پاشا ماڈل
فوج نے شمالی وزیرستان میں آپریشن کی پہلی سنجیدہ منصوبہ بندی اکتوبر 2010ء میں کی، جی ایچ کیو کے "وار روم" میں اعلیٰ سطح کی عسکری میٹنگ تھی، آئی ایس آئی کے ڈی جی جنرل احمد شجاع پاشا بھی میٹنگ میں شریک تھے، یہ آئی ایس آئی کے سربراہ بننے کے بعد فوجی حکمت عملی کے پراسیس سے الگ ہو چکے تھے لیکن یہ کیونکہ اپریل 2006ء سے اکتوبر 2008ء تک ڈی جی ملٹری آپریشنز بھی رہے تھے۔ انھوں نے سوات کے کامیاب آپریشن کی منصوبہ بندی بھی کی تھی اور یہ آئی ایس آئی کے ڈی جی بننے کے بعد امریکی انتظامیہ کے ساتھ بھی براہ راست ڈیل کرتے تھے چنانچہ انھیں بھی میٹنگ میں شرکت کی دعوت دی گئی.
جنرل پاشا نے میٹنگ میں شمالی وزیرستان میں آپریشن کا ایک ماڈل پیش کیا، میں آپ کی سہولت کے لیے اس ماڈل کا نام پاشا ماڈل رکھ رہا ہوں، جنرل پاشا نے پاک فوج کی اعلیٰ کمان کو مشورہ دیا " سی آئی اے اور پینٹا گان شمالی وزیرستان کی بحالی اور ترقی کے لیے ہر قسم کی مدد کے لیے تیار ہیں، ہمیں بس ایک مکمل اور جامع آپریشن کرنا ہوگا"۔
جنرل پاشا نے اس کے بعد پاشا ماڈل پیش کیا، جنرل کا خیال تھا "شمالی وزیرستان میں روایتی جنگ ممکن نہیں، دہشت گرد نسلوں سے اس علاقے میں رہ رہے ہیں، یہ زمین کے چپے چپے سے واقف ہیں، یہ لوگ زمین کے اندر خندقیں اور پہاڑوں میں میلوں لمبے غار بھی کھود چکے ہیں، ان کے پاس گولے، بارود اور جدید ترین اسلحے کے ذخائر بھی ہیں، یہ خود کش حملوں، بم دھماکوں اور پہاڑوں پر بیٹھ کر فائرنگ کے ماہر بھی ہیں اور یہ لوگ مشکل وقت میں افغانستان بھی چلے جاتے ہیں، افغانستان میں ان کی خفیہ اسٹیبلشمنٹ قائم ہے، یہ وہاں زمین جائیداد اور کاروبار کے مالک ہیں۔
ان کے پاس افغان شناختی کارڈ اور پاسپورٹس بھی ہیں اور افغانستان کے مختلف شہروں میں ان کے ٹھکانے بھی ہیں چنانچہ پاک فوج جب ان سے روایتی جنگ لڑے گی تو یہ شروع میں ہماری فوج کو شمالی وزیرستان میں داخل ہونے کا موقع دیں گے، ہم جب پوری طرح علاقے میں داخل ہو جائیں گے تو یہ فوج پر حملے شروع کر دیں گے، ہم پر گھروں کے اندر سے بھی حملے ہوں گے، پہاڑوں سے بھی، غاروں سے بھی اور خندقوں سے بھی۔ یہ فوج کی سپلائی لائین بھی آئے دن کاٹتے رہیں گے یوں ہماری فوج کو نقصان ہو گا، ہم جب اس نقصان کے بعد "ری ایکٹ" کریں گے تو یہ افغانستان بھاگ جائیں گے۔
محاذ پر خاموشی ہو جائے گی لیکن یہ لوگ چند ماہ بعد دوبارہ حملے کریں گے اور ہم ان حملوں کی وجہ سے شمالی وزیرستان میں مستقل فوج رکھنے پر مجبور ہو جائیں گے، اس فوج کے لیے سپلائی لائین بھی بنائی جائے گی اور اس پر اربوں روپے کے اخراجات ہوں گے، ہماری فوج کا ایک بڑا حصہ طویل مدت کے لیے وہاں انگیج رہے گا اور ہماری سویلین آبادی بھی "ڈس پلیسڈ" رہے گی، جنرل پاشا کا خیال تھا "ہمیں روایتی جنگ کے بجائے مستقل اور ٹھوس حل کی طرف جانا چاہیے، ہم علاقے میں منادی کروائیں، لوگوں کو علاقے سے نکلنے کے لیے ایک مہینہ دیں۔
سویلین آبادی کو نکالیں اور اس کے بعد میر علی اور میران شاہ دونوں قصبوں پر ہیوی بمباری کریں، جہازوں، ٹینکوں اور توپوں سے حملہ کیا جائے، ہم اس آپریشن کے بعد ملبہ اٹھائیں اور یہاں دو نئے اور جدید شہر آباد کر دیں، سویلین کو واپس لائیں اور انھیں نئے گھروں میں آباد کریں "۔ جنرل پاشا کا کہنا تھا" امریکی آپریشن، نئے شہروں کی تعمیر اورشہریوں کی آباد کاری کے لیے ہر قسم کی مدد دینے کے لیے تیار ہیں، یہ ان شہروں کی سیکیورٹی کا جدید انتظام بھی کریں گے" جنرل پاشا کا ماڈل پسند کیا گیا لیکن فوج کیونکہ اس وقت آپریشن نہیں کرنا چاہتی تھی چنانچہ یہ معاملہ وقت کی فائل میں دب گیا۔
ہماری افواج نے 15 جون سے شمالی وزیرستان میں باقاعدہ آپریشن شروع کر دیا، یہ آپریشن ضروری تھا کیونکہ دہشت گردی اب تک 60 ہزار لوگوں کی جانیں لے چکی ہے، یہ ریاست کو اندر اور باہر دونوں طرف سے کھوکھلا بھی کر چکی ہے، ہم اگر آج لڑنے کا فیصلہ نہ کرتے تو ہم شاید یہ فیصلہ کبھی نہ کر پاتے، میں میاں نواز شریف کی مذاکراتی حکمت عملی کا حامی تھا، حکومت کو مذاکرات کو موقع دینا چاہیے تھا اور حکومت نے طالبان کو یہ موقع ضرورت سے زیادہ دیا مگر دہشت گردوں نے اسے ریاست کی کمزوری سمجھا چنانچہ ریاست اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے پرمجبور ہوگئی۔
یہ مظاہرہ ضروری بھی تھا اور ناگزیر بھی اور قوم مذاکرات کی طرح اب آپریشن پر بھی حکومت کے ساتھ ہے لیکن ہمیں آپریشن کے ساتھ ساتھ دہشتگردی کی وجوہات پر بھی توجہ دینی ہوگی، ہم جب تک مسئلے کی ملکہ مکھی کو نہیں ماریں گے، دہشت گردی کے چھتے اس وقت تک ختم نہیں ہوں گے، دہشت گرد آج شمالی وزیرستان میں ہیں، یہ کل بلوچستان چلے جائیں گے، ہم وہاں فوج بھجوائیں گے تو یہ سندھ کے اندرونی علاقوں کی طرف نکل جائیں گے اور ہم انھیں وہاں گھیریں گے تو یہ جنوبی پنجاب میں پناہ لے لیں گے، ہم کہاں کہاں آپریشن کریں گے، ہم کہاں کہاں فوج بھیجیں گے لہٰذا ہمیں اس ناسور کا مستقل حل تلاش کرنا چاہیے۔
ملک میں دہشت گردی کی تین بڑی وجوہات ہیں، ہم جب تک یہ وجوہات دور نہیں کرتے، یہ سلسلہ آپریشنوں کے باوجود چلتا رہے گا، پہلی وجہ افغانستان کی منشیات ہیں، افغانستان کا قومی بجٹ سات ارب ڈالر ہے جب کہ وہاں 30 ارب ڈالر کی منشیات پیدا ہوتی ہیں، افغان منشیات فروشوں نے 2012ء میں صرف دوبئی میں 12 ارب ڈالر کی پراپرٹی خریدی، افغانستان نے 13-2012ء میں تین ہزار ٹن ہیروئن پیدا کی، افغانستان کی ہیروئن کا بڑا حصہ پاکستان میں فروخت ہوتا ہے یا پھر پاکستان کے راستے بین الاقوامی مارکیٹ میں جاتا ہے، فاٹا کے علاقے منشیات کے گودام ہیں، افغان منشیات ہمارے علاقوں میں ذخیرہ ہوتی ہیں اور یہاں سے باہر جاتی ہیں۔
یہ منشیات فروش دہشت گردوں کے سیاسی اور معاشی سپورٹر ہیں، ہم جب تک امریکا اور افغانستان کے ساتھ مل کر منشیات کا یہ کاروبار ختم نہیں کریں گے، ہم جب تک پاکستان کو ہیروئن، افیون اور چرس فری نہیں کریں گے، دہشت گردی کی سیاسی اور معاشی امداد اس وقت تک جاری رہے گی اوریوں دہشتگردی بھی جاری رہے گی، دو، طالبان۔ ہمیں طالبان کے مختلف گروپوں کا تجزیہ اور ان کے ایجنڈے کا مطالعہ بھی کرنا ہو گا، طالبان میں پانچ قسم کے لوگ ہیں، افغان طالبان، یہ گروپ القاعدہ اور تحریک طالبان افغانستان کے لوگوں پر مشتمل ہے، یہ لوگ عیسائی اور یہودیوں کو تباہ کرنے کے لیے ایک مضبوط اسلامی ملک چاہتے ہیں۔
افغانستان، سوڈان، کینیا اور پاکستان چار اسلامی ممالک ان کے ہدف ہیں، یہ لوگ ان چاروں ممالک میں کام کر رہے ہیں لیکن پاکستان ان کے لیے مناسب ترین ملک ہے، کیوں؟ کیونکہ پاکستان میں انفرا سٹرکچر بھی ہے، یہ جوہری بم بھی رکھتا ہے، اس کی آبادی بھی 19 کروڑ ہے اور پاکستانی عوام بھی امریکا، اسرائیل اور یورپ سے نفرت کرتے ہیں چنانچہ طالبان خواہ افغانستان میں بیٹھے ہوں یا سوڈان اور کینیا میں ان کا اصل ہدف پاکستان ہی رہے گا، ہم جب تک پاکستان کو ان لوگوں سے نہیں بچاتے یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا، پاکستانی مجاہدین، یہ لوگ افغانستان میں روس اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت سے لڑتے رہے، یہ جنگ کے لیے ٹرینڈ ہیں، 1990ء میں افغان جہاد ختم ہوا تو مجاہدین کا ایک حصہ فارغ ہوگیا۔
جنرل پرویز مشرف نے 2005ء میں کشمیر آپریشن ختم کرکے دوسرے حصے کو فارغ کر دیا، یہ دونوں مل گئے، یہ لوگ جنرل پرویز مشرف اور ان کی جہاد مخالف پالیسیوں کی وجہ سے فوج سے ناراض ہیں، یہ ڈرون حملوں پر بھی شدید غصے میں ہیں، ہم جب تک ان لوگوں کو نیوٹرل نہیں کریں گے، یہ ایکٹو رہیں گے، فرقہ پرست گروپ، یہ لوگ سنی شیعہ اختلافات کی پیداوار ہیں، ہمارے بعض مدارس اور چند علماء کرام ان کے سپورٹر ہیں۔
ہم جب تک ان علماء کرام اور ان مدارس تک نہیں پہنچتے، ہم ان کے جائز مطالبات نہیں مانتے، یہ گروپ بھی فعال رہیں گے، جرائم پیشہ گروپ، یہ لوگ ملک میں اغواء برائے تاوان، قتل، ڈکیتی، کار چوری، منشیات، بردہ فروشی اور بھتہ خوری کی وارداتیں کرتے ہیں اور پولیس، عدلیہ اور فوج سے بچنے کے لیے طالبان کے پیچھے پناہ لے لیتے ہیں، ہم جب تک انھیں مجرم سمجھ کر ان سے نہیں نبٹیں گے، یہ گروپ بھی جوں کے توں رہیں گے اور پانچواں اور آخری گروپ گڈ طالبان ہیں۔
یہ ریاست کے پالے ہوئے طالبان ہیں، ہم لوگ ان کے ذریعے 20 سال سے افغانستان کی خارجہ اور داخلہ پالیسی کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ لوگ جب پاکستان اور افغانستان میں حملے کرتے ہیں تو ہماری ریاست ملک کے اندر اور ملک کے باہر ان کی وکیل بن جاتی ہے، ہم جب تک یہ فیصلہ نہیں کریں گے، سفارت کاری وزارت خارجہ کا کام ہے، فوج کا نہیں، ملک میں اس وقت تک یہ گروپ بھی قائم رہے گا اور یوں ان کے ساتھ ہمارا مسئلہ زندہ رہے گا کیونکہ بیڈ طالبان کے بعد گڈ طالبان بیڈ ہو جائیں گے اور ہم ایک جنگ کے بعد دوسری میں پھنس جائیں گے۔
ہم اب تیسری وجہ کی طرف آتے ہیں، ہمارے ملک میں دہشت گردی کی تیسری وجہ مذہب کی ٹھیکیداری ہے، ہمارے ملک میں 72 قسم کے مسالک یا فرقے ہیں اور ہر فرقہ، ہر گروپ 19 کروڑ لوگوں پر اپنی مرضی کا اسلام نافذ کرنا چاہتا ہے، ملک میں موجود ہر فرقہ دوسرے فرقے کو کافر اور قابل گردن زنی سمجھتا ہے، یہ لوگ قرآن مجید بھی اپنے مفسروں کا پڑھتے ہیں اور دوسرے فرقے کی مسجدوں تک کو عبادت گاہ تسلیم نہیں کرتے، آپ ملک میں کسی بھی شخص کو شیعہ، وہابی، بریلوی یا اہل حدیث قرار دے کر اس کی جان خطرے میں ڈال سکتے ہیں، حکومت جب تک اس مذہبی سوچ کی جڑ نہیں کاٹتی، یہ تمام مسجدوں اور امام بارگاہوں کو قومی تحویل میں نہیں لیتی یہ فرقہ واریت پر پابندی نہیں لگاتی اور یہ متنازعہ کتابوں اورنفرت انگیز مذہبی تقریروں پر سزائے موت طے نہیں کرتی، یہ مسئلہ اور اس مسئلے سے جڑی دہشت گردی اس وقت تک ختم نہیں ہوگی چنانچہ ہمارے ملک، ہماری ریاست کو دہشت گردی کی مکمل بیخ کنی کے لیے عسکری کے ساتھ ساتھ سماجی پاشا ماڈل بھی درکار ہے، ہم جب تک ان دونوں ماڈلز کو بیک وقت متحرک نہیں کریں گے، یہ مسئلہ پھوڑے پھنسیوں کی طرح جوں کا توں رہے گا، سردی آئے گی تو پھوڑے غائب ہو جائیں گے لیکن مون سون کا موسم شروع ہوتے ہی دانوں میں دوبارہ پیپ پڑ جائے گی اور قوم ناخنوں سے اپنی پیٹھ کھرچنے میں مصروف ہو جائے گی۔