نہ ریفرنس نہ کیس صرف جیل
پنجاب کی سیاست کو پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما حمزہ شہباز کے بغیر مکمل تصورر کرنا حماقت ہو گی کیو نکہ حمزہ شہبازنے ملک کی اس سب سے بڑی سیاسی جماعت کو زندگی دینے میں مردآہن کا کردارادا کیا جس کا اعتراف نہ صرف ان کے سیاسی مخالفین کرتے ہیں بلکہ جید سیاستدان بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں۔ حمزہ شہباز پنجاب کی سیاست کا ایسا کردار ہیں جن میں عوام دوستی اور خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے، حمزہ شہباز کی اسیری کو ایک سال مکمل ہو چکا ہے اور ابھی تک ان کیخلاف کوئی ریفرنس نہیں بن سکانہ ہی کوئی کیس۔ ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں اور پچھلے بارہ مہینے سے جیل کی سلا خوں کے پیچھے بند ہیں۔ حمزہ شہباز کے متعلق اگر یہ کہا جائے کہ وہ شریف خاندان کے لئے اور خاص طور پر مسلم لیگ ن کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں دینے والے لیڈر ہیں تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ انہیں پرویز مشرف کے دور آمریت میں بطور زر ضمانت پاکستان ہی میں رکھا گیا جب شریف خاندان کے تمام افراد بشمول پارٹی قائد میاں نواز شریف کو ایک مبینہ معاہدہ کے تحت جلاوطن کردیا گیا تھااور انھیں دس سال تک اپنے ہی ملک میں واپس آنے کی اجازت نا تھی ان دنوں جب شریف خاندان سعودی عرب میں شاہی محلات میں وقت گزار رہاتھاتو یہ حمزہ شہباز ہی تھے جنھیں آئے روزنیب آفس طلب کیا جاتا اور تفتیش کے بہانے بلا کر گھنٹوں آفس کے باہر انتظار کرایا جاتا تھا وہ کرب اور اذیت ناک دن بھی حمزہ شہباز نے انتہائی خندہ پیشانی سے گزارے اور اپنے قائد میاں نواز شریف کے نام ساکھ اور مرتبہ کو دھبہ نہیں لگنے دیا۔
حمزہ شہباز پر رمضان شوگر ملز کیس بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی لیکن نیب کو ماضی کی طرح کامیابی نہ ملی۔ ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ حمزہ شہباز پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا الزام لگایاگیا کیونکہ رمضان شوگر ملز کیس میں کوئی شواہد نہ مل سکے اسی لئے اب ان پر آمدن سے مطابقت نہ رکھنے والے اثاثے بنانے کا الزام لگا دیا گیا لیکن اس کیس میں بھی ابھی تک کسی قسم کا ریفرنس نہیں بن سکا۔ سپریم کورٹ بہت سے کیسز کی سماعتوں کے دوران ریمارکس دے چکی ہے کہ نیب یا ملک کا کوئی بھی ادارہ کسی بھی سیاستدان اور عام شہری کو ٹھوس شواہد کے بغیر زیادہ دن حراست میں نہیں رکھ سکتا لیکن حمزہ شہبازپر شائد یہ بات لاگو نہیں ہوتی۔ عمران خان حکومت نیب کے متعلق کہتی ہے کہ نیب ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہے جو اپنے فیصلے ملک کے وسیع تر مفاد میں کرتا ہے لیکن کیا کسی بھی ادارے کو یہ اجازت دی جاسکتی ہے کہ کسی کو بلاوجہ اوربغیرثبوت حراست میں لے لے۔ تفتیش کے بہانے سالوں پابندسلاسل کردے، کسی بھی مہذب معاشرے یا ملک میں ایسا کوئی ادارہ نہیں جو بغیر ثبوت کسی بھی شہری کو حراست اور پھر حراست کا یہ سلسلہ طویل ہوتا چلا جائے۔ حمزہ شہباز کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہورہا ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس ملک کی روایت رہی ہے کہ جو سیاستدان جتنی جیل یا قید کاٹے گا وہ اتناہی بڑا لیڈر بن کر ابھرے گا۔
موجودہ حالات میں یہ بات کھل کرکہی جاسکتی ہے کہ آئندہ سیاست کے محورحمزہ شہبا ز ہوں گے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ حمزہ شہباز جس دن جیل سے سر خروہوکر نکلیں گے توملکی سیاست کے سر کا تاج ہوں گے۔ دوسری جانب نیب اور مسلم لیگ نون کی قیادت کے درمیان کئی معاملات پر اختلافات واضح طور پر سامنے آنے لگے ہیں۔ حمزہ شہباز نے اپنی قانونی ٹیم کو نیب کارروائی کا معاملہ عدالت میں اٹھانے کی ہدایت کر دی ہے۔۔ اس سے پہلے بھی قومی احتساب بیورو نے پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ کے رہنما حمزہ شہباز کی گرفتاری کے لیے لاہور میں ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا تاہم کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی تھی۔ نیب کی ٹیم کے ان کے گھر سے رخصت ہونے کے کچھ ہی دیر بعد حمزہ شہباز نے لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے نیب کے اس اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا تھاکہ چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا ہے۔ مجھے جب بھی نیب کی جانب سے نوٹس ملا میں تحفظات کے باوجود پیش ہوا۔ کیا قیامت ٹوٹ پڑی کہ اس انداز میں میرے گھر کا گھیراؤ کیا گیا اور دیواریں پھلانگ کر داخل ہونے کی کوشش کی گئی۔
قومی احتساب بیوور کے سابق ایڈیشنل پراسیکو ٹر ذوالفقار بھٹہ نے بتایا کہ نیب کے قانون کے سیکشن 24 سی کے تحت صرف غیر معمولی حالات میں ملزم کو گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ گرفتاری صرف اسی وقت عمل میں لائی جاسکتی ہے جب ملزم کے بیرون ملک فرار ہونے کا اندیشہ ہو یا تفتیش پر اثر انداز ہورہا ہو اور اس کے علاوہ وہ اس مقدمے میں سرکاری گواہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے۔ انھوں نے کہا کہ نیب کے حکام نے یہ طریقہ طے کیا ہوا ہے کہ جو شخص انکوائری میں باقاعدگی سے پیش ہور ہا ہو تو اس کو گرفتار نہیں کیا جاتا۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا ملزمان کو بغیر اجازت گرفتار کرنے کے حالیہ فیصلے میں ان کے بارے میں پہلے سے موجود لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا اور یہ ابھی تک نافذالعمل ہے۔
حمزہ شہباز کے سارے معاملے کاجائزہ لیں تو بالکل صاف نظر آتاہے کہ انہیں سیاسی انتقام کانشانہ بنایا جارہاہے اور انہیں پنجاب میں سیاست سے روکنے کیلئے جیل میں ڈالاگیا ہے کیونکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ پنجاب کی حکومت ان کی اپوزیشن سے گھبراتی ہے اور انہیں سیاست سے الگ رکھنا چاہتی ہے لیکن ظلمت کی رات ہمیشہ نہیں رہتی اورجن کے حوصلے بلند ہوں اور عوام کی طاقت جس کے ساتھ ہو اسے سیاست سے کوئی الگ نہیں کرسکتا یہ بات روزروزشن کی طرح عیاں ہے کہ جب حمزہ شہباز جیل سے باہر آئیں گے تو ان کا سیاسی قدمزید اونچا ہوچکا ہوگا اورپنجاب کی سیاست ان کے آگے ہاتھ باندھے کھڑی ہوگی اورپنجاب کی سیاست کولیڈ کریں گے جبکہ قومی سیاست میں مریم نوازمرکزی کردارادا کریں گی اورشریف خاندان میں سیاست کایہ فارمولا بہت پہلے طے پاچکاہے۔ وہ دن زیادہ دورنہیں جب عزم وہمت کے مینار حمزہ شہباز شریف ایک بارپھر عوام کے درمیان ہوں گے ان کے دکھ دردبانٹیں گے اورعوام کے حقوق کیلئے ایک نئی لڑائی شروع کریں گے۔