ٹٹو پر بیٹھ کر
علامہ محمد اسد کے بارے میں عرض کر چکا ہوں، یہ پاکستان کے پہلے شہری تھے، یہ پاکستان کے پہلے پاسپورٹ ہولڈر بھی تھے اور یہ وہ شخصیت ہیں جس نے اسلامی ریاست کے لیے سیکڑوں راتیں جاگ کر گزار دیں، جو آسٹریا چھوڑ کر ہندوستان کی گرمی میں دھکے کھاتے رہے اور پاکستان معرض وجود میں آگیا تو یہ آسٹریا کی شہریت اور پاسپورٹ سرینڈر کر کے مملکت خداد داد کے پہلے شہری بن گئے، مجھے پچھلے دنوں علامہ محمد اسد کی " بائیو گرافی" پڑھنے کا اتفاق ہوا، یہ کتاب، کتاب نہیں، یادوں، اسلامی فلسفے اور عالم اسلام کی بارات ہے، آپ علامہ صاحب کی زندگی کے ورق پلٹتے ہوئے ہر صفحے پر رک جاتے ہیں اور دیر تک سوچتے رہتے ہیں، مثلاً آپ علامہ صاحب کے کراچی سے لاہور تک سفر کی روداد ملاحظہ کیجیے، اس سفر کی ایک آبزرویشن نے حیران بھی کر دیا او پریشان بھی، علامہ اسد 1932ء میں ہندوستان آئے، یہ کراچی سے لاہور کے لیے ٹرین میں سوار ہوئے، یہ سفر بے آرام بھی تھا اور طویل بھی۔
علامہ صاحب نے لکھا، آپ کراچی سے لاہور جانے کے لیے ٹرین میں سوار ہوں تو آپ شام کے وقت لاہور پہنچتے ہیں، آپ اب 1932ء کو ذہن میں رکھئے اور اس کے بعد 2013ء کی صورتحال کا اندازہ لگائیے، ہماری ٹرینیں 1932ء میں آٹھ سے دس گھنٹوں میں کراچی سے لاہور پہنچ جاتی تھیں مگر آج 80 سال بعد اس ٹرین کو لاہور پہنچنے میں چوبیس گھنٹے لگ جاتے ہیں، آپ کراچی سے ٹرین میں سوار ہوں اور اگر راستے میں انجن خراب نہ ہو یا پٹڑی سلامت ملے تو آپ ذلیل و خوار ہوتے ہوئے اگلے دن لاہور پہنچتے ہیں، ہم نے 80 برسوں میں یہ ترقی کی جب کہ آپ اس کے مقابلے میں چین کو دیکھئے، چین 1970ء تک صرف سیفٹی ریزر (شیو کرنے کی سیفٹی)، بچوں کے کھلونے، کاغذی پھول اور نقلی ریڈیو بناتا تھا، یہ ملک دنیا کے لیے اجنبی تھا اور دنیا اس کے لیے نئی، دنیا کی کوئی ائیر لائین چین نہیں جاتی تھی، صدر ایوب خان پہلے سربراہ تھے جنہوں نے چین کے ساتھ تعلقات استوار کیے، ماؤزے تنگ کے لیے جہاز پاکستان نے گفٹ کیا تھا، یہ جہاز آج تک چین میں موجود ہے۔
پی آئی اے پہلی ائیر لائین تھی جس نے چین کے لیے سفر شروع کیا، چین کے لوگ پاکستان کو جنت سمجھتے تھے، کاشغر کے مسلمان پیدل پیر علی اورسست کے برف زار عبور کرتے تھے، بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر راولپنڈی پہنچتے تھے اور کالج روڈ کے سامنے چھوٹی چھوٹی سراؤں میں رہتے تھے، میں نے خود اپنی آنکھوں سے 1994-95ء میں چین کے حاجیوں کو کالج روڈ پر پھول اور کمبل بیچتے دیکھا، چین کے مسلمانوں کو حج اور عمرے کی سہولت حاصل نہیں تھی، جنرل ضیاء الحق اور شاہ خالد نے ان پر مہربانی کی، ہماری حکومت انھیں پاکستانی پاسپورٹ دے دیتی تھی، سعودی عرب اس پاسپورٹ پر حج اور عمرے کے ویزے دے دیتا تھا اور پی آئی اے اور سعودی ائیر لائین رعایتی ٹکٹ پر انھیں حجاز مقدس لے جاتی تھی، یہ لوگ زاد راہ کے لیے راولپنڈی اسلام آباد میں کاغذ کے پھول بیچتے تھے اور تین تین، چار چار دن اسلام آباد ائیر پورٹ پر ننگے فرش پر لیٹ کرگزار دیتے تھے، شاہراہ قراقرم1959ء میں شروع ہوئی، چینی مزدور اور انجینئر پاکستانی علاقوں میں آئے تو یہ پاکستان کی خوشحالی اور ہریالی دیکھ کر حیران رہ گئے، یہ کھانے پر ٹوٹ پڑتے تھے کیونکہ یہ کھانا انھیں چین میں نصیب نہیں ہوتا تھا مگر آج صرف تیس سال بعد چین دنیا کی معاشی سپر پاور بن چکا ہے، آپ دنیا کے کسی کونے میں چلے جائیں، آپ کوئی چیز اٹھا کر دیکھیں آپ کو اس کے نیچے میڈ ان چائنا کا سٹکر ملے گا، آپ حد ملاحظہ کیجیے، ہم عمرے یا حج کے لیے احرام خریدتے ہیں یا مکہ اور مدینہ سے تسبیح خریدیں یا جائے نماز لے لیں ہمیں اس کے ساتھ میڈ ان چائنا کا ٹیگ ملے گا۔
آپ امریکا کی کسی دکان سے امریکا کا جھنڈا خرید لیں، آپ کو اس کے ساتھ بھی میڈ ان چائنا ملے گا، آج دنیا میں مرسڈیز گاڑیوں کا سب سے بڑا کارخانہ چین میں ہے اور آئی فون، آئی پیڈ اور آئی پاڈ ایجاد امریکا میں ہوتا ہے مگر یہ اسمبل چین میں ہوتے ہیں، امریکا کی تیز ترین ٹرین کی رفتار 150 میل فی گھنٹہ ہے جب کہ چین کی فاسٹ ٹرین 302 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہے، چین نے جنوری2012ء میں پندرہ دن میں تیس منزلہ عمارت تعمیر کر کے ورلڈ ریکارڈ قائم کر دیا، یورپ میں پچاس ایسے شہر ہیں جن کی آبادی دس لاکھ ہے جب کہ چین میں ایسے شہروں کی تعداد 130 تک پہنچ چکی ہے اور ان میں سے نوے فیصد شہر نئے بنے ہیں، میں نے شنگھائی کے مضافات میں تیس پینتیس کلو میٹر لمبا پل دیکھا، یہ پل سمندر کے اندر بنا تھا اور آپ جب اس پر سفر کرتے ہیں تو آپ کے دائیں بائیں اور نیچے سمندر موجیں مارتا ہے، چین کے موجودہ وزیراعظم لی کی چیانگ نے چین کے صوبے لیونگ کے پانچ بڑے انڈسٹریل زونز ہولو داؤ، ژنگ کاؤ، ڈینگ ڈانگ اور ڈالیان کے دوانڈسٹریل زونز کوساڑھے آٹھ سو کلو میٹر لمبی سڑک سے جوڑ دیا، یہ سڑک پانچ سو مربع کلو میٹر کے رقبے کے گرد حصار بناتی ہے، یہ پانچوں انڈسٹریل زونز سڑک کے ذریعے ڈالیان بندرگاہ سے منسلک ہیں، یہ منصوبہ "فائیو پوائنٹ ٹو ون لائین" کہلاتا ہے اور اس نے چین کی معیشت دوگنی کر دی، چین کی معیشت ہر آٹھ سال بعد دوگنی ہو جاتی ہے۔
آج 10 چینی بزنس مین فوربز کی ارب پتیوں کی فہرست میں شامل ہیں، چین نے امریکا میں دو اعشاریہ چھ ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، امریکی اس سرمایہ کاری پر بے انتہا پریشان ہیں کیونکہ یہ سمجھتے ہیں جس دن چین نے یہ سرمایہ واپس نکال لیا امریکا اس دن دیوالیہ ہو جائے گا، دنیا کے 80 فیصد کھلونے چین میں بنتے ہیں اور چین نے یہ سب کچھ تیس پینتیس برسوں میں حاصل کیا، چین پر ایک وقت تھا جب عوام خوراک کی کمی کی وجہ سے گھاس کھانے پر مجبور تھے اور لوگ ان کے پستہ قد اور پیلی رنگت کی وجہ سے انھیں زرد چیونٹیاں کہتے تھے لیکن آج چین کے لوگوں کے قد بھی بڑھ رہے ہیں، ان کے رنگ بھی سرخ ہو رہے ہیں اور ان کی جسمانی ساخت بھی بدل رہی ہے اور چین دنیا کا واحد ملک ہے جس کے شہری دوسرے ملکوں کی شہریت چھوڑ کر اپنے ملک واپس آ رہے ہیں جب کہ چین کے مقابلے میں ہم سے ریلوے نہیں چل رہی، ہماری ٹرینیں 1932ء کے اسٹینڈر کا مقابلہ نہیں کر پا رہیں، ہم شہریوں کو بجلی فراہم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں اور ہم چین کے وزیراعظم کو اسلام آباد ائیر پورٹ سے ایوان صدر پہنچانے کے لیے موبائل فون سروس بند کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، وفاقی دارالحکومت کی ساری سڑکیں بند اور شہر کو فوج کے حوالے کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، ہم چینی وزیراعظم کی رہائش گاہ سرینا ہوٹل کی سیکیورٹی تک چینی حکام کو دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں، ہم ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس، وزیراعظم سیکریٹریٹ، سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ ہاؤس کو بچانے کے لیے دس کلو میٹر کے علاقے کو ریڈ زون بنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں، ہم اس کے گرد خاردار تاریں لگا دیتے ہیں مگر اس کے باوجود ہم خود کو جوہری طاقت بھی کہتے ہیں اور اقوام عالم میں سربلند ہونے کے نعرے بھی لگاتے ہیں، کیا ہم شیشے میں اپنی شکل دیکھ سکتے ہیں، کیا ہم اپنے ماضی کا سامنا کر سکتے ہیں۔
ہم اب آتے ہیں چین کے ان اصولوں کی طرف جن کی وجہ سے چین چین بنا، یہ چار اصول ہیں، میرٹ، ایمانداری، تسلسل اور خود اعتمادی، چین نے فیصلہ کر لیا یہ صرف اہل لوگوں کو اعلیٰ عہدوں پر بٹھائے گا چنانچہ چین میں اگر عام سرکاری اہلکار کا بیٹا لی کی چیانگ خود کو اہل ثابت کر دیتا ہے تو سسٹم اسے وزیراعظم بنا دیتا ہے، یہ من حیث القوم اپنے ساتھ ایماندار ہیں، یہ خود کو دھوکہ نہیں دیتے، صبح وقت پر ڈیوٹی کے لیے پہنچتے ہیں اور جب تک کام ختم نہیں ہوتا یہ دفتر، فیکٹری اور دکان سے واپس نہیں آتے، یہ ہنر کو ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں چنانچہ آپ کو چین میں کوئی شخص بے ہنر یا بیکار بیٹھا دکھائی نہیں دیتا، وہ کچھ بھی نہ جانتا ہو تو بھی وہ بیلچہ اور کَسی چلانا ضرور جانتا ہو گا۔ ان کی شخصیت اور سسٹم میں تسلسل ہے، چین میں حکومت بدلنے سے نظام اور منصوبے نہیں بدلتے، یہ لوگ دس سال قبل صدر اور پانچ سال پہلے وزیراعظم کا تعین کر لیتے ہیں۔
مستقبل کا صدر موجودہ صدر کے ساتھ کام کرتا ہے اور مستقبل کا وزیراعظم نائب وزیراعظم بن کر موجودہ وزیراعظم کی مدد کرتا ہے یوں پانچ اور دس سال بعد جب حکومت تبدیل ہوتی ہے تو بھی پالیسیوں کا تسلسل قائم رہتا ہے، چین کے لوگ خود اعتماد ہیں، یہ چینی ہونے پر فخر کرتے ہیں، آپ کسی چینی سے بات کر لیں وہ اپنے ملک یا اپنی قوم کو گالی نہیں دے گا، بزرگ چینی زیادہ سے زیادہ یہ شکوہ کریں گے ہماری قوم اور ہمارے لوگ ماؤزے تنگ کے فلسفے کو فراموش کر بیٹھے ہیں، یہ پیسے کی دوڑ میں لگ گئے ہیں وغیرہ وغیرہ اورچین میں سب سے بڑھ کر لاء اینڈ آرڈر کا کوئی مسئلہ نہیں، چین میں چوری کی سزا موت ہے، چور کے سر میں گولی ماری جاتی ہے اور گولی کی قیمت مجرم کے لواحقین سے وصول کی جاتی ہے، چین میں 53 قومیتیں آباد ہیں مگر کوئی قوم کسی دوسری قوم کے خلاف فتویٰ جاری نہیں کر سکتی، مذہب آزاد ہے مگر ریاست کسی مذہب کو دوسرے مذہب میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتی اور آپ مسجد میں نماز پڑھ سکتے ہیں مگر آپ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے دوسروں کو ڈسٹرب نہیں کر سکتے، یہ وہ اصول ہیں جنہوں نے چین کو چین بنایا مگرہم لوگ اصولوں اور ضابطوں کے بغیر اس ملک کو اقوام عالم کا قائد بنانا چاہتے ہیں، ہم ٹٹو پر بیٹھ کر جیٹ جہازوں کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں اور جب ہمارے ٹٹو ہانپ جاتے ہیں تو ہم اللہ سے شکوہ کرتے ہیں آپ ہماری عرض کیوں نہیں سنتے، ہم یہ بھول جاتے ہیں قدرت دوڑنے والوں کا ساتھ دیتی ہے، یہ بیٹھے ہوئے سست لوگوں پر مہربانی نہیں کرتی۔