خواجگان اور امیر تیمور کے لیموں
خواجہ محمد آصف اور خواجہ سعد رفیق دونوں خواجگان شاندار انسان ہیں، خواجہ آصف کو اللہ تعالیٰ نے درد دل بھی دے رکھا ہے اور سچ بولنے کی جرأت بھی، یہ یار باش بھی ہیں، یہ تعلقات بنانا اور نبھانا جانتے ہیں، خواجہ سعد رفیق بھی کھرے اور جرأت مند انسان ہیں، یہ ریلوے کو بہتر بنانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں اور یہ بڑی حد تک اس میں کامیاب بھی ہو رہے ہیں لیکن اس کے باوجود خواجگان نے قوم کو غلط اور غیر ضروری بحث میں بھی الجھا دیا اور ان کے لہجے کی گرمی سے حکومت اور فوج کے درمیان موجود حیاء کی جھلی بھی پگھلنا شروع ہو گئی اور یہ غلط بھی تھا، نامناسب بھی اور غیر ضروری بھی۔ خواجگان دو ہفتوں سے جنرل پرویز مشرف کے خلاف تقریریں کر رہے ہیں، جنرل پرویز مشرف آمر تھے، ہم ان کے نو سال کے دور کو کسی بھی طرح مناسب قرار نہیں دے سکتے۔ قوم آج جنرل پرویز مشرف کی غلطیوں کی فصل کاٹ رہی ہے اور ہم نہ جانے کب تک یہ فضل کاٹتے رہیں گے۔
ملک میں شاید ہی کوئی سمجھ دار شخص ہو گا جو جنرل پرویز مشرف کے اقدامات کی تائید یا حمایت کرے لیکن ہمیں اس کے باوجود جنرل پرویز مشرف پر تنقید کرنے سے قبل تین باتوں کا خیال رکھنا چاہیے، ایک، جنرل پرویز مشرف نو سال اس ملک کے صدر رہے، یہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمایندگی کرتے رہے، ہمیں انھیں غدار نہیں کہنا چاہیے کیونکہ اس سے پاکستان کا امیج خراب ہوتا ہے، دو، جنرل پرویز مشرف 9 سال پاکستان آرمی کے چیف رہے، پاک فوج اپنے سربراہان کے معاملے میں بہت حساس ہے، یہ اپنے چیفس کی ایک خاص حد سے زیادہ تذلیل برداشت نہیں کرتی، آپ یحییٰ خان کی مثال لے لیجیے، یحییٰ خان اور ان کے ساتھی جرنیلوں کی غلطیوں کی وجہ سے پاکستان ٹوٹ گیا۔
یہ پاک فوج کی تاریخ کا اتنا خوفناک واقعہ تھا کہ یحییٰ خان اور ان کے ساتھی جرنیلوں نے محسوس کیا " ہم نے اگر استعفیٰ نہ دیا تو نوجوان آفیسر ہمیں قتل کر دیں گے چنانچہ یہ لوگ مستعفی ہوئے اور اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کرنے پر مجبور ہو گئے، جنرل یحییٰ خان کے خلاف سنگین جرائم میں مقدمہ چلا لیکن جب یحییٰ خان کا10 اگست 1980ء میں انتقال ہوا تو فوجی افسروں نے اس کا تابوت پرچم میں لپیٹا، اسے پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا اور تدفین کے بعد اسے رائفلوں کی سلامی بھی پیش کی اور یہ وہ نوجوان افسر تھے جو 1971ء میں یحییٰ خان کی جان کے درپے تھے، فوج اپنے جرنیلوں کی کئی پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتی، یہ بعض اوقات چیفس کو ناپسند بھی کرتی ہے لیکن یہ اس کے باوجود دوسرے شخص کے ہاتھوں ان کی تذلیل برداشت نہیں کرتی اور تین، ہمارے ملک میں جمہوریت آ چکی ہے، پاکستان پیپلز پارٹی نے پانچ سال پورے کیے، ملک کی عنان اب میاں نواز شریف کے ہاتھ میں ہے، اقتدار جمہوری نمایندوں کو مل چکا ہے لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں، ہماری جمہوریت اتنی مضبوط ہو چکی ہے کہ خواجہ سعد رفیق دنیا بھر کے کیمروں کے سامنے کھڑے ہو کر "مرد کا بچہ بنیں " کا نعرہ لگا سکیں۔
ہمیں ماننا پڑے گا ہماری جمہوریت اس وقت تک مضبوط نہیں ہوگی جب تک ملک میں ایسی لیڈر شپ نہیں آتی جس کی دیانت، امانت اور ذہانت کی قسم کھائی جا سکے اور جو قوم کو چند ماہ میں ڈیلیور اور پرفارم کر کے دکھائے، ہمارے لیڈر صرف الیکشن جیت کر خود کو معتبر اور قابل عزت ثابت نہیں کر سکیں گے، ہمارے لیڈروں کو فوجی آمروں کو "مرد کا بچہ" بننے کی دھمکی دینے سے قبل ان حقائق کو سامنے رکھنا چاہیے اور انھیں فارس کے حکمران سلطان منصور مظفری جیسی غلطی نہیں کرنی چاہیے، امیر تیمور نے اس سے صرف لیموں مانگے تھے لیکن سلطان منصور مظفری نے اسے "مرد کا بچہ" بنو جیسی دھمکی دے دی اور اس دھمکی کا نتیجہ وہی نکلا جو عموماً ایسی دھمکیوں کا نکلا کرتا ہے، یہ کہانی انتہائی دلچسپ ہے، میری خواجگان سے درخواست ہے، آپ ایک بار یہ کہانی ضرور پڑھ لیں۔
امیر تیمور کے دور میں فارس خوشحال اور پرامن ملک تھا، شیراز اس کا دارالحکومت تھا، فوج مضبوط تھی، خزانہ سونے چاندی سے بھرا ہوا تھا اور ملک کی سرحدیں محفوظ تھیں، امیر تیمور دنیا فتح کر رہا تھا لیکن اسے فارس پر حملے کی جرأت نہیں ہو رہی تھی، یہ ایک بار خراسان جا رہا تھا، راستے میں اس کی طبیعت خراب ہو گئی، حکیم نے اسے لیموں کا رس پینے کا مشورہ دیا، خراسان میں اس وقت لیموں کا سیزن نہیں تھا، حکیم نے اسے بتایا، شیراز میں آج کل لیموں ہوتے ہیں، آپ شاہ فارس سے لیموں منگوا لیں، امیر تیمور نے قلم دوات منگوائی اور فارس کے شاہ سلطان منصور مظفری کو خط لکھا " میں آپ کا مہمان ہوں، فارس کے قریب سے گزر رہا ہوں، بیمار ہوں، طبیب کا خیال ہے، میں اگر آپ کے ملک کے لیموں کا رس پی لوں تو صحت یاب ہو سکتا ہوں، آپ مہربانی فرما کر ایک ٹوکری لیموں یا لیموں کے رس کی ایک بوتل بھجوا دیں، میں آپ کا احسان مند رہوں گا" تیمور کی درخواست انتہائی بے ضرر اور مناسب تھی لیکن فارس کے شاہ کی مت ماری گئی۔
اس نے اس کے جواب میں لکھا " میں بادشاہ ہوں، سبزی فروش نہیں اور اگر میں سبزی فروش بھی ہوتا تو بھی تمہیں لیموں نہ بھجواتا یہاں تک کہ تم سسک سسک کر مر جاتے" یہ خط پڑھ کر امیر تیمور کے تن بدن میں آگ لگ گئی، اس نے فوجوں کا رخ موڑا، خراسان سے شیراز کی طرف آیا، خوفناک جنگ ہوئی، اس جنگ میں سلطان منصور مظفری کے لاکھوں فوجی مارے گئے، شیراز فتح ہوا تو امیر تیمور نے پورے شہر کو میدان میں جمع کیا، سلطان منصور مظفری اور اس کے گیارہ بیٹوں کو لوگوں کے سامنے کھڑا کیا، لوگوں کو اپنا اور سلطان منصور کا خط پڑھ کر سنایا اور اس کے بعد پہلے سلطان کے بیٹوں کے سر قلم کیے، اس کے بعد سلطان منصور کو قتل کیا اور آخر میں اس کی نسل کے تمام لوگوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا، آلِ مظفری مکمل طور پر ختم ہوگئی، مؤرخین لکھتے ہیں، آلِ مظفری کو امیر تیمور نے قتل نہیں کیا تھا، یہ لوگ اپنے تکبر، بے وقوفی اور اکڑ کے ہاتھوں مارے گئے۔
اگر منصور مظفری امیر تیمور کو ایک ٹوکری لیموں بھجوا دیتا تو تیمور اس کا احسان مند ہو جاتا، دونوں کے درمیان دوستی ہو جاتی اور یوں آل مظفری اور شیراز دونوں محفوظ ہو جاتے لیکن اقتدار اور تکبر دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہونا چاہیے، خاکی انسان جب کرسی پر بیٹھتا ہے تو یہ خود کو خاک سے ماورا سمجھ بیٹھتا ہے اور اس وقت اس کے ہاتھ کنٹرول میں ہوتے ہیں اور نہ ہی زبان۔
آپ کو یقین نہ آئے تو جنرل پرویز مشرف کے عروج اور زوال کی کہانی کا مطالعہ کر لیجیے، آپ کو محسوس ہو گا یہ جنرل پرویز مشرف کا تکبر ہی تھا جس نے ان سے بگٹی صاحب کو دھمکی دلوا دی " یہ 1972ء نہیں، ہم تمہیں وہاں سے ماریں گے جہاں سے تم نے سوچا بھی نہیں ہو گا" اور یہ کرسی کا تکبر تھا جس نے جنرل پرویز مشرف کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معطل کرنے، لال مسجد پر حملہ کرنے اور12 مئی 2007ء کے دن قوم کو مکے دکھانے پر مجبور کر دیا اور یوں وہ جنرل پرویز مشرف عبرت کی نشانی بن گیا جس کے اقتدار کے نیچے سے ہوا بھی گزرتے ہوئے اجازت لیتی تھی۔
حکمرانوں کو دنیا کی ہر ادا، ہر چیز سوٹ کر جاتی ہے لیکن اکڑ اور تکبر ان کے لیے زہر قاتل ہوتا ہے اور خواجگان یہ غلطی کر رہے ہیں، یہ لیموں مانگنے والوں کو دھمکیاں دے رہیں اور یہ موجودہ حالات میں عقل مندی نہیں، آپ حکمران ہیں، آپ فیصلے کریں، آپ جنرل پرویز مشرف کو سزا دیں، آپ کو کیمروں کے سامنے اور ٹیلی ویژن شوز میں بیٹھ کر دھمکیاں دینے، "مرد کا بچہ" بنیں اور یہ غدار ہیں، یہ غدار ہیں کے نعرے لگانے کی کیا ضرورت ہے؟
یہ دھمکیاں اور یہ لہجہ غیر ضروری تھا اور اس نے فوج اور حکومت کے درمیان موجود حیاء کی دیوار کو شدید دھچکا پہنچایا، اتنا نقصان پہنچایا کہ میاں نواز شریف کے پسندیدہ ترین جنرل اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی یہ جواب دینے پر مجبور ہو گئے "فوج اپنے وقار کا ہر حال میں تحفظ کرے گی" خواجگان کا موقف درست ہے جنرل پرویز مشرف کو عدلیہ اور قانون کا سامنا کرنا چاہیے مگر ان کا لہجہ غلط تھا، انھیں اپنی غلطی کا احساس کرنا چاہیے، یہ حکمران ہیں، یہ طعنے دینے کے بجائے فیصلے کریں، ان کے فیصلے ان کے اداروں اور ان کا تحفظ ثابت ہوں گے، ہاتھی کے منہ سے گنا کھینچنے اور لیموں کی ٹوکری مانگنے پر جنگ کی دھمکی دینے کا سلسلہ اب بند ہو جانا چاہیے کیونکہ میاں نواز شریف آخر کتنی بار مدت پوری کیے بغیر گھر جائیں گے؟
یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیے، ہم آخر کتنی بار مردوں کے بچے دیکھیں گے؟ قوم تھک چکی ہے، اب قوم پر رحم کریں۔