پی آئی اے کے لیے
مجھے دو مہینوں میں چھ بار بین الاقوامی سفر کرنے کا موقع ملا، میں اس دوران چھ مختلف ائیر لائینز کا مسافر رہا، دو مرتبہ پی آئی اے کا مہمان بھی بنا، مارچ میں دی ہیگ کے لیے پی آئی اے کی پیرس کی فلائیٹ لی اور دوسری بار پانچ مئی کو لندن سے پی آئی اے کے ذریعے اسلام آباد آیا، پاکستان میں ہر ہفتے ایمریٹس، اتحاد اور قطر ائیر ویز کی درجنوں فلائیٹس آتی اور جاتی ہیں، یہ ہزاروں پاکستانیوں کو ہرہفتے ملک میں لاتی اور باہر لے جاتی ہیں، ان کے کرائے کم و بیش پی آئی اے کے برابر ہیں مگر جہازوں کے سائز، سہولتوں اور عملے کی شائستگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
یہ تینوں ائیر لائینز مسافروں کو بہت اچھا کھانا دیتی ہیں، جہاز کے اندر انٹر نیٹ کی سہولت بھی ہوتی ہے، لوگ دوران پرواز "وائبر" کے ذریعے ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں، واش رومز صاف ستھرے ہوتے ہیں، فضائی عملہ پانچ مسافروں کے بعد باتھ روم صاف کرتا ہے، آپ دس بار پانی، چائے، کافی یا سافٹ ڈرنک مانگیں، فضائی میزبانوں کے ماتھے پر بل نہیں پڑتا۔ جہاز میں سیکڑوں نئی پرانی فلموں، ٹی وی ڈراموں اور موسیقی کی چوائس موجود ہوتی ہے۔ کمبل بڑے، موٹے اور صاف ستھرے ہوتے ہیں، آپ کو کمبل پلاسٹک کے لفافے میں بند ملتے ہیں، آپ اپنے ہاتھوں سے کمبل کھولتے ہیں، ان تینوں ائیر لائینز کی بزنس کلاس شاندار اور جدید سہولتوں سے مزین ہے، نشستیں پورا بیڈ بن جاتی ہیں، دو مسافروں کے درمیان عارضی دیوار کھچ جاتی ہے، سیٹوں کے درمیان فاصلہ بھی زیادہ ہے۔
ائیر ہوسٹس مسافروں کو ان کے نام سے پکارتی ہیں، ناشتے، لنچ اور ڈنر کا باقاعدہ مینو کارڈ دیا جاتا ہے اور کھانا تازہ اور زیادہ ہوتا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں پی آئی اے کے حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں، میری سیٹ پیرس جاتے ہوئے ایمرجنسی ایگزٹ پر تھی، واش روم میرے سامنے تھا، میں ساڑھے چھ گھنٹے اس واش روم کو بھگتتا رہا، مسافر پیرس جا رہے تھے لیکن اکثریت کو واش روم استعمال کرنا نہیں آتا تھا، پرواز کے آدھ گھنٹے بعد واش روم کا فرش گیلا ہو گیا، کموڈ غلاظت سے بھر گیا، واش بیسن کا پائپ بند ہو گیا اور لیکوڈ سوپ کی بوتل فرش پر گر گئی، خواتین آتی تھیں، واش روم کا دروازہ کھول کر بچوں کو کھڑے کھڑے پیشاب کرواتی تھیں۔
ایک مسافر اندر ہوتا تھا اور دوسرا دروازے کو دھکے دینا شروع کر دیتا تھا، لوگ فلش کیے بغیر نکل جاتے تھے، ہمارے سیکشن میں بو پھیل گئی تو میں نے ائیر ہوسٹس سے باتھ روم کی صفائی کی درخواست کی، ان کا جواب بہت دلچسپ تھا، انھوں نے فرمایا " میں سویپر نہیں ہوں " میں نے ان سے پلاسٹک کا گلوز لیا اور اٹھ کر واش روم صاف کر دیا، مجھے اس کام میں صرف پانچ منٹ لگے، میں نے باقی تینوں ائیرلائینز میں ائیرہوسٹس کو باتھ رومز صاف کرتے دیکھا۔ میرا خیال تھا یہ معاملات صرف اکانومی کلاس میں ہوتے ہیں چنانچہ میں نے لندن سے اسلام آباد کے لیے بزنس کلاس کا ٹکٹ لے لیا مگر بزنس کلاس کا معیار بھی دوسری ائیر لائینز کے مقابلے میں بہت پست تھا، باتھ روم صاف تھا لیکن جہاز میں سوار ہو کر معلوم ہوا مسافروں کے لیے کھانا پاکستان سے آتا ہے۔
یہ کھانا رات کے وقت تیار ہوتا ہے، صبح ائیر پورٹ پہنچتا ہے، سات آٹھ گھنٹے کی فلائیٹ سے لندن اور پیرس آتا ہے، فلائیٹ وہاں دو گھنٹے رکتی ہے، مسافرسوار ہوتے ہیں اور جب ڈنر کی باری آتی ہے تو کھانے کو تقریباً چوبیس گھنٹے گزر چکے ہوتے ہیں، آپ اس سے کھانے کے معیار کا اندازہ کر سکتے ہیں، پی آئی اے بیرون ملک سے صرف عملے کے لیے کھانا خریدتا ہے کیونکہ عملے نے یہ باسی کھانا کھانے سے انکار کر دیا تھا لیکن مسافروں کو چوبیس گھنٹے پرانا کھانا کھلایا جاتا ہے، مسافر تقریباً دو لاکھ روپے میں بزنس کلاس کا ٹکٹ خریدتے ہیں لیکن پی آئی اے انھیں دو ہزار روپے کا تازہ کھانا نہیں دیتی ہے۔
میں پی آئی اے کے موجودہ انچارج شجاعت عظیم کا دل سے احترام کرتا ہوں، یہ میرے دوست طارق عظیم کے بھائی ہیں، یہ پی آئی اے کی "نشاۃ ثانیہ" کے لیے خاصا زور لگا رہے ہیں لیکن میری ان سے درخواست ہے، یہ نئے جہازوں کی خریداری کے ساتھ ساتھ موجودہ جہازوں کی حالت اور سروسز کے معیار پر بھی توجہ دیں، یہ حالات معمولی سی توجہ اور تھوڑی سی رقم سے ٹھیک ہو سکتے ہیں، پی آئی اے اگر سیٹوں کی ایک دو قطاریں ختم کر دے تو اس سے نشستیں کھلی ہو جائیں گی، مسافروں کو سہولت ہو جائے گی۔ ائیر ہوسٹس کو پابند کیا جائے یہ ہر دس پندرہ منٹ بعد واش رومز کا چکر لگائیں اور انھیں صاف کریں، فضائی عملے کو واش رومز کی صفائی کا مناسب اور جدید سامان بھی فراہم کر دیا جائے، پی آئی اے ائیرپورٹس پر ٹرینی عملہ رکھ لے۔
یہ عملہ مسافروں کو واش رومز کے استعمال کے بارے میں بتائے بالخصوص پہلی بار سفر کرنے والے مسافروں، بزرگوں اور بچوں کے ساتھ سفر کرنے والی خواتین کو واش روم کے بارے میں ضرور معلومات دی جائیں، یہ مسافروں کو سمجھائے جہاز کے واش روم ہنگامی حالت کے لیے ہوتے ہیں، آپ جہاز پر سوار ہونے سے قبل خود بھی لائونج کا واش روم استعمال کریں اور بچوں کو بھی کروا دیں، مائیں جہاز میں بچوں کی نیپی تبدیل نہ کریں، جہاز کی فضا آلودہ ہو جاتی ہے، مائیں یہ کام جہاز میں سوار ہونے سے پہلے کر سکتی ہیں، ائیر لائین کی سروس کے اسی فیصد کا دارومدار اس کے کھانے پر ہوتا ہے، آپ کھانے کے معاملے میں کنجوسی نہ کریں، آپ مسافروں سے کھانے کے پیسے وصول کرتے ہیں چنانچہ آپ دوسری ائیر لائینز کے مقابلے میں زیادہ اچھا کھانا دیں۔
پاکستان سے باسی کھانا نہ لائیں، لندن، پیرس اور نیویارک سے فریش کھانا لوڈ کیا کریں، پی آئی اے کے کمبل بہت پتلے، چھوٹے، سستے اور گندے ہیں، آپ یہ کمبل منہ پر لیتے ہیں تو ناف سے لے کر پائوں تک آپ کا دھڑ ننگا ہو جاتا ہے، آپ کمبل پائوں پر ڈالتے ہیں تو ناف سے سر تک ننگے رہ جاتے ہیں، کمبلوں سے بو بھی آتی ہے، آپ فوری طور پر یہ کمبل تبدیل کرا دیں، لمبے، موٹے اور اعلیٰ کوالٹی کے کمبل خریدیں، ایک استعمال کے بعد انھیں استری کرائیں اور یہ کمبل مسافروں کو لفافے میں پیک کرکے دیں، جہازوں کا وڈیو سسٹم اپ گریڈ کریں، آپ ایمریٹس، اتحاد اور قطر ائیر لائینز کی طرح ہر مہینے نئی فلمیں اپ لوڈ کریں تا کہ مسافروں کو تفریح کی زیادہ ورائٹی مل سکے۔
وڈیو گیمز بھی شروع کریں اور دوران پرواز " وائی فائی" کی سہولت بھی دیں، یہ سہولتیں اب بہت سستی ہو چکی ہیں، آپ چند ہزار ڈالر خرچ کر کے مسافروں کے سفر کو آرام دہ بنا سکتے ہیں، فضائی عملے کو بھی ٹریننگ کی ضرورت ہے، آپ انھیں بھی میزبانی کے جدید طریقے سکھائیں، چائے اور کافی کا معیار بھی "امپروو" کریں، پرواز کے شروع میں انائونسمنٹ ہوتی ہے، آپ اگر اس انائونسمنٹ میں جہاز میں دستیاب سہولتوں اور ان سہولتوں کے استعمال کے طریقوں کو بھی شامل کر لیں تو اس سے بھی مسافروں کو سہولت ہو گی۔
میں پانچ مئی کی شام لندن سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوا، ہیتھرو ائیر پورٹ پرپاکستانی ہائی کمیشن کے چار افسر تین مسافروں کی ایک فیملی کو بے تحاشا پروٹوکول دے رہے تھے، یہ چاروں سفارت کارفیملی کے بیگ اٹھا کر لائے، بک کروائے اوریہ بعدازاں تینوں مسافروں کے چھوٹے بیگ اٹھا کر جہاز میں داخل ہوئے، مسافروں کو سیٹوں پر بٹھایا، اپنے دست مبارک سے ان کے بیگ بالائی خانے میں رکھے اور ان سے اجازت لے کر جہاز سے باہر گئے، یہ سینئر افسر تھے مگر ان کے چہروں پر خوشامد اشتہار بن کر چمک رہی تھی، اس وی وی آئی پی فیملی میں دو خواتین اور ایک نوجوان شامل تھا۔
ان تینوں کے پروٹوکول نے جہاز میں سراسیمگی پھیلا دی اور مسافر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے، میرے ساتھی مسافر نے فضائی عملے سے فیملی کا حدود اربعہ پوچھا، پتہ چلا یہ وزیراعظم کے مشیر خارجہ طارق فاطمی کی اہلیہ ہیں، میرے ساتھی مسافر نے عملے سے پوچھا " کیا ان کے پاس بزنس کلاس کا ٹکٹ ہے؟ " عملے نے جواب دینے سے معذرت کر لی مگر جواب اس کے چہرے پر صاف لکھا تھا، ہم اس بحث میں نہیں پڑتے، یہ واقعی بزنس کلاس کے مسافر تھے یا پھر انھیں "اپ گریڈ" کیا گیا تھا، ہم صرف پروٹوکول کی بات کرتے ہیں، کیا ہم نے سفارت خانے مشیروں کی فیملیز کو ائیرپورٹس اور جہازوں میں پروٹوکول دینے کے لیے بنائے ہیں، اگرہاں تو پھر ہم سفارت خانوں کو پروٹوکول آفسز اور سفارت کاروں کو پروٹوکول افسرکیوں نہیں بنا دیتے؟
یہ پروٹوکول اگر جائز بھی ہے تو بھی یہ صرف طارق فاطمی کو ملنا چاہیے، ان کی غیر موجودگی میں ان کے اہل خانہ کس پوزیشن سے پروٹوکول لے رہے ہیں، سفارتی عملہ ان کے بیگ اٹھا کر جہاز میں کیوں رکھ رہا ہے؟ اور اگر یہ درست ہے تو پھر حکومت مہربانی فرما کر ملک کی ان تمام شخصیات اور ان کے خاندانوں کی فہرست جاری کر دے جن کو ہر مناسب اور نامناسب جگہ پر پروٹوکول ملے گا تا کہ قوم کو یہ مناظر دیکھ کر تکلیف نہ ہو، میں نے اپنی آنکھوں سے امریکی اور برطانوی سفیروں، وزراء اور مشیروں کو ائیرپورٹس پر اپنا بیگ خود اٹھاتے اور جہاز میں سوار ہوتے دیکھا ہے، یہ لوگ اکانومی کلاس میں سفر کرتے ہیں جب کہ ہمارے مشیروں اور وزیروں کی فیملیز تک کے نخرے ختم نہیں ہو رہے، ہم کس دور میں زندہ ہیں اور ہم اس دور سے کب باہر نکلیں گے جب ہر حکمران ظل الٰہی ہوتا تھا اور اس کے علاوہ پوری مخلوق غلام ہوتی تھی، یہ پروٹوکول اس ملک کی جان کب چھوڑے گا۔