گلوبل دنیا اورکورونا
کورونا کے جاتے جاتے دنیا میں بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہوگا، ہاں مگر کورونا ابھی اتنی جلدی جائے گا نہیں اور یہ کب اور کیسے کچھ خبر نہیں۔ کس طرح حادثات اور واقعات آپ کی سوچ کے زاویے بدل دیتے ہیں۔ کس طرح یہ انسان جو معاشرے میں رہتا ہے اسی معاشرے سے کٹ جاتا ہے۔ دو تہائی اکثریت اب بھی آن لائن یا انٹرنیٹ، سوشل میڈیا کی سہولیات سے محروم ہے۔ اگر یہ بھی نہیں ہوتے تو دنیا سے رابطہ بالکل ہی کٹ چکا ہوتا۔ امریکا، نیویارک میں اب کہ 9/11 سے بھی زیادہ برے حالات ہیں اور کورونا سے دنیا میں سب سے زیادہ امواتیں اب امریکا میں ہورہی ہیں۔
میں نے وہ تقریر دیکھی جب اوبامہ 2014 میں، امریکا کو خبردار کر رہا تھا کہ پانچ چھ سال بعد یا دس سال بعد کورونا جیسی کوئی وبا امریکا میں آسکتی ہے۔ امریکا کو اس کے لیے تیار رہنا چاہیے مگر امریکا تو اس ایک سیاہ فام کو صدر بنانے پر غم میں تھا۔ عوام نے ٹرمپ کو جتوا کر اپنی تاریخ میں ایک انوکھا رویہ رقم کیا۔ ٹرمپ پہلے کوورونا کو ایک آسان بیماری سمجھ رہا تھا۔ دائیں بازو کی سوچ رکھنے والے برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن بھی یہی کہتے رہے کہ ہاتھ ملانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ آج خود ہی گہری نگہداشت کے یونٹ میں زیر علاج ہیں۔
صرف معاملہ اس وبا کے پھیلنے کا بھی نہیں معاملہ ہے گلوبل ہونے کا۔ ہم سندھی جو لندن کو ولایت کہتے تھے اور نیویارک کو دوسری دنیا۔ اب ایسا نہیں ہے، دنیا کا امیر ترین آدمی بل گیٹس یا فیس بک کا مالک زوکر برگ نہیں بلکہ ایمازون کا مالک جون بزوس ہے جو آن لائن خرید و فروخت کی سب سے بڑی چین رکھتا ہے۔ جب کورونا کی وجہ سے لوگ بیروزگار ہورہے تھے اس وقت یہ کمپنی ایک لاکھ لوگ بھرتی کرنے جارہی ہے۔ دنیا میں معیشت سکڑ رہی ہے مگر آن لائن معیشت، کمپیوٹر کے ذریعے رابطہ، ویڈیو کانفرنس بڑھ رہی ہے۔ اب دور جسمانی رابطوں کا نہیں بلکہ کمپیوٹر کے اندر کھڑکی کھولیں اور آپ وہاں سے رابطے میں آئیے۔
دنیا بہت کچھ بدل بھی چکی ہے۔ یہ جھٹکا بہت ہی نایاب ٹھہرا اسطرح کہ اس کرہ ارض پر بسنے والے تمام انسان ایک ساتھ متاثر ہوئے۔ جب حضرت نوح کی قوم پر عذاب آیا تو پوری دنیا متاثر نہیں ہوئی، حضرت موسیٰ نے صرف اپنی قوم کو معجزہ کرکے بچایا تھا۔ اب تک جو زلزلے آئے، دو بڑی عظیم جنگیں لؑڑی گئیں، اس سے متاثر بیک وقت پوری دنیا نہیں ہوئی مگر آج ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے پوری دنیا کو تالا لگا دیا گیا ہے۔ آٹھ ارب لوگوں کی یہ دنیا اتنی چھوٹی ہے، گلوبل دنیا آج کے دور کی۔ اس صدی کے اختتام تک اس کرہ ارض پے رہتے ہوئے ہر شخص کو انگریزی بولنی آتی ہوگی۔ اب سرحدوں کا وہ نیم کلاسیکی مفہوم بھی ٹوٹتا جارہا ہے۔
کورونا کی آنکھ سے دیکھو تو دنیا کا سب بڑا آدمی فلیمنگ تھا جس نے 1945 میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ Pencillin ایجاد کی تھی۔ جو آج کی دوائیوں کی بنیاد ہے۔ جس سے اربوں لوگ مرنے سے بچ گئے۔ کل جو زندگی کی اوسط مشکل سے چالیس سے پچاس سے سال تک تھی آج ستر سے اسی سال ہوگئی ہے اور اب Pencillin کا دور بھی جارہا ہے۔ بہت سیAntibiotic اب اپنا اثر کھو رہی ہیں۔ ٹائیفائیڈ کے لیے ابAntibiotic اثر نہیں کرتی۔
دنیا کے لیے حفظان صحت کے لیے نئے چیلینجز آگئے ہیں۔ اب جنگیں ٹینکوں اور توپوں سے نہ لڑی جائیں گی اور نہ ہی جیتی جائیں گی۔ اب نظرئیے اور ان پر بحث بھی فضول ہے۔ بس اب سب کو کورونا کی وبا سے خطرہ ہے اور اگر اس جنگ میں ایک ملک بھی جیت جاتا ہے یعنی کورونا کے خلاف ویکسین بنا لیتا ہے، تو یہ فتح صرف اس ملک کی فتح نہیں ہے بلکہ یہ فتح پوری انسانیت کی فتح ہوگی۔
یہ کیپیٹل کانسیپٹ کا خیال ہے کہ ہر ایک شے کی قیمت لگا دو اور پھر مارکیٹ پر چھوڑ دو۔ مگر اب یہ سب فلسفے سوچوں کے دھارے اور خیال دوبارہ سے چیلنج ہوگئے ہیں۔ یقینا نئی بحثیں کھلیں گی، نئے سرے سے ترتیبات ہوں گی۔ اولیتوں کی فہرست مرتب ہوگی اور بہت کچھ بدلے گا۔ صرف ہم نہیں پوری دنیا دفاع پر حرچ کرتی ہے۔ اب ووٹر بھی اپنے لیڈران سے ضرور سوال کریں گے کہ کیا Vaccines اور pencillinکے بعد Antibiotic کی نئی ترتیب کرنا لازم ہے یا ٹینک اور توپیں بنانا؟
گلوبل دنیا کی عافیت اب اس میں ہے کہ اب ٹرمپ اور مودی جیسے لوگوں کو چھوڑ کر اپنی صفوں سے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسینڈا آرڈرن جیسے لوگوں کو جتوائے جہاں کورونا نے سب سے کم نقصان پہنچایا، صرف ایک آدمی کا انتقال ہوا۔ اس عورت نے اپنی حکومت میں اپنی سچائی اور جذبے کے ساتھ کورونا کو ابھی تک شکست دی ہوئی ہے۔
کورونا سے اب تک جو اموات ہوئی ہیں وہ عورتوں کی نسبت مردوں کی زیادہ ہوئیں ہیں۔ جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عورت کی ساخت اس جنگ میں مردوں سے زیادہ مضبوط ہے۔ وجہ شاید یہ بھی ہے کہ مرد بار بار عورتوں کی طرح ہاتھ نہیں دھوتے، مرد سگریٹ نوشی کرتے ہیں، وہ شراب بھی پیتے ہیں اور کھانے میں بے احتیاطی بھی برتتے ہیں۔ کورونا یقیناً جو ہماری عورت کے لیے جو پرانی سوچ ہے اسے بھی بدلے گا۔ اب ماحولیاتی آلودگی کی جنگ سب کے لیے یکساں ہے۔ اس کے سامنے آنے والے تمام چیلینجز یکساں ہیں۔
انسان اب بھی بکھرا ہوا ہے۔ وہ ایک دوسرے سے ہی لڑائی میں مصروف ہے۔ ہم نے اپنے کروڑوں، اربوں ڈالروں کے برابر توانائیوں اور اثاثوں کو آپس میں لڑ کر ضایع کردیا۔ اگر امریکا نے 2014 میں صدر اوبامہ کی اس تقریر کو سنجیدہ لیا ہوتا تو آج بہت حد تک امریکا اس بحران سے بچ سکتا تھا۔ اور چائنا نے بھی ووہان کے اس ڈاکٹر کی بات مانی لی ہوتی جس نے چین کی حکومت کو خبردار کیا تھا مگر اس کی بات سننے کی بجائے اس کو جیل میں ڈال دیا گیا، وہ خود کورونا سے بیمار ہوا اور جیل میں ہی مرگیا۔
کاش کہ ہم نے اپنے محب وطنوں پر غداری کے لیبل نہ لگائے ہوتے اور انجینئرڈ لیڈر نہ بنائے ہوتے۔ ان کو شیروانیاں پہنا کر وزیر اعظم نہ بنایا ہوتا تو ہم بھی بہت محفوظ ہوتے۔ اب آیندہ دو مہینے بڑے پیچیدہ ہیں، حالات مزید خراب ہونے کو جارہے ہیں۔