موئے مبارک
امین لاکھانی کراچی کے ایک بڑے بزنس مین ہیں، یہ تعمیرات کے کاروبار سے وابستہ ہیں، میں تین ہفتے قبل سیلانی ٹرسٹ کی دعوت پر کراچی گیا، امین صاحب کے گھر جانے کا اتفاق ہوا، میں اسے امین صاحب کی دعوت یا اتفاق سمجھ رہا تھامگر یہ اتفاق یا دعوت نہیں تھی، یہ بہت بڑی سعادت تھی اور میں تین ہفتوں سے اس سعادت کی سرشاری میں ہوں، امین لاکھانی کی بیگم انتہائی دین دار اور عالمہ ہیں، بیگم صاحبہ اور امین صاحب کو کسی نے نبیؐ اکرمؐ کا موئے مبارک تحفے میں دیا، بیگم صاحبہ نے موئے مبارک کے لیے گھر میں ایک خصوصی کمرہ بنایا، کمرے میں قالین بچھے ہیں، قرآن مجید کے نسخے رکھے ہیں، موئے مبارک کے لیے شیشے کا انتہائی نفیس اور دلکش شو کیس بھی بنایا گیا، شو کیس کے اندر ایک ڈبی رکھی ہے اور یہ موئے مبارک اس ڈبی میں ہے۔
امین لاکھانی سیلانی ٹرسٹ کے روح رواں حضرت مولانا بشیر فاروقی کے مرید ہیں، ہم مولانا کی قیادت میں امین صاحب کے گھر پہنچے، مولانا ہمیں موئے مبارک کے کمرے میں لے گئے، امین صاحب کے خاندان نے موئے مبارک سے عقیدت کا حق ادا کر دیا، یہ کمرہ پورے گھر کا خوبصورت اور آرام دہ ترین گوشہ تھا، قالین انتہائی قیمتی تھے، کمرے کے کسی کونے میں گرد کا نشان تک نہیں تھا اور ماحول میں ایک خاص قسم کی خوشبو رچی تھی، شوکیس کے سامنے عدسہ لگا ہوا تھا، آپ عدسے پر جھک کر موئے مبارک کی زیارت کر سکتے ہیں، کمرے میں حضرت عبدالقادر گیلانی ؒ کا موئے مبارک بھی تھا، میں نے جھک کر موئے مبارک کی زیارت کی تو میری آنکھیں بھر آئیں، یہ نبیؐ اکرمؐ کے جسم اطہر کی پہلی نشانی تھی جس کی زیارت میری گناہ گار آنکھوں کو نصیب ہوئی، مجھے اس سے قبل آپؐ سے منسوب پیالے، کوزے، تلوار اور حرقہ مبارک کی زیارت نصیب ہوئی لیکن یہ آپؐ کے بدن مبارک سے منسلک کسی چیز کی پہلی زیارت تھی، میری آنکھیں بھر آئیں اور میرے دل میں جس جس دعا نے سر اٹھایا، میں نے اس موئے مبارک کے صدقے اللہ کے دربار میں پیش کر دی، مجھے یقین ہے، میری تمام دعائیں قبول ہوں گی۔
مولانا بشیر فاروقی اور امین لاکھانی صاحب نے موئے مبارک کے چند حیران کن معجزات بھی بتائے، امین لاکھانی صاحب نے بتایا، یہ موئے مبارک نبی رسالتؐ کے بال کا چھوٹا سا ٹکڑا تھا، ہم نے اسے شوکیس میں رکھ دیا، یہ موئے مبارک آہستہ آہستہ بڑا ہوتا رہا یہاں تک کہ یہ بالوں کا گچھا بن گیا، یہ گچھا روز بروز مزید بڑھ رہا ہے، یہ بات میرے سائنسی ذہن کے لیے انوکھی تھی، سائنس کا دعویٰ ہے انسان کے بال اور ناخن انتقال کے بعد بھی بڑھتے رہتے ہیں لیکن یہ عمل ایک خاص مدت تک جاری رہتا ہے، یہ اس مدت تک پہنچنے کے بعد خود بخود ختم ہو جاتا ہے، تاریخ میں صرف فرعون کی ممی واحد نعش ہے جس کے بال اور ناخن ہزاروں سال گزرنے کے باوجود بڑے ہو رہے ہیں، فرعون کی ممی کو چند سال بعد مصر سے یورپ لایا جاتا ہے اور وہاں اس کے ناخن اور بال تراشے جاتے ہیں، یہ گروتھ بہت معمولی ہے لیکن یہ بہر حال موجود ہے، بالوں اور ناخنوں کی گروتھ کے لیے ان کا جسم سے منسلک رہنا ضروری ہوتا ہے، یہ دونوں جب جسم سے الگ ہو جاتے ہیں تو پھر ان کی بڑھوتری رک جاتی ہے۔
موئے مبارک کا نبیؐ اکرمؐ کے جسم اطہر سے کانٹیکٹ ختم ہوئے چودہ سو سال گزر چکے ہیں چنانچہ بال کی گروتھ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، یہ نبیؐ اکرمؐ کی ذات کا معجزہ ہے، آپؐ کے موئے مبارک کی آج بھی گروتھ ہو رہی ہے، موئے مبارک نہ صرف آہستہ آہستہ بڑے ہوتے رہتے ہیں بلکہ ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے، یہ مثال ثابت کرتی ہے، نبیؐ اکرمؐ کے موئے مبارک میں حیات موجود ہے، یہ زندہ ہیں، مولانا کا فرمانا تھا، نبیؐ اکرمؐ کے جسم کا سایہ نہیں تھا، آپ اگر موئے مبارک کی نشانی جاننا چاہیں تو آپ موئے مبارک کو چٹکی میں پکڑیں، آنکھوں کے سامنے رکھیں اور اپنی طرف سے اس پر لائیٹ ڈالیں، آپ کو اگر سامنے بال کا سایہ نظر نہ آئے تو آپ جان لیں یہ موئے مبارک اصل ہے اور آپ کو اگر دیوار یا کاغذ پر اس کا سایہ نظر آ جائے تو آپ سمجھ جائیں، یہ موئے مبارک صرف نبیؐ اکرمؐ سے منسوب ہے، یہ حقیقی نہیں، مولانا بشیر فاروقی کا دعویٰ درست ہے، موئے مبارک کے بے سایہ ہونے اور اس کی گروتھ کے بے شمار واقعات اور ثبوت موجود ہیں، مثلاً آپ حضرت انس بن مالکؓ کی مثال لیجیے۔
آپ ؓ کا تعلق بنو خزرج سے تھا، یہ نبی رسالتؐ کے بہت قریب تھے، آپؐ نے جب حلق (سر مبارک پر استرا پھروا کر تمام موئے مبارک صاف کروا دیے) فرمایا تو اپنی لٹ حضرت انس بن مالکؓ کو عنایت کر دی، یہ لٹ آج تک حضرت انسؓ کے خاندان میں چلی آ رہی ہے، یہ خاندان اس وقت ابوظہبی میں آباد ہے، شیخ احمد الخزرجی اس وقت اس خاندان کے وارث ہیں، یہ لٹ مبارک ان کی وراثت ہے، چودہ سو سال سے اس لٹ کی گروتھ جاری ہے، اس کی لمبائی اور موٹائی دونوں میں اضافہ ہو رہا ہے، یہ ایک سے ڈیڑھ دو فٹ لمبی ہو چکی ہے جب کہ اس کی موٹائی بھی بڑھ چکی ہے، موئے مبارک کے اس کے علاوہ بھی بے شمار معجزات ہیں، ان معجزوں میں سے ایک معجزہ حضرت خالد بن ولیدؓ کی فتوحات بھی ہیں، حضرت خالد بن ولیدؓ نے اپنی ٹوپی میں نبی اکرمؐ کا موئے مبارک سی رکھا تھا، آپؓ کا فرمان تھا، میں جب بھی جنگ کے لیے نکلا، میں نے یہ ٹوپی سر پر پہن لی اور میں اس جنگ سے کامیاب لوٹا۔
میں اسلام میں عقیدت کی بجائے عقیدے کا قائل ہوں، میں اسلام کو دنیا کا سب سے بڑا پریکٹیکل مذہب سمجھتا ہوں، میں دل سے قائل ہوں، اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے انسان کو کرشمے اور معجزے کے انتظار کے بجائے عمل کی راہ دکھائی، اللہ تعالیٰ نے 313 نفوس کو بدر کے میدان میں پہلے کھڑا کیا اور فتح مبین بعد میں عطا کی، طائف کی گلیوں میں پتھر پہلے مروائے اور فتح مکہ بعد میں عنایت کی اور شعب ابی طالب میں چمڑا ابال کر کھانے پر مجبور پہلے کیا اور دنیا جہاں کی کنجیوں سے بعد میں نوازا۔ اسلام سے قبل تمام مذاہب معجزات لے کر آئے لیکن اسلام عمل سے شروع ہوا اور قیامت تک عمل پر ہی قائم رہے گا، مسلمانوں نے تاریخ کے جس دور میں بھی عمل کا ایک قدم اٹھایا، اللہ تعالیٰ نے کامیابی کے سو قدم ان کی طرف بڑھا دیے مگر یہ لوگ جب رکے تو کامیابی ان سے ہزار قدم دور چلی گئی، یہ اللہ تعالیٰ کا ایسا مذہب ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے نبوت کے اعلان سے قبل نبیؐ اکرمؐ کو کفر کی سرزمین پر صادق اور امین اسٹیبلش کیا تھا۔
آپؐ نے نبوت کا اعلان بعد میں فرمایا تھا اور آپؐ صادق اور امین پہلے ڈکلیئر ہوئے تھے، دنیا میں پریکٹیکل کی اس سے بڑی دلیل کیا ہو سکتی ہے، اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ اور خلفاء راشدین میں حضرت عمر فاروق ؓ اور حضرت علیؓ کو اسلام کی اس پریکٹیکل اپروچ کی زیادہ سمجھ بوجھ عنایت کی تھی، حضرت عمرؓ کو حضرت علیؓ جیسا مشیر نصیب ہوا چنانچہ آپؓ نے اسلامی ریاست کا ثبوت دنیا کے سامنے رکھ دیا، حضرت علیؓ کو بھی اگر حضرت عمرؓ جیسے مشیر مل جاتے تو آج پوری دنیا میں اسلامی ریاست قائم ہوتی، مجھے یقین ہے مسلمان جس دن اسلام کے پریکٹیکل چیپٹر پر کام شروع کر دیں گے، اس دن پوری دنیا حلقہ بگوش اسلام ہو جائے گی، نیل کے ساحل سے کاشغر تو دور دریائے ہڈسن سے لے کر سائبیریا تک صرف لا الہ الا اللہ محمدالرسول اللہ گونج اٹھے گا، بس مسلمانوں کو اسلام کے عملی پیغام تک آ جانے دیں مگر عقیدے پر اس تمام تر یقین کے باوجود جب بھی نبیؐ رسالت کا نام آتا ہے تو میرا سائنس اور مادے پر یقین بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے، میرا حلق بھاری ہو جاتا ہے اور آنکھیں گیلی ہو جاتی ہیں، میں آج تک اس کی وجہ نہیں جان سکا، میں نے سیرت کی سیکڑوں کتابیں پڑھی ہیں، میں ہر کتاب کے دوران ہچکیاں لینے پر مجبور ہو جاتا ہوں، کیوں؟
مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی، مجھے ہر بار محسوس ہوا، ہمارے رسولؐ کے ظرف کے سامنے تو ظرف بھی چھوٹا تھا، رسولؐؐ اللہ کی محبت کے سامنے محبت، شفقت کے سامنے شفقت، رحم کے سامنے رحم، معافی کے سامنے معافی اور رحمت کے سامنے تو رحمت بھی چھوٹی تھی اور میں جب بھی اس موڑ پر آتا ہوں تو مجھے امام احمد رضا خان بریلویؒ کا وہ عظیم فقرہ یاد آ جاتا ہے " میں اللہ کو اللہ بھی اس لیے مانتا ہوں کہ میرے رسولؐ نے اللہ کو اللہ مانا تھا"۔
امین لاکھانی صاحب کے گھر موئے مبارک کے سامنے جھکتے ہوئے یہ ساری عقیدت میری آنکھوں میں سما آئی اور میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کاش ایک ایسا ہی موئے مبارک میرے پاس بھی ہوتا، کاش میں بھی اتنا خوش نصیب ہوتا لیکن شاید میرے اللہ اور میرے رسولؐ کو یہ منظور نہیں، میں گناہ گار ہوں اور گناہ گار اتنے خوش نصیب نہیں ہوا کرتے۔