کوئی فرق نہیں پڑتا
سعودی عرب کے ولی عہد پرنس محمد بن سلمان کل پاکستان تشریف لا رہے ہیں، سعودی وفد اور سپورٹنگ اسٹاف بارہ سو لوگوں پر مشتمل ہو گا، کرائون پرنس کافرنیچر، ایکسرسائز مشین، کافی مشین، گاڑیاں، کپڑے، جوتے اور بیڈ پاکستان پہنچ چکا ہے، ڈاکٹر اور سیکیورٹی کی ٹیمیں بھی آ چکی ہیں جب کہ پرنس کی ذاتی گاڑیاں آج پہنچ جائیں گی۔
حکومت نے دارالحکومت کے دو فائیو اسٹار ہوٹلز سمیت آٹھ ہوٹلز مکمل بک کر لیے ہیں، ہوٹلوں کے 750 کمرے حکومت کے پاس ہیں، مہمانوں کے لیے 300 گاڑیاں بھی کرائے پر لے لی گئی ہیں، پنجاب ہائوس کی تزئین و آرائش بھی ہو چکی ہے اور ولی عہد کو ٹھہرانے اور گارڈ آف آنر، لنچ اور ڈنرز کے لیے وزیراعظم ہائوس کی صفائیاں، رینوویشن اور اپ گریڈیشن بھی ہو چکی ہے، وزیراعظم ہائوس کو دو دن میں ولی عہد کے اسٹینڈر کے برابر بنادیا گیا اور یہ تمام انتظامات اور تمام اخراجات کون کر رہا ہے؟
یہ تاریخ کی غیرت مند ترین، کفایت شعار ترین اور خودکشی کو دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بہتر قرار دینے والی ایماندار ترین حکومت کر رہی ہے اور یہ تمام فنڈز اس وزیراعظم کے حکم سے جاری ہو ئے جو پوری زندگی ایسے انتظامات پر "یہ تمہارے باپ کا پیسہ ہے" کا نعرہ لگاتا تھا، آپ آج پرانے پاکستان کے عمران خان کی تقریریں اور انٹرویوز نکال کر دیکھ لیں، یہ آپ کو عرب شہزادوں کے بارے میں وہ کچھ کہتے نظر آئیں گے جو ہم آج دہرا بھی نہیں سکتے۔
آپ کو یاد ہوگا یہ وہ وزیراعظم ہیں جو میاں نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کی کنگ عبداللہ اور کنگ سلمان سے ملاقاتوں پر دونوں کو برا بھلا کہتے تھے، یہ کہتے تھے میں وزیراعظم بنا تو میں کشکول لے کر ملک ملک پھرنے کے بجائے خودکشی کر لوں گا اور میں مر جائوں گا لیکن آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائوں گا لیکن چھ ماہ بعد جی ہاں صرف چھ ماہ بعد وہ انقلابی وزیراعظم، وہ انقلابی حکومت اور وہ انقلابی نیا پاکستان تینوں غائب ہو چکے ہیں اور ان کی جگہ پرانے سے بھی بدتر پاکستان سامنے آ گیا۔
آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے وہ سادگی، اپنی چادر کے اندر رہ کر پائوں پھیلانے اور وزیراعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنانے کے دعوے آج کہاں ہیں؟ ہم نے آج جس وزیراعظم ہائوس کو ولی عہد کے شایان شان بنا یا کیا یہ وہی وزیراعظم ہائوس نہیں تھا جسے حکومت تین بار یونیورسٹی بنا چکی ہے، ہم نے پہلے اس "یونیورسٹی" کو 6 جنوری کو یو اے ای کے ولی عہدشیخ محمد بن زید النہیان کے لیے "بند" کیا اور یہ آج پرنس محمد کے لیے بند ہو گئی۔
ہمارے وزیراعظم پاکستان کی تاریخ کے پہلے وزیراعظم ہیں جس نے ائیرپورٹ جا کر کسی ولی عہد کا استقبال بھی کیا، اس کی گاڑی بھی ڈرائیو کی اور اسے یونیورسٹی وزیراعظم ہائوس میں بھی ٹھہرایا اور تاریخ میں پہلی بار کسی ولی عہد کو گارڈ آف آنربھی دیا گیا اور ہم یہ نوازش کرتے ہوئے یہ بھی بھول گئے گارڈ آف آنر ہیڈ آف اسٹیٹس کو دیا جاتا ہے ولی عہدوں کو نہیں، ہم آج پرنس محمد بن سلمان کو بھی سربراہ مملکت سے بڑھ کر استقبال اور پروٹوکول دے رہے ہیں، ہم ان کے اعزاز میں 21 توپیں بھی چلا ئیں گے اور پوری کابینہ ائیرپورٹ پر ان کا استقبال بھی کرے گی، ہمیں یہ کرنا بھی چاہیے، کیوں؟
کیونکہ سعودی عرب صرف ہمارا دوست نہیں یہ ہماری عقیدت کا دارالحکومت بھی ہے لیکن یہ تو پرانے پاکستان میں بھی ہوتا تھا پھر نئے پاکستان میں کیا نیا ہے؟ پرانے پاکستان کی حکومتیں بھی کشکول لے کر نکلتی تھیں اور مانگ تانگ کر ملک چلا لیتی تھیں، ان میں بھی شہزادوں اور وزراء عظم کے ذاتی مہمانوں کو سربراہ مملکت کے برابر پروٹوکول دیا جاتا تھا، پھر نیا کیا ہے؟
ہاں ایک چیز نئی ہے! پرانے پاکستان میں صرف وزیر خزانہ چیف بیگرہوتا تھا جب کہ نئے پاکستان میں یہ فریضہ وزیراعظم ادا کر رہے ہیں، نئے پاکستان میں شہزادوں کی گاڑیاں بھی وزیراعظم ڈرائیو کرتے ہیں، آئی ایم ایف کی سربراہ کے ساتھ قرضے کی شرائط بھی وزیراعظم طے کرتے ہیں اور صدر ٹرمپ اور نریندر مودی کی ٹویٹس کا جواب بھی وزیراعظم دیتے ہیں اور یہ سلسلہ اگر اسی طرح جاری رہا تو مجھے یقین ہے وہ وقت دور نہیں جب ہمارے وزیراعظم شہزادوں کے بچوں کو کرکٹ بھی سکھانا شروع کر دیں گے اوریہ شہزادوں کو خوش کرنے کے لیے پاکستان میں کیمل ریس کا بندوبست بھی کرا دیں گے۔
ملک کے پچھلے چھ ماہ میں ملک کا جو حشر ہوا سو ہوا تاہم یہ غنیمت ہے وزیراعظم اور حکومت کو کنٹینر کی تقریروں اور زمینی حقائق کا فرق سمجھ آ گیا، یہ لوگ یہ جان گئے صرف دعوئوں اور تقریروں سے میٹروز نہیں بنتیں، اس کے لیے ٹیم چاہیے ہوتی ہے اور اگر ٹیم نہ ہو تو 17 ارب روپے کا پراجیکٹ 82 ارب روپے میں بھی مکمل نہیں ہوتا، یہ لوگ یہ جان گئے تین سو ارب روپے کی کرپشن پکڑنے کے دعوے اور اس کرپشن کو عدالت میں ثابت کرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔
یہ لوگ یہ جان گئے علیم خان اور اعظم سواتی جیسے لوگوں کے بغیر حکومتیں اور پارٹیاں بھی نہیں چلتیں اور پارٹیوں کو ان لوگوں کو سائیڈ پر کرنے کے نقصانات بھی بھگتنا پڑتے ہیں، یہ لوگ یہ جان گئے سسٹم چلانے کے لیے اہل وزیر اور اہل بیورو کریٹس دونوں ضروری ہوتے ہیں اور حکومت کو اگر بیورو کریٹس کا اعتماد حاصل نہ ہو تو فروری میں بھی کابینہ کے نومبر کے فیصلے پینڈنگ ہوتے ہیں، یہ لوگ یہ جان گئے حکومتوں کو روپے کی قیمت مستحکم رکھنے کے لیے روزانہ 50 ملین ڈالر مارکیٹ میں پھینکنے پڑتے ہیں۔
یہ لوگ یہ جان گئے حکومت اگر سرمایہ کاروں کو اعتماد نہ دے، یہ اگر بینکنگ سیکٹر کی مدد نہ کرے اور یہ اگر اسٹاک ایکسچینج پر نظر نہ رکھے تو تیس چالیس ارب ڈالردنوں میں اڑ جاتے ہیں، یہ لوگ یہ جان گئے حکومت اگر بجلی اور گیس پر سبسڈی نہ دے تو لوگ خودکشیوں پر مجبور ہو جاتے ہیں اورحکومتوں کے اپنے سپورٹرز جھولیاں پھیلا پھیلا کر بددعائیں دیتے ہیں اور وزراء کے لیے گھروں سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے، یہ لوگ یہ جان گئے اپوزیشن اگر حکومت اور پارلیمنٹ کے ساتھ تعاون نہ کرے تو قانون سازی نہیں ہو سکتی اور اگر قانون پاس نہ ہوں تو سسٹم بیٹھ جاتا ہے۔
یہ لوگ یہ جان گئے ساہیوال جیسے واقعات حکومت کواندر اور باہر سے زخمی کر دیتے ہیں اور حکومتوں کے لیے عوام اور ادارے دونوں کو بچانامشکل ہو جاتا ہے، یہ لوگ یہ جان گئے ایکٹو میڈیا، پروایکٹو جوڈیشری اور سپر ایکٹو اسٹیبلشمنٹ کی موجودگی میں حکومت چلانا تار پر چلنے کے مترادف ہوتا ہے، یہ لوگ یہ جان گئے کلبھوشن جیسے جاسوسوں کو سرعام پھانسی دینا آسان نہیں ہوتا، یہ لوگ یہ جان گئے نریندر مودی کو بڑے عہدے پر چھوٹا شخص قرار دے کر بھارت کو میز پر لانا آسان نہیں ہوتا، یہ لوگ یہ جان گئے امریکی اور فرنچ صدور کے ساتھ ٹھنڈے رویے سے آئی ایم ایف کے پیکیج کے لیے جوتے اور پیاز دونوں کھانا پڑتے ہیں۔
یہ لوگ یہ جان گئے حکومت بچانے کے لیے ٹھوس ثبوتوں کے باوجود آصف علی زرداری کو ڈھیل دینا پڑتی ہے، یہ لوگ یہ جان گئے نیب اور سرمایہ کاری ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے، یہ لوگ یہ جان گئے حکومت ایل این جی کے جہاز روک کر ملک میں گیس پوری نہیں کر سکتی، یہ لوگ یہ جان گئے محمود خان اور عثمان بزدار جیسے لوگ بوجھ ہوتے ہیں اور وزراء اعظم کو یہ بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانا پڑتے ہیں، یہ لوگ یہ جان گئے حکومتوں کو ریلوکٹوں اور پھٹیچر کھلاڑیوں کو ملک میں لانے کے لیے بڑی منتیں کرنا پڑتی ہیں۔
یہ لوگ یہ جان گئے وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھ کر اصغر خان کیس بھی نبٹانا آسان نہیں ہوتا اور ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ اور سانحہ ماڈل ٹائون کے مجرموں کو سزا دینا بھی، یہ لوگ یہ جان گئے سادگی، کفایت شعاری، انصاف اور احتساب کے دعوے کرنا اور ان پر عمل کرنا دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے اور یہ لوگ یہ بھی جان گئے حکومت میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف کو این آر او نہ دینے کے جتنے چاہے اعلان کر لے لیکن پرنس محمد کی برکت سے یہ لوگ باہر آ کر اور باہر جا کر رہتے ہیں۔
میں حیران ہوں حکومت کے چھ ماہ گزرنے کے بعد بھی لوگ ان سے پوچھ رہے ہیں صاف پانی، کھلی اور شفاف ہوا، مفت انصاف، بے رحم اور اکراس دی بورڈ احتساب، اہل عہدوں پر اہل افسر اور غریب کے لیے سستی زندگی یہ سارے وعدے، یہ سارے دعوے کہاں ہیں؟یہ نادان لوگ حکومت سے پوچھ رہے ہیں آپ نے سو دنوں میں قوم کا مقدر بدلنا تھا، آپ نے پچاس لاکھ گھربھی بنانے تھے، آپ نے ایک کروڑ نوکریاں بھی دینی تھیں اور آپ نے پولیس کو غیر سیاسی بھی بنانا تھا، آج وہ پولیس، وہ نوکریاں اور وہ گھر کہاں ہیں؟
لوگ پوچھتے ہیں آپ نے ملک کی عزت نفس بھی بحال کرنی تھی، آپ نے ایف بی آر کا قبلہ بھی ٹھیک کرنا تھا اور آپ نے لوگوں کی ظالمانہ ٹیکسوں سے بھی جان چھڑانی تھی، آج وہ سب کہاں ہے؟اور لوگ پوچھ رہے ہیں آپ نے چھ ماہ میں کیا اچیو کیا!میں حیران ہوں لوگ ان سے یہ کیوں پوچھ رہے ہیں؟ کیالوگ اب تک یہ بھی نہیں جان سکے نیا پاکستان ایک بلبلہ تھا اور یہ بلبلہ اس دن پھٹ گیا تھا جس دن مراد سعید جیسے لوگ وزارتوں کی کرسیوں پر بیٹھے تھے، یہ دنیا بہت ظالم ہے، یہاں حقائق اور دعوے مختلف ہوتے ہیں، یہاں خواب اور حقیقت میں بڑا فرق ہوتا ہے۔
آپ کو یقین نہ آئے تو آپ یہ فرق 16 فروری کو اس وزیراعظم ہائوس میں دیکھ لیجیے گا جسے ہم نے یونیورسٹی بنا دیا تھا، آپ پوری حکومت کو اس دن سعودی عرب کے ولی عہد کے سامنے قطار میں کھڑا بھی دیکھیں گے اورانھیں راضی کرنے کے لیے وہ حرکتیں کرتے بھی پائیں گے جو پرانے پاکستان کے پرانے حکمرانوں نے خواب میں بھی نہیں سوچی تھیں، میری حکومت سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر 16 فروری کویوم آگاہی ڈکلیئر کر دیں اور قوم سے درخواست کریں یہ ہر 16 فروری کو اپنا گریبان پھاڑ کر یوم آگاہی منایا کرے تاکہ اگلی نسلیں یہ جان سکیں دعوئوں اورعمل میں بڑا فرق ہوتا ہے۔
اگلی نسلیں یہ بھی جان سکیں غربت دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور آپ اگر غریب ہیں تو پھر پاکستان پرانا ہو یا نیا کوئی فرق نہیں پڑتا، پھر کرسی اقتدار پر آصف علی زرداری بیٹھے ہوں یا میاں نواز شریف یا پھر عمران خان غریبوں کا گز اڑھائی فٹ ہی رہتا ہے، یہ پانی چھان کر ہی پیتے ہیں اور اگلی نسلیں یہ بھی جان سکیں نئے پاکستان صرف نئے حکمرانوں کے لیے ہوتے ہیں، عوام پرانے پاکستانوں میں پیدا ہوتے ہیں اور پرانے پاکستانوں ہی میں مرتے ہیں، آسمانوں سے ان کے لیے کوئی خوش خبری، کوئی من و سلویٰ نہیں اترا کرتا۔