Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home
  2. Javed Chaudhry
  3. Wazir Azam Ki Aik Second Ki Tawajjo

Wazir Azam Ki Aik Second Ki Tawajjo

وزیراعظم کی ایک سیکنڈکی توجہ

ہمارا جگر کیا ہے اور یہ ہمارے لیے کیا کرتا ہے؟ جگر ہمارے لیے خون بناتا ہے، یہ ہمارے جسم کا اہم ترین عضو ہے، یہ کام چھوڑ دے یا خراب ہو جائے تو نیا خون بننا بند ہو جاتا ہے اور یوں انسان سسک سسک کر دم توڑ جاتا ہے، ہیپاٹائٹس سی ہمارے جگرکا دشمن ہے، یہ ایک وائرس ہے، یہ وائرس جگر میں پہنچ کر اسے تباہ کر دیتا ہے یہاں تک کہ ہمارا جگر ختم ہو جاتا ہے، ہم ہیپاٹائٹس سی کو عام زبان میں کالا یر قان کہتے ہیں، دنیا کے اڑھائی فیصد لوگ اس خوفناک مرض کا شکار ہیں، یہ مرض مصر میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے جب کہ پاکستان دوسرے نمبر پر آتا ہے، ہماری آٹھ سے دس فیصد آبادی کالے یرقان میں مبتلا ہے۔

یہ آٹھ سے دس فیصد لوگ کہاں پائے جاتے ہیں؟ یہ دیہات میں پائے جاتے ہیں، کیوں؟ کیونکہ دیہات میں وہ سارا مٹیریل موجود ہے جس سے یہ وائرس پیدا بھی ہوتا ہے اور پھلتا پھولتا بھی ہے، دیہات میں سیوریج پینے کے پانی کے ذخائر میں مل رہے ہیں، کیڑے مار ادویات کی بھر مار ہے، نائی ایک استرے سے پورے گاؤں کی شیویں اور ٹنڈیں کر رہے ہیں، جعلی ڈاکٹر مریضوں کو بیمار خون لگا رہے ہیں، معمولی امراض کے شکار لوگوں کو اندھا دھند ہیوی اینٹی بائیوٹک دی جارہی ہیں اور شادی بیاہ سے قبل لڑکے اور لڑکی کا میڈیکل چیک اپ جرم سمجھا جاتا ہے اور یہ وہ معاشرتی اور طبی خامیاں ہیں جن کی وجہ سے ملک میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے، معاشرے کو ہیپاٹائٹس کے مریضوں سے کیا خطرہ ہے؟

یہ مریض اپنے، اپنے خاندان اور معاشرے تینوں کے لیے بوجھ بن جاتے ہیں، علاج انتہائی مہنگا ہے، یہ بیماری انسان کو لیورٹرانسپلانٹ تک لے جاتی ہے، جگر کی پیوند کاری پر کم از کم پچاس لاکھ روپے خرچ آتا ہے اور اس کے لیے ایک ایسے شخص کی ضرورت بھی ہوتی ہے جو مریض کو اپنا آدھا جگر عطیہ کر دے، خاندان کو لیور ٹرانسپلانٹ کے بعد دو مریضوں کا خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے، ایک وہ شخص جس کو جگر لگایا گیا اور ایک وہ شخص جس نے جگر عطیہ کیا چنانچہ جب کوئی شخص لیور ٹرانسپلانٹ کے لیے جاتا ہے تو وہ اکیلا ہوتا ہے لیکن واپسی پر خاندان کو دو مریض ملتے ہیں، لیور ٹرانسپلانٹ کے بعد مریض سال دو سال تک کام کے قابل بھی نہیں رہتا، یہ مریض معاشرے کے لیے ہیپاٹائٹس کے بینک بھی ثابت ہوتے ہیں۔

ایک مریض اوسطاً دس لوگوں میں بیماری پھیلنے کا باعث بنتا ہے، ماضی میں ہیپاٹائٹس کا علاج مہنگا بھی تھا اور مشکل بھی، انٹرفرون نام کا ایک انجیکشن آتا تھا، یہ انجیکشن 29 ہزار روپے میں ملتا تھا، مریض کو یہ ٹیکہ ہفتے میں ایک یا دو بار لگوانا پڑتا تھا، یہ ٹیکے چھ سے آٹھ مہینے تک لگوائے جاتے تھے، انٹرفرون کے بے شمار سائیڈ افیکٹس بھی تھے، مریض کے جسم میں توانائی ختم ہو جاتی تھی، دردیں بھی ہوتی ہیں اور مریض انجیکشن کے بعد دوتین دن تک کسی کام کے قابل بھی نہیں رہتا تھا، مریض علاج کے دوران دفتر اور فیکٹری نہیں جا سکتے تھے چنانچہ انٹرفرون مہنگا بھی تھا اور مریض کو سال بھر بستر سے بھی لگائے رکھتا تھا لیکن پھر ہیپاٹائٹس سی کے علاج میں انقلاب آ گیا۔

امریکا کی ایک کمپنی جیلڈ سائنسز (Gilead Sciences) نے ہیپاٹائٹس سی کی کھانے والی دواء بنا لی، یہ گولی ہے، مریض یہ گولی پانی کے ایک گلاس کے ساتھ لیتے ہیں اور دفتر چلے جاتے ہیں، اس دواء کا کیمیائی یا طبی نام Sofosbuvir ہے، جیلڈ سائنسز نے یہ دواء ڈیڑھ سال پہلے متعارف کرائی، اس دواء نے تہلکہ مچا دیا، یہ انٹرفرون سے سستی تھی لیکن عام مریض کے لیے اس کے باوجود مہنگی تھی، امریکا میں 28 گولیوں کے ایک پیکٹ کی قیمت پاکستانی روپوں میں ایک لاکھ روپے تھی، یہ دواء پاکستان بھی آنے لگی، یہ پاکستان میں چھ ماہ پہلے تک 50 سے 60 ہزار روپے میں ملتی تھی لیکن مہنگی ہونے کے باوجود ضرورت مند یہ دواء خریدتے تھے۔

بات حکومت کے علم میں آئی، وزارت صحت نے دواء درآمد کرنے والی کمپنی کو طلب کیا اور پاکستان میں اس کی قیمت 33 ہزار دو سو روپے طے کر دی، یہ بہت اچھا قدم تھا، اس سے ہزاروں مریضوں کو فائدہ ہوا، کمپنی دواء امپورٹ کرنے لگی، کمپنی ہر ماہ کروڑوں روپے کمانے لگی، پاکستانی کمپنیوں کو علم ہوا تو انھوں نے یہ دواء پاکستان میں تیار کرنے کا فیصلہ کر لیا، پاکستان کی مختلف کمپنیوں نے وزارت صحت میں اپلائی کیا، وزارت نے 14 کمپنیوں کو دواء بنانے کی اجازت دے دی، فارمولے کے مطابق لوکل کمپنیاں یہ دواء 24ہزار روپے فی ڈبی فروخت کریں گی، یوں مریضوں کو نو ہزار روپے فی ڈبی فائدہ ہو گا، مریض اگر یہ دواء چھ ماہ استعمال کرتا ہے تو اسے 54 ہزار روپے کا فائدہ ہو جائے گا۔

یہ معاملہ یہاں تک درست تھا، ملک کے بیس لاکھ مریضوں کو فائدہ پہنچنا تھا لیکن پھر مفاد پرست لوگ مفاد کی آری لے کر میدان میں آ گئے اور یہ منصوبہ التواء کا شکار ہو گیا، کیسے؟ اس دواء کے دو سٹیک ہولڈرز ہیں، پہلا سٹیک ہولڈر دواء کا وہ امپورٹر ہے جو یہ دواء درآمد بھی کرتا ہے اور اسے مارکیٹ میں 33 ہزار دو سو روپے میں فروخت بھی کر رہا ہے، مارکیٹ میں اس وقت اس کمپنی کی مناپلی ہے، ملک میں جب 14 کمپنیاں یہ دواء بنائیں گی اور یہ دواء نو ہزار روپے سستی ہو گی تو آپ اندازہ کیجیے، اس کمپنی کو کتنا نقصان ہو گا؟ پاکستان میں اگر دو تین ماہ یا سال چھ مہینے کے لیے دواء کی تیاری ملتوی ہو جاتی ہے تو اس کمپنی کو کتنے کروڑ روپے فائدہ ہو گا؟ آپ فرض کیجیے۔

ملک میں پانچ لاکھ لوگ یہ دواء استعمال کر رہے ہیں، آپ اس سے منافع اور آمدنی کا اندازہ لگا لیجیے، یہ امپورٹر ایک طاقتور وفاقی وزیر کے داماد ہیں چنانچہ آپ ان کے اثر و رسوخ کا اندازہ بھی لگا لیجیے، دوسرے سٹیک ہولڈرز 14 کمپنیاں ہیں، یہ کمپنیاں یہ دواء 20 ہزار سے 24 ہزار روپے میں فروخت کرنا چاہتی تھیں، یہ معاملہ اگر یہاں تک رہتا تو ٹھیک تھا لیکن پھر ایک تیسرا سٹیک ہولڈر بھی پیدا ہو گیا، اسلام آباد کی ایک کمپنی گلوبل فارما نے یہ دواء لاگت کی قیمت پر مارکیٹ کرنے کا فیصلہ کر لیا، گلوبل فارما کے مالک خواجہ اسد ہیں، ان کے دو بچے تھیلیسیمیا کے مریض ہیں چنانچہ یہ مریضوں کے دکھ اور مسائل کو سمجھتے ہیں۔

یہ تھیلیسیمیا سینٹر بھی چلا رہے ہیں، اس سینٹر میں روزانہ 25 بچوں کو مفت خون بھی لگایا جاتا ہے اورادویات بھی فراہم کی جاتی ہیں لہٰذا امراض کے معاملے میں خواجہ اسد کی ہمدردیاں مریضوں کے ساتھ ہوتی ہیں، انھوں نے محسوس کیا، ہیپاٹائٹس سی کے مریض غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، ان مریضوں سے منافع ظلم ہے چنانچہ انھوں نے یہ دواء لاگت کی قیمت پر مارکیٹ کرنے کا فیصلہ کر لیا، یہ خبر نکل گئی، جس کے بعد وہ 13 کمپنیاں جو یہ دواء 20 سے 25 ہزار کے درمیان بیچنا چاہتی تھیں، وہ ایک سائیڈ پر کھڑی ہو گئیں اور وہ خواجہ اسد جس نے یہ دواء دس ہزار روپے میں مارکیٹ کرنے کا فیصلہ کیا، وہ ایک سائیڈ پر کھڑا ہو گیا، اب مقابلہ دلچسپ ہے۔

ملک کے طاقتور ترین وفاقی وزیر کا داماد اس دواء کی تیاری کو زیادہ سے زیادہ دیر تک ملتوی رکھنا چاہتا ہے تا کہ یہ مناپلی کے ذریعے زیادہ سے زیادہ منافع سمیٹ سکے اور 13 کمپنیاں اس کمپنی کو دواء سازی کے عمل سے باہر رکھنا چاہتی ہیں جو 40 فیصد قیمت پر دواء مارکیٹ کرنا چاہتی ہے لہٰذا ان دونوں گروپوں نے لابنگ کے ذریعے دواء بنانے کا عمل رکوا دیا، وفاقی حکومت نے ایک تین رکنی بورڈ بنا دیا، یہ بورڈ یہ جائزہ لے گا، وہ کمپنیاں جنھیں وزارت صحت نے یہ دواء بنانے کی اجازت دی ہے، کیا ان کمپنیوں کے کاغذات پورے ہیں؟ اس بورڈ نے آخری اطلاعات تک 14 ادویات ساز کمپنیوں کو ہیپاٹائٹس سی کی دواء بنانے سے بھی روک دیا ہے اور اس عمل کے پیچھے موجود ہاتھ اس کارروائی سے دو فائدے اٹھانا چاہتے ہیں۔

اول، یہ ہاتھ اس طاقتور ترین وزیر کے داماد کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں جو یہ دواء درآمد کر رہا ہے اور درآمد سے ہر مہینے دس بیس کروڑ روپے کما رہا ہے، یہ بورڈ میٹنگز اور آ رہے ہیں، جا رہے ہیں، فلاں ممبر چھٹی پر چلا گیا اور فلاں ہڑتال ہو گئی اور اب یہاں حالات خراب ہو گئے ہیں جیسے بہانوں سے اس امپورٹر کے بینک بیلنس میں اضافہ کرتا رہے گا اور دوم یہ بورڈ شروع میں صرف ان کمپنیوں کو اجازت دے گا جو یہ دواء مہنگے داموں بنا کر بیچیں گی، بورڈ سستی دواء بنانے والی کمپنیوں کی بروقت انسپکشن ہی نہیں کرے گا یوں چند کمپنیاں چند ماہ میں ارب پتی ہو جائیں گی، یہ کمپنیاں جب سرمایہ سمیٹ لیں گی تو پھر باقی کمپنیوں کو اجازت مل جائے گی۔

آپ اندازہ کیجیے، یہ لوگ کس قدر ظالم ہیں، یہ چند ارب روپے کے منافع کے لیے ان لاکھوں مریضوں کو سولی پر لٹکا دینا چاہتے ہیں جو روز بیماری کی تکلیف سہتے ہیں اور ان کے لواحقین ڈھور ڈنگر، زمین اور زیورات بیچ کر اپنے پیاروں کے لیے دواء کا بندوبست کرتے ہیں، ان مریضوں، ان 20 لاکھ مریضوں کی حکومت کہاں ہے؟ ان کا وزیراعظم کہاں ہے، ان کے لیے کون سوچے گا؟ آپ دواء ایجاد کرنے والی کمپنی جیلڈ سائنسز کا حوصلہ دیکھئے، اس نے یہ دواء بنائی اور سال کے اندر اس کا مٹیریل پوری دنیا کے لیے عام کر دیا، دنیا کی جو کمپنی چاہے وہ یہ دواء بنا بھی سکتی ہے اور مریضوں کو فراہم بھی کر سکتی ہے لیکن آپ ہمارے مفاد پرست گروپوں کا حوصلہ ملاحظہ کیجیے۔

یہ اپنے تھوڑے سے فائدے کے لیے مریض اور شفاء کے درمیان کھڑے ہو گئے ہیں، میری وزیراعظم سے درخواست ہے، آپ مداخلت کریں، آپ بورڈ کو حکم جاری کریں، یہ ہفتے کے اندر انسپکشن مکمل کرے اور تمام کمپنیوں کو ایک ہی دن دواء بنانے کی اجازت دے تا کہ کوئی ایک یا دو کمپنیاں مریضوں کو منافع کی سولی پر نہ لٹکا سکیں اگر وزیراعظم نے مداخلت نہ کی تو مجھے خطرہ ہے، یہ لوگ ہیپاٹائٹس سی کے 20 لاکھ مریضوں کا قیمہ بنا کر کھا جائیں گے، یہ موت کو تجارت بنا کر مریضوں کی ہڈیاں تک نگل جائیں گے، ہیپا ٹائٹس سی کے 20 لاکھ مریض ایک سیکنڈ کی توجہ کے منتظر ہیں، کیا وزیراعظم کے پاس ایک سیکنڈ ہے؟

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Saudi Fashion Shows

By Mansoor Nadeem