Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Javed Chaudhry
  3. Ting Tong

Ting Tong

ٹینگ ٹانگ

مجھے چند دن قبل کسی دوست نے لاہور کے ایک پاگل خانے کا کلپ بھجوایا، کوئی یوٹیوبر پاگل خانے میں پاگلوں کے انٹرویوز کر رہا تھا، اس کے سامنے سلاخوں کے پیچھے چار پاگل کھڑے تھے، وہ چاروں بظاہر نارمل تھے اور اگر اسکرین پر "ایک دن مینٹل اسپتال میں مریضوں کے ساتھ" نہ لکھا ہوتا تو میں ان چاروں کوآپ جیسا نارمل انسان سمجھتا، ان میں سے ایک باریش نوجوان نے یوٹیوبر سے کہا "میری تمام خواہشیں پوری ہوگئی ہیں بس ٹینگ ٹانگ بم بنانا باقی ہے۔

یہ 170 سی سی ہے، میں اسے 70000 سی سی بناؤں گا اور پھر اس بم پر بیٹھ کر اسرائیل پر حملہ کروں گا، میں شہید ہو جاؤں گا لیکن اسرائیل ختم ہو جائے گا" اس کے بعد نوجوان نے اسرائیل کو ایک ہفتے کا ٹائم دیا اور کہا "اگر تم نے پاکستان سے معاہدہ کر لیا کہ میں فلسطینیوں پر ظلم نہیں کروں گا توپھر میں تمہیں چھوڑ دوں گا ورنہ لالہ۔۔ میں اسرائیل کو خود اڑا دوں گا" نوجوان اس کے بعد دعویٰ کرتا ہے "میرا لیڈر 804 ہے اور میں اس سے مل کر آیا ہوں اور اس نے مجھے کچھ نصیحتیں کی ہیں۔

میں وہ آپ کو نہیں بتاؤں گا کیوں کہ اس طرح امانت میں خیانت ہو جائے گی۔ "میں یہ کلپ دیکھ کر دیر تک سر دھنتا رہا، کیوں؟ کیوں کہ میرا یہ پاگل بھائی سرتاپا مکمل پاکستانی تھا، مجھ میں، آپ میں اور اس میں صرف ایک فرق تھا، یہ پاگل خانے میں قید ہے جب کہ آپ اور میں کھلے پھر رہے ہیں، یہ پاگل خانے میں بیٹھ کر ٹینگ ٹانگ بم بنا رہا ہے جب کہ ہم سب گھروں، دفتروں اور گلیوں میں ایٹمی ری ایکٹر لگا کر بیٹھے ہیں۔

اس کے عزائم اور ہماری پلاننگ دونوں یکساں ہیں، آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ ملک کی کسی سائیڈ پر نکل جائیں آپ کو ہر دوسرا شخص ٹینگ ٹانگ ملے گا، پہلا بھی ٹینگ ٹانگ ہوگالیکن یہ خاموشی کی وجہ سے ہمیں سمجھ دار محسوس ہوگا مگر جوں ہی یہ بھی بولے گا تو اس کے اندر کا ٹینگ ٹانگ بھی باہر آ جائے گا اور آپ کا دل خوش ہو جائے گا، ماشاء اللہ ہم سب پاگل ہیں، ہم میں سے ایک فیصد پاگل خانوں میں ہیں جب کہ باقی ننانوے فیصد گلیوں اور بازاروں میں کھلے پھر رہے ہیں۔ یہ قوم کا ایک المیہ ہے، آپ اب دوسرا المیہ بھی دیکھیے۔

کراچی میں ایک محاورہ بولا جاتا ہے ہے "زبان کے مجاہد" یہ لوگ زبان کے سلطان صلاح الدین ایوبی، ٹیپو سلطان، محمود غزنوی اور محمد بن قاسم ہوتے ہیں لیکن عملاً یہ گلی کی نالی بھی خود نہیں ٹاپ سکتے، آپ کو اگر یقین نہ آئے توآپ کسی دن اپنے دائیں بائیں دیکھ لیں، آپ کو دور دور تک کروڑوں ایسے مجاہدین نظر آئیں گے، یہ الفاظ کی توپوں سے اسرائیل بھی فتح کر لیں گے، امریکا کو بھی شکست دے دیں گے اور روس اور چین کی چولیں بھی ہلا دیں گے۔

یہ منہ کے مجاہدین آپ کو ہر وقت جنگ کے لیے تیار ملیں گے، ایٹم بم ان کی نظر میں پٹاخہ ہے اور یہ پٹاخہ انھوں نے شب برات پر چلانے کے لیے نہیں بنایا لہٰذا یہ آپ کو روز صبح اٹھ کر اعلان کرتے دکھائی دیں گے ہم بھارت پر ایٹم بم گرا کر اسے نابود کر دیں گے، ان کے پاس جنگ کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں، آپ آج ڈیٹا جمع کرلیں، آپ اپنے گردا گرد موجود لوگوں کو دیکھیں، آپ کو ہر دوسرا بلکہ نہیں ہر پہلا شخص زبان کا مجاہد ملے گا، یہ لوگ بھی اپنی نوعیت کے ٹینگ ٹانگ ہیں، یہ بھی بم پر بیٹھ کر بھارت اور اسرائیل سے انتقام لینا چاہتے ہیں۔

ان کے پاس بھی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا صرف ایک ہی نسخہ ہے یعنی جنگ، اب سوال یہ ہے ہم ٹینگ ٹانگ کیوں ہیں؟ اس کی دو وجوہات ہیں، پہلی وجہ ہم نے صرف جنگ کا نام سنا ہے، ہم نے یہ چیز چکھ کر نہیں دیکھی، ہماری 75 برس کی تاریخ میں صرف دو جنگیں ہوئیں، 1965 اور 1971 میں، پہلی جنگ صرف 17دن چلی اور دوسری جنگ13 دن اور اس میں بھی ہم نے اپنے ملک کا 60 فیصد حصہ کھو دیا، ہمارا جنگ کا صرف یہ تجربہ ہے جب کہ اصل جنگیں یورپ، کوریا، ویت نام، ایران، یمن، عراق، لیبیا اور شام نے دیکھی ہیں اور اب اسے غزہ کے لوگ بھگت رہے ہیں۔

حماس نے7 اکتوبر2023 کو اسرائیل پر پانچ ہزار میزائل داغ دیے لیکن اس کے بعد کیا ہوا، اسرائیل نے غزہ کو کارپٹ بامبنگ کے ذریعے کھنڈر بنا دیا، آج وہاں ایک بھی عمارت سلامت نہیں، لاکھ کے قریب لوگ مر چکے ہیں اور علاقے میں اب بجلی ہے، گیس ہے، پٹرول ہے اور نہ ہی پانی، اسپتالوں میں ڈاکٹرز اور دوائیں تک نہیں بچیں، غزہ کے مسلمانوں کو بچانے کے لیے بھی ساری تحریکیں یورپ اور امریکا میں چل رہی ہیں۔

اقوام متحدہ میں بھی تین یورپی ملک ناروے، آئرلینڈ اور اسپین فلسطین کے لیے لڑ رہے ہیں جب کہ اسلامی دنیا سائیڈ پر بیٹھ کر تماشا دیکھ رہی ہے چناں چہ جنگ کیا چیز ہوتی ہے آپ غزہ کے لوگوں سے پوچھیں یا پھر آپ یوکرائن میں جا کر دیکھیں، یوکرائن کا صدرولادمیر زیلنسکی بھی ٹینگ ٹانگ تھا، اس نے گلیوں میں کھڑے ہو کر روس کو للکارا، روس آیا اور اس نے دو ہفتے میں یوکرائن کو غزہ بنا دیا اور آج اس کی حالت یہ ہے وہ تمام ملک جو یوکرائن کو ڈٹنے کا مشورہ دیتے تھے وہ اب تک روس کے خلاف قرار داد بھی پاس نہیں کرا سکے، شام کی جنگ میں 50 لاکھ لوگ مارے گئے یا نقل مکانی پر مجبور ہو گئے۔

عراق عرب ملکوں کا امیر ترین ملک تھا، حکومت ہر شخص کو گھر بٹھا کر وظیفہ دیتی تھی مگر دس سال کی جنگ نے پورے ملک کو مٹی کا ڈھیر بنا دیا، لیبیا کا حشر دیکھ لیں، کوریا کی جنگ میں چالیس لاکھ لوگ مارے گئے، آپ یمن اور ویت نام کی جنگ بھی دیکھیں، لوگ بلیوں اور کتوں کے بعد مُردے کھانے پر مجبور ہو گئے تھے، ایران کی جنگ کے نتیجے میں آج 6لاکھ ایرانی ریال ایک ڈالر کے برابر ہیں اور پورا ملک اقتصادی پابندیوں کا شکار ہے۔

یوگوسلاویہ کی جنگ ہمارے سامنے کی بات ہے، بوسنیا میں پچاس لاکھ قبریں ہیں، آپ کوسوو، کروشیا اور ہرزیگوینا میں جا کر دیکھیں، آپ کو جنگ کا اصل رنگ نظر آئے گا جب کہ ہمارے زبان کے مجاہد اور ٹینگ ٹانگ بم پر بیٹھ کر پوری دنیا فتح کرنا چاہتے ہیں، ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہم سب لوگ انقلاب کے خبط میں بھی مبتلا ہیں مگر ہم سے کوئی شخص انقلاب کی الف ب سے بھی واقف نہیں، ہم نے ایرانی انقلاب، انقلاب فرانس اور انقلاب روس کے صرف نام سنے ہیں۔

ہم نے ان انقلابوں کی تباہی اور بربادی دیکھی اور نہ سنی، ہم اگر ایک بار یہ دیکھ لیتے تو شاید ہمارے اندر کے ٹینگ ٹانگ کو آرام آ جاتا، ہم نے کیوں کہ صرف انقلابوں کا نام سنا ہوا ہے لہٰذا ہم اسے مٹھائی کا ٹکڑا یا لولی پاپ سمجھ رہے ہیں جسے ہم بڑی آسانی سے چوس یا نگل جائیں گے جب کہ اصل حقیقت یہ ہے فرانس میں 1789میں انقلاب آیا تھا، روس میں 1917میں ایران میں 1979میں لیکن آج تک ایران سنبھل سکا نہ روس اور نہ 235 سال گزرنے کے بعد فرانس، لوگ آج بھی انقلاب کی یادگاروں کے سامنے کھڑے ہو کر آنسو بہاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنی حماقتوں کی معافی مانگتے ہیں۔

ہم آج کل فوج کو تباہ کرنے کے خبط میں بھی مبتلا ہیں، میں بھی فوج کے سیاسی کردار کے خلاف ہوں، فوج کو بالآخر اپنے آپ کو سیاست سے نکالنا ہوگا لیکن سوال یہ ہے ہم اگر آج اسٹیبلشمنٹ کو توڑ دیتے ہیں یا عوام کو فوج پر چڑھا دیتے ہیں تو پھر ملک کو کون سنبھالے گا؟ آپ یقین کریں یہ ملک ایک رات میں چھ حصوں میں تقسیم ہو جائے گا اور ہر حصے میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی، سڑکوں اور گلیوں میں نعشیں پڑی ہوں گی اورکسی میں انھیں دفن کرنے کی جرأت نہیں ہوگی، علی امین گنڈا پور روزانہ اسلام آباد پر حملے اور قبضے کی دھمکی دیتے ہیں۔

یہ بجلی کا سوئچ بند کرنے اور 1971بننے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں، فرض کریں یہ اپنے عزائم میں کام یاب ہو جاتے ہیں تو اس کے بعد کیا ہوگا؟ کیا آپ کے پی کو الگ ملک بنا لیں گے اور اگر بنا بھی لیں گے توکیا آپ یہ ملک چلاسکیں گے؟ آپ لوگ اگر صوبہ نہیں چلا پا رہے، آج بھی کے پی میں گندم پنجاب سے آتی ہے اور فوج روزانہ لاشیں اٹھا کر سرحد کی حفاظت کرتی ہے تو آپ خوراک اور سیکیورٹی کا بندوبست کہاں سے کریں گے؟

دوسرا اگر بجلی بند کر دیتے ہیں تو اس کے بعد کیا ہوگا؟ اگر ملک شٹ ڈاؤن ہو جاتا ہے تو آپ کواس کا کیا فائدہ ہوگا؟ کیا آپ بجلی سلینڈروں میں بھر کر بیچیں گے اور تیسرا اگر عمران خان رہا ہو جاتے ہیں یا گنڈا پور جیل پر حملہ کرکے انھیں کے پی لے جاتے ہیں تو کیا ہو جائے گا؟ کیا یہ اپنی حکومت کا اعلان کر دیں گے، کیا یہ بادشاہ بن کر تخت پر بیٹھ جائیں گے یا اپنا لشکر بنا کر فوج پر حملہ کر دیں گے۔

کیا کریں گے؟ عمران خان کو وزیراعظم بننے کے لیے بہرحال سسٹم میں آنا پڑے گا اور یہ کام یہ زبردستی نہیں کر سکتے، باغی بہرحال باغی ہی رہتے ہیں، سسٹم انھیں قبول نہیں کرتا چناں چہ ہمیں ماننا ہوگا ہم من حیث القوم ٹینگ ٹانگ بن چکے ہیں، ہم زبان کے مجاہد ہیں، ہم میں سے ایک فیصد ٹینگ ٹانگ اسپتال میں ہیں جب کہ باقی ملک میں کھلے پھر رہے ہیں اور ان میں سے کچھ بااختیار کرسیوں پر بھی بیٹھے ہیں اور یہ ٹینگ ٹانگ روزانہ اس ملک کی مت مار رہے ہیں، ہائے یہ مظلوم ملک اور اس کے بے بس عوام۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Jo Tha Nahi Hai Jo Hai Na Hoga

By Saad Ullah Jan Barq