سفر درسفر
سحری کے وقت ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی، میں بیل ویل" کے جس اپارٹمنٹ میں ٹھہرا ہوا ہوں، اس کے سامنے سڑک ہے اور سڑک پر درجنوں درختوں کی طویل قطار ہے، اپارٹمنٹ کی کھڑکیاں سڑک کی طرف کھلتی ہیں، میں نے کمرے کی دونوں کھڑکیاں کھول دیں، بارش پتوں پر گر رہی تھی، لیمپ پوسٹ کی روشنیاں سبز پتوں کو چاندی میں بدل رہی تھیں اور میں وارفتگی کے عالم میں یہ منظر دیکھ رہا تھا، یہ فقط منظر نہیں تھا، یہ یادوں کے گزرے قافلوں کی وہ گرد تھا جسے انسان چاہنے کے باوجود منہ سے نہیں دھونا چاہتا یا پھر یہ دشت تنہائی میں یاد کے وہ لرزتے سائے تھے انسان جسے ہونٹوں کے سراب سمجھ کر پوری زندگی گزار دیتا ہے۔
پیرس شہر رات کے آخری سمے بھی جاگ رہا تھا، کل فرانس اور جرمنی کا فٹ بال میچ تھا، فرانس کی ٹیم کوارٹر فائنل ہار گئی، پیرس شہر ہار کے اس غم میں جاگ رہا تھا، ہفتے کو کولمبیا اور برازیل کا میچ تھا، پیرس میں موجود دونوں ملکوں کے شہری میچ کی "ایکسائیٹمنٹ" میں جاگ رہے تھے۔"ویک اینڈ" تھا، نوجوان ویک اینڈ منانے کی کوشش میں جاگ رہے تھے جب کہ "بیل ویل" میں عرب رہتے ہیں، یہ عرب روزہ رکھنے کے لیے جاگ رہے تھے اورمیں سحری کے وقت سحری اور بارش دونوں کے لیے جاگ رہا تھا، یہ ایک عجیب رات تھی۔
سفر میرا جنون ہے، میں نے اس جنون سے نکلنے کی ساری کوششیں کر دیکھی ہیں لیکن میں اس پاگل پن پر قابو نہیں پا سکا، یہ جنون ایک دو ہفتوں کے بعد فشار خون بن کر کنپٹیوں میں آگ لگا دیتا ہے اور میں پاگلوں کی طرح زنجیریں توڑ کر نکل جاتا ہوں، میں اللہ تعالی کا پسندیدہ پاگل ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے صرف جنون نہیں بخشا بلکہ اس نے مجھے جنون کو مطمئن کرنے کے اسباب سے بھی نواز رکھا ہے چنانچہ مجھے دو دن بھی ملتے ہیں تو میں ملک کی سرحدوں سے باہر نکل جاتا ہوں۔
جمعرات کو پروگرام کے بعدفلائیٹ لیتا ہوں اور پیر کو پروگرام سے قبل واپس پہنچ جاتا ہوں، یہ اللہ تعالی کا خاص کرم ہے، اس نے وقت کے اس خاص موڑ پر پیدا کیا جب فاصلے اور ابلاغ دونوں مسئلے نہیں ہیں، آپ صبح تین چار بجے کی فلائیٹ لیتے ہیں اور اگلے دن بارہ، ایک بجے سات سمندر پار بیٹھے ہوتے ہیں، آپ انٹر نیٹ، وائبر اور واٹس ایپ کے ذریعے پوری دنیا سے رابطے میں رہتے ہیں، میں اگر پچاس ساٹھ سال قبل جوان ہوتا تو میں یقینا ان سہولتوں سے فائدہ نہ اٹھا سکتا، یہ خدا کا خاص کرم ہے۔
اللہ تعالی نے وسائل بھی دے دیئے ہیں، ہمت بھی عنایت کر دی، سفر کا خوف بھی ختم کر دیا اور نیند پر قابو بھی دے دیا، میں جہاز کی سیٹ پر نیند پوری کر لیتا ہوں، جہاز میں سوار ہوتے ہی سو جاتا ہوں اور منزل پر پہنچ کر اٹھ جاتا ہوں، میری شدید خواہش ہے اللہ کی بنائی یہ ساری دنیا دیکھ کر دنیا سے رخصت ہوں، میں قدرت کا یہ پورا کارخانہ دیکھنا چاہتا ہوں، آپ یقین کیجیے میں جوں جوں دنیا دیکھ رہا ہوں توں توں اللہ تعالیٰ پر یقین پختہ ہو رہا ہے، یہ دنیا اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
آپ اگر ایک بار اسے کھلی آنکھوں سے دیکھ لیں تو آپ کو کسی دوسری دلیل، کسی دوسرے معجزے کی ضرورت نہیں رہتی، صحرا کی کروٹیں بدلتی ریت، سمندروں کی تہوں میں زندگی کے لہلہاتے کھیت، پہاڑوں کی انتہائی بلندیوں پر چٹیل میدان، برف کی پچاس پچاس میٹر موٹی تہہ کے نیچے چلتی کشتیاں، ان دیکھے جزیروں پر انسانی قدموں کے نشان اور قدیم غاروں میں ناخنوں سے تراشی ہوئی عبارتیں، یہ کیا ہیں؟ یہ اللہ تعالیٰ کی وہ آیتیں ہیں جو انسان کو پکار پکار کر کہتی ہیں، کیا تمہیں اب بھی میرے مالک کائنات ہونے کے لیے کسی دوسری دلیل کی ضرورت ہے؟
دنیا میں علم کے تین ذرائع ہیں، کتاب، سفر اور روح۔ دانشوروں کے علم کی بنیاد مطالعہ ہوتا ہے، آپ پڑھتے رہتے ہیں، پڑھتے رہتے ہیں اور ایک ایسا وقت آتا ہے جب آپ کی ذات کے گھپ اندھے غار میں علم کی شمع روشن ہو جاتی ہے یا پھر آپ کے پیروں میں سیاحوں کی طرح پر اُگ آتے ہیں، آپ ان دیکھے راستوں پر نکل کھڑے ہوتے ہیں، آپ اجنبی زمینیں، اجنبی چہرے، اجنبی زبانیں اور اجنبی ثقافتیں دیکھتے ہیں اور پھر اچانک پہاڑ کی کسی چھوٹی پر آپ کو بزوان ہو جاتا ہے، آپ کے اندر روشنی پھیل جاتی ہے اور علم کاتیسرا ذریعہ روح ہے۔
آپ اللہ سے لو لگا لیتے ہیں، آپ کائنات کے کل سے جڑ جاتے ہیں، آپ تپسیا کرتے ہیں، روح کے کیمیا گروں سے ملتے ہیں، درگاہوں پر دس دس سال گزار دیتے ہیں، وظیفے کرتے ہیں، جاپ کرتے ہیں اور تسبیاں پھیرتے ہیں اور پھر ایک دن آپ پر حقیقتیں آشکار ہونے لگتی ہیں، کوئی آتا ہے اور آپ کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے اور آپ اندھیروں سے روشنیوں میں آ جاتے ہیں، میں اللہ کا پسندیدہ پاگل ہوں، اللہ تعالیٰ نے مجھ پر علم کے یہ تینوں راستے کھول رکھے ہیں، کتاب سے تعلق قائم ہے، سفر کا جنون ہے اور روح کے بادشاہوں کے در کا فقیر ہوں چنانچہ جس طرف دیکھتا ہوں اللہ کاکرم ہی کرم ہے، اللہ نے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ذلت سے بچا رکھا ہے، لوگوں کے صرف احسان ہیں خیرات نہیں، مہربانیاں ہیں مجبوریاں نہیں اور محبتیں ہیں زبردستی نہیں۔
آپ کو اگر سفر کا موقع ملے تو آپ دنیا کو تین حصوں میں تقسیم کر لیں، غریب دنیا، امیر دنیا اور حیران کن دنیا۔ یہ تین دنیائیں ہیں، یہ تینوں نظروں، کانوں، قدموں اور شعور کا مطالعہ ہیں، آپ غریب دنیا میں غربت، پسماندگی، انسانی بے چارگی اور معاشرتی بے بسی کا مطالعہ کر سکتے ہیں، وہ کون سے حالات ہیں جو انسان کو بے بس کر دیتے ہیں، جو دھڑکتے مچلتے انسان کو بے چارہ بنا دیتے ہیں اور جو اسے پسماندگی اور غربت کے اندھے کنوئیں میں پھینک دیتے ہیں، میں نے اب تک غریب ملکوں میں چار مشترک خرابیاں دیکھی ہیں، خانہ جنگی، کرپشن، جہالت اور بے ایمان لیڈر شپ۔ آپ ایتھوپیا سے افغانستان تک دنیا کے غریب خطے دیکھ لیجیے، آپ کو وہاں خانہ جنگی بھی ملے گی۔
کرپشن بھی، جہالت بھی اور بے ایمان لیڈرشپ بھی اور دنیا کا ہر وہ ملک جو چاروں خامیوں پر قابو پاتا جا رہا ہے، جس نے ایماندار لیڈرشپ کا بندوبست کر لیا، جس نے تعلیم عام کر لی، جس نے کرپشن کے جن کو بوتل میں بند کر لیا اور جس نے فرقہ واریت، نسل پرستی، طالبانائزیشن، فوجی آمریت اور قتل و غارت گری روک لی، وہ ملک پسماندگی سے خوش حالی کے راستے پر آ گیا، دنیا کی جو قوم ان چار خامیوں پر قابو پا لیتی ہے اور اس کے بعد وہ ملک میں میرٹ، انصاف اورلاء اینڈ آرڈر لے آتی ہے وہ دس سال میں دنیا کی بیس بڑی معیشتوں میں شامل ہو جاتی ہے، دنیا میں ایسے درجنوں ملک ہیں۔
آپ غریب دنیا کے بعد امیر دنیا کے سفر کریں، یورپ جائیں، امریکا، کینیڈا، جاپان، آسٹریلیا اورسنگا پور دیکھیں، آپ کو معلوم ہو گا امیر دنیا میں قانون کی حکمرانی ہے، صدر اور عام مزدور برابر ہیں، آپ پہاڑ پر ہوں یا سمندر کے کنارے آپ کو سڑک، بجلی، گیس، ٹیلی فون اور پبلک ٹرانسپورٹ ضرور ملے گی، حکومت آپ کو تعلیم اور صحت کی سہولت مفت دے گی، ماحول صاف ستھرا ہو گا، معاشرے میں سلیقہ اور نظم و ضبط ہو گا، لوگ آہستہ آہستہ بولیں گے، وقت کی پابندی ہو گی، قطار کا احترام کیا جائے گا، پروٹوکول نہیں ہو گا، بے ایمانی اورچوری نہیں ہو گی، لوگ واک اور ایکسرسائز کریں گے، اپنے کام سے کام رکھیں گے، اپنے وسائل کے اندر رہ کر زندگی گزاریں گے، کوئی دوسرے کی ناک کی حدود پامال کرنے کی کوشش نہیں کرے گا، یہ دنیا کتابوں، لائبریریوں، چاندی جیسے ساحلوں، پارکوں، جھیلوں، ریستورانوں، یونیورسٹیوں، لیبارٹریوں اور سڑکوں، ائیرپورٹس اور بندر گاہوں کی دنیا ہو گی، اس میں مستی میں ناچتے نوجوان بھی ہوں گے اور کافی شاپس میں بیٹھے دانشور بھی اور پارکوں میں سائیکل چلاتے، دوڑتے، جاگنگ کرتے جوان بھی اور میلوں ٹھیلوں کو انجوائے کرتے خاندان بھی۔
آپ کو امیر دنیا میں ہر طرف دولت اور خوش حالی کے انبار ملیں گے، آپ کو خوشیاں اور مسرتیں دکھائی دیں گی، آپ اس کے بعد حیران کن دنیا کی تلاش میں نکلیں، یہ حیرتوں کی دنیا ہے، قدرت اور انسان کی تخلیق کردہ حیرتوں کی دنیا۔ آپ پہاڑوں پر جائیں، دیوسائی اور فیری میڈوز کوتلاش کریں، کے ٹو، نانگاپربت اور ماؤنٹ ایورسٹ کے بیس کیمپ تک جائیں، سری لنکا کے اس پہاڑ کی زیارت کریں جہاں حضرت آدم ؑ نے پہلا قدم رکھا تھا اور کنوؤں سے پانی نکالنے کاطریقہ وضع کیا تھا، برف کے ان غاروں میں جھانک کر دیکھیں جہاں صدیوں سے برف کی مورتیاں ایستادہ ہیں اور موسموں کی تبدیلیاں چپ چاپ ان کے قریب سے گزر جاتی ہیں، کیپری کے جزیرے پر جائیں، پمپئی کے اس شہر میں گھومیں جو حضرت داؤد ؑ کے دور میں آباد ہوا اور حضرت عیسیٰ ؑ کے انتقال (عیسائی عقیدے کے مطابق، ہم مسلمان اس عقیدے کو نہیں مانتے) کے 67 سال بعد آتش فشاں کی اڑائی راکھ میں دفن ہو گیا، تبت کے پہاڑوں پر جائیں جہاں دنیاکی ضخیم ترین مذہبی کتاب رکھی ہے۔
بودھ مت کی مذہبی کتاب کی 108 جلدیں ہیں اور ہر جلد ہزار صفحوں پر مشتمل ہے، چنائی کے اس مندر میں جائیں جہاں دنیا کے ہر شخص کی جنم کنڈلی موجود ہے، حضرت عیسیٰ ؑ کی جائے پیدائش پر جائیں، حضرت موسیٰ ؑ کے سینا اور کوہ طور کی زیارت کریں، فرعون کے اہراموں میں جھانکیں، موہن جو ڈارو، ہڑپہ اور جولیاں کے شہروں میں گھومیں، ماسکو سے لہاسا تک ٹرین کا سفر کریں، سائبیریا کی سفاری ٹرین لیں، کینیا کی جنگل سفاری کریں، میامی بیچ پر جائیں، آرلینڈو کا انسانی معجزہ اور ورلڈ ڈزنی دیکھیں، ارارات کے پہاڑ پر حضرت نوح ؑ کی کشتی کی باقیات کی زیارت کریں۔
امیر تیمور کا ازبکستان دیکھیں، چنگیز خان کا منگولیا دیکھیں، سکندر اعظم کا مقدونیہ دیکھیں، آسٹریا کے پہاڑوں کے اندر دو غاروں میں چھپی جھیلیں دیکھیں، سوئٹزرلینڈ کی جھیلیں، جنگل اور گلیشیئر دیکھیں، دیوار چین پر چہل قدم کریں، اوساکا شہر کا سمندر پر بنا ائیرپورٹ دیکھیں، آئفل ٹاور پر کھڑے ہو کر کافی پئیں، واٹر لو کے میدان میں کھڑے ہو کر نپولین کی فوجوں کو ہارتے ہوئے دیکھیں، وینس کے گنڈلوں میں بیٹھ کر مارکو پولو کے گھر کا چکر لگائیں، رات کے آخری پہر قرطبہ شہر کی خاموشی اور چڑھتے سورج کے ساتھ غرناطہ کے کنگ چیمبر میں فواروں کی پھڑپھڑاہٹ سنیں اور دنیا کے اس کونے میں جہاں پہاڑ، صحرا اور سمندر تینوں گلے ملتے ہیں وہاں خیمے میں لیٹ کر رات کو دن میں ڈھلتے ہوئے دیکھیں، حیرتوں اور معجزوں کا یہ سفر اللہ تعالیٰ پر آپ کا یقین مضبوط کردے گا، آپ اس کی بندگی کی پناہ میں آ جائیں گے۔
یہ دنیا "بودو " شہر پر جا کر ختم ہو جاتی ہے، یہ ناروے اور دنیا کا آخری ٹاؤن ہے، اس ٹاؤن میں دنیا ختم ہو جاتی ہے، یہ دنیا کا وہ مقام ہے جہاں 20 جون سے 20 جولائی تک سورج غروب نہیں ہوتا، آپ رات کے بارہ بجے بھی سورج کو چمکتے دیکھتے ہیں یا پھر یہاں سے تھوڑی دور قطب شمالی کی ہزاروں برس بوڑھی برفیں ہیں، یہ شہر، یہ مقام قدرت کی صناعی کا عجیب شاہکار ہے اور میں اس شاہکار کی تلاش میں نکلا ہوں، میں ایک دن پیرس رک کر بودو چلا جاؤں گا، بودو جہاں دنیا ختم ہو جاتی ہے، جہاں رات نہیں ہوتی اور جہاں سورج مہینہ بھر کے لیے ڈوبنا بھول جاتا ہے، یہ بودو شہر میری منزل ہے۔