سنگساری
حضرت عیسیٰ ؑ یروشلم کے گاؤں بیت اللحم میں پیدا ہوئے، یہ یہودیوں کا گاؤں تھا، حضرت عیسیٰ ؑ پیدائشی نبی تھے، لوگ ان کا بے انتہا احترام کرتے تھے، حضرت عیسیٰ ؑ نے جوانی میں ایک عجیب منظر دیکھا، گاؤں کے مردوں نے ہاتھوں میں پتھر اٹھا رکھے تھے، یہ لوگ دائرے میں کھڑے تھے، دائرے کے عین درمیان ایک جوان عورت کھڑی تھی، لوگ ہاتھوں میں پتھر تولتے تھے، غصے سے عورت کی طرف دیکھتے تھے اورپھر پتھر اچھالنے کی پوزیشن بناتے تھے اور عورت بری طرح چلاتی تھی، حضرت عیسیٰ ؑ نے ماجرا پوچھا، بتایا گیا، یہ عورت زانی ہے اور اسے سنگسار کیا جا رہا ہے، حضرت عیسیٰ ؑ یہ سن کر پریشان ہو گئے، یہ آگے بڑھے، عورت کے قریب پہنچے اور ہجوم سے مخاطب ہوئے " میں سزا کی تائید کرتا ہوں، اور یہ سزا بھی مذہب کے عین مطابق ہے لیکن میری بس ایک درخواست ہے، اس عورت کو پہلا پتھر وہ مارے جس نے آج تک یہ گناہ نہیں کیا"
بنی اسرائیلی حضرت عیسیٰ ؑ کے معجزوں سے واقف تھے، وہ جانتے تھے، آپؑ نیک روح ہیں، آپؑ نے پیدائش کے فوراً بعد بولنا شروع کر دیا تھا، آپؑ مُردوں کو زندہ کر دیتے ہیں، ہاتھ لگا کر کوڑھیوں کا کوڑھ ختم کر دیتے ہیں اور آپؑ کی دعاؤں میں بہت اثر ہے، وہ جانتے تھے، ہم نے اگر غلط بیانی کی تو اس نیک انسان کی بددعا ہمیں برباد کر دے گی چنانچہ تمام لوگ پتھر نیچے پھینک کر گھروں کو واپس چلے گئے، آخر میں وہاں صرف وہ عورت اور حضرت عیسیٰ ؑ رہ گئے، عیسائی مورخین میں اس عورت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے، بعض مورخین کا خیال ہے، اس عورت کا نام میری میکڈلین تھا، یہ عورت حضرت عیسیٰ ؑ کے گھر آئی اور اس نے باقی زندگی ان کی خدمت میں گزار دی، عیسائیوں میں ایک ایسا طبقہ بھی موجود ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے، یہ خاتون بعد ازاں حضرت عیسیٰ ؑ کے عقد میں آئیں، اس میں سے اولاد نرینہ پیدا ہوئی اور یہ اولاد "ڈاونچی کوڈ" کی شکل میں اس وقت بھی دنیا میں موجود ہے، یہ خاتون حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں بنائی جانے والی زیادہ تر پینٹنگز میں بھی نظر آتی ہے، یہ آپ کو لیونارڈو ڈاونچی کی "لاسٹ سپر" میں بھی دکھائی دے گی اور یہ آپ کو حضرت مریم ؑ کے ساتھ ان تصویروں میں بھی نظر آئے گی جو اس وقت کو بیان کرتی ہیں ۔
جب حضرت مریم ؑ نے حضرت عیسیٰ ؑ کی نعش صلیب سے اتاری اور یہ اپنے مظلوم بیٹے کا سرگود میں رکھ کر تصویرِ غم بن گئیں، یہ سب عیسائیوں کے عقائد اور روایات ہیں، ہم مسلمانوں کو ان روایات سے اختلاف ہے لیکن پتھر اور اس زانیہ کا واقعہ تمام لوگوں نے کم وبیش اس پیرائے میں پڑھا ہو گا، یہ واقعہ ثابت کرتا ہے، سنگساری کی سزا یہودی روایت تھی، (تورات میں رجم کا حکم بھی موجود ہے)، یہودی زنا کاروں کو پتھر مار کرہلاک کردیتے تھے، حضرت عیسیٰ ؑ کیونکہ نسلاً یہودی تھے چنانچہ آپ ؑ کے گاؤں میں بھی یہودی قوانین رائج تھے مگر حضرت عیسیٰ ؑ نے اس خاتون کو بچا کر یہ روایت توڑ دی، حضرت عیسیٰ ؑ 33 سال کی عمر میں آسمانوں پراٹھا لیے گئے، عیسائیت اس وقت بیت اللحم تک محدود تھی چنانچہ ہم پورے یقین سے نہیں کہہ سکتے حضرت عیسیٰ ؑ نے زنا کاروں کے ساتھ کیا سلوک کیا تاہم یہودی حضرت عیسیٰ ؑ کی آمد کے بعد بھی زانیوں کو سنگ سار کرتے رہے۔
نبی رسالتؐ دنیا میں تشریف لائے، آپؐ نے 13 سال مکہ میں تبلیغ فرمائی اور اس کے بعد مدینہ ہجرت کر گئے، مدینہ میں اس وقت یہودیوں کا غلبہ تھا، نبی اکرمؐ کی تشریف آوری سے قبل وہاں کے زیادہ تر قوانین یہودی تھے، مسلمان شروع میں کمزور تھے، یہ تعداد میں بھی کم تھے، ان کے پاس وسائل بھی محدود تھے اور قرآن مجید بھی اس وقت تک مکمل نہیں ہوا تھا چنانچہ مسلمانوں نے مقامی قوانین کو محدود وقت کے لیے قبول کر لیا، یہ قوانین اس وقت تک جوں کے توں رہے، جب تک قرآن مجید کے احکامات نازل نہیں ہوئے، میں نے سیرت کا جتنا مطالعہ کیا (یہ مطالعہ محدود ہے) اس میں نبی اکرمؐ کی مدینہ میں موجودگی کے دوران رجم کے دو واقعات سامنے آتے ہیں، ایک مرد کو سزا دی گئی اور دوسری سزا ایک خاتون کو ملی، یہ دونوں سزائیں گرفتاری، تفتیش یا گواہوں کی بنیاد پر نہیں دی گئی تھیں، یہ ملزمان کی طرف سے لوگوں کے درمیان کھڑے ہو کر اعتراف گناہ اور ملزمان کی طرف سے سزا کی درخواست پر دی گئی تھیں ۔
مرد ماعز بن مالک کا تعلق قبیلہ اسلم سے تھا، یہ چار بار رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور لوگوں کے درمیان کھڑے ہو کر اعتراف گناہ کیا، رسول اللہ ﷺ نے اسے ہر بار واپس بھجوا دیا، یہ نہ ٹلہ تو حد نافذ کر دی، میں نے ایک کتاب میں یہ بھی پڑھا، صحابہؓ جب اسے سزا دے کر واپس آئے تو ایک صحابیؓ نے بتایا، ہم نے جب اسے پتھر مارنے شروع کیے تو وہ بھاگنے لگا، میرے ہاتھ میں اونٹ کی ران کی ہڈی تھی، میں نے اس کے سر میں ماری تو وہ گر گیا، یہ سن کر نبی اکرمؐ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور آپؐ نے فرمایا " وہ اگر بھاگ رہا تھا تو اسے بھاگنے دینا تھا" خاتون کا واقعہ بھی حیران کن تھا، قبیلہ غامد کی خاتون آئی، آپؐ کے کان میں عرض کیا، میں گناہ گار ہوں، آپؐ نے بات سنی ان سنی کر دی، وہ دوسرے کان کی طرف آئی، وہاں بھی یہی عرض کیا، آپؐ نے بات پھر سنی ان سنی کر دی، اس کے بعد اس نے اتنی اونچی آواز میں اپنے گناہ کا اعتراف کیا کہ وہاں موجود لوگوں نے سن لیا، آپؐ نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا، عورت نے بتایا "میں حاملہ ہوں " آپؐ نے فرمایا، تمہارے گناہ میں بچے کا کیا قصور ہے، اسے پیدا ہونے دو، پھر آنا، عورت چلی گئی، بچہ پیدا ہوا تو پھر واپس آ گئی، فرمایا، بچے کا ماں کے دودھ پر حق ہے، یہ حق اس سے نہیں چھینا جا سکتا، یہ دودھ کی عمر گزار لے تو پھر آنا، عورت تیسری بار آئی تو بچہ اڑھائی سال کا ہو چکا تھا اور اس کے ہاتھ میں روٹی تھی، یوں عورت کو گناہ کے سوا تین سال بعد سزا دی گئی اور اس دوران بھی اسے سزا سے بچنے کے چار مواقع دیے گئے، آپؐ نے دو مواقع اس وقت دیے جب اس نے آپؐ کے کانوں میں اعتراف کیا تھا اور دو مواقع حمل اور بچے کے دودھ کی بنیاد پر فراہم کیے گئے لیکن جب خاتون کا اصرار حد سے بڑھ گیا اور اس نے کسی موقع کا فائدہ نہ اٹھایا تو فیصلہ کر دیا گیا۔
میں ملک کے علماء کرام، مفتی صاحبان، سیرت نگاروں اور مورخین کے سامنے چند سوالات رکھنا چاہتا ہوں، میرا علم محدود اور اسلامی علم انتہائی محدود ہے، میں علماء کرام سے سیکھنا چاہتا ہوں، مجھے امید ہے، علماء کرام میرے سوالات پر ناراض بھی نہیں ہوں گے اور میرے ایمان کو بھی شک کی نظروں سے نہیں دیکھیں گے، میرا پہلا سوال یہ ہے، کیا قرآن مجید نے کسی جگہ زنا کاروں کو سنگسار کرنے کا حکم صادر کیا؟ اگر ہاں تو وہ آیات کہاں ہیں؟ اگر نہیں تو پھر ہمارے ملک میں سنگساری کا مطالبہ کیوں کیا جاتا ہے؟ نبی اکرمؐ سے منسوب سزا کے اوپر بیان کردہ دونوں واقعات کب وقوع پذیر ہوئے، یہ واقعات سورۃ النور کے نزول سے پہلے کے واقعات ہیں یا سورۃ النور کی ان آیات کے نزول کے بعد وقوع پذیر ہوئے جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے زنا کی حد طے فرمائی، اگر یہ دونوں واقعات آیات کے نزول سے پہلے کے ہیں تو کیا پھر رجم درست ہے؟ کیا حیات طیبہ میں ان دو واقعات کے علاوہ کوئی تیسرا واقعہ موجود ہے؟ اگر نہیں تو کیا ان دو واقعات کے بعد اسلامی ریاست میں ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا؟ اگر واقعہ پیش آیا تو پھر مجرم کو کیا سزا دی گئی۔
ان دونوں واقعات میں اعتراف گناہ کے بعد سزا دی گئی، تفتیش یا گواہی کی بنیاد پر نہیں، کیا نبی اکرم ؐ کے دور میں شکایت، گواہی اور تفتیش کی بنیاد پر بھی کسی کو سنگسار کیا گیا؟ اگر نہیں تو کیا ہم تفتیش کے بعد کسی کو سنگسار کر سکتے ہیں؟ نبی اکرمؐ کے بعد چار خلفاء راشد کا دور آیا، کیا خلفاء راشدین نے کسی کو پتھر مروائے؟ حضرت عمرؓ کے دور میں اسلامی ریاست 22 لاکھ مربع میل تک پھیل گئی، دنیا کی درجنوں ثقافتیں، زبانیں اور نسلیں اسلامی ریاست کے زیر سایہ آ گئیں، حضرت عمرؓ کے دور میں اگر کوئی ایسا واقعہ پیش آیا تو حضرت عمرؓ، حضرت عثمان ؓ اور حضرت علیؓ نے کیا سزاتجویز کی؟ کیا ان کے ادوار میں مجرموں کو پتھر مارے گئے، اگر ہاں تو کیا پتھر مارنے والوں کو خلیفہ کی رضا مندی حاصل تھی؟ زنا کے گناہ کا فیصلہ کون کر سکتا ہے؟
کیا اسلام میں زنا کے علاوہ کوئی ایسا دوسرا گناہ، کوئی ایسا دوسرا جرم موجود ہے جس کی حدود کے لیے چار گواہوں کی ضرورت ہو اور یہ چار گواہ بھی وہ لوگ ہوں جن کے تقویٰ، جن کی صداقت پر کوئی شخص اعتراض نہ کرسکے اور یہ چار صادق اور متقی لوگ اللہ کو حاضر ناظر جان کر یہ گواہی دیں، ہم نے یہ سارا عمل اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور اگر کسی ایک گواہ کی صداقت یا تقویٰ چیلنج ہو جائے تو کیا اس کے باوجود حد نافذ ہو سکتی ہے؟ اور آخری سوال، مجرموں کو سزا دینا ریاست کا کام ہے یا پھر یہ فریضہ عام لوگ بھی سرانجام دے سکتے ہیں؟ اگر یہ ذمے داری ریاست پر عائد ہوتی ہے تو پھر لورا لائی میں مرد اور خاتون کو سنگ سار کرنے والے لوگ کون ہیں۔
میں یہ معاملہ علماء کرام کے سامنے رکھتا ہوں، ہمیں آپ لوگوں کی رہنمائی چاہیے، آپ اس ای میل (jamshaid77@gmail۔com) پر اپنا جواب بھجوا دیجیے، اگر آپ کا جواب مدلل ہوا تو انشاء اللہ ضرور شایع ہوگا۔ اللہ تعالیٰ آپ اور ہم پر رحم فرمائے۔