Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Javed Chaudhry/
  3. Nanga Parbat

Nanga Parbat

نانگا پربت

اور ایک موڑ کے بعد جی ہاں صرف ایک موڑ کے بعد ہم فیری میڈو میں تھے، پہاڑوں میں گم ہزاروں سال پرانی جنت ہمارے سامنے تھی، ہم سولہ سترہ ہزار فٹ کی بلندی پر تھے، دنیا کا عظیم پہاڑ نانگا پربت ہمارے سامنے تھا، اس کے بدن سے آہستہ آہستہ بادلوں کی چادر سرک رہی تھی، سورج کی روشنی اور نانگا پربت کے کنوارے بدن کے اتصال سے ماحول میں چاندی سی بکھری ہوئی تھی، نانگا پربت کی چوٹی بادلوں سے گتھم گتھا تھی، ہمارے لیے بادل اور چوٹی میں تفریق مشکل تھی، نانگا پربت کے قدموں میں ایک طویل گلیشیئر سجدہ کناں تھا، گلیشیئر کا سرنانگا پربت کے قدموں میں تھا اور پائوں تیس چالیس کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے فیری میڈو تک پہنچ گئے تھے۔

یہ شادی شدہ گلیشیئر تھا، سفید اور برائون، مقامی لوگ سفید گلیشیئر کو مرد اور برائون کو عورت گلیشیئر سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے یہ دونوں گلیشیئر مل جائیں تو ان کے سائز میں اضافہ ہو جاتا ہے، یہ گلیشیئر بھی جوڑا تھا، اس کاسر سفید تھا جب کہ نچلا دھڑا برائون تھا، ہم شروع میں اسے چٹانوں، پتھروں اور بجری کا ڈھیر سمجھے لیکن جب غور کیا تو پتھروں کے اس ڈھیر سے تین چار چشمے نکل رہے تھے، لوگوں نے بتایا یہ سیکڑوں سال پرانا گلیشیئر ہے جس کی پرانی برف پگھلنے سے قبل سردیاں شروع ہو جاتی ہیں اور اس کے اوپر برف کی نئی تہہ جم جاتی ہے۔

ہمارے سامنے چیڑھ اور پائن کا طویل جنگل تھا، جنگل پر پہاڑ سایہ کئے ہوئے تھے اور جنگل اس سائے سے بھاگ کر دھوپ کا منہ چومنے کی کوشش کر رہے تھے، ہمارے دائیں اور بائیں پہاڑ تھے، ان پہاڑوں کی اترائیوں پر بھی جنگل تھا اور جنگل کی انتہائی بلندیوں پر برف نے سفید عبا اوڑھ رکھی تھی اور تیسری طرف جنگل کے درمیان فیری میڈو تھا، پریوں کا مسکن، پریوں کی چراہ گاہ، ایک چھوٹا سا سرسبز میدان جس کے آخری کنارے پر لکڑی کے چند درجن مکان تھے، مکانوں کے گرد نصف درجن جھرنے، ندیاں اور چشمے بہہ رہے تھے، چشموں کے اردگرد گھوڑے اور بھیڑیں چر رہی تھیں۔

بھیڑوں سے ذرا سے فاصلے پر ایک ندی دائرے میں گھومتی ہوئی ایک ایسی جھیل میں اتر رہی تھی جس میں سبز اور نیلا رنگ ایک دوسرے کے ساتھ اٹھکھیلیاں کر رہا تھا، جھیل کی سطح پر درختوں کا سبز بور تیر رہا تھا اور ہوا بور کو گد گدا کر کبھی دائیں لے جاتی تھی اور کبھی بائیں، ہمارے پیچھے اترائیاں تھیں اور ان اترائیوں کی سلوں پر جنگل تھا اور جنگل میں جگہ جگہ سے دھواں اٹھ رہا تھا، یہ یقیناً چولہوں کا دھواں تھا جو آسمان کی طرف اٹھ کر ماحول کو مزید رومانٹک بنا رہا تھا۔

فیری میڈو ایک طویل، جیتی جاگتی اور دھڑکتی ہوئی پینٹنگ تھی اور میں اس وقت اس پینٹنگ کا حصہ تھا، میرے قدم زمین پر جمے ہوئے تھے اور میری آنکھوں میں بے یقینی کا صحرا تھا اور میں خود کو اس صحرا کی ریت میں اڑتا ہوا محسوس کر رہا تھا، میں نے اس کیفیت میں کتنی صدیاں گزار دیں میں کائونٹ نہیں کر سکتا تھا، میں اس کیفیت میں رہنا چاہتا تھا لیکن عین اس وقت جنگل سے نیلے پروں والا ایک پرندہ نکلا، اس نے فیری میڈو کی فضا میں "اڈاری" ماری اور ہوا میں تیرتا ہوا میرے سامنے گھاس پر بیٹھ گیا اور مجھے اپنی حیرت کی دوربین سے دیکھنے لگا۔

اس کے دیکھنے میں کوئی ایسا منتر تھا جس نے مجھے جگا دیا اور میں ٹوٹی ہوئی نیند کے نشے میں دائیں بائیں دیکھنے لگا، فیری میڈو واقعی فیری میڈو تھا، اس میں ایسی بے شمار خوبیاں تھیں جس سے امریکا اور یورپ محروم تھا اور شاید ان خوبیوں ہی کی وجہ سے آسٹرین کوہ پیما ہرمن بوہل نے 1953ء میں اسے فیری میڈو کا نام دیا تھا۔

فیری میڈو میں تین چار ہوٹل ہیں، یہ ہوٹل جنگل کی لکڑی سے بنائے گئے ہیں، یہ ہٹ کی شکل میں ہیں اور ان میں جدید زندگی کی تقریباً تمام سہولیات موجود ہیں، ہم " رائے کوٹ سرائے" میں ٹھہر گئے، ہمارے ہٹس سے نانگا پربت پوری طرح نانگا نظر آتا تھا، نانگا پربت محض ایک پہاڑ نہیں، یہ ایک طلسم ہے جوہر دیکھنے والی آنکھ کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے، یہ طلسم دو سو سال سے کوہ پیمائوں کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے لیکن جو بھی اس کی طرف جاتا ہے وہ واپس نہیں آتا۔

اسی وجہ سے اسے کلر مائونٹین (قاتل پہاڑ) کہا جاتا ہے، نانگا پربت شمالی علاقہ جات کی چار اطراف سے " اپروچ ایبل" ہے لیکن فیری میڈو اس کی مشکل ترین اپروچ ہے، کوہ پیما 1850ء میں فیری میڈو کی طرف سے اس پہاڑ سے متعارف ہوئے، 1895ء میں برطانوی کوہ پیما اے ایف ممری اسے سر کرنے کے لیے نکلا لیکن ٹیم سمیت اس کی برف میں دفن ہو گیا اور اس کے بعد کوہ پیمائوں کی قطار لگ گئی جو گیا وہ واپس نہ آیا، آج تک نانگا پربت کے گلیشیئر ان کوہ پیمائوں کے انحصار اور باقیات اگلتے رہتے ہیں۔

یہ اعضاء نانگا پربت کی طرف سے دنیا کو چیلنج ہوتا ہے تم میں اگر ہمت اور جرأت ہے تو آئو اور میرے ننگے جسم کو ہاتھ لگا کر دکھائو، آج تک صرف دو ٹیمیں اس کے دامن عظمت کو ہاتھ لگانے میں کامیاب ہوئی ہیں، ایک 1953ء اور دوسری 1995ء میں، باقی تمام حملہ آور اس کی برف میں ہڈیاں بن کر دفن ہو گئے، فیری میڈو میں سردی تھی، دن کے وقت درجہ حرارت چار پانچ ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا تھا اور رات کو یہ منفی میں چلا جاتا تھا اور ہم لکڑیاں جلا کر ہاتھ تاپنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔

ہمیں سلیپنگ سوٹ ہونے کے باوجود کمبل اوڑھنے پڑتے تھے، وہاں موبائل فون سروس بھی نہیں چنانچہ ہم موبائل پلوشن سے بھی بچے رہے، بجلی کی ضرورت ٹربائن پوری کر رہی تھی، ہوٹل کے مالک رحمت نے چشمے پر ٹربائن لگا رکھی تھی، یہ ٹربائن پورے گائوں کو بجلی دے رہی تھی، پانی ٹھنڈا تھا چنانچہ ہم مقامی آبادی کی طرح نہانے کے دکھ سے بھی آزاد ہو چکے تھے، ٹیلی ویژن بھی نہیں تھا چنانچہ بلڈ پریشر بھی نارمل رہا، میرا بیٹا فائز اور میری بیوی کا بھائی احمد دونوں تقریباً ہم عمر ہیں، یہ چیڑھ کے درخت کی طرح لمبے اور مضبوط ہیں۔

یہ ہمارے لیڈر بن گئے اور ہم گرتے پڑتے ان کے پیچھے پیچھے چلتے رہتے، ہم فیری میڈو میں دو دن رہے، یہ دو دن ہم نے " چِل" کرتے ہوئے گزار دیئے، فیری میڈو سے ایک گھنٹے کی مسافت پر بیال کیمپ آتا ہے، یہ نانگا پربت کا " سیکنڈ لاسٹ" کیمپ ہے، اس کا راستہ دنیا کے خوبصورت ترین راستوں میں شمار ہوتا ہے، ہم گھنے درختوں کے سائے میں چشموں کے ٹھنڈے پانیوں میں نہائی ہوائوں کے ساتھ ساتھ سوا گھنٹے میں بیال کیمپ پہنچے، یہ درختوں کے درمیان نسبتاً کھلی جگہ ہے جہاں کسی مہربان نے ہٹس بنا رکھے ہیں، ہم ہٹس کے درمیان بینچوں پر بیٹھ گئے، وہ مہربان شخص بھی آ گیا، اس نے کچن کھولا اور ہمارے لیے کھانا بنانا شروع کر دیا۔

دنیا کی چھت پر ماش اور چنے کی دال اور اس کے ساتھ پتلی روٹیاں بہت بڑی نعمت تھیں اور ہم اپنی ہمت تک اس نعمت کا لطف اٹھاتے رہے، بیال سے تین ساڑھے تین گھنٹے کی مسافت پر نانگا پربت کا بیس کیمپ تھا، یہ سیدھی اور مشکل چڑھائی تھی اور ہمارے اندر اس چڑھائی کی ہمت نہیں تھی، فائز اور احمد نے کوشش کی لیکن یہ بھی ایک گھنٹہ بعد واپس لوٹ آئے، ان کا کہنا تھا بیال کے بعد پانی اور آکسیجن دونوں ختم ہو جاتی ہیں، آپ نانگا پربت کے بیس کیمپ جانا چاہتے ہیں تو آپ کے پاس پانی کا ذخیرہ ہونا چاہیے چنانچہ ہم شام پانچ بجے بیال سے واپس فیری میڈو چل پڑے لیکن ہم اپنا دل، اپنا احساس بیال ہی چھوڑ آئے۔

ہمیں بیال کا ایک شاندار دن ملا تھا، اس دن نانگا پربت پائوں سے لے کر چوٹی تک ننگا تھا اور ہم کھلی آنکھوں سے اس کا نظارہ کرتے رہے تھے اور اس نظارے کے دوران کسی وقت میرا دل میرے سینے سے نکلا اور طوفان میں بکھرتی، سرکتی ریت کی طرح بیال کی فضا میں گم ہو گیا۔ میں دل کو قابو میں رکھنے والا شخص ہوں، میری یہ گرفت میرے روحانی استادوں کی مہربانی ہے، انھوں نے جذبات اور میرے دل کے درمیان چھوٹے چھوٹے چھاننے لگا دیے ہیں لہٰذا جذبے خواہ کتنے ہی بے مہار اور بدمست کیوں نہ ہوں یہ کسی نہ کسی چھاننے سے الجھ جاتے ہیں اور میرا دل ان کی تابکاری سے محفوظ رہتا ہے۔

میرے استاد کہتے تھے دل کعبہ ہوتا ہے، اس کے اندر داخل ہونے کا حق صرف اللہ کو ہوتا ہے، انسانی ہاتھ اسے صرف چھو سکتے ہیں، اس کے غلاف کو چوم سکتے ہیں اس کے اندر نہیں جا سکتے۔ اپنے دل کو اللہ کا گھر سمجھو، کسی شخص، کسی بت کو اس کے اندر نہ گھسنے دو، میں نے ان سے کہا آپ میری مدد کریں، میرے استادوں نے میری درخواست مان لی اور میرے دل کے راستے میں چھاننے لگا دیے لیکن شائد یہ لوگ چھاننے لگاتے ہوئے بھول گئے میں دل کو انسانوں سے تو محفوظ کر لوں گا لیکن فیری میڈو اور بیال جیسی ان حسینائوں کا کیا کروں گا جہاں پریاں بھی مبہوت ہو جاتی ہیں اور تحیر کی مستی اسرار کے لبادے اتار کر نانگا پربت کے سامنے ننگی ناچنے لگتی ہیں۔

میرا دل اس لمحے جب بادلوں کی ساری چادریں نانگا پربت کے بدن سے سرک گئی تھیں عین اس وقت، اس لمحے میری سینے سے نکلا اور ٹھنڈی ہوا بن کر بیال کی وادی میں بکھر گیا۔ میں واپس آ گیا لیکن میرا دل ابھی تک بیال کے اس چوبی بینچ پر پڑا ہے جہاں سے نانگا پربت اپنے تمام زاویوں کے ساتھ کھلا دکھائی دیتا ہے یا پھر شاید میرا دل اس بینچ پر نہ ہو وہ ندی کے ٹھنڈے پانیوں پر الٹے پائوں چلتا ہوا نانگا پربت کے پیروں تک چلا گیا ہو اور وہ اسے پائوں پکڑ کر کہہ رہا ہو مجھے بھی یہیں کہیں رکھ لو، اے ایف ممری کی جمی ہوئی ہڈیوں اور کاوین کی برف آنکھوں کے ساتھ یہیں کہیں، جہاں زندگی کی کوئی ٹائم لائن، کوئی ڈیڈ لائن نہیں، جہاں کوئی بل، کوئی فون کال اور اور کوئی گھورتی ہوئی آنکھ نہیں، جہاں کسی کا انتظار نہیں اور جہاں کوئی کسی کا انتظار نہیں کر رہا، جہاں وقت برف میں جم کر ٹھہر گیا ہے اور اگلے ہزاروں برسوں تک ٹھہرا رہے گا۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Aisa Kyun Hai?

By Azam Ali