زلزلے کیوں آتے ہیں
جولیان مینٹل امریکا کا فائیو اسٹار وکیل تھا، وہ ہارورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھا، نیویارک میں ایک بڑی لاء فرم کا مالک تھا، اس کے پاس اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ذہین ترین قانونی ماہرین تھے، وہ فیس بھی کروڑوں میں وصول کرتا تھا لہٰذا وہ امراء کا وکیل کہلاتا تھا، اس کے بارے میں مشہور تھا، وہ جس کیس پر ہاتھ ڈال دیتا تھا، وہ اس کو جیت کر ہی رہتا تھا، امریکا کی بڑی کمپنیاں اور امیر ترین لوگ اس کے کلائنٹ تھے، لوگ اس کی میز پر بلینک چیک چھوڑ جاتے تھے۔
وہ خود بھی رئیس شخص تھا، لاطینی امریکا میں ذاتی جزیرے کا مالک تھا، ذاتی جیٹ جہاز تھا، نیویارک کے مہنگے ترین علاقے میں مہنگے فلیٹ میں رہتا تھا، اس کے پاس سرخ رنگ کی ایک ایسی فراری کار بھی تھی جو کمپنی نے دنیا کے صرف چند لوگوں کے لیے بنائی تھی اور وہ روزانہ نیویارک کے مہنگے ترین ریستوران میں کھانا کھاتا تھا اور مہنگے ترین شراب خانوں میں بیٹھتا تھا، یہ اس کی زندگی کا ایک پہلو تھا، دوسرا پہلو یکسر مختلف تھا، وہ اپنے پیشے کو اپنی ذات سے زیادہ اہمیت دیتا تھا، وہ بیس گھنٹے مصروف رہتا تھا، مقدموں کی فائلیں پڑھتے پڑھتے میز پر ہی سو جاتا تھا۔
بیوی طلاق لے چکی تھی، بچے تھے نہیں، دوست اس نے بنائے نہیں تھے اور عزیز، رشتے دار اور کلاس فیلوز اس کے رویئے کی وجہ سے برسوں پہلے اسے چھوڑ گئے تھے چنانچہ وہ شدید تنہائی کا شکار تھا، وہ اس تنہائی کو شراب، عورتوں اور کام سے پُر کرنے کی کوشش کرتا تھا، اس کوشش نے اسے وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا تھا، اس کے بال سفید ہو گئے، گردن کی جلد لٹک گئی، چہرہ سوجھ گیا، سانس پھولنے لگی اور معدے میں السر نکل آیا، وہ پانی اور ڈبل روٹی کے سوا کچھ نہیں کھا سکتا تھا، وہ باون سال کی عمر میں ستر سال کا بوڑھا دکھائی دیتا تھا، مصروفیت اور تنہائی جب ایک جگہ جمع ہوتی ہیں تو یہ انسان کو ڈھیر کر دیتی ہیں، جولیان کے ساتھ بھی یہی ہوا، وہ ایک دن عدالت میں دلائل دے رہا تھا، اچانک اس کے سینے میں درد اٹھا، اس نے دل پر ہاتھ رکھا اور جج کے سامنے فرش پر گر گیا۔
جولیان کو خوفناک ہارٹ اٹیک ہوا، اسے اسپتال پہنچا دیا گیا، وہ ایک ماہ آئی سی یو میں رہا، اس ایک مہینے نے جولیان کو اندر سے تبدیل کر دیا، اس نے اسپتال میں پڑے پڑے اپنی لاء فرم ساتھیوں کو گفٹ کر دی، اپنا گھر، اپنا جزیرہ اور اپنا جیٹ طیارہ بھی بیچ دیا اور اپنی عزیز ترین فراری بھی اونے پونے فروخت کر دی، وہ اسپتال سے ڈس چارج ہونے کے بعد شہر سے غائب ہو گیا، وہ کہاں گیا؟ بڑے عرصے تک لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے رہے لیکن جولیان کی اگلی منزل کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا، لوگ اسے آہستہ آہستہ بھول گئے، اس واقعے کے تین سال بعد جولیان اچانک نیویارک واپس آ گیا۔
لوگ اسے دیکھ کر حیران رہ گئے کیونکہ بوڑھا، بیمار، چڑچڑا اور تھکا ہوا جولیان اب شکل سے تیس سال کا جوان لگتا تھا، اس کا چہرہ سرخ، آنکھیں روشن، بال سنہری، کمر تیس، چھاتی باڈی بلڈرز کی طرح ابھری ہوئی، بازو موٹے اور سخت اور ٹانگیں گھوڑے کی طرح مضبوط اور پتلی تھیں، وہ دس کلو میٹر دوڑ بھی لگا سکتا تھا اور ہزار ہزار سیڑھیاں بھی چڑھ جاتا تھا، نیا جولیان پرانے جولیان سے بالکل مختلف تھا، یہ پرسکون بھی تھا، صحت مند بھی تھا اور توانائی سے بھرپور بھی تھا، لوگوں نے اس سے اس کایا کلپ کا فارمولہ پوچھا، جولیان نے بتایا، میں جب اسپتال میں داخل ہوا تو مجھے اپنی زندگی کے تجزیئے کا موقع ملا، میں نے اس وقت اپنے آپ سے پوچھا، جولیان کیا یہ زندگی ہے؟
کیا صرف کام کرنا، پیسہ کمانا اور تعیشات جمع کرنا زندگی ہے اور کیا زندگی کا دوسرا نام اندھی مصروفیت، تنہائی اور بیماری ہے؟ میرے اندر سے آواز آئی، نہیں! زندگی اور زندگی کا مقصد سراسر مختلف ہے، مجھے جوانی میں کسی نے بتایا تھا، ہندوستان میں بے شمار جوگی رہتے ہیں، ان کے پاس پرسکون اور مطمئن زندگی کے نسخے ہیں، میں نے اپنے ہارٹ اٹیک کو ویک اپ کال سمجھا اور باقی عمر زندگی کا اصل مقصد تلاش کرنے کے لیے وقف کر دی، میں نے اپنی ساری زمین، جائیداد بیچی اور بھارت چلا گیا، میں بھارت میں مختلف شہروں، مختلف آشرموں اور مختلف جوگیوں کے پاس دھکے کھاتا رہا لیکن مجھے پرسکون زندگی کا کوئی فارمولہ نہ ملا، میں چلتے چلتے سری نگر پہنچ گیا۔
وہاں ایک چھوٹے سے مندر میں ایک جوگی رہتا تھا، مجھے پتہ چلا یہ جوگی بھی میری طرح ایک نامور وکیل تھا، وہ بھی میری طرح زندگی سے ایک دن تنگ آ گیا، اس نے بھی وکالت چھوڑی اور نروان تلاش کرتے کرتے اس مندر میں ڈیرے ڈال لیے، میں اس جوگی کے پاس پہنچ گیا، وہ اس وقت تک بہت بوڑھا ہو چکا تھا، اس نے مجھے بتایا، ہمالیہ کی انتہائی بلندیوں پر ایک قبیلہ رہتا ہے، یہ لوگ نروان پا چکے ہیں، ان کے پاس ایسے نسخے ہیں جن کے ذریعے یہ انسان کو اندر اور باہر دونوں سائیڈ سے بدل دیتے ہیں، جوگی کا کہنا تھا، میں ان لوگوں کی تلاش میں یہاں پہنچا ہوں لیکن بڑھاپے کی وجہ سے پہاڑوں پر نہیں جا سکتا، تم کوشش کرو شاید تم کامیاب ہو جاؤ۔
میرے ہاتھ ٹپ آ گئی، میں اٹھا اور پہاڑوں کی طرف چل پڑا، میں مہینوں ہمالیہ میں مارا مارا پھرتا رہا، بارشیں آئیں، طوفان آئے، برفیں پڑیں، لینڈ سلائیڈنگ ہوئی لیکن میں آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ میں اس قبیلے تک پہنچ گیا، وہ کمال لوگ تھے، وہ پہاڑوں میں رہتے تھے، اپنا اگاتے تھے، اپنا کھاتے تھے، کسی کے پاس جاتے تھے اور نہ کسی کو پاس آنے دیتے تھے، ان میں سے ہر شخص کی عمر سو سال سے زیادہ تھی لیکن وہ ہمارے نوجوانوں سے زیادہ چاک و چوبند تھے۔
ان کی زندگی ڈسپلن میں پروئی ہوئی تھی، وہ رات کو جلد سو جاتے تھے اور صبح چار بجے بیدار ہو جاتے تھے، وہ لوگ ذہنی، جسمانی اور روحانی لحاظ سے بہت تگڑے تھے، وہ کسی منفی سوچ کو ذہن کے قریب نہیں بھٹکنے دیتے تھے، اگر کبھی کسی کے ذہن میں کوئی منفی سوچ آ جاتی تو وہ فوراً برف کے یخ تالاب میں چھلانگ لگا دیتا اور اس وقت تک پانی میں رہتا جب تک اس کا جسم نیلا نہیں پڑ جاتا تھا، وہ چپ کا روزہ بھی رکھتے تھے، وہ پورا پورا دن کسی سے کلام نہیں کرتے تھے، وہ سمجھتے تھے، انسان کی سوچ جب تک صحت مند نہیں ہوتی، انسان اس وقت تک جسمانی لحاظ سے صحت مند نہیں ہو سکتا اور جب تک آپ اپنی سوچ کو نیک نہیں بناتے، آپ اس وقت تک جسمانی نیک بھی نہیں ہو سکتے، وہ سمجھتے تھے۔
آپ جب تک اندر سے تبدیل نہیں ہوتے، آپ اس وقت تک باہر کی دنیا نہیں بدل سکتے، ان کا خیال تھا، انسان کو اندر سے پرسکون ہونا چاہیے، بیرونی دنیا خود بخود ٹھیک ہو جائے گی، جولیان نے بتایا، میں تین سال اس قبیلے میں رہا، میں نے ان تین برسوں میں ان سے زندگی کا اصل فارمولہ سیکھا، ہمیں سونا کیسے چاہیے، ہمیں جاگنا کیسے چاہیے، ہم سورج اور چاند سے کیسے توانائی حاصل کر سکتے ہیں، جنگل اور پہاڑ انسان کے لیے کیوں ضروری ہیں، ہمیں کیا کھانا چاہیے اور ہمیں کس کس چیز سے پرہیز کرنا چاہیے، ہم اس عارضی زندگی کو کیسے مفید بنا سکتے ہیں۔
ہم ایک ایک لمحے کو کیسے استعمال کر سکتے ہیں اور ہم اپنی سوچوں کو کیسے کنٹرول کر سکتے ہیں؟ میں نے ان سے یہ سارے فارمولے سیکھ لیے، میں جب ماہر ہو گیا تو انھوں نے مجھے حکم دیا، تم اب واپس جاؤ اور اپنے لوگوں کو شاندار اور مطمئن زندگی کے یہ سارے گر سکھاؤ، میں اس جنت سے واپس نہیں آنا چاہتا تھا لیکن انھوں نے مجھے زبردستی یہاں بھجوا دیا، جولیان مینٹل بعد ازاں پوری زندگی لوگوں کو روحانی، ذہنی اور جسمانی صحت کے گر سکھاتا رہا، وہ نیویارک میں"امریکی بھکشو" کے نام سے جانا جاتا تھا، اس کی زندگی اور اس کی تعلیمات پر رابن شرما نے ایک انتہائی خوبصورت کتاب لکھی، یہ کتاب بیسٹ سیلر ہے اور یہ اب تک جولیان مینٹل جیسے لاکھوں لوگوں کی زندگی بدل چکی ہے، یہ ایک ایسے بھکشو کی کہانی ہے جس نے نروان کے لیے اپنی فراری تک بیچ دی، جس نے خود بھی نروان پایا اور جو آخری سانس تک لوگوں میں نروان بانٹتا رہا، وہ کہتا تھا، آپ فیصلہ کریں، زندگی آپ نے گزارنی ہے یا پھر زندگی نے آپ کو گزارنا ہے۔
ہم لوگ زند گی بھر جولیان مینٹل جیسی صورتحال سے دوچار رہتے ہیں، ہم زندگی کے کسی ایک ٹریک پر سرپٹ بھاگتے ہیں اور اس چھوٹے سے ٹریک کو مکمل زندگی سمجھ بیٹھتے ہیں، قدرت ہمیں دیکھتی رہتی ہے، اسے پھر ہم پر رحم آ جاتا ہے اور وہ کبھی بھاری مالی نقصان، کبھی ایکسیڈنٹ، کبھی مقدمے اور کبھی بیماری کی شکل میں ہمیں جھٹکا دے دیتی ہے، قدرت اس جھٹکے کے ذریعے ہمیں زندگی کے چھوٹے سے، معمولی سے ٹریک سے نکال کر زندگی کے اصل بحر بیکراں سے متعارف کرانا چاہتی ہے لیکن ہم میں سے زیادہ تر لوگ اس جھٹکے کو مصیبت یا امتحان سمجھ کر اپنا علاج کراتے ہیں، معاملات سیٹل کرتے ہیں اور دوبارہ پرانے کنوئیں میں چھلانگ لگا دیتے ہیں، قدرت کچھ عرصہ بعد ایک آدھ اور جھٹکا دیتی ہے۔
یہ دوسری ویک اپ کال ہوتی ہے، انسان اگر اس کال پر بھی آنکھ نہ کھولے تو پھر قدرت مایوس ہو جاتی ہے، وہ شخص زندگی کی بساط سے فارغ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی جگہ کسی دوسرے شخص کو بٹھا دیتا ہے، آپ دنیا میں فلاح و بہبود کرنے والے تمام لوگوں کا پروفائل نکال کر دیکھ لیجیے، آپ کو ان کی زندگی میں جولیان مینٹل جیسے ایسے حادثے ملیں گے جنہوں نے ان کا زاویہ نظر، ان کی زندگی کا سارا دھارا بدل دیا اور وہ چھوٹے کنوئیں سے نکل کر زندگی کے بحر بیکراں سے جا ملے، قدرت یہ کرم صرف لوگوں پر نہیں کرتی، یہ قوموں کو جگانے کے لیے بھی ایسے ہی جھٹکے دیتی ہے۔
یہ قوموں پر بیماریاں، آتش فشاں، سیلاب، سونامی اور زلزلے بھیج کر انھیں بتاتی رہتی ہے تم اگر اپنی نسلوں کو محفوظ دیکھنا چاہتے ہو تو تم اپنے سسٹم بہتر بنا لو، دنیا کی جو قومیں قدرت کے جھٹکوں میں چھپا یہ پیغام سمجھ جاتی ہیں، وہ بچ جاتی ہیں اور جو نہیں سمجھتیں، وہ کھنڈر بن جاتی ہیں، یہ دوسرا زلزلہ قدرت کی فائنل کال تھا، ہم نے اگر اس کال کو سیریس نہ لیا تو قدرت یقیناََ ہماری بساط بھی لپیٹ دے گی، کیوں؟ کیونکہ قدرت کسی کی رشتے دار نہیں ہوتی، یہ کسی سے رعایت نہیں کرتی۔