Saturday, 02 November 2024
  1.  Home
  2. Javed Chaudhry
  3. Marketing Failure

Marketing Failure

مارکیٹنگ فیلیئر

راجہ انور سپین کے خوب صورت شہرویلنشیا میں پاکستانی ریستوران چلا رہے ہیں، راولپنڈی سے تعلق رکھتے ہیں، 36 برس قبل سپین آئے، سپینش خاتون سے شادی کی اور یونیورسٹی ایریا میں پاکستانی کھانوں کا ریستوران کھول لیا، ان کی سپینش بیوی اورسپینش پاکستانی بیٹی بھی ان کے ساتھ کام کرتی ہے۔

ہم 29 مئی کی رات کھانا کھانے ان کے ریستوران شیر خان پہنچے تو راجہ انور نے خوشی سے ہمارے گرد چکر لگانا شروع کر دیا، وہ کبھی کسی سے گلے ملتے تھے اور کبھی کسی کے ماتھے پر بوسا دیتے تھے، میں نے "خوشی سے نہال" کا محاورہ سنا تھا لیکن میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ کسی کو باقاعدہ نہال دیکھا تھا اور وہ راجہ انور تھے۔

ان کا کہنا تھا میں نے 36 برسوں میں ویلنشیا میں ہر قومیت کا گروپ دیکھا، انڈیا سے ہر مہینے پانچ سات گروپ آتے ہیں اور میرے ریستوران سے کھانا کھاتے ہیں لیکن میں نے پہلی مرتبہ کوئی پاکستانی گروپ دیکھا، میں آج دل سے خوش ہوں اور مجھے محسوس ہوتا ہے اللہ نے مجھ سے یہ ریستوران بنوایا ہی اس دن کے لیے تھا کہ آپ لوگ آئیں اور میں آپ کی خدمت کروں۔

ان کا کہنا تھا سپین میں ایک لاکھ پاکستانی رہتے ہیں، ہم سب پاکستانی ٹورسٹ کو دیکھنا چاہتے تھے لیکن پاکستان سے کوئی آتا ہی نہیں تھا، انہوں نے آخر میں گروپ کے سامنے کھڑے ہو کر جذباتی تقریر بھی کی، ان کے لہجے میں درد اور خوشی دونوں جذبے موجود تھے، میں نے انہیں بتایا ہم شاید یہ گروپ بھی نہ بنا پاتے اور آپ شاید 36 سال بعد بھی ہم ستر لوگوں کو نہ دیکھ پاتے اگر پاکستان میں مینول درون (Manuel Duran) سفیر، ایلینا گومز ایاوز (Elena Gomez Aoiz) ڈپٹی ہیڈ آف مشن اور اینس مینا گومزڈی میروڈیو (Ines Mena Gomez De Merodio) قونصلر نہ ہوتیں، یہ پاکستان میں سپین اور پاکستان دوستی کا شان دار ٹرائیکا ہے۔

یہ لوگ دل سے چاہتے ہیں پاکستان اور سپین کے درمیان رشتے زیادہ مضبوط ہوں لہٰذا میں نے جب سفیر مینول درون کے سامنے گروپ کی تجویز رکھی تو انہوں نے نہ صرف خوش دلی سے ہمارے گروپ کو خوش آمدید کہا بلکہ سپین میں ہر قسم کی مدد کا وعدہ بھی کیا یوں ہم لوگ سپین پہنچ گئے۔

یہ رویہ پاکستانی ایمبیسیوں کے لیے مثال بننا چاہیے، ہمارے سفارت خانوں کو بھی اسی سپرٹ کے تحت کام کرنا چاہیے تاکہ دوسرے ملکوں سے بھی لوگ پاکستان آ سکیں اور ہمارا خوب صورت ملک دیکھ سکیں، راجہ انور یہ سن کر مزید خوش ہو گئے۔

سپین میں ہم جہاں سے گزرتے تھے لوگ ہمیں حیرت سے دیکھتے تھے اور پھر پوچھتے تھے "انڈیا؟" ہم لوگ ہنس کر جواب دیتے تھے "نہیں پاکستان" اور وہ حیرت اور جوش کے ساتھ کہتے تھے "واہ پاکستان زندہ باد" اور ہمارا سینہ فخر سے چوڑا ہو جاتا تھا، پاکستان حقیقتاً ایک شان دار ملک ہے۔

ہم نے بے شمار خرابیوں اور کوتاہیوں کے باوجود دنیا میں لاتعداد ریکارڈ قائم کیے، ہمارے چھوٹے سے غریب ملک نے 40 سال سکواش پر حکمرانی کی، ہم چار مرتبہ ہاکی کے ورلڈ چیمپیئن رہے، ہم کرکٹ میں آج بھی سٹار ہیں، پاکستان کو کرکٹ سے نکال کر یہ گیم مکمل نہیں ہو سکتی۔

دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام بھی اس ملک میں ہے، ہم نے57سال قبل منگلا اور46سال پہلے تربیلا ڈیم بنا کر دنیا کو حیران کر دیا تھا، ہارورڈ یونیورسٹی کے انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کا پورا پورا بیچ انٹرن شپ کرنے کے لیے منگلا آتا تھا، ہمارے ملک میں 64برس میں چار مارشل لاء لگے اور یہ چاروں عوام کے دبائو سے ختم ہوئے، ہمارے انجینئرز اور ڈاکٹرز آج بھی دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، افغانستان میں سوویت یونین اور امریکا دو عالمی طاقتیں آئیں اور دونوں مرتبہ پاکستان کا کردار مرکزی تھا، پاکستان نے قیام کے فوراً بعد جاپان کو دوسری عالمی جنگ کا تاوان معاف کر کے ہمیشہ کے لیے اپنا دوست بنا لیا۔

ہم نے اس وقت جرمنی کو قرضہ دیا تھا جب ہمارے پاس ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے بھی رقم نہیں ہوتی تھی، پاکستان 1971ء میں توڑدیا گیا تھا لیکن یہ اس کے باوجود بھی قائم رہا، یہ ملک غربت اور جہالت کے باوجود دنیا کی پہلی جوہری طاقت بھی بنا، ہم نے دنیا کا سستا ترین ایٹم بم بنا کر تاریخ کو حیران کر دیا۔

ہماری معیشت بھی حیران کن ہے، اس میں دو چار ارب ڈالر آتے ہیں اور پورا ملک خوش حال ہو جاتا ہے، یہ قوم ہر قسم کے حالات سے بھی بڑی آسانی سے نکل جاتی ہے، ایک دن پورا ملک بند ہوتا ہے اور اگلے دن لوگوں کو پچھلا دن یاد تک نہیں ہوتا۔

پاکستانی فی کس آمدنی کے لحاظ سے دنیا میں سب سے زیادہ خیرات دینے والے لوگ بھی ہیں، ہم میں سے ہر شخص صدقہ بھی دیتا ہے اور خیرات بھی، ملک میں آج بھی کوئی شخص بھوکا نہیں سوتا، عبدالستار ایدھی نے دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس بنا کر پوری دنیا کو حیران کر دیا۔

ڈاکٹر امجد ثاقب کی اخوت گرامین بینک کا ریکارڈ توڑ رہی ہے، عوام مہنگائی کا طوفان بھی سہہ جاتے ہیں اور بیماریوں اور وبائوں کا عذاب بھی، ہمارا ملک کورونا میں بھی کھلا رہا اور ہم نے اس وبا کو بھی شکست دی، ہمارے جسٹس سسٹم پر بے شمار سوال اٹھائے جاتے ہیں، لیکن ہماری عدالتوں نے آمروں کے خلاف بھی فیصلے دیے اور وزراء اعظم کو بھی اپنے فیصلوں سے کرسیوں سے اٹھایا، مارچ سے جون 2022ء کے دوران بھی ملک کے زیادہ تر فیصلے عدالتوں سے آئے ہیں، ہمارے نوجوان بھی پوری دنیا میں ریکارڈ قائم کر رہے ہیں۔

پاکستان پچھلے چار برسوں میں سیلف ہیلپ اور موٹی ویشن کی ساتویں بڑی مارکیٹ بن کر ابھر رہا ہے اور یہ بہت بڑی تبدیلی ہے اور ہم آج بھی کاٹن پراڈکٹس میں دنیا کے بڑے ایکسپورٹر ہیں اور ہمارے ہنرمند بھی دنیا کے چاروں کونوں میں موجود ہیں۔

میں آج تک جہاں بھی گیا مجھے وہاں پاکستانی ضرور ملے اور وہ اس کمیونٹی میں ہردل عزیز بھی تھے، ہم بے شک امیر نہیں ہیں، ہم شاید سکل میں بھی مغربی دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے لیکن ہم اس کے باوجود دنیا کے اہم ترین ملکوں میں شامل ہیں، دنیا کسی صورت پاکستان کو اگنور نہیں کر سکتی۔

عمران خان پاکستان میں کھڑے ہو کر الزام لگاتے ہیں اور امریکی ترجمان واشنگٹن میں اپنی پوزیشن کلیئر کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے، پاکستانی دنیا کی چند ایسی قوموں میں شمار ہوتے ہیں جو کسی بھی قسم کے حالات میں گھبراتے نہیں ہیں، یہ جنگوں کے دوران بھی سڑکوں اور پارکوں میں پکنک منا رہے ہوتے ہیں۔

کرفیو میں بھی یہ دیکھنے کے لیے سڑک پر آ جاتے ہیں کہ کیا فوج واقعی گولی مارتی ہے یا پھر یہ صرف دھمکی ہے، یہ امریکا تک پیدل پہنچ جاتے ہیں، یہ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہیں لیکن ان کا دل پاکستان میں رہتا ہے، میرے پاس پچھلے دنوں آسٹریلیا کے ایک رکن اسمبلی آئے۔

ان کا نام شوکت مسلمانے(Shaoquett Moselmane)تھا، میرے دوست اور بڑے بھائی ڈاکٹر شہباز انہیں لے کر آئے تھے، مجھے بھی ان کی تھوڑی سی میزبانی کا موقع ملا، یہ پاکستان کی محبت اور جذباتی گرمائش پر حیران تھا، یہ معذوربچوں کوویل چیئرز گفٹ کرنے پاکستان آیا تھا لیکن محبت کا گفٹ لے کر واپس گیا۔

ہم غرناطہ کے میئر فرانسس روڈریگوئز سے ملے، وہ پنجاب کی پگ پہن کر ہمارے ساتھ گلی میں کھڑا ہو گیا اور ہم میں سے ایک ایک شخص سے گلے ملتا رہا اور ہماری فوج اور پولیس نے دنیا کے ہر وار زون میں امن کے لیے کام کیا، دنیا کے ہر کونے میں پاکستانی لہو کے نشان موجود ہیں۔

ہم واقعی شان دار بلکہ حیران کن قوم ہیں، ہمارا بس ایک مسئلہ ہے اور وہ ہے مارکیٹنگ، ہم دنیا کو اپنی اچھائیاں، اپنی خوبیاں بتا نہیں پا رہے جب کہ ہمارے مقابلے میں انڈیا ہزاروں خرابیوں کے باوجود بہت اچھی مارکیٹنگ کر رہا ہے لہٰذا جب ہم پاکستانی کسی دوسرے ملک میں جاتے ہیں تو لوگ ہمیں بھی انڈین سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اور آج کی دنیا میں مارکیٹنگ کا سیاحت (ٹورازم) سے بڑا کوئی ٹول نہیں، انڈین نے دنیا بھر میں گھوم پھر کر انڈیا کو متعارف کرا دیا اور بیرونی دنیا سے سیاحوں کو انڈیا لا لا کر "میڈ ان انڈیا" کو اشتہار بنا دیا، ہم بھی یہ کر سکتے ہیں۔

ہم بھی اگر سپینش سفیر مینول درون کی طرح یورپ کے مختلف سفیروں کو سمجھا لیں اور یہ اپنے دروازے پاکستانی سیاحوں کے لیے کھول دیں اور پاکستان سے پڑھے لکھے، کامیاب اور سمجھ دار لوگ یورپی ملکوں کے وزٹس کر سکیں تو پاکستان کی مارکیٹنگ اور برینڈنگ ٹھیک ہو سکتی ہے اور دنیا اصل پاکستان سے متعارف ہو سکتی ہے، ہم اسی طرح اگر غیرملکی سیاحوں کے لیے بھی خصوصی پیکج بنا دیں۔

انہیں سہولتیں دے دیں تو بھی صورت حال بدل سکتی ہے، یہ یاد رکھیں ہمارا اصل حوالہ ڈاکٹر امجد ثاقب، عبدالستار ایدھی اور ملالہ یوسفزئی ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ حوالہ پیچھے چلا گیا ہے اور ہمارا وہ تعارف سامنے آ گیا ہے جو دراصل ہم ہیں ہی نہیں لہٰذا میرا دعویٰ ہے پاکستان مارکیٹنگ فیلیئر کی انتہائی بری مثال ہے۔

ہم حیران کن قوم ہونے کے باوجود دنیا میں بدنام ہیں جب کہ ہمارے دشمن انتہائی بری کارکردگی اور مسائل کے باوجود کرہ ارض پر "کامیابی" کے جھنڈے گاڑھ رہے ہیں چناں چہ ہمیں صرف اور صرف اپنی مارکیٹنگ پر توجہ دینی چاہیے اور سیاحت دنیا میں مارکیٹنگ کا بہترین ٹول ہے۔

آپ پاکستان کو غیرملکی سیاحوں اور پاکستانی سیاحوں کے لیے دوسرے ملکوں کو آسان بنا دیں، پاکستان کا امیج بدل جائے گا، دوسرا پاکستانی سفارت خانوں کو ایکٹو کریں وہاں ٹورازم قونصلر تعینات کریں اور عالمی ٹورز آپریٹرز کو بھی سہولتیں دیں تاکہ پاکستان کی اچھی مارکیٹنگ ہو سکے۔

سیاحت کتنا بڑا حوالہ ہے آپ اس کا اندازہ ابن بطوطہ اور مارکو پولو سے لگا لیجیے، ابن بطوطہ نے 697سال اور مارکوپولو نے 751سال قبل دنیا میں مراکو اور وینس کو متعارف کرایا تھا اور یہ دونوں ملک آج تک اس تعارف کی کمائی کھا رہے ہیں، ہم بھی آسانی سے یہ کام کر سکتے ہیں۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Kursi Se Pehle Aur Kursi Ke Baad

By Kiran Arzoo Nadeem