میاں نواز شریف نے اچھا کیا
وزیراعظم میاں نواز شریف کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں جانا چاہیے تھا اور میاں صاحب نے دہلی جا کر سیاسی تدبر کا مظاہرہ کیا، میاں صاحب کو کیوں جانا چاہیے تھا ہم وجوہات کی طرف جانے سے قبل نریندر مودی کی شخصیت کا ایک پہلو دیکھیں گے، یہ پہلو ہمارے موجودہ اور مستقبل کے حکمرانوں کے لیے سیاسی مشعل راہ بن سکتا ہے۔
نریندر مودی ستمبر کی 17 تاریخ اور سن 1950ء میں ریاست گجرات کے ضلع مہسانہ میں پیدا ہوا، والدین انتہائی غریب تھے، والد دامو درداس ریلوے اسٹیشن پر چائے بیچتا تھا، ماں ہیرا بین لوگوں کے گھروں میں برتن مانجھتی تھی، جھاڑو ٹاکی کرتی تھی، دامو درداس کے چار بچے تھے، نریندر کا تیسرا نمبر تھا، نریندر کے ایک بھائی نے لیدر فیکٹری میں کام کیا اور منظر سے غائب ہو گیا جب کہ دوسرا بھائی گجرات حکومت کے محکمہ اطلاعات میں معمولی افسر ہے۔
نریندر مودی بچپن ہی میں والد کا ہاتھ بٹانے لگا، یہ چھوٹا بن کر ریلوے اسٹیشن پر چائے بیچنے لگا، والد ظالم تھا، نریندر باغی تھا اور حالات ناگفتہ بہ تھے چنانچہ نریندر سنگھ مودی 13 سال کی عمر میں گھر سے بھاگ گیا، یہ 17 سال کی عمر میں ایک دن کے لیے گھر آیا، والدین نے یشو دابین کے ساتھ اس کی شادی کرا دی لیکن یہ دلہن کا منہ دیکھے بغیر گھر سے نکل گیا اور پھر کبھی واپس نہیں آیا، یہ 30 سال خانہ بدوش رہا، یہ کبھی اس شہر میں رہتا اور کبھی اس قصبے میں مقیم ہو جاتا، نریندر دفتروں اور پاٹھ شالوں میں راتیں گزارتا رہا، یہ بیس سال کی عمر میں متعصب ہندو تنظیم آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) میں شامل ہو گیا، آر ایس ایس کا ہیڈ کوارٹر ریاست مہاراشٹرا کے شہر ناگ پور میں تھا، یہ تنظیم ہندوستان سے غیر ہندوؤں کو نکال دینا چاہتی تھی۔
یہ دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کو مندروں میں تبدیل کرنے یا انھیں صفحہ ہستی سے مٹانے کی قائل بھی ہے، نریندر مودی نے ناگ پور میں عسکری ٹریننگ لی اور اس کے بعد ہندوستان سے مسلمانوں کی نسل کشی کا پرچم اٹھا لیا، یہ 1980ء کے شروع میں گجرات آیا، یہ مسلمانوں کو گجرات سے نکالنا چاہتا تھا، یہ انھیں "دھرتی کا بوجھ" قرار دیتا تھا، یہ 1987ء میں گجرات میں آر ایس ایس کا سیکریٹری بن گیا، یہ 1995ء تک اس عہدے پر فائز رہا، اس دوران بی جے پی بھارت کی بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری، یہ پارٹی آر ایس ایس کا سیاسی ونگ تھی، نریندر مودی بی جے پی میں شامل ہو گیا، یہ اپنے خیالات اور حرکتوں میں "بولڈ" تھا، یہ پارٹی میں سازشیں بھی کرتا تھا چنانچہ لوگ نریندر کو بدتمیز اور سازشی سمجھ کر اسے ناپسندیدگی سے دیکھتے تھے تاہم ایل کے ایڈوانی اسے پسند کرتے تھے۔
یہ بھی ان کے ساتھ مخلص تھا، بی جے پی نے مارچ 1998ء کے ریاستی الیکشن لڑے، گجرات میں پارٹی نے 117نشستیں حاصل کر لیں، کیشو بھائی پٹیل گجرات کے وزیراعلیٰ بنے، یہ کرپشن الزامات کے باعث 6 اکتوبر 2001 کو مستعفی ہو گئے، ایل کے ایڈوانی نے نریندر مودی کی سفارش کی اور یہ7 اکتوبر 2001ء کو گجرات کا چیف منسٹر بن گیا، وزیراعلیٰ بننے کے بعد اس نے اپنے مسلم کش ایجنڈے پر کام شروع کر دیا، اس نے انتہا پسند ہندوؤں کو اشارہ کیا، 27 فروری 2002ء کو احمد آباد میں فسادات شروع ہوئے، سرکار ہندو فسادیوں کی مدد کرنے لگی، شہر میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا، مسلمانوں کے سیکڑوں گھر جلا دیے گئے، ہزاروں عورتیں "ریپ" کر دی گئیں اور مسلمان مرد اور بچے قتل کر دیے گئے۔
برطانوی اداروں کے مطابق احمدآباد کے فسادات میں دو ہزار مسلمان قتل ہوئے، یہ فسادات نریندر مودی کی سیاست کو نگل گئے، وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی ناراض ہو گئے، یورپ نے آسمان سر پر اٹھا لیا جب کہ امریکا نے اس کے ویزے پر پابندی لگا دی، یہ فسادات نریندر مودی کی زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ تھا، مودی کے پاس اس وقت دو آپشن تھے، یہ مسلم کشی کی سیاست کے چیمپیئن بن جاتے، یہ متعصب ہندوؤں کے ساتھ مل کر مسلمان، سکھ، عیسائی اور دلتوں کا صفایا کر دیتے یا پھر یہ ایک نئے بھارت کے نئے لیڈر بن کر ابھرتے، نریندر مودی نے دوسرا آپشن قبول کر لیا، انھوں نے مسلم دشمنی کا لٹھ تہہ خانے میں رکھا اور گجرات کی ڈویلپمنٹ میں جت گئے۔
نریندر مودی نے گجرات کی حالت بدل کر رکھ دی، انھوں نے صوبے کو کرپشن فری بنا دیا، پورے ملک سے ماہرین بلائے اور انھیں اعلیٰ عہدوں پر تعینات کر دیا، یہ لوگ وزیروں کے بجائے وزیراعلیٰ کو جواب دہ تھے، افسروں کا انتخاب ساکھ اور کارکردگی کی بنیاد پر کیا، یہ افسر ہر صورت پانچ سال پورے کرتے تھے، پوری حکومت کو آن لائین کر دیا، صوبے کی سبسڈیز، پینشن، زمین کی رجسٹریشن، خرید وفروخت، پیدائش، انتقال، پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس، ٹینڈر اور نوکریاں ہر چیز آن لائین ہو گئی، انٹرنیٹ سستا اور آسان کر دیا، پورے صوبے میں پبلک سروس سینٹرز بنادیے۔
انٹرنیشنل سرمایہ کاری کانفرنسیں کروائیں اور ٹاٹا موٹرز، جنرل موٹرز اور فورڈ جیسی کمپنیوں کو مراعات دے کر گجرات بلوا لیا، ان کمپنیوں نے 6 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر دی، انٹرنیشنل فنانس سٹی بنا دیا، اس پراجیکٹ کی وجہ سے احمد آباد بھارت کا سب سے بڑا کاروباری مرکز بن گیا اور گجرات کو صنعت کاروں کی جنت بنا دیا گیا، نریندر مودی کی ان پالیسیوں کی وجہ سے گجرات نے بھارت کی کل سرمایہ کاری کا 15 فیصد کھینچ لیا، گجرات کی زراعت نے 11 فیصد جب کہ صنعت نے 13فیصد ترقی کی، آج بھارت کی کل برآمدات میں گجرات کا شیئر 22فیصد ہے اور یہ واقعی کمال ہے۔
نریندر مودی 2001ء سے 2014ء تک تیرہ سال گجرات کے وزیراعلیٰ رہے، ان 13 برسوں میں انھوں نے گورننس اور پرفارمنس کے بے شمار نئے ماڈل متعارف کروائے، یہ ایماندار بھی ہیں، انھوں نے 13 برسوں میں اپنے خاندان کے کسی شخص کو چیف منسٹر ہاؤس میں قدم نہیں رکھنے دیا، چالیس سال کی سیاست میں مودی نے ایک گھر کے سوا کچھ نہیں بنایا، یہ سادہ انسان ہیں، کھدر کے کپڑے پہنتے ہیں، سبزی اور دال کھاتے ہیں، فرش پر سو جاتے ہیں اور تمام سرکاری منصوبوں کی خود دیکھ بھال کرتے ہیں، اس سادگی، پرفارمنس، ایمانداری اور خدمت نے آج چائے بیچنے والے، فرش پر سونے والے، انگریزی نہ بول سکنے والے، مسلمانوں کے دشمن اور متعصب ہندو نریندر مودی کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کا وزیراعظم بنا دیا، یہ آج بھارت کے وزیراعظم ہیں۔
یہ تیس سال بعد "سنگل میجارٹی" حاصل کرنے والے وزیراعظم بھی ہیں، نریندر مودی "پرفارمنس" کی تازہ ترین مثال ہیں، یہ مثال ثابت کرتی ہے، آپ اگر لوگوں کی حالت بدل دیں، آپ پرفارم کریں، آپ ایماندار ہوں اور آپ میرٹ پر عمل کریں تو لوگ آپ کا غریبانہ اور متعصبانہ ماضی تک بھلا دیتے ہیں، یہ آپ کو شدت پسندانہ خیالات کے باوجود بھارت کا وزیراعظم بنا دیتے ہیں، ہمارے حکمرانوں بالخصوص چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ کو نریندر مودی سے سیاست سیکھنی چاہیے، ہم اگر دوستوں سے نہیں سیکھتے تو ہم کم از کم دشمن ہی سے سیکھ لیں، ہمارے چیف منسٹرز اپنے اپنے صوبوں میں صرف نریندر مودی کو کاپی کر لیں، یہ دس سال میں ملک کے متفقہ لیڈر بن جائیں گے اور ان کی لیڈر شپ کو کسی اندرونی اور بیرونی دشمن سے کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔
ہم اب آتے ہیں میاں نواز شریف کی دہلی یاترا کی طرف۔ نریندر مودی ایل کے ایڈوانی کے سیاسی شاگرد ہیں، یہ دونوں پاکستان کے کھلے دشمن ہیں، یہ پوری زندگی پاکستان اور مسلمانوں کی مخالفت کی سیاست کرتے رہے، نریندر مودی پوری الیکشن مہم کے دوران پاکستان اور میاں نواز شریف کو دھمکیاں دیتے رہے لیکن یہ جوں ہی وزیراعظم نامزد ہوئے، انھوں نے میاں نواز شریف کو حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دے دی، یہ نریندر مودی کی چالیس سالہ سیاست کا سب سے بڑا یوٹرن تھا، یہ یو ٹرن ان کی سیاسی بلوغت، کھلے دل اور علاقائی مسائل حل کرنے کی سوچ کا غماز ہے، نریندر مودی شدت پسند بھی ہیں اور یہ 543 کے ایوان میں 283 سیٹیں لے کر وزیراعظم بھی بنے ہیں چنانچہ یہ اپنے فیصلوں میں بڑی حد تک آزاد ہوں گے۔
یہ بھارت کے پانچ سال تک وزیراعظم بھی رہیں گے اور ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا بھارت میں جب بھی بی جے پی کی حکومت آئی، بھارتی سرکار نے پاکستان کے معاملے میں غیر ضروری لچک کا مظاہرہ کیا، آپ اٹل بہاری واجپائی کو دیکھ لیجیے، یہ فروری 1999ء میں نہ صرف بس پر لاہور آئے بلکہ یہ مینار پاکستان بھی گئے اور یہ وہ جرأت ہے جو آج تک کانگریس کا کوئی لیڈر نہیں کر سکا، نریندر مودی اسی جماعت، اسی سوچ کی ایکسٹینشن ہیں، مودی امن کی اہمیت اور جنگ کے نقصانات سے بھی واقف ہیں، یہ 2002ء میں مسلم کش فسادات کے نتائج بھی دیکھ چکے ہیں اور یہ گجرات میں امن اور پرفارمنس کے رشتے کا مشاہدہ بھی کر چکے ہیں چنانچہ یہ جانتے ہیں بھارت نے اگر مزید ترقی کرنی ہے تو پھر اسے شدت پسندی چھوڑنا ہوگی ورنہ دوسری صورت میں چند قصاب بھارت کی تیس سالہ اچیومنٹس کو خاک میں ملا دیں گے۔
میرا خیال ہے آج بی جے پی امن کی گفتگو کو وہیں سے اسٹارٹ کرے گی جہاں سے یہ دھاگہ 1999ء میں ٹوٹا تھا۔ میاں نواز شریف کو اس معاملے میں نریندر مودی کا ساتھ دینا چاہیے، میاں نواز شریف آج دہلی میں ہیں، ان کے دہلی میں ہونے کا پاکستان کو کوئی نقصان نہیں ہوا جب کہ نریندر مودی حلف اٹھانے سے قبل شدت پسندوں کی نفرت کا نشانہ بن رہے ہیں، ہم اگر اس دورے سے کچھ اور حاصل نہ بھی کر پائے تو بھی ہمارے لیے یہ کافی ہے کہ نریندر مودی باقی زندگی قوم کو نوازشریف کو دعوت دینے کا حساب دیتے رہیں لہٰذا ہم کسی بھی طرح گھاٹے میں نہیں رہے۔
میں یہ سمجھتا ہوں نریندر مودی اور میاں نواز شریف مسئلہ کشمیر حل کر سکتے ہیں، یہ اس مسئلے کے حل اور اہمیت سے واقف ہیں، بس دونوں کو کارگل جیسی سازش سے بچنا ہو گا کیونکہ یہ سازش اس بار پاکستان کی طرف سے نہیں ہوگی، یہ بھارت سے ہو گی اور اس سازش کے سپہ سالار ریاستی نہیں غیر ریاستی عناصر ہوں گے اور یہ وہ عناصر ہیں جنھیں پاکستان روک سکتا ہے اور نہ ہی بھارت۔ مودی صاحب اگر ان سے بچ گئے تو پاکستان اور بھارت تعلقات کے نئے دور میں داخل ہو جائیں گے اور یہ اس خطے کے لوگوں کے لیے عظیم تحفہ ہو گا۔