرپشن معاشرے میں اپنا کلہ مضبوط کر چکی ہے۔ ہر روز یہ منظر قوم دیکھتی ہے کہ کرپشن کے الزامات میں ملوث شخصیات کو عدالتوں میں جب پیش کیا جاتا ہے تو وہ وکٹری کا نشان بناتے ہوئے باہر نکلتے ہیں۔ لوگ ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہیں اور پھر یہ بدعنوان شخصیات میڈیا کے کیمروں کے آگے کھڑے ہو کر خطاب کرتی ہیں۔ اب بتائیں کہ احتساب کہاں ہے؟ انصاف کہاں ہے؟ کیا اسی کا نام جمہوریت ہے؟ کرپشن اور جمہوریت میں اب کیا فرق رہ گیا ہے؟