مریضوں کی بددعائیں نہ لیں
ڈاکٹر عبدالباری خان کے والد خیبرپختونخوا سے تعلق رکھتے تھے، یہ 1956ء میں کراچی شفٹ ہوئے اور کپڑے کی تجارت شروع کر دی، وہ تہجد گزار تھے اور دعا ہمیشہ باآواز بلند کرتے تھے، وہ ہمیشہ اپنے بڑے صاحبزادے مفتی محمد جمیل خان کا نام لے کرفرماتے تھے یااللہ اس سے دین کا کام لے اور ڈاکٹر عبدالباری کے لیے دعا کرتے تھے یا پروردگار اس سے فلاح وبہبود کی خدمت لے۔
اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں دعائیں قبول کر لیں،مفتی محمد جمیل خان ملک کے مشہور عالم دین بنے، انھوں نے اقراء روضۃ الاطفال کے نام سے ادارہ بنایا، ملک میں اس وقت اس کی 175 شاخیں ہیں جن میں80 ہزار بچے زیرتعلیم ہیں، یہ اکتوبر 2004ء میں شہید ہو گئے جب کہ ڈاکٹر عبدالباری خان اس وقت ملک کا سب سے بڑا چیریٹی اسپتال چلا رہے ہیں، یہ شاید دنیا کا واحد چیریٹی اسپتال ہو گا جس میں کسی مریض (وہ خواہ امیر ہے یا غریب) سے کسی قسم کی فیس نہیں لی جاتی، اسپتال کا سالانہ بجٹ 12 ارب روپے ہے۔
یہ بجٹ لوگوں کی زکوٰۃ اور صدقات سے پورا ہوتا ہے، مریض آتے ہیں، اپنی باری پر اندر جاتے ہیں اور مرض دل کا ہو یا کینسر کا علاج کرا کے گھر واپس چلے جاتے ہیں، اسپتال میں "ڈونیشن باکس" موجود ہیں، مریض اگر اس میں کچھ ڈال دے تو شکر، نہ ڈالے تو شکر الحمد للہ، یہ گولی سے لے کر آپریشن تک کسی مریض سے کچھ چارج نہیں کرتے، ڈاکٹر عبدالباری ایک حیران کن کردار ہیں۔
کراچی کے ایک مشنری اسکول سے تعلیم حاصل کی، ڈائو میڈیکل کالج میں داخلہ لیا تو پہلے سال ہی سول اسپتال میں مریضوں کی خدمت شروع کر دی، ملک میں اس وقت کوئی بلڈ بینک نہیں تھا، ملک میں سرے سے خون دینے کا رواج ہی نہیں تھا چنانچہ شہر بھر کے نشئی اسپتال کے سامنے فٹ پاتھ پر پڑے رہتے تھے، مریض آتے تھے، ان سے سودا کرتے تھے اور ان کا خون خرید لیتے تھے، نشئیوں کے خون میں خون کے سوا سب کچھ ہوتا تھا، یہ بیماریوں کی چلتی پھرتی فیکٹریاں ہوتے تھے۔
ایک بار ان نشئیوں نے ہڑتال کر دی، سول اسپتال میں خون کا بحران پیدا ہو گیا، ڈاکٹر باری اس وقت دوسرے سال میں تھے، انھوں نے بلڈ بینک بنانے کا فیصلہ کیا، ساتھی طالب علم اکٹھے کیے، میڈیکل کالج کے طالب علموں سے خون جمع کرنا شروع کیا اور کمال کر دیا، یہ لوگ سارا سارا دن لگا کر ایک یا دو یونٹ خون اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوتے تھے لیکن یہ اس کے باوجود ملک کا پہلا بلڈ بینک تھا، ڈاکٹرباری خان 1984ء میں جرمنی گئے، وہاں سے خون کے مختلف اجزاء الگ کرنے کی مشین خریدی، ٹریننگ لی اور واپس آ گئے۔
یہ کراچی شہر کی اس نوعیت کی پہلی مشین تھی، کراچی میں 1987ء میں بوہری بازار میں دو بم دھماکے ہوئے،دو سو لوگ شہید اور چھ سو کے قریب زخمی ہو گئے، زخمی سول اسپتال لائے گئے تو اسپتال میں زخمیوں کی نگہداشت کے لیے کوئی سہولت موجود نہیں تھی، یہ لوگ مردہ خانوں میں لاشوں کے نیچے پڑے زخمیوں کو نکال نکال کر ان کا علاج کرتے رہے لیکن اس کے باوجود درجنوں لوگ ان کے ہاتھوں میں انتقال کر گئے، ڈاکٹر باری نے اس دوران اپنی مدد آپ کے تحت سول اسپتال کی ایمرجنسی ٹھیک کرنے کا فیصلہ کیا، 36 لاکھ روپے چاہیے تھے۔
یہ لوگ اسکولوں میں گئے، بچوں کو مٹی کے گلے دیے اور بچوں نے کمال کر دیا، چالیس بوریاں سکے اکٹھے ہوئے، تاجروں نے بھی مدد کی، رقم اکٹھی ہو گئی، سول اسپتال کی ایمرجنسی ٹھیک ہو گئی، ایمرجنسی کا بورڈ لگ رہا تھا تو ڈاکٹر باری نے کراچی میں چیریٹی اسپتال بنانے کا فیصلہ کیا، وہ قبولیت کی گھڑی تھی، اللہ نے دعا قبول کر لی اور پھر راستے کھلتے چلے گئے، ڈاکٹر باری نے ایم بی بی ایس کیا اور کراچی کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو ویسکیولر ڈزیزز (NICVD) کے ساتھ وابستہ ہو گئے۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیوویسکیولرڈزیززکے حالات بھی خراب تھے، مریض زیادہ تھے اور دل کے آپریشن کی سہولتیں کم، ڈیڑھ سال کی لسٹ تھی، اکثر مریض آتے تھے، آپریشن کی تاریخ لیتے تھے، گھر جاتے تھے اور پھر واپس لوٹ کر نہیں آتے تھے، یہ مخیرحضرات کے پاس گئے، اسپتال میں بستروں کی تعداد بڑھی اور ویٹنگ لسٹ چھ ماہ پر آ گئی، ڈاکٹر باری تین سال نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کار ڈیو و یسکیولر ڈزیززکے ساتھ وابستہ رہے، کالج آف فزیشن اینڈ سرجن پاکستان سے ایف سی پی ایس (فیلو آف کالج آف فزیشن اینڈسرجن)کیا اور دل کے مریضوں کا علاج شروع کر دیا۔
دل کا علاج مہنگا ہوتا ہے، ان سے مریضوں کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی چنانچہ انھوں نے چیریٹی اسپتال بنانے کا فیصلہ کیا، ایک صاحب دل نے کورنگی کراسنگ کراچی میں 20 ایکڑ جگہ دے دی، جیولری کے ایک تاجر نے 10 کروڑ روپے دیے اور انڈس اسپتال شروع ہو گیا، اسپتال میں شروع میں 150 بیڈز تھے، یہ بعد ازاں 300 بیڈ ہو گئے، کینسر کے مریض بچوں کے لیے 150 بیڈز کا یونٹ بھی بن گیا، کورنگی میں 74 بیڈز کا شیخ سعید میموریل کیمپس بن گیا، یہ زچہ وبچہ اور زنانہ امراض کا اسپتال ہے، پی آئی بی کالونی میں ڈائیلاسز یونٹ بھی بن گیا۔
ڈاکٹر باری اس کے علاوہ ملک میں 22 پرائمری ہیلتھ کیئر سینٹرز بھی چلا رہے ہیں، یہ دو برسوں میں پچاس ہو جائیں گے، 75 بیڈز کا نوزائیدہ بچوں کا یونٹ بھی چلا رہے ہیں، ساڑھے آٹھ ہزار بچے مستفید ہو چکے ہیں، مصنوعی اعضاء کا یونٹ بھی چل رہا ہے، سات ہزار معذور لوگوں کو مصنوعی اعضاء لگ چکے ہیں، 16 ہزار پائپ لائن میں ہیں، کراچی، جام شورو، بہاولپور اور ملتان میں بلڈ سینٹر چل رہے ہیں، یہ 30 اضلاع میں ٹی بی پر بھی کام کر رہے ہیں۔
ٹی بی کے 31 لاکھ مریضوں کا معائنہ ہوا، ان میں 2 لاکھ 80 ہزار بچے بھی شامل ہیں اور یہ لاہورمیں 6 ارب روپے کی لاگت سے 600 بیڈز کا انڈس اسپتال بھی بنا رہے ہیں، اس اسپتال کے لیے قرشی دواء خانہ کے مالک اقبال قرشی اور این ایم اسٹورز اور لیڈزگارمنٹس کے مالکان جاوید ارشد بھٹی اور میاں محمد احسن نے ایک ایک ارب روپے ڈونیشن دیا، آپ ڈاکٹر عبدالباری کے کام دیکھیں، آپ حیران رہ جائیں گے، لوگ بوریوں میں نوٹ بھر کر لاتے ہیں اور ان کے حوالے کر دیتے ہیں، ان کے پاس ایسے لوگوں کی طویل فہرست موجود ہے جن کا دعویٰ ہے آپ کو جس وقت جتنی رقم چاہیے آپ ہمیں فون کریں اور رقم انڈس کے اکائونٹ میں جمع ہو جائے گی۔
میاں شہباز شریف انھیں اپریل 2014ء میں پنجاب لے کر آئے، انھیں مظفر گڑھ کا طیب اردگان اسپتال سونپا گیا، انڈس نے یہ اسپتال ٹیک اوور کر لیا، حکومت نے اس کے بعد انھیں بیدیاں روڈ کا 61 بیڈز کا تحصیل ہیڈکوارٹر، مناواں کا 100 بیڈز، سبزہ زار لاہور کا 100 بیڈز، رائے ونڈ کا 100 بیڈز کا تحصیل ہیڈکوارٹر، کاہنہ نو کا سو بیڈز کا اسپتال اور ملتان کا 150 بیڈز کا کڈنی اسپتال سونپ دیا۔
ڈاکٹر عبدالباری خان پنجاب نہیں آنا چاہتے تھے لیکن میاں شہباز شریف ان کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر انھیں لاہور لے کر آئے تھے، یہ اس قدر بڑے انسان ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انھیں اتنی ہمت دے رکھی ہے کہ سندھ حکومت نے بدین میں 190 بیڈز کا ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال ان کے حوالے کر رکھا ہے جب کہ عمران خان نے انھیں پشاور میں انڈس اسپتال بنانے کے لیے سو کنال جگہ دے رکھی ہے، یہ عنقریب وہاں بھی چیریٹی اسپتال بنا رہے ہیں، انڈس کے تحت چلنے والے تمام اسپتال مفت ہیں، پنجاب گورنمنٹ پنجاب کے سات اسپتالوں کو گرانٹ دیتی ہے۔
یہ لوگ باقی رقم مخیرحضرات سے اکٹھی کرتے ہیں اور مریضوں کا مفت علاج کرتے ہیں، میں ڈاکٹر عبدالباری خان اور ان کے کام سے واقف ہوں، یہ ایک مخلص اور دین دار شخص ہیں، ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے ہیں، دن رات مریضوں کی خدمت کرتے ہیں، ان کی ٹیم بھی سیلف لیس لوگوں پر مشتمل ہے، یہ لوگ اب تک لاکھوں مریضوں کا علاج کر چکے ہیں، یہ مستقبل میں بھی کرتے رہیں گے لیکن میں نئی حکومت کی غیر ضروری چھیڑ چھاڑ سے خوف زدہ ہوں، مجھے پنجاب حکومت کے ایک صاحب نے بتایا ہم انڈس سے سات اسپتال واپس لے رہے ہیں، میں یہ سن کر ڈر گیا۔
حکومت میں اسپتال تو کیا سڑک تک چلانے کی اہلیت نہیں، پنجاب میں اس وقت بھی ہزاروں اسپتال دہائیاں دے رہے ہیں، یہ سات چل رہے ہیں، میرا خدشہ ہے حکومت کہیں انھیں بھی واپس لے کر ان کا بھی بیڑہ غرق نہ کر دے، ڈاکٹر عبدالباری خدمت کر رہے ہیں، یہ کراچی میں خدمت کرتے رہیں، ان کا کچھ نہیں جائے گا لیکن لاکھوں مریض مارے جائیں گے چنانچہ میری وزیراعظم سے درخواست ہے آپ اپنی توجہ صرف بھینسوں پر مبذول رکھیں، مہربانی فرما کر انڈس جیسے اسپتالوں کو نہ چھیڑیں، مریضوں کی بددعائیں آپ کو کہیں کا نہیں چھوڑیں گی۔