میری گرل فرینڈ
یہ 1994ء کا سال تھا، میں دفتر میں تھا، میرا دل گھبرانے لگا، حلق سوکھ گیا، ٹانگوں میں لرزا طاری ہو گیا اور دماغ میں آندھیاں چلنے لگیں، میرے کولیگز مجھے اسپتال لے گئے، میرے تمام ٹیسٹ نارمل تھے، بلڈ پریشر، نبض، سانس ہر چیز ٹھیک تھی، ڈاکٹر کا خیال تھا، مجھ پر اینگزائٹی کا اٹیک ہوا ہے، میں اعصاب کو نارمل کرنے والی چند خوراکیں لے لوں تو میں نارمل ہو جاؤں گا۔
مجھ نسخہ لکھ کر دے دیا گیا، میں کلینک سے نکلنے لگا تو ڈاکٹر نے مجھ سے پوچھا "آپ نے کبھی شوگر ٹیسٹ کرائی" میں نے انکار میں سر ہلا دیا، اس نے چٹ پر ٹیسٹ کا نام لکھا اور مجھے لیبارٹری بھجوا دیا، میں بلڈ سیمپل دے کر واپس آ گیا، اگلے دن رپورٹ لینے گیا تو ڈاکٹر نے پہلے مجھے پانی پلایا اور پھر انکشاف کیا " آپ شوگر کے مریض ہیں" میرا شوگر لیول اس دن 450 تھا، میں سخت پریشان ہو گیا، ڈاکٹر نے مجھے دواء لکھ کر دی اور کسی شوگر اسپیشلسٹ سے ملنے کا مشورہ دیا، میں دکھی ہو گیا، آپ خود اندازہ کیجیے، آپ اگر بیس بائیس سال کے نوجوان ہوں۔
آپ نے ابھی زندگی کا سفر شروع ہی کیا ہو اور آپ کو شوگر جیسا موذی مرض پکڑ لے تو آپ کے کیا احساسات ہوں گے؟ میں بھی اس عمل سے گزرنے لگا، حکیم سعید شہید اور ڈاکٹر اشفاق حسین دونوں اس وقت حیات تھے، میرے دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات تھے، حکیم صاحب مہینے میں ایک دن کے لیے راولپنڈی آتے تھے، حکیم صاحب تشریف لائے تو میں ان کے پاس حاضر ہو گیا، مجھے پریشان دیکھ کر حکیم صاحب نے قہقہہ لگایا اور فرمایا "مبارک ہو، آپ اب ایک شاندار زندگی گزاریں گے" میں نے عرض کیا "حکیم صاحب یہ دنیا کی نامراد ترین بیماری ہے۔
میں اس کے ساتھ شاندار زندگی کیسے گزار سکتا ہوں" حکیم صاحب نے جواب دیا " بیٹا شوگر بیک وقت ایک مخلص دوست اور ایک جانی دشمن ہے، آپ اگر اسے اپنا دوست بنا لیں تو یہ دنیا کی تمام بیماریوں سے آپ کی حفاظت کرتی ہے اور آپ طویل اور شاندار زندگی گزارتے ہیں اور آپ اگر بدقسمتی سے اسے اپنا دشمن بنا لیں تو پھر یہ دشمنی نبھانا جانتی ہے، یہ آپ کو چند برسوں میں قبر تک پہنچا دیتی ہے" حکیم صاحب کا فرمانا تھا " آپ بس یہ فیصلہ کر لو، آپ نے ہر حال میں شوگر کو اپنا دوست رکھنا ہے۔
آپ نے اسے دشمن نہیں بننے دینا، یہ آپ کی زندگی بدل دے گی" میں نے عرض کیا "لیکن جناب شوگر کی وجہ سے مردوں کو چند سالوں میں دنیا کی تمام خواتین مائیں بہنیں لگنے لگتی ہیں" حکیم صاحب نے قہقہہ لگایا اور فرمایا " یار مجھے شوگر نہیں ہے لیکن مجھے اس کے باوجود تین سالوں سے تمام عورتیں مائیں بہنیں لگ رہی ہیں" حکیم سعید نے مجھے بہت حوصلہ دیا، رہی سہی کسر ڈاکٹر اشفاق حسین نے پوری کر دی، میں نے شروع میں گولی کھانا شروع کی، گولی نے چند سال تک میرا ساتھ دیا لیکن پھر یہ بے اثر ہو گئی، ڈاکٹر صداقت نے میری مدد کی، انھوں نے مجھے انسولین سے متعارف کرایا، میں نے انسولین شروع کر دی، میں آج تک انسولین لگا رہا ہوں، میں ایک دو ماہ بعد ڈاکٹر جاوید اکرم سے مل لیتا ہوں، یہ پروفیسر بھی ہیں اور کمال کے انسان بھی۔ یہ مجھے ہر وزٹ پر فٹ قرار دے دیتے ہیں۔
مجھے شوگر کے مرض کو اپنائے ہوئے 21 سال ہو چکے ہیں، میں نے ان 21 برسوں میں شوگر کے ساتھ کیسے گزارہ کیا، یہ دلچسپ کہانی ہے، شوگر کنٹرول کرنے کے لیے ایک خصوصی لائف اسٹائل درکار ہوتا ہے، میں نے پرانے اور روایتی لائف اسٹائل کو 1994ء میں دفن کر دیا اور نیا لائف اسٹائل اپنا لیا، یہ نیا لائف اسٹائل چار ستونوں پر کھڑا ہے، پہلا ستون انسولین ہے، آپ گولی یا انسولین کے بغیر شوگر کنٹرول نہیں کر سکتے لہٰذا دواء ہر صورت استعمال کریں، میں 21 سال سے دواء لے رہا ہوں، دوسرا ستون کھانا ہے، آپ مرغن خوراک کسی صورت نہ کھائیں، مجھے 21 برس ہو چکے ہیں۔
میں نے مرغن کھانا نہیں کھایا، ناشتہ معمولی اور سادہ کرتا ہوں، لنچ کے وقت فروٹ اور سالاد کھاتا ہوں، ڈنر شام ساڑھے چھ بجے کرتا ہوں، ڈنر میں ایک چپاتی کے ساتھ سبزی یا دال کھاتا ہوں، رات سوتے وقت دودھ کا ایک گلاس پی لیتا ہوں، میں نے 21 سال سے پائے، ہریسہ اور بازاری پراٹھا نہیں کھایا، سال چھ ماہ بعد چھوٹا پراٹھا یا آدھی پوری کھا لیتا ہوں، دن میں تین چائے اور ایک کافی پیتا ہوں، پانی البتہ سارا دن پیتا رہتا ہوں، دعوتوں میں نہیں جاتا اور اگر جانا پڑ جائے تو کھانا گھر سے کھا کر جاتا ہوں، دعوت میں کھانے کی صرف ایکٹنگ کرتا ہوں۔
پورا خاندان کھانے کے معاملے میں محتاط ہے لہٰذا ہم بیکری آئٹم تک گھر پر بناتے ہیں، بیوی میرے لیے شوگر فری کیک، پیسٹریاں اور بسکٹ بنا دیتی ہے، میں کبھی کبھار یہ بھی کھا لیتا ہوں اور صبح کے وقت ایک گلاس سیب، گاجر اور چقندر کا فریش مکس جوس پیتا ہوں، تیسرا ستون ایکسرسائز ہے، آپ ورزش کے بغیر شوگر کنٹرول نہیں کر سکتے، میں ماشاء اللہ 21سال سے ورزش بھی کر رہا ہوں، میں جم جاتا ہوں، پارکوں میں چھ سات کلو میٹر واک کرتا ہوں، ہائیکنگ بھی کرتا ہوں اور مسلز ایکسرسائز بھی۔ میں آٹھ سال سے ٹیلی ویژن شو کر رہا ہوں، رات کو گیارہ بجے فارغ ہوتا ہوں، میں رات بارہ، ساڑھے بارہ بجے ایکسرسائز کرتا تھا لیکن دو ہفتے قبل یہ معمول تبدیل کر دیا، میں اب صبح ساڑھے چھ بجے اٹھتا ہوں۔
ایک دن واک کرتا ہوں اور ایک دن ایکسرسائز، دن میں ایک دو گھنٹے کا لمبا قیلولہ کر لیتا ہوں، ملک سے باہر جاؤں تو لمبی واک کرتا ہوں اور چوتھا اور آخری ستون، آپ جب تک اندر سے مطمئن، ٹینشن فری اور ریلیکس نہ ہوں، آپ شوگر سمیت کسی بیماری کا مقابلہ نہیں کر سکتے، میں نے ایک دن کاغذ لیا، کاغذ کے درمیان لکیر لگا کر اس کے دو حصے کیے، پہلا حصے میں وہ تمام باتیں، چیزیں اور خامیاں لکھیں جن کی وجہ سے مجھے ٹینشن، ڈپریشن اور اینگزائٹی ہوتی ہے اور دوسرے حصے میں وہ عادتیں لکھیں جن سے سکون، خوشی اور اطمینان ملتا ہے۔
پہلے حصے میں 25 خامیاں تھیں اور دوسرے حصے میں پانچ خوبیاں، میں نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا، میں ہر سال اپنی ایک خامی ترک کروں گا اور خوشی دینے والی اپنی پانچ عادتوں کا استعمال بڑھاؤں گا، اللہ کا لاکھ لاکھ کرم ہے، میں ہر سال اپنی ایک خامی پر قابو پاتا جا رہا ہوں، میں زندگی کا بوجھ کم کرتا چلا جا رہا ہوں، خوشی دینے والی عادتوں میں سفر، مطالعہ، فلمیں، اللہ کی یاد (ذکر، وظائف) اور ویلفیئر کے کام ہیں، اللہ کا کرم ہے، ان پانچوں عادتوں میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے، ان کی وجہ سے زندگی میں سکون اور خوشی بڑھ رہی ہے اور اس سے شوگر پر گرفت مضبوط ہو رہی ہے۔
میں ہرگز ہرگز ایک آئیڈیل انسان نہیں ہوں، میں بننا بھی نہیں چاہتا، میں بس ایک صاف ستھری اور مطمئن زندگی گزارنا چاہتا ہوں، ایک ایسی زندگی جس کے آخر میں جب اللہ تعالیٰ مجھ سے پوچھے "تم اپنی کوئی ایک نیکی بتاؤ" میں عرض کروں"میں دنیا میں خود خوش رہا ہوں اور میری وجہ سے چند لوگ خوش رہے ہیں" تو اللہ تعالیٰ مسکرا کر فرمائے "اسے جانے دو، یہ گناہ گار ہے لیکن اچھا ہے"۔
میں شوگر کو اپنا دوست، اپنا محسن سمجھتا ہوں، اس بیماری نے مجھے ڈسپلن اور ٹائم مینجمنٹ جیسی نعمتوں سے نوازا، اس نے مجھے عاجزی کی قوت سے بھی متعارف کرایا، اس نے مجھے بتایا، دنیا کے تمام نبی، ولی اور عہد ساز لیڈروں میں انکسار ہوتاہے، کیوں؟ کیونکہ عاجزی یا انکسار میں ایک ایٹمی طاقت ہوتی ہے، یہ آپ کو اندر سے مضبوط کر دیتی ہے، میں عاجزی اختیار نہیں کر سکا لیکن کوشش کر رہا ہوں، انشاء اللہ کامیاب ہو جاؤں گا، باقی رہ گیا ڈسپلن اور ٹائم مینجمنٹ تو اللہ کا بڑا کرم ہے، میں یہ دونوں فن سیکھتا جا رہا ہوں، میں ہفتے میں چار کالم لکھتا ہوں، چار سیاسی پروگرام کرتا ہوں، روزی روٹی کے لیے چار مختلف کاروبار بھی کرتا ہوں، روز ایکسرسائز بھی کرتا ہوں۔
مطالعہ بھی کرتا ہوں، میوزک بھی سنتا ہوں، فلمیں بھی دیکھتا ہوں، لیکچر بھی دیتا ہوں، دو بڑی ویب سائیٹس بھی چلاتا ہوں، ملک کے اندر اور ملک کے باہر سفر بھی کرتا ہوں، اپنی فیملی کو بھی وقت دیتا ہوں، فون بھی سنتا ہوں، دوستوں کو بھی ملتا ہوں اور روز ایک نئی بات، ایک نئی چیز بھی سیکھتا ہوں، یہ سب اللہ کا کرم اور شوگر کی مہربانی ہے، یہ اگر مجھے ڈسپلن اور ٹائم مینجمنٹ نہ سیکھاتی تو میں شاید یہ کچھ نہ کر پاتا چنانچہ میں اپنی گرل فرینڈ شوگر کا مشکور ہوں، یہ میری بہت بڑی محسن ہے۔
زندگی بہت شاندار گزر رہی ہے، بس ایک تاسف، ایک احساس محرومی ہے جو روز تنگ کرتا ہے، مجھ پر اللہ نے کرم کیا، اس نے حکیم سعید، ڈاکٹر صداقت اور پروفیسر جاوید اکرم جیسے لوگوں کے ذریعے میری رہنمائی فرمائی اور میں نے شوگر جیسے خوفناک مرض کے ساتھ زندگی گزارنے کا فن سیکھ لیا لیکن پاکستان کے 17 فیصد لوگ شوگر کے مریض ہیں، ان میں سے صرف پانچ فیصد مریض انسولین لگاتے ہیں، ملک میں شوگر کا کوئی اسپتال بھی نہیں، دوبئی میں کام کرنے والے ایک ڈاکٹر اسجد حمید نے اپنے چند احباب کے ساتھ مل کر مری ایکسپریس وے پر پاکستان کا پہلا ڈائبیٹک سینٹر بنانا شروع کیا۔
آپ اگر مری جائیں تو آپ کو ٹول پلازے کے فوراً بعد بائیں ہاتھ پر زیر تعمیر عمارت نظر آئے گی، یہ شوگر کا فری اسپتال ہو گا، جگہ ایک دردمند نے دی اور تعمیر مخیرحضرات کی مدد سے ہو رہی ہے، کاش ملک کے دو ٹائی کون اپنی آمدنی کا صرف ایک فیصد ان لوگوں کو دے دیں تو ہزاروں مریضوں کی زندگیاں بدل جائیں گے، یہ زیر تعمیر عمارت ملک ریاض اور میاں منشاء جیسے لوگوں کی راہ دیکھ رہی ہے۔ غریب مریض انسولین افورڈ نہیں کر سکتے۔
کاش حکومت مہربانی کرے، مریضوں کو سستی انسولین مل جائے تو کروڑوں لوگوں کا فائدہ ہو جائے گا، کل ایوان صدر میں صدر پاکستان نے شوگر کے عالمی دن کے حوالے سے واک کی، میں بھی اس واک میں شریک تھا، کاش یہ اسپرٹ اسی طرح جاری رہے تو بھی شوگر کے مریض اس مرض کو اپنی گرل فرینڈ سمجھ کر اس کے ساتھ شاندار زندگی گزارنا سیکھ جائیں گے، کاش ہم شوگر پر ہی قابو پا لیں، یہ تاسف، یہ احساس محرومی تنگ کرتا ہے، باقی اللہ کا کرم ہے۔