پولیس کیا کرے
یہ 28 اپریل کا دن تھا، ڈیفنس آف ہیومن رائیٹس کی چیئر پرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے " مسنگ پرسنز" کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرے کی کال دے رکھی تھی، ملک بھر سے مظاہرین اسلام آباد پہنچ گئے، یہ لوگ ریڈ زون کے سامنے جمع ہو گئے، یہ ریڈ زون وزیرداخلہ (سابق) رحمن ملک نے ستمبر 2008ء میں میریٹ حملے کے بعد قائم کیا تھا، یہ چھ مربع کلومیٹر کا علاقہ ہے جو سرینا ہوٹل سے شروع ہوتا ہے اور پریڈ لین اور میریٹ سے ہوتا ہوا مارگلہ روڈ تک جاتا ہے۔
سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن، دفتر خارجہ، وزیر اعظم سیکریٹریٹ، پارلیمنٹ ہاؤس، وزیر اعظم ہاؤس، ایوان صدر، فیڈرل سیکریٹریٹ، چاروں صوبوں کے ہاؤسز، ریڈیو پاکستان، پاکستان ٹیلی ویژن اور سفارتی علاقہ اس ریڈ زون میں آتا ہے، اس زون میں 2008ء سے دفعہ 144 نافذ ہے، اس علاقے میں پانچ لوگوں کے اجتماع اور مظاہروں پر پابندی ہے، آمنہ مسعود جنجوعہ کی کال کے بعد اسلام آباد کی انتظامیہ اور پولیس ریڈ زون پہنچ گئی، اسلام آباد میں آج بھی پولیس ایکٹ 1861ء نافذ ہے، اس ایکٹ کے مطابق پولیس ضلعی انتظامیہ کے ماتحت ہے، علاقہ مجسٹریٹ پولیس کو جو احکامات دیتا ہے، پولیس اس پر عمل کی پابند ہوتی ہے۔
پولیس کے دو آفیسرز اے ایس پی سیکریٹریٹ ارم عباسی اور اے ایس پی سٹی یاسرآفریدی 28 اپریل کو ریڈ زون پہنچ گئے، مظاہرہ دس بجے شروع ہوا اور شام پانچ بجے تک جاری رہا، مظاہرین نے دو تین مرتبہ ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن پولیس نے انھیں واپس دھکیل دیا، مظاہرین پانچ بجے ریڈ زون میں داخل ہو گئے، پولیس نے مجسٹریٹ سے پوچھا، مجسٹریٹ نے پولیس کو لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے استعمال کا حکم دے دیا، پولیس نے لاٹھی چارج کیا، آنسو گیس پھینکی اور مظاہرین کو گرفتار کر کے گاڑیوں میں پھینک دیا، میں آمنہ مسعود جنجوعہ اور مسنگ پرسن کا حامی ہوں، مسنگ پرسنز میں شامل اکثر لوگ اور ان کے خاندان مظلوم ہیں۔
میں اکثر ان کے مظاہروں میں جاتا ہوں مگر میں اس کے ساتھ ساتھ قانون اور رول آف لاء کا حامی بھی ہوں، ملک میں قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے اور قانون کے مطابق پولیس کو اس دن مظاہرین کو روکنا چاہیے تھا اور پولیس نے یہ کیا، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قانون کے اس نفاذ پر پولیس بالخصوص دونوں اے ایس پیز کی تعریف کی لیکن پھر اسی رات دونوں اے ایس پیز کو معطل کر دیا گیا، یہ احکامات وزیر اعظم نے جاری کیے تھے، وزیر اعظم کا خیال تھا، پولیس نے مظاہرین پر تشدد کیا، یہ ایک واقعہ تھا، آپ اب دوسرا واقعہ ملاحظہ کیجیے۔
یہ 23 مئی کا دن تھا، پاکستان کے 140 سکھ اسلام آباد میں جمع ہوئے، یہ سکھ بھی مسنگ پرسنز کی طرح مظلوم ہیں، سکھ کمیونٹی کے اجتماع کی تین وجوہات تھیں، پہلی وجہ، تقسیم کے وقت سکھوں کی مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب کے درجنوں نسخے سندھ اور پنجاب کے مختلف گھروں میں رہ گئے، سندھ میں چند مہینوں سے بعض شرپسند گرنتھ صاحب کے صفحات پھاڑ کر مندروں کے سامنے پھینک رہے ہیں، مارچ 2014ء سے لے کر مئی 2014ء تک ایسے 16 واقعات رپورٹ ہوئے، یہ سکھوں کے مذہبی جذبات کی توہین ہے لہٰذا سکھ احتجاج پر مجبور ہوگئے، دوسری وجہ، تقسیم کے وقت پاکستانی علاقوں میں 408 گردوارے تھے۔
یہ گردوارے پرائم لوکیشنز پر انتہائی مہنگی جگہوں پر واقع تھے، ملک کے مختلف مافیاز آہستہ آہستہ ان گردواروں پر قبضہ کرتے رہے یہاں تک کہ 408 گردواروں میں سے صرف 44 بچ گئے اور ان میں سے بھی صرف 23 میں عبادت ہوتی ہے باقی تمام عمارتیں با اثر لوگ ہڑپ کر چکے ہیں، پاکستان میں گردوارے کی ملکیتی زمینیں بھی بیچ دی گئیں یا ان پر قبضہ کر لیا گیا، لاہور ڈی ایچ اے میں سمادی بھائی مان سنگھ کی 544 کنال اراضی تھی، یہ اراضی متروکہ وقف املاک بورڈ کے پاس تھی، آصف ہاشمی اویکیو ٹرسٹ بورڈ کے چیئرمین رہے، انھوں نے 544 کنال زمین بیچ دی، لاہور کی اعظم کلاتھ مارکیٹ میں سکھوں کے پانچویں گرو ارجن دیوجی کا گھر اور گردوارہ ہے، یہ چار سو سال پرانا گردوارہ ہے، گردوارے کے احاطے میں کمرشل پلازے بن گئے ہیں۔
لاہور کی بیدیاں روڈ پر گرونانک کی بڑی ہمشیرہ بی بی نانکی کی جائے پیدائش تھی، اس جگہ ڈیرہ چال کے نام سے گردوارہ قائم ہے، اس کی زمین بھی بیچ دی گئی، سکھ قبضہ گروپوں کی ان سرگرمیوں پر بھی ناراض تھے اور تیسری وجہ، سکھ چاہتے ہیں حکومت ان کی عبادت گاہوں اور مذہبی کتابوں کی حفاظت کے لیے بھی قانون بنائے، یہ گرنتھ صاحب کی توہین کرنے والوں کے لیے سزائے موت کا تعین کرے چنانچہ 23 مئی کو 140 سکھ ننکانہ صاحب، پشاور اور پنجہ صاحب سے اسلام آباد میں اکٹھے ہوئے، یہ پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کرنا چاہتے تھے، سکھوں نے اس مظاہرے کے لیے ضلعی انتظامیہ سے باقاعدہ اجازت لی، یہ لوگ اسلام آباد میں جمع ہوئے اور یہ اچانک ریڈ زون کی طرف چل پڑے، پولیس کو اطلاع ملی تو پولیس نے احکامات کے لیے ضلعی انتظامیہ سے رابطے شروع کر دیے مگر ضلعی انتظامیہ کو 28 اپریل کا "سانحہ" یاد تھا، یہ احکامات جاری کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔
پولیس بھی دو اے ایس پی معطل کرا کر خوف زدہ تھی چنانچہ پولیس نے سکھوں کو روکنے کی حتمی کوشش نہیں کی اور یوں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہجوم پارلیمنٹ ہاؤس کے گیٹ اور دروازے توڑ کر عمارت کے اندر گھس گیا، سکھ نوجوانوں نے پارلیمنٹ ہاؤس میں پارلیمنٹیرینز کے ڈائس پر بھی قبضہ کر لیا اور دھرنا دے کر بھی بیٹھ گئے، یہ خوفناک واقعہ تھا، وزارت داخلہ نے اس واقعے کے بعد بھی دس پولیس افسر معطل کر دیے، ان افسروں میں ایس پی پارلیمنٹ حبیب اللہ نیازی سمیت 4 ڈی ایس پی، دو انسپکٹر اور تین سب انسپکٹر شامل ہیں، پولیس کا کہنا ہے، ہمیں ضلعی انتظامیہ کی طرف سے سکھوں کو روکنے، لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے استعمال کے احکامات بروقت نہیں ملے تھے چنانچہ سکھ ریڈ زون میں بھی داخل ہوئے، پارلیمنٹ ہاؤس کا گیٹ بھی ٹوٹا، سکھ کمیونٹی پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر بھی داخل ہوئی اور یہ خبر عالمی میڈیا تک بھی پہنچی، بھارتی میڈیا نے بھی اس خبر کو خوب اچھالا۔
آپ اب صورتحال ملاحظہ کیجیے، پولیس نے 28 اپریل کو مظاہرین کو ریڈ زون میں داخل ہونے سے روکا، حکومتی اور ضلعی انتظامیہ کے احکامات پر عمل کیا، قانون کی عملداری اور "رٹ آف دی گورنمنٹ"اسٹیبلش کرنے کی کوشش کی، یہ لوگ اس جرم کی پاداش میں معطل ہو گئے، پولیس نے 23 مئی کو سکھ کمیونٹی کو ریڈ زون میں داخل ہونے سے نہیں روکا، پولیس ڈنڈے لے کر پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے کھڑی نہیں ہوئی، اس نے سکھ مظاہرین پر شروع میں ڈنڈے نہیں برسائے، آنسو گیس نہیں پھینکی اور اس نے سکھوں کو گرفتار نہیں کیا اور اس جرم کی پاداش میں بھی پولیس کے دس افسر معطل ہو گئے چنانچہ سوال یہ ہے پولیس کیا کرے؟ یہ قانون پر عمل کرائے یا نہ کرائے، میں پاکستانی پولیس کے کردار کا مخالف بھی ہوں اور ناقد بھی، میں یہ سمجھتا ہوں، یہ ملک "ویپن اسٹیٹ" بن چکا ہے اور جس ادارے، پارٹی یا گروپ کے پاس اسلحہ ہے وہ ملک کو آگے لگا لیتا ہے.
فوج کے پاس ہتھیار ہیں چنانچہ ملک میں چالیس سال مارشل لاء رہا، پولیس مسلح ہے چنانچہ یہ حکومت وقت کی خواہشات اور انا کی تسکین میں لگ جاتی ہے، یہ اپوزیشن کو ڈنڈے مارتی ہے اور یہ جب اس کام سے فارغ ہوتی ہے تو یہ عوام پر پل پڑتی ہے، طالبان بھی مسلح ہیں چنانچہ ریاست ان کے سامنے سر جھکا کر بیٹھی ہے اور کراچی میں بھی مسلح گروہوں کا قبضہ ہے چنانچہ ریاست وہاں بھی بے بس نظر آتی ہے، یہ تمام آثار ثابت کرتے ہیں یہ ملک "ویپن اسٹیٹ" ہے اور پولیس اس ویپن اسٹیٹ کا اہم ترین مہرہ ہے لیکن ہم ان دو واقعات کا تجزیہ کریں تو ہمیں پولیس مظلوم دکھائی دے گی۔
ہماری ریاست اور ہماری حکومت بدقسمتی سے دونوں کنفیوژ ہیں اور یہ کنفیوژن بڑی تیزی سے ریاستی اداروں کی قوت فیصلہ کھا رہی ہے، حکومت نے اگر جلد فیصلہ نہ کیا، یہ نفاذ قانون اور رٹ آف دی گورنمنٹ کے معاملے میں کلیئر نہ ہوئی تو پھر ہمارے تمام ریاستی ادارے بالخصوص پولیس، ضلعی انتظامیہ اور عدلیہ ختم ہو جائے گی، یہ معطلی کے ڈر سے کسی چور کو روکیں گے اور نہ ہی دہشت گرد کو۔
میری وزیراعظم سے درخواست ہے آپ فیصلہ کریں، حکومتی اداروں نے کرنا کیا ہے؟ یہ ریڈ زون کو قائم رکھیں یا پھر یہ ہجوموں کو پارلیمنٹ ہاؤس تک جانے دیں کیونکہ پولیس نے اگر دونوں صورتوں میں معطل ہی ہونا ہے تو پھر ان لوگوں کو نوکری کی کیا ضرورت ہے، یہ مظاہروں کے دوران میڈیکل سرٹیفکیٹ پیش کریں اور گھر جا کر سو جائیں، معاملہ ختم۔ ہم مرغابی کو ماریں یا مرغابی کو چھوڑ دیں، ہم ایک ہی وقت میں دونوں کام نہیں کرسکیں گے چنانچہ فیصلہ کریں اس سے قبل کہ فیصلہ کرنے کی مہلت ختم ہو جائے۔