میڈیا کی خلائی مخلوق
ہمارے الیکٹرانک میڈیا کو بے شمار ایسی سہولتیں حاصل ہیں جو دنیا کے کسی دوسرے میڈیا کے پاس نہیں، مثلاً پاکستان کے کسی بھی چینل پر کسی بھی وقت کوئی بھی بات کی جا سکتی ہے اور یہ بات تین سیکنڈ میں عوام تک پہنچ جاتی ہے، دنیا کے کسی دوسرے ملک کا میڈیا یہ جرأت نہیں کر سکتا، مثلاً ہمارے ٹیلی ویژن چینلز کا 80 فیصد مواد "لائیو" ہوتا ہے، ہمارے خبرنامے براہ راست ہوتے ہیں، ہمارے رپورٹر سارا دن ڈی ایس این جی پر دستیاب ہوتے ہیں، یہ کسی بھی وقت لائیو "کٹ" ہوجاتے ہیں اور یہ تحقیق اور تفتیش کے بغیر بڑی سے بڑی خبربریک کرسکتے ہیں۔
ہمارے کرنٹ افیئرز کے پروگرام بھی لائیو ہوتے ہیں، ہمارے اکثراینکرز اور ہمارے اکثر مہمان تیاری کے بغیر پروگرام میں بیٹھتے ہیں اور یہ انتہائی تیزابی قسم کی گفتگو کر کے گھر چلے جاتے ہیں جب کہ یورپ اور امریکا کے ٹیلی ویژن چینلز کا 70 فیصد مواد ریکارڈ شدہ ہوتا ہے، یہ لوگ 2014ء میں بھی صرف 30 فیصد لائیو کوریج کا رسک لیتے ہیں، بین الاقوامی چینلز کے 80 فیصد پروگرام ریکارڈ شدہ ہوتے ہیں اور یہ لوگ اس وقت تک یہ پروگرام "آن ائیر" نہیں کرتے جب تک ان کے پاس مواد کا ثبوت موجود نہ ہو، مثلاً ہمارے وزراء، ہمارے سیاستدانوں اور ہمارے پارلیمنٹیرینز کو بھی لائیو کوریج ملتی ہے، یہ لوگ کسی کی عیادت کے لیے بھی جائیں تو یہ ٹیلی ویژن چینلز کی ڈی ایس این جی منگوا لیتے ہیں اوریہ چند سیکنڈ میں پوری قوم سے مخاطب ہوجاتے ہیں۔
یورپ، امریکا اور مشرق بعید کے سیاستدان اس سہولت کا تصور تک نہیں کرسکتے، یورپ کے ٹیلی ویژن چینلز باقاعدہ پروٹوکول لسٹ بناتے ہیں اور یہ صرف اس فہرست میں شامل لوگوں کو کورکرتے ہیں اور یہ کوریج بھی لائیو نہیں ہوتی، چینل کا کیمرہ جاتا ہے، ریکارڈنگ ہوتی ہے اور ادارہ ریکارڈنگ دیکھ کر اسے "آن ائیر" کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، مثلاً پاکستان دنیا کا شاید واحد ملک ہوگا جس میں لوگوں کو لائیو خود سوزی، ملک توڑنے کی لائیو دھمکی اور فرقہ واریت، نسلی فساد اور سماجی نفرت پھیلانے کی لائیو سہولت حاصل ہے۔
دنیا کا کوئی دوسرامعاشرہ، کوئی دوسراملک اپنے میڈیا کو یہ "سہولت" نہیں دیتا، یورپ میں کوئی شخص ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر کسی چیز کو حلال یا حرام قرار نہیں دے سکتا اور اگر کوئی شخص یا چینل یہ غلطی کر بیٹھے تو اس کی جان نہیں چھوٹتی، مثلاً پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہوگا جس میں صدر، وزیراعظم، چیف جسٹس، آرمی چیف اور مفتی اعظم بھی قانون کے سامنے جوابدہ ہیں، یہ کسی نہ کسی فورم پر احتساب کا سامنا کرتے ہیں، ملک میں وزیراعظم کو پھانسی ہوجاتی ہے، حکومتیں گرائی اور توڑی جا سکتی ہیں، منتخب رہنمائوں کو جلاوطن کیا جا سکتا ہے، وزراء اعظم کو عدالتوں کے حکم پر گھر بھجوایا جا سکتا ہے، چیف جسٹس کو فارغ کیا جا سکتا ہے۔
آرمی چیف کو عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے اور مفتی اعظم کے فتوئوں کو چیلنج کیا جا سکتا ہے مگر ٹیلی ویژن چینلز اور اینکرز کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، آپ اینکرز کو بولنے، فضول بولنے اور بے تحاشا فضول بولنے سے نہیں روک سکتے، دنیا کے کسی دوسرے ملک میں فضول بولنے کی یہ سہولت دستیاب نہیں، یورپ اور امریکا کے صحافی جب پاکستان آتے ہیں اور یہ ہمیں اس بے مہار آزادی کو انجوائے کرتے دیکھتے ہیں تو ان کے منہ کھلے رہ جاتے ہیں کیونکہ یہ لوگ اپنے ملک میں اس آزادی کا تصور نہیں کر سکتے اور مثلاً ہم میڈیا کے لوگوں کی خبریں غلط ہوجائیں، ہم غلط اطلاعات دے دیں، ہمارے تبصرے غلط ہو جائیں اور ہم غلط حقائق پر کالم لکھ دیں ملک کا کوئی ادارہ ہمارا احتساب نہیں کرسکتا، ہمارے ملک میں آج تک کوئی سینئر صحافی اپنی غلطی پر نوکری سے فارغ نہیں ہوا۔
ہمارے صحافتی ادارے زیادہ سے زیادہ کسی صحافی کو معطل کرتے ہیں اور معاملہ ٹھنڈا ہونے کے بعدوہ صحافی دوبارہ اپنی پوزیشن پربحال ہو جاتا ہے، یہ معطل شدہ صحافی اگر اکھڑ ہو اور یہ معطلی پر ادارے سے بھڑ جائے تو دوسرے ادارے اس کے گلے میں ہار ڈال کر اسے قبول کر لیتے ہیں جب کہ دنیا کے باقی ممالک میں جب کسی صحافی کی کریڈیبلٹی متاثر ہوتی ہے تو اس کا سارا کیریئر تباہ ہو جاتا ہے اور وہ اپنی ساکھ بحال ہونے تک "جاب لیس" رہتا ہے۔
ہمیں چاہیے تھا ہم ان سہولتوں پر اللہ کا شکر ادا کرتے اور اس صحافتی آزادی کو انجوائے کرتے لیکن ہمارے میڈیا پر ایک خلائی مخلوق نے حملہ کر دیا، اس خلائی مخلوق نے اسکرین پر قبضہ کر لیا اور ہم نے یہ قبضہ ہونے دیا، صحافت اس خلائی مخلوق کا پیشہ نہیں تھا، یہ لوگ چھاتہ لے کر صحافت کی چھت پر اترے اور انھوں نے صحافتی میناروں پر قبضہ کر لیا، یہ لوگ اپنے اپنے پیشے میں ناکام تھے، خلائی مخلوق نے جس شعبے میں تعلیم حاصل کی، یہ اس میں ٹھہر نہیں سکے، انھوں نے اس کے بعد صحافت کا رخ کیا اور یہ اس میں ڈیرے ڈال کر بیٹھ گئے، ان لوگوں میں تین خوبیاں ہیں، یہ تین خوبیاں ان کی اصل طاقت ہیں، یہ مختصر مدت کے اداکار ہوتے ہیں، یہ آتے ہیں، شہرت اور دولت سمیٹتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں۔
یہ اس جلد بازی میں اگر آگے پیچھے سے ننگے بھی ہو جائیں تو انھیں فرق نہیں پڑتا، ان کے جانے کے بعد میدان میں اخلاقیات کی کتنی نعشیں پڑی رہ جاتی ہیں، انھیں اس سے بھی فرق نہیں پڑتا، یہ خوبی ان کی طاقت اور میڈیا کی کمزوری ہے۔ دوسرا، یہ لوگ سمجھ گئے ہیں، ہمارے ٹیلی ویژن چینلز پر تین چیزیں بکتی ہیں، فحاشی، مذہب اور فساد چنانچہ یہ ان تینوں گیندوں کے ساتھ کھیلتے ہیں، ملک میں سیاسی فساد چل رہا ہو تو یہ تین فسادی سیاستدانوں کو دعوت خطاب دیتے ہیں، یہ سیاستدان دست و گریبان ہوتے ہیں اور یہ پروگرام کر کے گھر چلے جاتے ہیں، ملک میں سیاسی فساد نہ ہو تو یہ مذہب کا شوکیس سامنے رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں، یہ لوگ دو تین علماء کرام کو بلاتے ہیں اور کیا دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا ضروری ہے، کیا اسلام میں موبائل فون جائز ہے۔ کیا اسلامی معاشرے میں خواتین نوکری کر سکتی ہیں اور کیا زنانہ کالجز میں جینز پہننے کی اجازت دی جا سکتی ہے جیسے پروگرام شروع کر دیتے ہیں .
ہمارے مارننگ شوز ایسے مواد کا شاہکار ہیں، یہ لائیو شادیوں اور بہو اور ساس کے لائیو جھگڑے تک کروا دیتے ہیں، ہمارے ناظرین جب ان اعلیٰ مذہبی مباحثوں سے تھک جاتے ہیں تو یہ مہربان وینا ملک، میرا، پوجا بھٹ اور سوناکشی سنہا کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں، اسکرین پر میرا کے بمبار سین چلتے ہیں اور اس کے بعد ان سے پوچھا جاتا ہے " آپ نے یہ سب کچھ شادی سے پہلے کیا یا بعد میں؟ " اور یہ تمام کارنامے کرنٹ افیئرز کے سیاسی پروگراموں میں ہوتے ہیں، یہ سارا دھندہ کیوں ہوتا ہے؟
اس کا یک لفظی جواب ہے "ریٹنگ"۔ یہ بے چارے ریٹنگ کے لیے تمام حدیں عبور کر جاتے ہیں اور اس کے ردعمل میں انھیں اور پورے میڈیا کو ماں بہن کی گالی پڑتی لیکن یہ گالی ان کا مسئلہ نہیں ہوتی، یہ اس سے بالاتر ہیں! منیجمنٹ ریٹنگ میں چند قدم مزید آگے نکل گئی، یہ ان تینوں کارناموں کی ذمے داری خواتین اینکرزکو سونپتی جا رہی ہے، خواتین اینکرز کی وجہ سے پروگرام بھی چسکے دار ہوجا تے ہیں اور یہ اینکرز ان مشکل مہمانوں کو بھی پروگرام میں بلا لیتی ہیں جو مردانہ پروگراموں کے بدتمیز سوالوں کا سامنا نہیں کرنا چاہتے، یہ خواتین مشکل مہمانوں کے گھر یا دفتر جا کر بھی پروگرام ریکارڈ کر لیتی ہیں اور یہ کام مرد اور صحافی اینکرز کے لیے مشکل ہوتا ہے اور اس خلائی مخلوق کی تیسری خوبی سیاسی رابطے ہیں۔
ملک کی تمام سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیمیں الیکٹرانک میڈیا کی طاقت سے واقف ہیں، یہ تنظیمیں اسکرین پر اپنے ایجنڈے کا رنگ چڑھانا چاہتی ہیں، یہ "نیا سیاسی خون" بھی متعارف کرانا چاہتی ہیں اور یہ مخالفوں کی کردار کشی بھی چاہتی ہیں اور یہ سارے کام اینکرز سے رابطے کے بغیر ممکن نہیں ہوتے، پرنٹ میڈیا یا صحافت کے طویل کیریئر کے بعد ٹیلی ویژن میں پہنچنے والے صحافی ایجنڈوں اور ان ایجنڈوں کے نتائج سے واقف ہوتے ہیں چنانچہ یہ لوگ ان کے ہاتھ نہیں آتے۔
"قدیم صحافی" ان تنظیموں کے دفتروں، گھروں، کھانوں اور دوروں پر بھی نہیں جاتے جب کہ خلائی مخلوق ان کے ساتھ لنچ بھی کرتی ہے اور ڈنر بھی اور یہ ان کے ساتھ کافی بھی پی لیتی ہے اور شیشہ بھی، یہ ان کے سوئمنگ پولز میں سوئمنگ بھی فرماتی ہے اور یہ ان کے ساتھ بیرون ملک کے سفر بھی کرتی ہے، اس "انٹر ایکشن" کا نتیجہ ایجنڈے کی شکل میں نکلتا ہے، یہ خلائی مخلوق اسکرین کو سیاسی جماعتوں کا ایجنڈا بنا دیتی ہے، میجمنٹ اس حقیقت سے واقف ہے مگر یہ ریٹنگ اور چھاتہ بردار کی بدتمیزی کی وجہ سے خاموش رہتی ہے، میں نے کئی چھاتہ برداروں کو منیجمنٹ کے ساتھ بدتمیزی کرتے دیکھا اور میں ہر بار یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا "یہ بدتمیزی ہمارے میڈیا کو کہاں لے جائے گی" اور آخر میں وہ "ڈی ڈے" آ گیا۔
آپ اب میڈیا کے بحران کا ٹھنڈے دل سے تجزیہ کیجیے، ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے بلاشبہ بے شمار غلطیاں کیں لیکن آپ مہربانی کر کے خرابی پیدا کرنے والوں کی فہرست بنائیں، مجھے یقین ہے آپ کو اس فہرست میں 90 فیصد لوگ خلائی مخلوق ملیں گے، یہ وہ لوگ ہیں صحافت جن کا پیشہ تھی اور نہ ہی ہو گی، یہ بیرونی حملہ آور ہیں، یہ پکی ہوئی فصلیں اجاڑنے اور کھوپڑیوں کا مینار بنانے کے لیے میدان میں اترتے ہیں، پاکستانی میڈیا حقیقتاً خطرے میں ہے اور میڈیا کے مالکان، میڈیا کے ورکروں اور حکومت نے اب یہ فیصلہ کرنا ہے، ہمیں کھوپڑیوں کے کتنے مینار چاہئیں؟
ہم نے اگر اس جیتی جاگتی فیلڈ کو قبرستان میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو پھر ہمیں کالک ملنے کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رکھنا چاہیے اور اگر ہم میڈیا اور معاشرے کے چہرے کو صاف دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ضابطہ اخلاق بنانا ہو گا، ایسا ضابطہ اخلاق جس میں اینکر کو ریٹنگ کے لیے زندہ سانپ کھانا پڑے اور نہ مہمان کو دوسرے مہمان کے منہ پر گلاس مارنا پڑے۔ ہم نے اگر آج یہ ضابطہ اخلاق نہ بنایا، ہم نے اگر آج میڈیا کو اس خلائی مخلوق، اس ٹڈی دل سے پاک نہ کیا اور ہم نے اگر آج اپنے مائیکرو فون، اپنے کیمرے، اپنے قلم اور اپنے منہ کو ضابطے کا ماتحت نہ بنایا تو شاید وہ وقت آتے دیر نہ لگے جب صحافیوں کو جان بچانے کے لیے گندے نالوں میں پناہ لینی پڑے یا ڈاکٹروں کے کوٹ پہن کر باہر نکلنا پڑے۔