نیا این آر او
ہم جنرل پرویز مشرف کی کہانی کو 2008ء سے شروع کرتے ہیں، یوسف رضا گیلانی مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہو چکے تھے، پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کی مشترکہ حکومت قائم ہو چکی تھی اور صدر جنرل پرویز مشرف کی خواہشات ایوان صدر اور آرمی ہاؤس تک محدود ہو گئی تھیں، جنرل مشرف کے کندھوں پر بیٹھے پرندے ایک ایک کر کے اڑ رہے تھے، چوہدری صاحبان کی گرہ ڈھیلی ہو چکی تھی، اصحاب قاف میں سے کچھ ن لیگ کی طرف لوٹ گئے، کچھ آزاد ہو گئے اور باقی نے پاکستان پیپلز پارٹی میں پناہ لے لی، جنرل پرویز مشرف کے بڈی شوکت عزیز واپس چلے گئے اور انھوں نے جنرل صاحب کا فون تک سننا بند کر دیا، چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی جنرل مشرف کے سائے سے دور بھاگنے لگے اور پیچھے رہ گئے جنرل مشرف کے اپنے اگائے ہوئے سیاسی درخت تو یہ لوگ بھاگتے چورکی لنگوٹی لوٹنے میں مصروف ہو گئے۔
ایک صاحب نے جنرل صاحب کی امیج بلڈنگ اور نئی حکومت کے جہاز میں سوراخ کے لیے 35 کروڑ روپے مانگ لیے، جنرل مشرف نے اشارہ کیا اور ایک غیر ملکی بزنس گروپ نے 35 کروڑ روپے ادا کر دیے، یہ صاحب رقم لے کر غائب ہو گئے، یہ رقم بعد ازاں اسلام آباد کے پوش علاقے میں گھر اور زرعی زمین کی خریداری میں استعمال ہوئی، یہ صاحب جنرل مشرف سے دور ہوئے، چوہدریوں کے قریب ہوئے، پھر چوہدریوں سے بھی دور ہوئے اور آخر میں پاکستان مسلم لیگ ن کی دہلیز پر پہنچ گئے مگر میاں برادران نے ان کے لیے اچانک اپنا دروازہ بند کردیا اور یہ اب گوشہ گمنامی میں زندگی گزار رہے ہیں، ان دنوں ایک خاتون سیاستدان بجھتے ہوئے صدارتی چراغ سے ملاقات کے لیے گئی، صدر کو ان کے آنسوؤں پر بہت ترس آیا، یہ رخصت ہونے لگی تو صدر نے اسے ایک شاپنگ بیگ پکڑا دیا، خاتون نے گاڑی میں پہنچ کر شاپنگ بیگ کھولا تو اس میں آٹھ کروڑ روپے تھے، یہ خاتون بھی اتنی بڑی رقم کے باوجود جنرل مشرف کا ساتھ چھوڑ گئی، یہ خاتون شروع میں چوہدری صاحبان کے مائیکرو فون سے میاں نواز شریف اور صدر آصف علی زرداری پر گولہ باری کرتی تھی لیکن پھر یہ بھی چھلانگ لگا کر پاکستان مسلم لیگ ن میں شامل ہوگئی، یہ آج جب ٹیلی ویژن چینلز پر "ہم" کا نعرہ لگا کر پاکستان مسلم لیگ ن اور میاں نواز شریف کی تعریف کرتی ہے تو سننے والوں کی ہنسی نکل جاتی ہے، یہ خاتون اور اس جیسے دوسرے کرداروں اور پاکستان مسلم لیگ ق کے رویے نے صدر مشرف کو دل برداشتہ کر دیا، انھیں اصل "شاک" اس وقت لگا جب ان کے فوجی رفقاء نے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیا، جنرل قیوم، جنرل شاہد عزیز اور جنرل جمشید گلزار کیانی نے جب ان کے خلاف بیان دینا شروع کیے تو جنرل مشرف بکھر گئے لیکن یہ ان المیوں کے باوجود "ہائی ہوپس" میں تھے، جنرل کا خیال تھا، یہ کسی بھی وقت بازی پلٹ دیں گے، یہ ان دنوں ایوان صدر میں بیٹھ کر دعویٰ کرتے تھے "میں فضل الٰہی یا تارڑ نہیں ہوں، میں آرام سے نہیں جاؤں گا"اور سننے والے اس دعوے پر یقین کر لیتے تھے۔
جنرل مشرف کا دعویٰ درست تھا، سعودی عرب، یو اے ای، برطانیہ اور امریکا اس وقت تک ان کے پیچھے کھڑے تھے، جنرل مشرف نے نو برسوں میں ان چاروں طاقتوں کے لیے شاندار خدمات سرانجام دی تھیں، جنرل پرویز مشرف نے سعودی شاہ کی سفارش پر شریف خاندان کو جیل سے نکال کر جدہ روانہ کر دیا، یہ یو اے ای کے حکمرانوں کی سفارش پر2007ء میں بے نظیر بھٹو کے ساتھ ملاقات کے لیے تیار ہوئے، جنرل مشرف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا اور برطانیہ کا کھل کر ساتھ دیا، انھوں نے پورا ملک نیٹو فورسز کے لیے کھول دیا تھا اور اب ان خدمات اور نوازشات کے صلے کی باری تھی اور جنرل کا خیال تھا، یہ لوگ ق لیگ اور جنرل شاہد عزیز ثابت نہیں ہوں گے مگر پھر زمینی حقائق بدل گئے، طالبان نے فوج پر حملے شروع کر دیے، فوجی جوانوں کے سر اتارے جانے لگے اور فوجی تنصیبات پر خودکش حملے شروع ہو گئے اور فوج جنرل مشرف کی پالیسیوں کو ان حملوں کی وجہ قرار دینے لگی، سعودی عرب پاکستان پیپلزپارٹی کو زیادہ پسند نہیں کرتا چنانچہ یہ میاں نواز شریف کو اقتدار میں دیکھنا چاہتا تھا اور میاں نواز شریف جنرل کے دشمن نمبر ون تھے، سعودی عرب کو ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا، امریکا اور برطانیہ کو بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آخری فیز میں جمہوری پاکستان درکار تھا اور یہ جمہوری پاکستان اس وقت زرداری اور نواز شریف کے ہاتھ میں تھا اور پیچھے رہ گیا یو اے ای تو اسے صدر آصف علی زرداری میں زیادہ دلچسپی تھی، محترمہ اور زرداری صاحب نو سال دوبئی کے حکمران خاندان کے مہمان رہے اور اب میزبانی کے فوائد حاصل کرنے کا وقت آگیا چنانچہ یہ چاروں طاقتیں جنرل مشرف کو اپنے مستقبل کے عزائم کی راہ میں کانٹا محسوس کرنے لگیں اور پھر ایک دن اس کانٹے کو ہٹانے کا فیصلہ کر لیاگیا، یہ چاروں طاقتیں میز کی ایک سائیڈ پر بیٹھیں، سامنے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت بیٹھی جب کہ میز کے ایک کونے پر جنرل پرویز مشرف کو بٹھا دیا گیا اور دوسرے سرے پر جنرل کیانی بیٹھ گئے، اس وقت تین فیصلے ہوئے، جنرل مشرف صدارت سے استعفیٰ دے دیں اور یہ باقی زندگی دوبئی، لندن اور نیویارک میں گزاریں، دو، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن جنرل کے خلاف مقدمات نہیں کھولیں گی، یہ مشرف چیپٹر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیں گی اور پاک فوج جنرل پرویز مشرف کو ہر قسم کی سیکیورٹی دے گی۔
یہ تین فیصلے ہوئے اور جنرل پرویز مشرف نے 18 اگست 2008ء کو صدارت سے استعفیٰ دے دیا، یہ 19 اپریل 2009ء کو دوبئی اور لندن شفٹ ہو گئے مگر ان کے اندر کے باغی نے شکست ماننے سے انکار کر دیا، یہ دوبئی اور لندن میں بیٹھ کر جمہوری حکمران بننے کے خواب دیکھنے لگے، جنرل مشرف نے پارٹی بنائی اور ہلکے سرے میں سیاست شروع کر دی، وقت گزرتا رہا، اس دوران امریکا اور برطانیہ نے ان سے آنکھیں پھیر لیں، انھوں نے مشرف کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دے دیا، یو اے ای کے شہزادے جنرل مشرف سے منہ پھیرنے والے دوسرے لوگ تھے، انھوں نے ایک سال میں جنرل مشرف کو دوست سے جلاوطن کا اسٹیٹس دے دیا، یہ درست ہے، یو اے ای کے حکمرانوں نے جنرل مشرف کو لندن اور دوبئی میں فلیٹس خرید کر دیے تھے یہ بھی درست تھا، یہ انھیں پروٹوکول دیتے تھے مگر یہ جنرل مشرف کی سیاسی سپورٹ بننے کے لیے تیار نہیں تھے، یوں امریکا اوریو اے ای جنرل مشرف کی دو سپورٹس ختم ہوگئیں، اب سعودی عرب اور جنرل کیانی بچ گئے، یہ دونوں آخری وقت تک جنرل مشرف کے ساتھ رہے، جنرل مشرف جنرل کیانی کے رویئے سے مطمئن نہیں تھے لیکن یہ حقیقت ہے جنرل کیانی جب تک آرمی چیف رہے کسی کو جنرل مشرف کی طرف انگلی اٹھانے کی جرأت نہیں ہوئی، جنرل مشرف کی ہر جائز اور ناجائز خواہش پوری ہوتی رہی، سعودی عرب کے حکمران بھی جنرل مشرف کا ہر برے وقت میں ساتھ دیتے رہے، آپ کو یاد ہو گا اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی نے اگست 2009ء میں قومی اسمبلی میں جنرل مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کی قرارداد پیش کرنے کا اعلان کیا، سعودی عرب اس وقت جنرل مشرف کی مدد کے لیے آگے بڑھا اور پاکستان مسلم لیگ ن اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گئی، سعودی عرب ان کی مالی مدد بھی کرتا رہا اور انھیں سفارتی تعاون بھی فراہم کرتا رہا مگر اس تمام ترتعاون کے باوجود سعودی عرب جنرل مشرف کی سیاسی جدوجہد کے خلاف تھا، سعودی شاہی خاندان کا خیال تھا، جنرل مشرف کا وقت ختم ہو چکا ہے اور انھیں اب عیدی امین کی طرح ریٹائر زندگی گزارنی چاہیے مگر جنرل مشرف کی امیدوں کا چاند ابھی تک ماند نہیں پڑا تھا، یہ سمجھتے تھے، یہ پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی بیڈ گورننس کا فائدہ اٹھا لیں گے اور یہ عوامی انقلاب کے نتیجے میں دوبارہ مسند اقتدار پر قابض ہو جائیں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا، عمران خان تیسری قوت بن کر ابھر آئے اور اس کے ساتھ ہی جنرل مشرف کے امکانات صفر ہو گئے۔
جنرل پرویز مشرف بڑی تیزی سے اپنے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں، بیماری کا بہانہ بھی اب کار گر نہیں رہا، یہ بہرحال ٹریبونل کے سامنے پیش ہو جائیں گے، ان پر فرد جرم بھی عائد ہو گی اور یہ آرٹیکل چھ کے تحت سزا بھی پائیں گے لیکن اگر صدر ممنون حسین ان کی سزا معاف کر دیں گے، حکومت جنرل مشرف کو اسی طرح سعودی حکومت کے حوالے کرے گی جس طرح انھوں نے 2000ء میں شریف خاندان کو سعودی طیارے میں سوار کیا تھا اور یہ سعودی عرب کی طرف سے جنرل پرویز مشرف کے لیے آخری کمک ہو گی، سعودی عرب کے وزیر خارجہ یہ فارمولہ لے کر ریاض واپس جا چکے ہیں مگر اب سوال یہ ہے، جنرل پرویز مشرف کے فیصلے کے دوران اگر سعودی عرب میں حکومت بدل گئی تو میاں برادران سے اس فیصلے پر عمل کون کروائے گا؟ میرا خیال ہے جنرل پرویز مشرف اس وقت تک عسکری اسپتال میں بیمار رہیں گے جب تک جنرل راحیل شریف انھیں اس نئے این آر او کی گارنٹی نہیں دے دیتے۔