Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Javed Chaudhry
  3. Mehangai Koi Issue Nahi

Mehangai Koi Issue Nahi

مہنگائی کوئی ایشو نہیں

سیاہ فام سیلزمین نے جوبائیڈن کا راستہ روک لیا، بائیڈن نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور پوچھا "میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں " نوجوان نے پوچھا "آپ اگر الیکشن جیت گئے تو مجھے کیا ملے گا" بائیڈن نے ہنس کر جواب دیا "تمہاری سیلری میں 20 فیصد اضافہ ہو جائے گا" سیلز مین خوش ہو گیا، یہ مکالمہ امریکا کے 59ویں صدارتی الیکشن میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جوبائیڈن اور جارجیا کے ایک سیلز مین کے درمیان تھا، امریکا میں 14 دسمبر کو صدارتی الیکشن کا رزلٹ نکلے گا۔

بائیڈن اپنے ووٹرز سے ملازمتوں میں اضافے اور ہیلتھ کے شعبے میں اصلاحات کے وعدے کر رہے ہیں، ان وعدوں میں ایک وعدہ کم سے کم اجرت گیارہ ڈالر سے 15 ڈالر بھی ہے یعنی اگر جوبائیڈن امریکا کے صدر بن جاتے ہیں تو یہ ملک میں کم سے کم اجرت 15 ڈالر کر دیں گے۔

ان کا یہ وعدہ اس وقت پورے امریکا میں مقبول ہے، لوگ یہ سمجھ رہے ہیں گیارہ ڈالر سے پندرہ پر جمپ ایک بڑا اضافہ ہو گا، ایک طرف یہ صورت حال ہے امریکا کے 43 فیصد عوام اپنی اجرت میں چار ڈالر فی گھنٹہ کے اضافے کا انتظار کر رہے ہیں اور دوسری طرف اسی امریکا میں گوگل کا گلوبل سی ای او سندر پچائی روزانہ ساڑھے تین کروڑ روپے معاوضہ لے رہا ہے۔

یہ امریکی ڈالرز میں سوا دو لاکھ ڈالر بنتے ہیں، ہم اگر اس معاوضے کو 24 گھنٹوں میں تقسیم کر دیں تو یہ رقم ڈالرز میں 9375 ڈالر پر آور اور روپوں میں 15 لاکھ روپے بن جائے گی، گویا امریکا میں ایک طرف 8کروڑ50لاکھ لوگ اپنے معاوضے میں چار ڈالر فی گھنٹہ اضافے کے خواب دیکھ رہے ہیں اور دوسری طرف اسی ملک میں ایک ایسا شخص بھی موجود ہے جو روزانہ ساڑھے تین کروڑ روپے تنخواہ لے رہا ہے اوریہ شخص مکمل امریکی بھی نہیں، یہ 1993 میں امریکا آیا تھا اور ترقی کرتا کرتا اس لیول تک پہنچ گیا۔

آپ اب دل چسپ صورت حال دیکھیے، جوبائیڈن کا راستہ روکنے والا سیلز مین مکمل امریکی ہے اور سندر پچائی تازہ تازہ امریکی، یہ دونوں ایک ہی ملک میں، ایک ہی فضا میں، ایک ہی قانون اور ایک ہی ضابطے کے تحت زندگی گزار رہے ہیں، یہ دونوں ووٹ بھی دیں گے اور یہ دونوں شام کو اسٹاربکس کی کافی بھی پئیں گے مگر دونوں کی زندگی کے معنوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

سیلز مین ڈالر گن گن کر زندگی گزار رہا ہے، یہ جوبائیڈن کے جیتنے کا انتظار کر رہا ہے جب کہ سندر پچائی کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ اور جوبائیڈن دونوں میں کوئی فرق نہیں، یہ دونوں غیر ضروری اور غیر متعلقہ ہیں، یہ ان سے بالاتر ہو کر مزے سے زندگی گزار رہا ہے، پورے امریکا میں اس وقت کساد بازاری ہے، کمپنیاں دیوالیہ ہو رہی ہیں، مہنگائی بھی بڑھ رہی ہے اور بے روزگاری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

حکومت نے ڈونلڈ ٹرمپ کے زمانے میں عوام سے بے شمار سہولتیں بھی واپس لے لی ہیں، جوبائیڈن کا راستہ روکنے والا سیلز مین بری طرح ان حالات کا شکار ہے جب کہ دوسری طرف امریکا میں جتنی بے روزگاری، کساد بازاری اور مہنگائی بڑھ رہی ہے، سندر پچائی کی مراعات، معاوضے اور دولت میں اتنا ہی اضافہ ہو رہا ہے، یہ دن بہ دن امیر ہوتا جا رہا ہے لہٰذا اب سوال یہ ہے ملک بھی ایک ہے، ڈالر بھی یکساں ہے اور حالات بھی ایک جیسے ہیں لیکن سیلزمین اور سندر پچائی کی زندگی کے معانی مختلف ہیں، کیوں؟ یہ کیوں دنیا کا مہنگا ترین کیوں ہے؟

آپ اگر سندر پچائی سے پوچھیں "کیا دنیا میں مہنگائی ہے" میرا خیال ہے اس کا جواب ناں ہو گا، کیوں؟ کیوں کہ اس کی آمدنی مہنگائی سے چالیس ہزار فٹ بلند ہو چکی ہے چناں چہ مہنگائی، کساد بازاری اور بے روزگاری کی آنچ اسے چھو نہیں پاتی جب کہ آپ اگر جوبائیڈن کا راستہ روکنے والے سے یہ کہیں دنیا میں کسی جگہ مہنگائی نہیں تو وہ یقیناً آپ کا منہ توڑ دے گا، یہ فرق اپنی جگہ لیکن غریبوں اور ناداروں سے تمام تر محبت اور ہمدردی کے باوجود یہ حقیقت بہرحال حقیقت ہے دنیا میں مہنگائی نام کی کوئی چیز موجود نہیں، ہم اگر یہ بھی کہیں کسی بھی دور میں دنیا میں مہنگائی نہیں تھی تو یہ غلط نہیں ہو گا، کیوں؟ کیوں کہ دنیا میں اصل ایشو مہنگائی نہیں "افورڈیبلٹی" ہے۔

آپ اگر سندر پچائی کی طرح افورڈ کر سکتے ہیں تو پھر بوئنگ جہاز، فراری اور فجی کے جزیرے بھی سستے ہیں اور آپ اگر افورڈ نہیں کرسکتے تو پھر اگر دنیا کی تمام چیزوں کی قیمتیں آدھی ہو جائیں تو بھی یہ آپ کے لیے مہنگی ہوں گی، دوسرا دنیا میں آج تک کوئی چیز مہنگی ہونے کے بعد سستی نہیں ہوئی، آپ کسی دن کسی ٹھنڈی جگہ پر بیٹھ کر اپنے بچپن کے ریٹس یاد کریں، کیا اس زمانے میں دودھ دو روپے لیٹر نہیں ملتا تھا۔

چینی تین چار روپے، گوشت دس روپے، آٹا اڑھائی روپے اور گھی دس بیس روپے کلو نہیں ہوتا تھا، کیا اس زمانے میں ہزار روپے میں سائیکل اور تین ہزار روپے میں موٹرسائیکل نہیں مل جاتا تھا اور انسان پانچ ہزار روپے میں بائی ایئر لاہور سے کراچی نہیں پہنچ جاتا تھا؟ اور آپ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتایے کیا آپ کو اس وقت بھی یہ چیزیں مہنگی محسوس نہیں ہوتی تھیں؟ کیا لوگ اس وقت بھی مہنگائی کا رونا نہیں روتے تھے؟ لوگ یقینا روتے تھے، لوگ آج بھی رو رہے ہیں اور لوگ کل بھی روتے رہیں گے، کیوں؟ کیوں کہ ایشو مہنگائی نہیں، ایشو آمدنی ہے، آپ جوبائیڈن کو ہی دیکھ لیں۔

یہ بھی عوام سے مہنگائی کم کرنے کا وعدہ نہیں کر رہے، یہ غریب طبقے کی آمدنی بڑھانے کا اعلان کر رہے ہیں، امریکی عوام بھی صدارتی امیدوار سے چیزیں سستی کرنے کا مطالبہ نہیں کر رہے، یہ اجرت میں اضافہ چاہ رہے ہیں جب کہ ہم پچھلے 72 سال سے مہنگائی کم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں، حکومت بھی اس کام پر کمر بستہ ہے اور یہ کام ظاہر ہے ناممکن ہے، مہنگائی ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کا کھیل ہوتی ہے۔

مارکیٹ میں ٹماٹر کم ہو گا تو یہ مہنگا ہو جائے گا، یہ اگر مارکیٹ میں وافر مقدار میں ہو گا تو اس کی قیمت گر جائے گی، مرغی اور انڈے بھی اگر زیادہ ہوں گے تو قیمتیں کم ہو جائیں گی اور یہ اگر بازار میں کم ہوں گے تو قیمتیں اوپر چلی جائیں گی اور حکومت خواہ ایڑی چوٹی کا زور لگا لے یہ قیمتیں نیچے نہیں لا سکے گی، چینی اس وقت 120 روپے کلو بک رہی ہے۔

حکومت اس کی قیمت کم کرنا چاہتی ہے تو یہ نوٹس لینے کی بجائے باہر سے چینی منگوا کر مارکیٹ میں پھینک دے، چینی کی قیمت کم ہو جائے گی لیکن اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ کسان اگلے سال گناکاشت نہیں کرے گا اور شوگر مالکان ملیں نہیں چلائیں گے اور یوں دس ماہ بعد چینی دوبارہ مہنگی ہو جائے گی، مرغی اور انڈے، دالوں، گندم، سبزی اور گھی کے ساتھ بھی یہی ہو گا۔

حکومت باہر سے اجناس منگوا کر قیمتیں کم کر سکتی ہے لیکن اگلے سال کیا ہو گا! کیا کسان یہ اگائیں گے؟ یہ نہیں اگائیں گے لہٰذا اگلے سال کا بحران اس سال سے بھی زیادہ ہو جائے گا چناں چہ ہم کان کو غلط طریقے سے پکڑ رہے ہیں، ہم اسے جب تک سیدھے طریقے سے نہیں پکڑیں گے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا اور کان کو سیدھا پکڑنے کے دو طریقے ہیں۔

پہلا طریقہ ہمیں عوام کو یہ بتانا ہوگا مہنگائی تھی، مہنگائی ہے اور مہنگائی ہمیشہ رہے گی اور آپ اس کا ایک ہی طریقے سے مقابلہ کر سکتے ہیں، آپ اپنی آمدنی میں اضافہ کریں اور آمدنی میں اضافے کے چار طریقے ہیں، آپ کو ہنر مند ہونا چاہیے۔

آپ اپنے کام کے جتنے ماہر ہوتے جائیں گے آپ کی آمدنی اتنی بڑھتی رہے گی، دوسرا کمانے والے ہاتھوں میں اضافہ کریں، اگر پورے گھر کا بوجھ صرف ایک شخص اٹھائے گا تو یہ بے چارہ بہت جلد لیٹ جائے گا لہٰذا آپ خاندان کے دوسرے لوگوں کو بھی کام کی ترغیب دیں، بالخصوص جوان بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ کام کرنا چاہیے، خواتین کو بھی ہنر مند ہونا چاہیے، انھیں بھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہیے، گھر میں اگر چھ فرد ہیں تو کم از کم تین افراد کو ضرور کمانا چاہیے، آپ پھر مہنگائی کا مقابلہ کر سکیں گے، تیسرا ملازمت کے بجائے کاروبار کریں۔

اللہ نے کاروبار میں بڑی برکت رکھی ہے، انسان صرف کاروبار سے خوش حال ہو سکتا ہے اور چار، آپ اپنے آپ اور اپنے بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر مند بھی بنائیں، آج کے دور میں صرف تعلیم کافی نہیں، انسان کو روزی کمانے کے لیے ہنر بھی چاہیے اور ہم بدقسمتی سے بے ہنر قوم ہیں، ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے پاس بھی زندگی گزارنے کے لیے کوئی ہنر نہیں، یہ پی ایچ ڈی کے بعد بھی ملازمت تلاش کر رہے ہوتے ہیں اور مہنگائی کنٹرول کرنے کا دوسرا طریقہ کم سے کم اجرت میں اضافہ ہے۔

حکومت کو چاہیے یہ مہنگائی کے پیچھے بھاگنے کی بجائے تنخواہوں کو مہنگائی کے ساتھ نتھی کر دے، ملک میں جتنی مہنگائی بڑھے خود کار نظام کے تحت کم سے کم اجرت بھی اتنی بڑھ جائے یوں لوگ افورڈ بھی کرنے لگیں گے اور حکومت کو مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے ٹائیگر فورس بھی نہیں بنانی پڑے گی ورنہ آپ جو چاہیں کر لیں عوام اور حکومت دونوں ناکام ہو جائیں گے چناں چہ کان کو وہاں سے پکڑیں جہاں سے اسے پکڑنا چاہیے ورنہ آپ بھی تھک جائیں گے اور کان بھی اور مہنگائی کا کتا بھی بھونکتا رہے گا۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Sultan Tipu Shaheed Se Allama Iqbal Ki Aqeedat (1)

By Rao Manzar Hayat