یہ بھی چلے جائیں گے
پروفیسر وارث میر محض استاد یا پروفیسر نہیں تھے، یہ عہد ساز دانشور بھی تھے، میں بدقسمتی سے پروفیسر وارث میر کا عملی طالب نہیں رہا کیونکہ میں جب یونیورسٹی کی عمر کو پہنچا تواس وقت پروفیسر وارث میر کو انتقال فرمائے تین سال ہو چکے تھے لیکن میں علمی لحاظ سے ان کا شاگرد ہوں، میں نے بچپن میں ان کی سیکڑوں تحریریں پڑھیں، وارث میر جیسے لوگ اس ملک سے مفقود ہوتے جا رہے ہیں، یہ ملک اب جہالت کے ایسے چھوٹے چھوٹے جوہڑوں میں تبدیل ہو چکا ہے جس کے مینڈکوں کو عمر بھر دوسرے جوہڑوں میں جھانکنے تک کی توفیق نہیں ہوتی، لوگ یہاں سنی یا شیعہ پیدا ہوتے ہیں، یہ اب بریلوی یا وہابی ہوتے ہیں، یہ مادر پدر آزاد لبرل ہوتے ہیں یا قدامت پسند ہوتے ہیں .
یہ آمریت کو اس ملک کے تمام مسائل کا حل سمجھتے ہیں یا پھر یہ آمرانہ سوچ کے قائدین کی ایسی پارٹیوں کو جمہوریت سمجھتے رہتے ہیں جن کا مقصد زرداری صاحب یا میاں صاحب کو اقتدار تک پہنچانا ہوتا ہے، یہ لوگ کبھی دوسرے جوہڑ میں جھانک کر نہیں دیکھتے، یہ ایک لمحے کے لیے نہیں سوچتے ہو سکتا ہے دوسرے جوہڑ کے باسی بھی ٹھیک ہوں یا ان سے مکالمہ کرنے میں کیا حرج ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس جوہڑانہ سوچ کی وجہ سے ملک میں وارث میر جیسے ایسے وسیع المطالعہ اور وسیع القلب لوگ کم ہوتے جا رہے ہیں
جو دلیل کی بنیاد پر محبت یا نفرت کرتے ہیں، جو محض تعصب کی بنیاد پر بھٹو کے شیدائی اور جنرل ضیاء الحق کے مخالف نہیں ہیں بلکہ ان کے پاس دلیل بھی ہے اور یہ اس دلیل کو بلا خوف و تردید بیان بھی کرتے ہیں، وارث میر ایک ایسے ہی شخص تھے جن کے پاس دلیل بھی تھی اور دلیل کو بیان کرنے کا حوصلہ بھی اور یہ دونوں خوبیاں جب ایک جگہ جمع ہو جاتی ہیں تو یہ جان لے لیتی ہیں، پڑھنے والے کی یا پھر کہنے والی کی اور وارث میر اس مہلک خوبی کا ایک شکار تھے، یہ 9 جولائی 1987ء کو محض 48 سال کی عمر میں جان کی بازی ہار گئے لیکن اپنے پیچھے نہ مٹنے والی، نہ ختم ہونے والی سوچ چھوڑ گئے، وارث میر کے صاحبزادے ملک کے نامور صحافی ہیں، میری ان سے درخواست ہے یہ وارث میر کی تحریروں کو گاہے بگاہے شایع کراتے رہیں تا کہ وارث میر کی سوچ نئے لوگوں تک پہنچ سکے، انھیں معلوم ہو سکے ہمارے ملک میں بھی کیسے کیسے لوگ تھے، ایسا نہ ہو وارث میر جیسے کردار بھی نفسا نفسی کی گرد میں گم ہو جائیں اور ان کی مسند پر بھی ہمارے جیسے فکری بونے بیٹھ جائیں۔
ہمارے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی وارث میر کے شاگرد تھے، یوسف رضا گیلانی نے 1976ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ابلاغیات میں ایم اے کیا تھا، وارث میر اس وقت پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے استاد تھے، یوسف رضا گیلانی نے یقیناً وارث میر کے کالم اور تحریریں بھی پڑھی ہوں گی، وارث میر کی تحریروں میں ایک ایسی تحریر بھی تھی جس سے یہ نتیجہ نکلتا تھا کہ بااختیار لوگ چلے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ہی ان کا اقتدار، طاقت، ظلم اور زیادتی بھی رخصت ہو جاتی ہے لیکن مظلوموں کی آہیں، مزاحمت کرنے والوں کی جدوجہد اور دانشوروں کی سچی تحریریں باقی رہ جاتی ہیں، انھیں کوئی نہیں مٹا سکتا، مجھے وہ کالم اور اس کالم کے الفاظ یاد نہیں ہیں لیکن اس کا لب لباب ابھی تک یاد ہے، وہ کالم جنرل ضیاء الحق کے جابرانہ دور پر لکھا گیا تھا، وارث میر کے کہنے کا مطلب تھا یہ دور اپنے ہر قسم کے مظالم کے ساتھ ختم ہو جائے گا لیکن اس دور میں ہونے والے ظلم، لکھی جانے والی تحریریں اور جمہوریت کے لیے ہونے والی مزاحمت باقی رہ جائے گی،
اسے کوئی نہیں مٹا سکے گا، مجھے یقین ہے یوسف رضا گیلانی نے یہ تحریر یا وارث میر کی اس نوعیت کی تحریریں نہیں پڑھی ہوں گی ورنہ یہ آج اقتدار کے ایوانوں سے اپنا پتہ نہ پوچھ رہے ہوتے، انھیں لوگوں کو بار بار یہ نہ بتانا پڑتا میں نے ملک کے لیے بے شمار کارنامے سرانجام دیے ہیں اور یہ آج معزول ہونے کے باوجود پوری قوم کے ہیرو ہوتے لیکن ایسا نہیں ہوا اور یہ آج مانگے ہوئے پروٹوکول یا خیرات میں ملی ہوئی سیکیورٹی کے ساتھ لاہور اور ملتان جاتے ہیں یا اسلام آباد شہر میں نکلتے ہیں، آج یوسف رضا گیلانی کے تمام کارنامے صرف ان کی ذات تک محدود ہیں یا پھر یہ ایسی چند کہانیاں ہیں جن کا کوئی انت، کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ دنیا میں اقتدار یا حکومت کا پورا نظریہ تبدیل ہو چکا ہے،
لوگوں کو اب آمریت یا جمہوریت نہیں چاہیے، لوگ اب پارٹیوں اور پارٹیوں کی قیادت کو پیر ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں، دنیا کے زیادہ تر سیاسی اور سماجی نظریات بھی بدل چکے ہیں، دنیا اب سرمایہ داری اور سوشلزم کی جنگ سے بھی باہر آ چکی ہے اور لوگ اب قدامت اور لبرل ازم کے رومانس سے بھی باہر ہیں، لوگوں کو اب امن، انصاف، ترقی کے مساوی مواقع، تعلیم، صحت اور ایک بے خوف زندگی چاہیے، یہ اپنے گھروں کے سامنے سے کچرے کے انبار اٹھتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں، یہ لمبی، چوڑی اور سیدھی سڑک چاہتے ہیں، یہ گائوں میں آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی تعلیم چاہتے ہیں اور یہ خوشحالی اور کامیابی کے بے روک، بے ٹوک راستے چاہتے ہیں اور اس کے لیے انھیں لیڈر شپ چاہیے، یہ اب قائد عوام یا قائداعظم ثانی کی گلوری میں نہیں رہ سکتے، یہ اب میاں صاحب دے نعرے وجن گے یا جئے بھٹو کے ورد سے بھی متاثر نہیں ہوتے، یہ آصف علی زرداری کو شہید بی بی اور یوسف رضا گیلانی کو شہادت گاہ جمہوریت کی بنیاد پر ایک آدھ بار اقتدار میں لے آتے ہیں
لیکن یہ ان کی بیڈگورننس کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور اقتدار کے دوران اگر انھیں پارٹی کا سربراہ ہٹا دے، سپریم کورٹ معطل کر دے یاپھر ان کا مینڈیٹ فوجی بوٹوں تلے کچلا جائے عوام ان کی مدد کے لیے آگے نہیں بڑھتے اور یوسف رضا گیلانی کے ساتھ بھی یہی ہوا اور اب راجہ صاحب کے ساتھ بھی یہی ہو گا اور اگر میاں نواز شریف بھی اقتدار میں آگئے تو یہ بھی اسی انجام کا شکار ہوں گے، کیوں؟ کیونکہ ان کے پاس کوئی ماہر ٹیم نہیں، یہ ٹیم بنانے کی صلاحیت سے بھی عاری ہیں چنانچہ یہ باری باری یونانی المیے کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، ان کی ایڑھیوں میں بیڈ گورننس کے تیر لگتے جا رہے ہیں اور یہ تیزی سے میدان سے نکل رہے ہیں۔
دنیا بدل چکی ہے اور دنیا میں اب صرف ایسے لوگ اچھے لیڈر ثابت ہو رہے ہیں جن میں تین خوبیاں ہوتی ہیں، یہ ایماندار ہوں، ان کی ایمانداری پر ذاتی مفاد کا کوئی دھبہ نہ ہو، یہ اپنی نیک نامی اور سیاست کو اپنی اولاد اور خاندان سے بچا لیں، دوم یہ وسیع المطالعہ ہوں، یہ دنیا جہاں کی کتابیں پڑھتے ہوں، یہ دنیا بھر میں ہونے والی ترقی کا تحریری تجزیہ کر سکتے ہوں اور تین یہ اہل ایماندار اور ماہر لوگوں کی ٹیم بنا سکتے ہوں، آپ پوری دنیا کا تجزیہ کر لیں آپ کو دنیا کے ہر ترقی پذیر ملک کی عنان ان لوگوں کے ہاتھ میں نظر آئے گی جن میں یہ تینوں خوبیاں ہوں گی لیکن کیا پاکستان میں بھی آپ کو کسی سیاستدان میں لیڈر شپ کی یہ خوبیاں نظر آتی ہیں؟ کیاآپ کو کسی لیڈر، کسی سیاستدان کے تن پر ایمانداری کی چادر دکھائی دیتی ہے؟
اگر ہاں تو کیا آپ کو یقین ہے یہ چادر اقتدار کے بعد بھی ان کے تن پر رہے گی اور کوئی عبدالقادر یا موسیٰ اسے نوچ نہیں لے گا؟ ہمارا کون سا لیڈر ہے جسے پڑھنے لکھنے کا شوق ہے، کتاب تو دور کی بات یہ فائل تک نہیں پڑھ سکتے، میں ہر سیاستدان، بیورو کریٹ اور اعلیٰ کاروباری شخصیات سے ملاقات کے دوران پوچھتا ہوں آپ آج کل کون سی کتاب پڑھ رہے ہیں، مجھے اس کا جواب ہمیشہ نفی میں ملتا ہے، یہ لوگ اخبار بھی صرف سرخیوں تک پڑھتے ہیں جب کہ صدر بارک اوباما جیسے مصروف ترین صدر نے 16 نومبر 2010ء کو امریکی بچوں کے لیے قومی ہیروز کی ایک کتاب لکھی تھی، یہ کتاب "Of Thee I Sing: A Letter to My Daughters، " کے نام سے چھپی اور امریکی بچے یہ کتاب پڑھ رہے ہیں، صدر اوباما نے کتاب لکھنے سے قبل یقیناً ان ہیروز کو پڑھا بھی ہو گا، کیا پاکستان کے کسی لیڈر کو بھی یہ توفیق ہو سکتی ہے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا! اور رہ گئی ٹیم تو یہ لوگ نااہل ترین لوگوں کو اعلیٰ ترین منصب دینے کے ماہر ہیں، یہ اہلیت کی بنیاد پر عہدوں کا فیصلہ نہیں کرتے، قائدین سے وفاداری، قائد کے دربار میں خاموشی، خوشامد اور بے وقوفی کی بنیاد پر کرتے ہیں، یہ اقتدار میں آ کر پرانی مہربانیوں کا بدلہ بھی اعلیٰ عہدوں کی شکل میں اتارتے ہیں، میرا دعویٰ ہے
پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کے پاس دس وزارتوں کے لیے دس اہل ترین وزیر نہیں ہیں اور ہماری کسی سیاسی جماعت کا کوئی قائد کسی بین الاقوامی یونیورسٹی میں ایک گھنٹہ لیکچر نہیں دے سکتا لہٰذا پھر نتیجہ کیا نکلے گا، وہی نکلے گا جو یوسف رضا گیلانی کا نکلا، یہ سابق ہو کر چلے گئے اور لوگ دو ہفتوں میں ان کا نام تک بھول گئے یاراجہ پرویز اشرف کا نکلے گا، آج لوگ وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی ان کا نام بھول جاتے ہیں، یہ کسی بھی قومی اور عالمی فورم پر لوگوں کا سامنا نہیں کر سکتے چنانچہ یوسف رضا گیلانی کی طرح یہ بھی آئے اور یہ بھی اب چلے جائیں گے اور پیچھے صرف آہیں اور ماتم رہ جائے گا لیکن افسوس اس ماتم اور ان آہوں کا تجزیہ کرنے کے لیے قوم میں وارث میر جیسے لوگ بھی ختم ہو گئے ہیں، ہم سیاست اور ادب دونوں محاذوں پر مار کھا رہے ہیں۔