سانو۔۔ کی
سانو۔۔ کی پنجابی زبان کا ایک محاورہ یا ایکسپریشن ہے، اس کا مطلب ہوتا ہے ہمیں کیا فرق پڑتا ہے، ہمارے باپ کا کیا جاتا ہے، ہمارا کیا نقصان ہے یاپھر آئی ڈونٹ کیئر، ہم پنجابی لوگ اوپر سے لے کر نیچے تک اوسطاً دن میں تیس چالیس مرتبہ یہ فقرہ ضرور دہراتے ہیں لہٰذا اس کثرت استعمال کی وجہ سے "سانو۔۔ کی" ہمارے مزاج، ہماری شخصیت کا حصہ بن چکا ہے۔
دنیا میں کیا ہو رہا ہے، ملک میں کیا ہو رہا ہے، کون کس کا بیڑہ غرق کر رہا ہے اور کل اس ملک کا کیا بنے گا؟ ان تمام ایشوز پر ہم پنجابیوں کا ایک ہی جواب ہوتا ہے سانو۔۔ کی اورہم پنجابی کیوں کہ اس ملک کاساٹھ فیصد ہیں چناں چہ پاکستان اس وقت ہمارے اس "ایٹی چیوڈ" کا خوف ناک کھنڈر بن چکا ہے اور پنجاب اس کھنڈر کا کھنڈر اعظم ہے، ہم پنجابیوں نے سانو۔۔ کی کی فلاسفی سے سب سے زیادہ پنجاب کابیڑا غرق کیا، آپ پیچھے نہ جائیں، آپ صرف عثمان بزدار کے دور کا تجزیہ کر لیں۔
عثمان بزدار احسن جمیل گجر اور فرح گوگی کی مشترکہ دریافت تھے، احسن جمیل انھیں اگست2018 میں اپنی گاڑی پر بنی گا لا لے کر گئے تھے اور انھوں نے ان کا عمران خان سے انٹرویو کرایا تھا، میٹنگ میں وہ جہانگیر ترین بھی شامل تھے جو انھیں پی ٹی آئی میں لے کر آئے تھے لیکن عثمان بزدار اور جہانگیر ترین دونوں نے اس وقت ایک دوسرے کو پہچانا تک نہیں تھا، بہرحال بزدار کی عمران خان سے چند منٹوں کی ملاقات ہوئی اور اس طلسماتی ملاقات میں پنجاب کے 12 کروڑ لوگوں کے مقدر کا فیصلہ ہو گیا۔
عثمان بزدار کو واپس لے جانے کی ذمے داری بھی احسن جمیل کے کندھوں پر تھی، یہ دونوں بنی گالا سے نکلے تو احسن جمیل نے عثمان بزدار سے کہا "چلیں میں آپ کو گلوریا جینز سے کیپوچینو پلاتا ہوں" اور پنجاب کے نئے وزیراعلیٰ گلوریا جینز کو بھی نہیں جانتے تھے اوریہ کیپو چینو سے بھی واقف نہیں تھے بہرحال سانو۔۔ کی، عثمان بزدار ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ بن گئے، میں بات کو آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے چیف بننے سے قبل عمران خان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی، یہ بس اتنا جانتے تھے۔
ان کے پاس دنیا کے 200 ماہرین ہیں اور یہ آ کر ملک بدل دیں گے، قوم کی طرح فوج کو بھی ان پر یقین تھا، یہ یقین اور یہ احساس بہرحال چلتا رہا اور 2018 کے الیکشن ہو گئے، اسٹیبلشمنٹ مانتی ہے ہم نے الیکشنز میں عمران خان کی سپورٹ کی لیکن یہ اس سپورٹ کے باوجود اکثریت حاصل نہ کر سکے اور مجبوراً دوسری سیاسی جماعتوں کو ان کے ساتھ بٹھانا اور چلانا پڑ گیا اور یوں حکومت کا سارا بوجھ اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر آ گیا، وزیراعظم بننے سے چند دن قبل آرمی چیف اور جنرل فیض حمید عمران خان سے ملاقات کے لیے بنی گالا گئے، یہ ویٹنگ روم میں انتظار کر رہے تھے اور عمران خان جاگنگ ٹراؤزر کے ساتھ پشاوری چپل پہن کراندر داخل ہو گئے، یہ دونوں مستقبل کے وزیراعظم کو دیکھ کر پریشان ہوگئے۔
ملاقات ہوئی اور یہ دونوں جب باہر نکلے تو جنرل فیض حمید نے پوچھا "کیا ہم ان کو وزیراعظم بنانے کے لیے کوشش رہے ہیں؟" آرمی چیف نے ان کی طرف دیکھا اور خاموش ہو گئے، بہرحال عمران خان وزیراعظم بنے اور اس کے بعد سعودی شہزادے ہوں یا یورپ اور امریکا کے وزراء ہوں ان کو سب کو بنی گالا میں دھوپ میں بھی بیٹھنا پڑا اور ٹراؤزر اور پشاوری چپل بھی دیکھنا پڑی اور وزیراعظم کا انتظار بھی کرنا پڑا، بہرحال سانو۔۔ کی، ہم عثمان بزدار کی طرف آتے ہیں۔
عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پہلا اختلاف عثمان بزدار کی تعیناتی پر ہوا تھا، فوج پنجاب جیسے صوبے کو بزدار جیسے اناڑی کے ہاتھ میں نہیں دیکھنا چاہتی تھی لیکن وزیراعظم نہیں مانے اور یہ پونے چار سال اپنی ضد پر ڈٹے رہے، آرمی چیف اور جنرل فیض حمید دونوں انھیں بار بار سمجھاتے رہے، انھیں یہ تک بتایا گیا پنجاب میں آپ کی پارٹی ٹوٹ چکی ہے، آپ نے اگرصورت حال کنٹرول نہ کی توپنجاب کے ساتھ ساتھ وفاق بھی آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گا، وزیراعظم کو کرپشن کے ثبوت بھی دیے گئے، اس زمانے میں لیفٹیننٹ جنرل سید عاصم منیر ڈی جی آئی ایس آئی تھے۔
انھوں نے مانیکا فیملی، فرح گوگی، احسن جمیل گجر اور عثمان بزدار کے معاملات، پیسے کے لین دین، تقرریوں میں کرپشن اور منی لانڈرنگ کی تمام تفصیلات ثبوتوں کے ساتھ وزیراعظم کو پیش کر دیں لیکن رپورٹ کو سیریس لینے کے بجائے وزیراعظم ڈی جی سے ناراض ہو گئے اور آرمی چیف سے ان کے تبادلے کا مطالبہ کر دیا، آرمی چیف نے انھیں سمجھایا، سر عاصم منیر کیریئر آفیسر ہیں۔
ان کی ایمان داری اور پروفیشنل ازم کی قسم کھائی جا سکتی ہے اور یہ ان کا فرض تھا یہ آپ کو ہر چیز مکمل ایمان داری سے بتاتے اور ا نہوں نے اپنافرض ادا کیا" لیکن وزیراعظم کا کہنا تھا یہ میرے گھر میں بدگمانی پھیلا رہے ہیں، یہ خاتون اول کے دوستوں کو بدنام کر رہے ہیں، بہرحال وزیراعظم کے مطالبے پر جنرل عاصم منیر کوکورکمانڈر گوجرانوالہ تعینات کر دیا گیا۔ بہرحال ڈی جی تبدیل ہو گیا لیکن پنجاب کی صورت حال جوں کی توں رہی اور وزیراعظم کو جب بھی بتایا گیا ان کا جواب تھا سانو۔۔ کی۔
یہ معاملات چل رہے تھے، فروری 2021 آ گیا، سینیٹ میں حفیظ شیخ اور یوسف رضا گیلانی کا الیکشن آگیا، پی ٹی آئی کے ارکان حفیظ شیخ کو ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں تھے اور وزیراعظم نے حسب معمول یہ ذمے داری اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر ڈال دی، اس وقت افغانستان میں تبدیلی آ رہی تھی۔
امریکی فوجیں واپس جا رہی تھیں اور ملک ایف اے ٹی ایف میں بھی پھنسا ہوا تھا لہٰذا اسٹیبلشمنٹ کے پاس سیاسی خرافات کے لیے وقت نہیں تھا، اس وقت جنرل فیض حمید نے مشورہ دیا ہمیں اب اپنے آپ کو مکمل طور پر سیاست سے الگ کرلینا چاہیے، یہ الیکشن حکومت کو خود لڑنا چاہیے چناں چہ حکومت کو فیصلے سے مطلع کر دیا گیا، وزیراعظم کو بتایاگیا آپ کی پارٹی پنجاب سے فارغ ہو رہی ہے، یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، آپ کو اسے سنبھالنا ہو گا، وزیراعظم کو یہ مشورہ تک دیا گیا آپ 12 بجے دفتر آتے ہیں اور پانچ بجے واپس چلے جاتے ہیں۔
آپ ایک گھنٹہ پہلے آ جایا کریں یا ایک گھنٹہ دفتر میں مزید رک جایا کریں اور اپنے اتحادیوں، ایم این ایز اور ایم پی ایز سے مل لیا کریں، آپ صرف ان لوگوں کی بات سن لیا کریں، اس سے آپ کی پارٹی اور حکومت کو تقویت ملے گی لیکن وزیراعظم نے یہ مشورہ نہیں مانا، یہ مشورے مختلف اوقات میں بار بار دیے گئے مگرکوئی فرق نہ پڑا، ایک بار یہ بھی بتایا گیا فوج میں کور کمانڈر کے ماتحت تین جی او سی ہوتے ہیں اگر کوئی کور کمانڈر ایک بار چیف سے کسی جی او سی کی شکایت کرے تو آرمی چیف اس کو ہٹا دے گا اگر یہ دوسری بار شکایت کرے تو چیف انتہائی مجبوری میں دل پر پتھر رکھ کر یہ بات بھی مان لے گا لیکن اگر وہ کور کمانڈر تیسری مرتبہ جی او سی کی شکایت کرے گا تو اس بار جی او سی تبدیل نہیں ہو گا۔
کور کمانڈر بدلا جائے گا جب کہ عثمان بزدار اب تک چھ چیف سیکریٹری اورسات آئی جیز تبدیل کرا چکے ہیں مگر یہ اس کے باوجود صوبہ نہیں چلا پائے لہٰذا ایشو چیف سیکریٹریز اور آئی جیز میں نہیں وزیراعلیٰ میں ہے، آپ اسے تبدیل کریں ورنہ یہ چیف منسٹر آپ کی حکومت لے بیٹھے گا مگر بات اس بار بھی نہیں مانی گئی، یہ کشمکش چلتی رہی اور معاملہ جب پوائنٹ آف نوریٹرن پر پہنچ گیا اوروزیراعظم کومحسوس ہوا مجھے اب بزدار صاحب کی قربانی دیناپڑے گی تو علیم خان کو وزیراعلیٰ بنانے کا فیصلہ ہو گیا۔
اسٹیبلشمنٹ نے سکھ کا سانس لیا، علیم خان کو اطلاع کر دی گئی اور انھیں اسلام آباد بھی بلا لیا گیا مگراس سہ پہر فواد چوہدری نے چلتے چلتے کہا "سردرمیان میں ایک رات باقی ہے، وزیراعظم ابھی گھر نہیں گئے، آپ صبح دیکھ لیجیے گا یہ فیصلہ بدل چکا ہو گا" اور اگلی صبح واقعی فیصلہ بدل گیا اور وزیراعظم نے علیم خان کو دیکھ کر پوچھا، خیریت ہے آپ اسلام آباد کیوں آ گئے اور علیم خان غصے میں پارٹی سے مستعفی ہو گئے اور یوں اس بار بھی معاملہ سانو۔۔ کی پر آ کر ختم ہوگیا۔
عمران خان کی حکومت کے بعد میرا خیال تھا پنجاب میں شاید اب استحکام آ جائے گا مگر افسوس آنے والے دن پچھلے دنوں سے زیادہ بدتر ثابت ہوئے اور پنجاب چار ماہ سے سیاسی جنگ کا میدان بنا ہوا ہے، چوہدری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ بن چکے ہیں لیکن یہ کتنے دن ٹکتے ہیں یہ کوئی نہیں جانتا، کیوں؟ کیوں کہ عمران خان نے ق لیگ کے دس ارکان کو وزارتیں نہ دے کر انھیں چوہدری شجاعت حسین کی طرف دھکیل دیا ہے اور پی ڈی ایم نے چوہدری شجاعت کو پیش کش کر دی ہے آپ اپنے دس ارکان کو واپس لے آئیں آپ جس کوکہیں گے ہم اسے وزیراعلیٰ بنا دیں گے۔
گویا پنجاب کی قسمت ہی خراب ہے، یہ ایک بار پھر سیاسی افراتفری کی طرف بڑھ رہا ہے اور اگر اس کو نہ روکا گیا تو یہ ثابت ہو جائے گا یہ پورا ملک چار سال سے سانو۔۔ کی پر چل رہا ہے، معیشت تباہ ہو جائے، اسٹاک ایکسچینج بیٹھ جائے، ملک سیاسی تنہائی کا شکار ہو جائے یا روز لشکر ملک بند کر دیں، سیاست دانوں سے لے کرعدلیہ تک تمام مقتدر طاقتوں کا صرف ایک ہی ایکسپریشن ہوتا ہے سانو۔۔ کی اور آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے اس ایکسپریشن کے ساتھ یہ ملک مزید کتنی دیرچل سکے گا؟