مسلم خان
امریکی پولیس کا ایک دلچسپ عہدہ ہوتا ہے، نیگوشی ایٹر۔ یہ لوگ مذاکرات کے ماہر ہوتے ہیں، یہ لوگ پولیس فورس جوائن کرنے سے قبل مختلف یونیورسٹیوں، کالجوں اور تربیتی اداروں سے مذاکرات کی باقاعدہ تربیت لیتے ہیں، شہر میں جب بھی کوئی شخص خودکشی کرنے لگتا ہے، کوئی کسی کو اغواء کر لیتا ہے، کوئی کسی ادارے یا گھر کے لوگوں کو یرغمال بنا لیتا ہے یا پھر پولیس مجرموں کو گھیر لیتی اور وہ کسی کونے میں پناہ گزین ہو جاتے ہیں تو پولیس مذاکرات کے ایکسپرٹ کو بلا لیتی ہے، یہ ماہر ملزم سے گفتگو شروع کر دیتا ہے اور اسے آہستہ آہستہ ہتھیار ڈالنے پر قائل کر لیتا ہے، ملزم اگر ہتھیار نہ ڈالے تو یہ لوگ اسے باتوں میں الجھائے رکھتے ہیں، پولیس اس دوران اندر گھس کر ملزم کو قابو کر لیتی ہے، پولیس ان لوگوں کو اتنا ہی اہم سمجھتی ہے جتنا یہ رائفل، پستول یا گولی کو اہمیت دیتی ہے، مذاکرات کے یہ ایکسپرٹ ملزموں اور مجرموں کو الجھانے کے لیے چند تکنیکس استعمال کرتے ہیں، یہ تکنیکس بھی ان کے پیشے کی طرح بہت دلچسپ ہوتی ہیں مثلاً یہ ملزم تک پہنچتے ہی اس سے کھانے، پانی یا سگریٹ کے بارے میں پوچھتے ہیں، ہدف اگر بھوکا، پیاسا ہے یا پھر اسے سگریٹ کی طلب ہو رہی ہے تو یہ اسے فوراً یہ سہولت فراہم کر دیتے ہیں، یہ اسے زندگی کے اہم ترین دن یاد کراتے ہیں، یہ اس کے شوق کے بارے میں پوچھتے ہیں، ملزم اگر موسیقی کا رسیا ہو تو یہ اسے گانے سنائیں گے، وہ اگر اسپورٹس میں دلچسپی رکھتا ہے تو یہ اس سے اسپورٹس کی باتیں کریں گے اور یہ ان باتوں کے دوران اسے اس پوائنٹ پر لے آئیں گے جہاں یہ اسے لانا چاہتے ہیں۔
یہ ان ماہرین کی عام تکنیکس ہیں، ان کی سب سے اہم اور کامیاب ترین تکنیک ہدف کے قریبی لوگوں کی ان سے بات کرانا یا پھر اسے ان کے سامنے کھڑا کر دینا ہے، یہ اس کے کسی قریبی دوست سے رابطہ کرتے ہیں، اس سے ٹیلی فون ملاتے ہیں اور فون ملزم کے ہاتھ میں پکڑا دیتے ہیں، ملزم دوست سے گفتگو شروع کرتا ہے اور دوست اسے پسپائی اختیار کرنے یا سرینڈر کرنے پر تیار کر لیتا ہے، یہ لوگ اس سے بھی بڑھ کر اس کے دوست، والد، والدہ، بہن، بھائی، بیوی یا کسی بچے کو اس کے سامنے کھڑا کر دیتے ہیں، یہ اس بچے سے گفتگو شروع کرتا ہے اور یہ مکالمہ آخر میں ایشو کے خاتمے کا باعث بن جاتا ہے، مذاکرات کے ان ایکسپرٹس کی باقاعدہ درجہ بندی ہوتی ہے اور یہ لوگ جوں جوں کامیاب ہوتے جاتے ہیں، ان کے درجوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، نیگوشی ایٹرز اپنے پروفائل میں بڑے فخر سے دعویٰ کرتے ہیں " ہم نے اتنے آپریشن کیے اور ان میں سے کسی میں بھی کوئی گولی نہیں چلی" یہ ایشو حل کرنے کی جدید ترین تکنیک ہے اور یہ تکنیک اب پولیس کے ساتھ ساتھ دوسرے شعبوں میں بھی استعمال کی جا رہی ہے، نیگوشی ایٹرز اب وزارت خارجہ میں بھی ہوتے ہیں، وزارت خزانہ میں بھی اور اطلاعات و نشریات کی وزارت میں بھی۔ امریکا اور یورپ کی کاروباری کمپنیاں بھی ان کی سروسز حاصل کرتی رہی ہیں اور یہ لوگ بڑی بڑی ڈیلز میں بھی شامل ہوتے ہیں۔
ہماری سمجھ دار اور ہیوی مینڈیٹ حکومت چار ماہ سے طالبان سے مذاکرات کی کوشش کر رہی ہے لیکن یہ ابھی تک کامیاب نہیں ہوئی، امریکا نے یکم نومبر2013ء کو حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملہ کیا، حکومت نے اس حملے سے قبل دیوبند مکتبہ فکر کے چند بڑے علماء کے ذریعے تحریک طالبان پاکستان سے رابطہ کیا، یہ رابطہ خطوط کے ذریعے استوار ہوا۔ کراچی کے دو لوگوں نے اس میں اہم کردار ادا کیا تھا، خطوط نے ابھی ٹیلی فون اور ملاقات پر شفٹ ہونا تھا کہ یکم نومبر کا دن آ گیا، امریکا نے میرانشاہ پر ڈرون حملہ کیا، حکیم اللہ محسود میزائل حملے کا نشانہ بن گئے، حملے کے ساتھ ہی رابطوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا، تحریک طالبان پاکستان نے حکیم اللہ محسود کے بعد ملا فضل اللہ کو اپنا امیر بنا لیا، ملا فضل اللہ مولانا صوفی محمد کے داماد ہیں، یہ سوات کے رہنے والے ہیں، ان کا تعلق یوسفزئی قبیلے کی شاخ بابوکارخیل سے ہے، ملا فضل اللہ نے ایف اے تک تعلیم حاصل کی، صوفی محمد کے مدرسے میں داخل ہوئے، وہاں چھ درجے تک گئے، صوفی محمد اکتوبر 2001ء میں طالبان کی مدد کے لیے افغانستان گئے تو ملا فضل اللہ بھی اس لشکر میں شامل تھے، افغانستان میں ان لوگوں کے ساتھ بہت ظلم ہوا، یہ سیکڑوں ساتھیوں سے محروم ہو گئے، شمالی اتحاد کے لوگ ان لوگوں کی گردنیں کاٹ کر شہ رگ میں پٹرول بھرتے، پٹرول کو آگ لگاتے اور ان کی نعشوں کو تڑپتے ہوئے دیکھتے، ملا فضل اللہ اس وقت تک زیادہ مقبول نہیں تھے۔
ان کو اصل مقبولیت اس وقت ملی جب انھوں نے 2005ء میں اپنا ایف ایم ریڈیو بنایا، یہ سارا دن اس ریڈیو پر بیٹھ کر تقریریں کرتے تھے، لوگوں نے انھیں لاکھوں کروڑوں روپے چندہ دینا شروع کر دیا، اس چندے سے انھوں نے امام ڈھیری میں 50 کمروں کا مرکز بنا لیا، یہ صوفی محمد کے ساتھ 17 ماہ ڈی آئی خان جیل میں بھی رہے، یہ جب اہمیت اختیار کر گئے تو اس وقت ان کے دو قریبی ساتھی تھے، مسلم خان اور محمود خان۔ مسلم خان کا خاندان مینگورہ میں چائے کی پتی کا بزنس کرتا تھا، یہ سوات میں چائے کے بڑے ہول سیلر تھے، یہ عام نوجوان تھا، یہ جوانی میں امریکا چلا گیا، وہاں پانچ چھ سال تک پٹرول پمپ پر کام کیا، یہ 1997-98ء میں امریکا سے واپس آ گیا اور جیش محمد میں شامل ہو گیا، یہ بعد ازاں پاکستانی طالبان کے ساتھ مل گیا اور آہستہ آہستہ طالبان کا ترجمان بن گیا، محمود خان ملا فضل اللہ کا دوسرا اہم ترین دوست تھا، یہ کبل ہزارہ سے تعلق رکھتا تھا، یہ بھی سوات کے مشہور کاروباری خاندان سے تعلق رکھتا تھا، یہ دونوں 2009ء میں مالم جبہ میں سیکیورٹی اداروں سے مذاکرات کے لیے آئے اور گرفتار کر لیے گئے، یہ دونوں آج بھی حکومتی اداروں کے پاس ہیں، مسلم خان اور محمود خان وہ واحد رابطے ہیں جن کے ذریعے نہ صرف طالبان سے رابطہ ہو سکتا ہے بلکہ مذاکرات بھی ممکن ہیں، مجھے پچھلے ماہ اطلاع ملی۔
حکومت انھی لوگوں کے ذریعے طالبان سے رابطے کر رہی ہے مگر بعد ازاں یہ سلسلہ بند ہو گیا، میری دو دن قبل تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان سے بات ہوئی، ترجمان کا کہنا تھا، ہماری مجلس شوریٰ میں 16 ارکان ہیں، ان میں سے 14 مذاکرات کے مخالف ہیں، صرف دو رکن حمایت کر رہے ہیں، ترجمان نے تسلیم کیا، حکومت نے آل پارٹیز کانفرنس کے بعد کراچی کے چند علماء کرام کے ذریعے ہم سے رابطہ کیا، یہ رابطہ خطوط کے ذریعے ہوا، یہ ہمیں خط لکھتے تھے اور ہم یہ خط امیر تک پہنچا دیتے تھے مگر پھر اچانک حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملہ ہو گیا، اس حملے نے حکومت اور طالبان کے درمیان رابطہ توڑ دیا، میں نے ان سے پوچھا "کیا آپ کو مولانا سمیع الحق قبول ہیں " ترجمان کا جواب بہت واضح تھا، اس کا کہنا تھا "ہم شخصیت کے لحاظ سے مولانا کا بہت احترام کرتے ہیں مگر جہاں تک مذاکرات کا معاملہ ہے ہمیں مولانا قبول نہیں ہیں " میں نے ان سے پوچھا " کوئی اور شخصیت" ان کا جواب تھا "ہم مذاکرات کے لیے تیار ہی نہیں ہیں " میں نے ان سے پوچھا "آپ کی طرف سے ایک ٹارگٹ لسٹ اسلام آباد میں گردش کر رہی ہے، کیا یہ فہرست درست ہے" ترجمان نے جواب دیا "یہ لوگ اگر ہمارے بڑوں کو ماریں گے تو ہم بھی ان کے بڑوں کو نشانہ بنائیں گے"۔
مجھے ترجمان کی گفتگو سے اندازہ ہوا حکومت اور طالبان کے درمیان ڈیڈ لاک ہو چکا ہے، حکومت مذاکرات کا ڈھول اٹھا کر پھر رہی ہے لیکن تحریک طالبان پاکستان یہ ڈھول پیٹنے کے لیے تیار نہیں ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے، ہمارا اگلا قدم کیا ہو گا؟ کیا ہم جنگ کریں گے؟ فرض کر لیجیے، ہم جنگ یا آپریشن کے آپشن کی طرف جاتے ہیں تو سوال پیدا ہو گا، ہم آپریشن کریں گے کہاں؟ ملا فضل اللہ اور شاہد اللہ شاہد افغانستان میں ہیں، کیا ہم ڈیورنڈ لائن عبور کر کے ملا فضل اللہ کو ماریں گے؟ اگر ہاں تو کیا افغان حکومت اور نیٹور فورسز ہمیں اس کی اجازت دے دیں گی؟ اگر نہیں تو پھر اس آپریشن کی کیا حیثیت ہو گی؟ طالبان کی قیادت افغانستان میں ہے لیکن ان کے لوگ جنوبی وزیرستان سے لے کر کراچی تک پھیلے ہیں، ہمیں ان سے نبٹنے کے لیے جنوبی وزیرستان میں فوج تعینات کرنا پڑے گی جب کہ فاٹا سے لے کر کراچی تک جاسوسی کا وسیع جال پھیلانا پڑے گا، کیا ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں؟
مجھے حکومتی سطح پر کسی جگہ اس کی تیاری نظر نہیں آ رہی، ہم اب اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں "ہمارے پاس دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے حل کیا ہے؟ " ہمارے پاس صرف دو حل ہیں، ہم کسی نہ کسی طرح نیٹو فورس، امریکا اور صدر کرزئی کو تیار کر لیں کہ یہ تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کو پاکستان کے حوالے کر دے یا پھر نیٹ ورک کی تمام معلومات ہمارے حوالے کر دے، پاکستان کا ایک ادارہ اس آپشن پر کام کر رہا ہے، دوسرا ہم کسی نہ کسی طرح ملا فضل اللہ کو مذاکرات کی میز پر لے آئیں، یہ کام صرف مسلم خان اور محمود خان کر سکتے ہیں، اب سوال یہ ہے، کیا وزیر داخلہ چوہدری نثار ان دونوں کے وجود سے آگاہ ہیں، اگر ہاں تو یہ ان سے رابطہ کریں اور اگر نہیں تو پھر ان کا پتہ چلائیں، چوہدری صاحب جس دن مسلم خان تک پہنچ جائیں گے اس دن مذاکرات کی گرہیں کھلنے لگیں گی۔