پابندی
پاکستان میں رمضان میں ریستوران، ہوٹلز، چائے خانے اور کافی شاپس دن بھر بند رہتی ہیں، یہ شام پانچ چھ بجے کھلتی ہیں اور اگلی صبح سحری تک کھلی رہتی ہیں لیکن سات اگست کو اسلام آباد میں کافی شاپس اور ریستوران دن کے وقت بھی کھلے تھے، یہ دروازے تک پیک بھی تھے اور اسلام آباد کے زیادہ تر شہری کافی شاپس، ریستوران اور چائے خانوں میں جمع تھے، اسلام آباد کے دفاتر میں بھی خاصا رش تھا، یہ رش پاکستان کی ہاکی ٹیم کی وجہ سے تھا، پاکستان کی ٹیم سات اگست کو آسٹریلیا سے میچ کھیل رہی تھی، یہ اولمپکس 2012ء کا 26واں ہاکی میچ تھا۔
پاکستان اگر یہ میچ جیت جاتا تو ہم سیمی فائنل میں پہنچ جاتے اور یہ بری خبروں میں لتھڑے اس معاشرے کے لیے خوشی کی بہت بڑی خبر ہوتی لیکن ایک گھنٹے 10 منٹ میں اس ہجوم پر اوس پڑ گئی، آسٹریلیا نے میچ شروع ہوتے ہی ہماری ٹیم کو دھونا شروع کیا اور یہ دھوتی چلی گئی، آسٹریلیا کی ٹیم نے پہلے ہاف میں پاکستان کے خلاف چار گول کر دیے، ہمارا میچ اخلاقاً ہاف تک ختم ہو گیا تھا لیکن اس کے باوجود ہمارے اندر امید کی چنگاری قائم رہی اور پاکستانی قوم یہ توقع لگائے بیٹھے رہی ہماری ٹیم شاید شاید دوسرے ہاف میں کوئی کرشمہ دکھا دے اور ہم ہارا ہوا میچ جیت جائیں لیکن جب بدقسمتی کے بادل چھاتے ہیں تو یہ چھاتے چلے جاتے ہیں۔
چنانچہ آسٹریلیا نے دوسرے ہاف میں مزید تین گول کر دیے اور یوں پاکستان سات کے مقابلے میں صفر گول سے ہار گیا۔ یہ ہار محض ایک ہار تھی۔ کھیل ہار اور جیت کی گیم ہوتے ہیں، کھلاڑیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے جو کھلاڑی ہارنا نہیں جانتا وہ کبھی جیت نہیں سکتا، کھیل انسان کو ہار برداشت کرنے کا حوصلہ دیتے ہیں اور ہر ہار کے بعد کھلاڑی میں جیتنے کی امنگ بڑھا دیتے ہیں اور یہ پلٹ کر جھپٹتا ہے چنانچہ ہمیں بھی اچھی اسپورٹس مین اسپرٹ کے ساتھ اس ہار کو حوصلے کے ساتھ برداشت کر لینا چاہیے لیکن اس حقیقت کے باوجود یہ ہار ہمارے منہ پر خوفناک طمانچہ ہے۔
پاکستان کبھی ہاکی میں ورلڈ چیمپئن ہوتا تھا اور سائوتھ افریقہ سے لے کر آسٹریلیا تک اس کی کامیابی کے جھنڈے لگتے تھے، ہمارے ہاکی کے کھلاڑی بے شمار نئی اختراعوں کے موجد ہیں، ہمارے کھلاڑیوں شہناز شیخ، حسن سردار، کلیم اللہ، سمیع اللہ اور شہباز سینئر نے دنیا میں بے شمار ریکارڈز قائم کیے ہیں، حسن سردار کو 1982ء میں بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا تھا، دنیا سمیع اللہ کو فلائنگ ہارس کے نام سے پکارتی تھی اور سہیل عباس دنیا کے بہترین پنلٹی کارنر اسپیشلسٹ ہیں، سہیل عباس نے سب سے زیادہ گول کرنے کا عالمی ریکارڈ بنایا تھا لیکن ہماری ہاکی ٹیم آج پاکستانی عوام کو ایک پل کی خوشی نہیں دے سکی اور ہم آج دنیا میں شرمندہ شرمندہ پھر رہے ہیں۔
کیا یہ بدقسمتی نہیں اور کیا ہمیں اس بدقسمتی پر اداس نہیں ہونا چاہیے!۔ اولمپکس دنیا میں کھیلوں کا سب سے بڑا مقابلہ ہوتا ہے، قومیں دہائیوں تک اس مقابلے کی تیاری اور انتظار کرتی ہیں اور جب ان کے کھلاڑی سونے، چاندی اور کانسی کے تمغے لے کر واپس لوٹتے ہیں تو پوری قوم ان کا استقبال کرتی ہے لیکن ہم بدقسمتی سے سیاست، معیشت، صنعت، ادب، فنون لطیفہ اور معاشرت کے ساتھ ساتھ کھیلوں میں بھی بری طرح مار کھا رہے ہیں، پاکستان 1948ء سے اولمپکس میں شریک ہو رہا ہے لیکن ہم نے 64 برسوں میں صرف دس تمغے حاصل کیے ہیں۔
ان تمغوں میں بھی 8 ہاکی سے حاصل ہوئے، ان میں سونے کے تین، چاندی کے تین اور کانسی کے دو تمغے شامل ہیں، ہم نے ان کے علاوہ آج تک ریسلنگ اور باکسنگ میں صرف دو تمغے حاصل کیے ہیں اور یہ میڈل بھی کانسی کے ہیں۔ آپ المیہ دیکھئے، آبادی کے لحاظ سے دنیا کے چھٹے بڑے ملک پاکستان نے 1992ء کے بعد پچھلے بیس برسوں میں اولمپکس میں کوئی تمغہ حاصل نہیں کیا جب کہ ہمارے مقابلے میں امریکا نے 2010ء تک 2549، سوویت یونین (روس) نے 1204، برطانیہ نے 737، فرانس نے 730، جرمنی نے 719 اور چین نے 429 تمغے حاصل کیے۔
یہ بڑے ملک ہیں اور ہمارا ان کے ساتھ مقابلہ نہیں ہو سکتا لیکن آپ تیسری دنیا کے ممالک کی صورتحال بھی ملاحظہ کر لیجیے، یوگو سلاویہ نے 84، ازبکستان نے 18، ترکی نے 82، تھائی لینڈ نے 21، سائوتھ افریقہ نے 70، نائیجیریا نے 23، منگولیا نے 19، قزاقستان نے 45، ایران نے 42، بھارت نے 20 اور برازیل نے 91 میڈل حاصل کیے ہیں۔ لندن اولمپکس میں چین اب تک 73، امریکا 70، برطانیہ 48، قزاقستان 7، ایران 8، سائوتھ افریقہ 4 اور کینیا 5 میڈل حاصل کر چکا ہے۔ 2012ء کے اولمپکس میں 205 ممالک کے کھلاڑی شریک ہیں۔
دنیا کے دس ہزار 9 سو 60ایتھلیٹ ان مقابلوں میں شامل ہیں، ان 205 ممالک میں پاکستان اور پاکستان کے کھلاڑی بھی ہیں لیکن ہمارا نام بدترین ٹیموں میں آ رہا ہے اور یہ سلسلہ 1992ء سے جاری ہے مگر 18کروڑ لوگوں کے اس جوہری ملک کی کسی شخصیت کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی۔ یوں محسوس ہوتا ہے ہم نے ہر قسم کی ذلت سے سمجھوتہ کر لیا ہے اور ہم جب تک دس بیس جوتے نہ کھا لیں ہمارا دن طلوع نہیں ہوتا۔
یہ درست ہے ہم دہشت گردی کا شکار ہیں، ہماری معیشت دم توڑ رہی ہے، ہماری پارلیمنٹ ملک کو اچھی جمہوری روایات نہیں دے سکی، ہماری سیاسی جماعتیں منافقت کی انتہا کو چھو رہی ہیں، ہم لوڈ شیڈنگ، لاقانونیت، بے انصافی اور افراتفری کا شکار بھی ہیں لیکن ہم کھیل میں تو دنیا کا مقابلہ کر سکتے ہیں، ہم اسپورٹس میں تو اپنی صلاحیتیں ثابت کر سکتے ہیں، ہمیں اس سے کس نے روکا ہے؟
ہم اگر اولمپکس میں شامل ممالک کو دیکھیں اور خود سے سوال کریں کیا ایران، قزاقستان، منگولیا، نائیجیریا، ازبکستان، یوگوسلاویہ اور کینیا ہم سے بہتر ملک ہیں، ہمارا جواب نفی میں ہو گا کیونکہ ان ممالک کی معیشت، ان کی صنعت اور ان کی سوسائٹی میں ہم سے زیادہ خرابیاں ہیں لیکن یہ ممالک ان خرابیوں کے باوجود کھیلوں میں ہم سے بہت آگے ہیں، آپ ان ممالک کے میڈلز کا پاکستان کے تمغوں سے تقابل کر لیں آپ کو زمین آسمان کا فرق دکھائی دے گا۔ نائیجیریا، کینیا اور منگولیا میں لوگ آج بھی منرل واٹر کی بوتلوں پر رسیاں باندھ کر جوتے بناتے ہیں اور وہاں لوگ آج بھی گھوڑوں، تانگوں اور بھینسوں پر سفر کرتے ہیں مگر یہ ملک بھی کھیلوں میں ہم سے بہت آگے ہیں۔
ہم ہاکی میں ہار گئے، کوئی بات نہیں، ٹیمیں مختلف کھیلوں میں ہارتی رہتی ہیں لیکن لندن اولمپکس 2012ء میں 40 قسم کے کھیل ہیں اور یہ وہ کھیل ہیں جنھیں سیکھنے کے لیے کسی قسم کے سرمائے کی ضرورت نہیں ہوتی، آپ نے ملک بھر سے ایسے بچے اور بچیاں سلیکٹ کرنی ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے عام لوگوں سے زیادہ اسٹیمنا دے رکھا ہے، ان بچوں اور بچیوں کو روزانہ پریکٹس کرانی ہے، ان کی خوراک کا بندوبست کرنا ہے اور انھیں موٹی ویشن دینی ہے اور بس۔ پاکستان میں ریسلنگ، باکسنگ، جمناسٹک، بیڈمنٹن اور ٹیبل ٹینس کا بے شمار ٹیلنٹ ہے، آپ نے ان لوگوں کو منتخب کرنا ہے، ان کی سرکاری سرپرستی کرنی ہے اور اس کے بعد انھیں عالمی فورم پر کھڑا کر دینا ہے۔
فٹ بال دنیا کا مقبول ترین کھیل ہے، یورپ اور امریکا میں فٹ بال کے ایسے ایسے کلب ہیں جن کا سالانہ بجٹ اور بچت پاکستان کے مجموعی قرضوں کے برابر ہوتی ہے، ہم فٹ بال کو اپنی اولین ترجیح بنا سکتے ہیں، ہم فٹ بال کے عالمی سطح کے سو کھلاڑی تیار کریں اور پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر لیں، انسان کو تیراکی کے لیے کیا چاہیے؟ سوئمنگ پولز، تکنیک اور پریکٹس، کیا ہم اٹھارہ کروڑ لوگوں کے اس ملک سے عالمی سطح کے 18 تیراک نہیں نکال سکتے؟ کیا ہم ایک درجن تیراک تیار نہیں کر سکتے؟ اس کے لیے تو کسی اٹھارہویں، انیسویں یا بیسویں ترمیم یا پھر دوتہائی اکثریت کی ضرورت نہیں، اس کے لیے تو کوئی اے پی سی بھی نہیں بلوانی اور اس کے راستے میں فوج اور سپریم کورٹ بھی رکاوٹ نہیں بنے گی، پھر ہم ایسا کیوں نہیں کر رہے؟ ۔
ہم یہ کیوں نہیں کرتے؟ اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اول ہم اس ملک میں کوئی مثبت کام نہیں کرنا چاہتے، ہم اس ملک کے ہر شعبے کو اپنے ہاتھوں مارنا اور دفن کرنا چاہتے ہیں، دوم ہم ایک ایسی بے صلاحیت قوم ہیں جو ہمیشہ " ہم بہت باصلاحیت ہیں " کے نعرے لگاتی ہے مگر جب میدان میں اترنے کا وقت آتا ہے تو یہ سات سات گول کروا کر دانت نکال دیتی ہے۔ مجھے بعض اوقات محسوس ہوتا ہے ہم میں یہ دونوں خامیاں موجود ہیں، ہم صلاحیت میں بھی مار کھا رہے ہیں اور نیت میں بھی اور اس معاملے میں بھی ہماری قوم اور ہماری حکومت دونوں مجرم ہیں۔
قوم سردیوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کرتی ہے اور گرمیاں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف نعرے لگاکر گزار دیتی ہے اور رہ گئی حکومت تو کھیل اور کھلاڑی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہیں چنانچہ ہم بری طرح مار کھا رہے ہیں اور شرم کی بات یہ ہے ہمیں شرم بھی نہیں آ رہی۔ آپ اس وقت بھی اسپورٹس فیڈریشن کی فہرست نکال کر دیکھ لیں، آپ کو ملک میں اسپورٹس کی وزارتیں بھی ملیں گی، فیڈریشنز بھی اور بورڈز بھی اور یہ ہر سال اربوں روپے بھی کھا رہے ہیں لیکن کارکردگی ملاحظہ کیجیے، ہم نے 1992ء کے بعد اولمپکس سے ایک بھی تمغہ حاصل نہیں کیا۔
کیا اس شاندار کارکردگی کے بعد ان بورڈز، فیڈریشنز اور وزارتوں کی کوئی جسٹی فیکیشن رہ جاتی ہے؟ اگر نہیں تو پھر ہم ان لوگوں کو کروڑوں روپے کی تنخواہیں اور مراعات کیوں دے رہے ہیں، ہم اگر اسپورٹس میں کینیا اور نائیجیریا کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو پھر ہمیں ان بورڈز کی کیا ضرورت ہے؟ کیا اس سوال کا جواب کسی کے پاس ہے؟ اگر نہیں تو مہربانی فرما کر اس ملک میں اسپورٹس پر بھی پابندی لگا دیں اور اس فقرے پر بھی کہ "ہم بڑی باصلاحیت قوم ہیں " کیونکہ دنیا ہمارے اس دعوے کا روز مشاہدہ کر رہی ہے اور ہم پر ہنس رہی ہے۔ ہم کیسے لوگ ہیں، ہم بجلی بنا رہے ہیں اور نہ ہی کھلاڑی مگر اس کے باوجود یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں "ہم بہت باصلاحیت ہیں " یہ رینٹل راجائوں کا ملک ہے، اس میں ایسے دعوے لطیفوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔