طالبانائیزیشن
یہ لاہور کے ایک صاحب کی کہانی ہے، یہ صاحب جوتوں کی بڑی فیکٹری میں کام کرتے تھے، فیکٹری میں تین ہزار ملازم تھے، فیکٹری دن رات چلتی تھی، لاکھوں کی تعداد میں جوتے بنتے تھے، یہ صاحب عام ورکر کی حیثیت سے کمپنی میں آئے، ترقی کی اور چار سال میں سپروائزر بن گئے، کمپنی نے کالونی میں مکان بھی دے دیا، گاڑی انھوں نے پیسے جمع کر کے خرید لی، بچے کمپنی کے اسکول میں پڑھنے لگے، یہ صاحب زندگی سے بہت خوش تھے، یہ بیس سال تک فیکٹری میں کام کرتے رہے، ان کی تنخواہ میں بیس برسوں میں پانچ گنا اضافہ ہوا، یہ بچوں کے مستقبل کے بارے میں مطمئن تھے، یہ سمجھتے تھے، بچوں کی تعلیم مکمل ہو جائے گی تو یہ انھیں فیکٹری میں ملازم کرا دیں گے لیکن پھر ایک عجیب واقعہ پیش آیا، کمپنی نے اچانک پیداوار کم کر دی، یہ کمپنی سال میں جاگرز کے دس لاکھ جوڑ ے بناتی تھی، کمپنی نے سب سے پہلے جاگرز کی پیداوار بند کی، یہ چین سے جاگرز امپورٹ کرنے لگی۔
چینی جاگرز سستے بھی تھے اور کوالٹی میں بھی بہتر تھے، یہ کمپنی 14 لاکھ فارمل اور ان فارمل جوتے بناتی تھی، یہ جوتے چین، تھائی لینڈ اور سنگا پور سے آنے لگے چنانچہ ان کی پیداوار بھی بند ہو گئی، خواتین اور بچوں کے اسکول شوز بھی چند ماہ میں بند ہو گئے اور آخر میں کینوس شوز کی تیاری بھی روک دی گئی، فیکٹری میں اب صرف سلیپر، پلاسٹک کی چپلیں اور قینچی چپل بن رہی تھی، پیداوار میں اس کمی کا سب سے پہلا اور بڑا اثر ملازمین پر ہوا، کمپنی نے اڑھائی ہزار ملازمین فارغ کر دیے، مشینیں بکنے لگیں، گودام کرائے پر دے دیے گئے، کالونی کے زیادہ تر مکان خالی کرا لیے گئے، بچوں کے پانچ اسکولوں میں سے تین بند کر دیے گئے، شہر کے مضافات میں ہاؤسنگ سوسائٹیاں بننے لگیں، زمینیں مہنگی ہو گئیں۔
کمپنی نے فیکٹری کا ایک حصہ بیچ دیا، یہ حصہ پانچ ارب روپے میں بک گیا، کمپنی کو پیسے کی لت لگ گئی، اس نے ملک بھر میں فرنچائز دینا شروع کیں، لوگوں نے کروڑوں روپے زر ضمانت دے دیے، کمپنی نے یہ رقم اور پراپرٹی سے حاصل ہونے والی رقم ملک سے باہر شفٹ کر دی، کاروبار کی نوعیت بدل گئی، کمپنی دکانداروں سے آرڈر لیتی، یہ آرڈرز چین کی جفت ساز فیکٹریوں کو لکھوا دیے جاتے، چینی کمپنیاں جوتوں پر ان کے نام کے سٹیکر چپکاتیں اور یہ جوتے براہ راست ان دکانوں پر ڈیلیور ہو جاتے اور یوں ماضی کی سب سے بڑی جوتا ساز کمپنی ملک کی سب سے بڑی جوتوں کی کاروباری فرم بن گئی، جوتے بنانے والے جوتوں کے تاجر بن گئے، کمپنی کے منافع میں چار گنا اضافہ ہوا، یہ ملازمین، مشینوں اور بجلی کے جھنجٹ سے بھی آزاد ہو گئی، مالکان پہلے بھی ملک سے باہر تھے، یہ آج بھی ملک سے باہر ہیں اور یہ شاید مستقبل میں بھی ملک سے باہر رہیں گے۔
یہ کمپنی کے مالکان کے لیے ایک آئیڈیل صورتحال تھی لیکن وہ صاحب جو بیس سال سے اس کمپنی میں کام کر رہے تھے، جن کے پاس کمپنی کا مکان تھا، جن کے بچے فیکٹری کے اسکول میں پڑھتے تھے اور جنہوں نے پلاننگ کر رکھی تھی یہ اپنے بچوں کو چپ چاپ اس کمپنی میں ملازم کرا دیں گے اور یوں یہ ایک خوش حال زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہو جائیں گے، کمپنی کی اس آئیڈیل صورتحال نے اس صاحب کو برباد کر دیا، کمپنی نے انھیں 45 سال کی عمر میں فارغ کر دیا، مکان بھی واپس لے لیا گیا اور بچوں سے اسکول بھی چھین لیا گیا اور یہاں سے اس ملک کی کہانی شروع ہو گئی۔
یہ صاحب فیکٹری سے نکلے اور عبرت کی نشانی بن گئے، کرائے پر مکان لیا، کمپنی سے ملنے والی رقم کاروبار میں لگائی، کاروبار ناکام ہوا، سرمایہ ڈوب گیا، بچے ڈگریاں لے کر ملازمت کے لیے نکلے لیکن ملک کے زیادہ تر ادارے جوتوں کی کمپنی جیسی صورتحال کا شکار تھے، ملک کے تمام اداروں میں ڈاؤن سائزنگ چل رہی تھی، فیکٹریاں بند ہو رہی تھیں، زمینیں بک رہی تھیں اور کارخانے اجڑ رہے تھے، بچے نوکری کی تلاش میں نکلے، بے روزگاری دیکھی تو ایک جرائم پیشہ افراد کے ہتھے چڑھ گیا، یہ لوگ ڈاکہ مارنے کے لیے کسی کے گھر میں داخل ہوئے، گھر کا مالک مسلح تھا، اس نے فائر کھول دیا، فائرنگ میں ان صاحب کا جوان بیٹا مارا گیا، دوسرا بیٹا ایک مذہبی گروپ میں شامل ہوگیا، یہ گروپ دوسرے گروپ سے لڑا، دونوں طرف سے فائرنگ ہوئی، دوسرے گروپ کا ایک جوان مارا گیا، پرچہ ہوا، یہ نوجوان فاٹا بھاگ گیا اور وہاں کسی متحارب گروپ کا حصہ بن گیا اور پیچھے رہ گئے یہ صاحب اور ان کی دو جوان بچیاں۔ یہ بچیوں کی حفاظت کے لیے دن رات جاگتے رہتے ہیں، ان جگ راتوں نے انھیں دائمی بیمار بنا دیا ہے، یہ خیراتی اسپتالوں میں دھکے کھاتے ہیں اور بچیوں کے رشتوں کا انتظار کرتے ہیں مگر غربت اور جوان بیٹوں کا ماضی رشتوں کا راستہ بدل دیتا ہے، یہ صاحب آج کل ہر ملنے والے سے پوچھتے ہیں "میں کیا کروں " ان کی جوان بچیاں بھی اپنے رشتے داروں سے یہی پوچھتی ہیں، بچیوں کا یہ سوال خطرناک بھی ہے اور بداخلاقی کا پہلا جواز بھی کیونکہ بے روزگار اور بیمار والدین کی جوان بچیاں جب یہ سوال پوچھنے لگیں تو معاشرے کو اپنے دامن میں آگ محسوس ہونی چاہیے، معاشرے کو دامن میں گرمائش اور حدت کا احساس ہونا چاہیے۔ یہ کسی ایک صاحب یا کسی ایک خاندان کی کہانی نہیں۔
یہ پاکستان کے ہر دوسرے تیسرے خاندان کی داستان ہے، ملک کی آبادی کا 45 فیصد حصہ اس وقت اٹھارہ سال سے کم عمر ہے، ہزاروں بچے روزانہ شناختی کارڈ کی عمر تک پہنچ رہے ہیں، ہمارے ملک کو ہر سال 15 لاکھ نئی نوکریوں کی ضرورت پڑتی ہے لیکن نئی نوکریاں تو دور پاکستان میں ہر سال 5 لاکھ نوکریاں کم ہو رہی ہیں، ہم فرض کرتے ہیں، ملک میں روز گار کے ایک کروڑ ذرایع ہیں، اگلے سال تک ان ذرایع میں پندرہ لاکھ نوکریوں کا اضافہ ہونا چاہیے لیکن یہ نوکریاں اگلے سال تک 95 لاکھ رہ جاتی ہیں اور یہ سلسلہ پچھلے بیس سال سے جاری ہے چنانچہ آپ اس کے اثرات کا اندازہ خود لگا لیجیے، ملک میں اس وقت ایک کروڑ 45 لاکھ پڑھے لکھے بے روزگار بھی موجود ہیں۔
یہ صورتحال گمبھیر ہے لیکن اس صورتحال کو تین عناصر مزید گمبھیر بنا رہے ہیں، ہمارے ہمسائے چین، ایران، بھارت، ترکی، سری لنکا اور برما امن، صنعت، سستی لیبر فورس اور مہارت کی وجہ سے پیداوار میں ہم سے بہت آگے نکل گئے ہیں، ہم نے اپنی صنعت کی حفاظت نہیں کی، ہم سماجی لحاظ سے سرمایہ کاری اور کاروبار کے خلاف ہیں، ہمارے ملک میں آج بھی کاروباری طبقے کو برا سمجھا جاتا ہے، لوگ سیلف میڈ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اور انھیں بے انتہا تنگ بھی کیا جاتا ہے چنانچہ ہمارے سرمایہ کار ملک سے باہر جا رہے ہیں، فیکٹریاں بند ہورہی ہیں، ملک سستی اور غیر ملکی مصنوعات کی منڈی بن گیا ہے، اس کے نتیجے میں ہماری ورکنگ کلاس بے روزگار ہو رہی ہے، ہمارے ملک میں آسان تعلیم کا ایک سیلاب آ گیا، حکومت نے پرائیویٹ یونیورسٹیوں، میڈیکل کالجز اور آئی ٹی انسٹی ٹیوٹ کی اندھی اجازت دے دی، یہ تعلیمی ادارے دھڑا دھڑ ڈگریاں بانٹنے لگے، ان اداروں کی وجہ سے ملک میں جاہل پڑھے لکھوں کی ایک کلاس پیدا ہو گئی، ان لوگوں کی جیب میں ڈگری ہے لیکن یہ مہارت اور علم دونوں سے فارغ ہیں۔
یہ جعلی پڑھے لکھے لوگ ملک کے لیے کینسر بن چکے ہیں کیونکہ یہ اعلیٰ عہدے چاہتے ہیں مگر ان کے پاس ان عہدوں کے لیے مہارت موجود نہیں، ان میں چند نالائق رشوت اور سفارش کی بنیاد پر نوکریاں بھی حاصل کر لیتے ہیں، یہ نالائق اہل اور پڑھے لکھے لوگوں کو اپنے اداروں میں گھسنے نہیں دیتے یوں مزید مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، جینوئن لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں جس کی وجہ سے برین ڈرین ہو رہا ہے، ملک کو انجینئرز، ڈاکٹروں اور ایگزیکٹو کے بجائے کارندوں، کمپوڈرز اور ورکرز کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، ایک ڈاکٹر کے نیچے 14 لوگوں کا اسٹاف ہونا چاہیے مگر ملک میں بدقسمتی سے ماتحتوں کی تربیت اور مہارت کے لیے سرے سے کام نہیں ہوا، ملک کے کروڑوں نوجوان بیروزگار ہیں مگر آپ کو پورے شہر میں اچھا ڈرائیور، اچھا کک، اچھا کلرک، اچھا آپریٹر، اچھا پلمبر، اچھا پینٹر اور اچھا مستری نہیں ملتا، آپ فریج ٹھیک کرانے کے لیے مکینک بلاتے ہیں اور وہ آپ کا اے سی خراب کر جاتا ہے، ٹونٹی بدلنے والا آپ کے پورے گھر کی وائرنگ اڑا جائے گا اور رہی سہی کسر مصنوعی اور غیرپیداواری مارکیٹ نے پوری کر دی، ملک میں رئیل اسٹیٹ کی شکل میں ایک مصنوعی اکانومی پیدا ہوئی، اس اکانومی نے لوگوں کو راتوں رات اربوں پتی بنا دیا، یہ لوگ دولت کو ہینڈل کرنا نہیں جانتے تھے چنانچہ انھوں نے دولت کا بے دریغ اور اندھا استعمال شروع کر دیا، دولت کے اس اندھے استعمال نے اخلاقیات کے سارے دھاگے توڑ دیے یوں ملک میں دو خطرناک طبقے پیدا ہو گئے، ایک طبقے نے جرم کوروزگار بنا لیا، یہ لوگ کسی بھی شخص کو روکتے ہیں، اس کو پستول دکھاتے ہیں اور وہ اپنا پرس اور موبائل ان کے حوالے کرتا ہے، لٹنے والا تھانے جانے کے بجائے چپ چاپ گھر چلا جاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے وہ تھانے جا کر اپنی قمیض سے بھی محروم ہو جائے گا، دوسرے طبقے نے نظریات کو روزگار بنا لیا، یہ دونوں گولی مارتے ہیں اور نظام آنکھیں بند کر لیتا ہے۔
حکومت طالبان سے مذاکرات کر رہی ہے، یہ ہی اصل حل ہے اور اللہ کرے حکومت اس میں کامیاب بھی ہو جائے لیکن سوال یہ ہے، اگرطالبان اور دوسری تنظیمیں مرکزی دھارے میں شامل ہو گئیں تو کیا ہمارے مسئلے ختم ہو جائیں گے، جی نہیں کیونکہ وہ کوکھ اپنی جگہ قائم رہے گی جس سے یہ سارے مسائل جنم لے رہے ہیں، ملک میں بچے روز جوان ہو رہے ہیں مگر ان جوان بچوں کے لیے روزگار کے ذرایع پیدا نہیں ہو رہے، مصنوعی معیشت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، مہارت کم ہو رہی ہے اور معاشرے میں جرائم اور ظلم کے خلا ف لڑنے کی قوت میں کمی واقع ہو رہی ہے لہٰذا پھر کیا ہو گا؟ ہم طالبان سے نبٹ لیں گے مگر ان کی جگہ نئے لوگ آ جائیں گے اور وہ لوگ بھی پستول کا سہارا لے کر ہم سب کو اسی طرح آگے لگا لیں گے، طالبان ختم ہو جائیں گے لیکن طالبانائزیشن کا سلسلہ چلتا رہے گا کیونکہ ہم آج بھی کنوئیں کو بوکوں کے ذریعے پاک کرنے کی کوشش کر رہیں، ہم مسئلے کا کتا نہیں نکال رہے۔