خدا کے لئے آپ آجائیں
پوری دنیا میں 2006ء میں فروٹ اور ڈرائی فروٹ مہنگا ہو گیا، یہ پہلی بار ہوا تھا کھانے کی چند پراڈکٹس ایک ہی وقت میں پوری دنیا میں مہنگی ہو گئی ہوں چنانچہ امریکا کی دو بڑی یونیورسٹیوں نے تحقیق شروع کر دی، تحقیق کے نتائج سامنے آئے تو معیشت کا ایک نیا زاویہ ماہرین کے سامنے آ گیا، پتہ چلا چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، وہاں ایک نئی خوش حال کلاس پیدا ہو گئی اور اس کلاس نے ڈرائی فروٹ اور فروٹ کھانا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں چین فروٹ کا سب سے بڑا امپورٹر بن گیا اوریوں پوری دنیا میں فروٹ اور ڈرائی فروٹ مہنگا ہو گیا۔
یہ دنیا میں ماڈرن اکانومی کی آسان ترین مثال ہے، یہ مثال ثابت کرتی ہے معیشت مشین کے بڑے پہیے کی طرح ہوتی ہے، آپ اگر ایک بڑا پہیہ تخلیق کر لیں تو یہ پہیہ بے شمار چھوٹے پہیے چلا دے گا مثلاً آپ کسی ملک میں سستی گاڑیاں بنانے کا ایک کارخانہ لگا دیں، یہ ایک کارخانہ گاڑی کے مختلف پرزوں کے ہزار کارخانے لگوا دے گا اور ملک میں ٹائر کی نوزل سے لے کر وائپر کے ربڑ تک 2100 مصنوعات بننا شروع ہو جائیں گی اور یہ دوہزار ایک سو مصنوعات پوری معیشت کو چلا دیں گی، فن لینڈ کے پاس ایک ملٹی نیشنل کمپنی تھی نوکیا، یہ کمپنی1865ء میں بنی اور 2010ء میں اس کا کاروبار100 ملکوں تک پھیل گیا۔
یہ ایک کمپنی فن لینڈ کو امیر ملکوں کی فہرست میں لے آئی اور ملک کے 55 لاکھ لوگ خوش حال زندگی گزارنے لگے، ایسرگیبریلسن اور گستاولارسن نے 1927ء میں والوو کمپنی بنائی، والوو نے سویڈن کی پوری معیشت کا پہیہ چلا دیا، جرمنی کو مرسڈیز، بی ایم ڈبلیو اور اوڈی نے یورپ کا مضبوط ترین ملک بنایا، جاپان ٹویوٹا، ہونڈا، نسان، سوزوکی، مٹسوبشی، توشیبا، ہٹاچی، کین ووڈ اورسونی کی وجہ سے جاپان بنا، امریکا اپنی 36 ہزار کمپنیوں کی وجہ سے تاریخ کی مضبوط ترین سپر پاور ہے اور چین بھی اب اپنے صنعتی گروپوں کی وجہ سے پوری دنیا کی معیشت کو نگل رہا ہے۔
ہم جس دن ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں گے ہم اس دن یہ بھی جان لیں گے پورے ملک کو چلانے کیلیے ایک دو صنعتیں کافی ہوتی ہیں اور ہمیں یہ بھی معلوم ہو جائے گا معاشی ترقی کے بغیر کوئی ملک خودمختار نہیں ہو سکتا، صنعتیں چلتی رہیں تو ملک چلتے رہتے ہیں اور انڈسٹری رک جائے تو ملک رک جاتے ہیں، ہم ہمیشہ ایوب خان اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار کی مثالیں دیتے ہیں، ایوب خان نے کیا کمال کیا تھا؟ ان کا کمال 22 صنعتی خاندان تھے، یہ صنعتی خاندان پیدا ہوئے اور پاکستان ایشیا کا تیزی سے ترقی کرتا ہوا ملک بن گیا، ذوالفقار علی بھٹو نے وہ 22 خاندان تباہ کر دیئے اور ملک کشکول پکڑنے پر مجبور ہو گیا۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی شوکت عزیز نے ملک میں دو نئی انڈسٹریز متعارف کرائی تھیں، ٹیلی کام اور پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلز، کیا نتیجہ نکلا؟ پاکستان نے پہلی بار آئی ایم ایف کے تمام قرضے بھی ادا کر دیئے اور ملک میں معیشت کا پہیہ بھی چل نکلا، آپ آج ملک کے کسی شہر کے کسی قصبے میں چلے جائیں، آپ کو وہاں موبائل فون اور ٹیلی ویژن کیبل کی دکان ضرور ملے گی اور وہاں بیٹھے چھوٹے روز دو تین ہزار روپے بھی کمارہے ہوں گے، آپ اس حقیقت کو ایک اور زاویئے سے بھی دیکھ سکتے ہیں۔
آپ فرض کر لیجئے آپ کی جیب میں دس لاکھ روپے آ جاتے ہیں تو آپ کیا کریں گے؟ کیا آپ یہ رقم کھانے پینے، کپڑوں، جوتوں، سواری اور گھر پرنہیں لگائیں گے، کیا آپ اس سے بچوں کو اچھی تعلیم نہیں دیں گے اور کیا آپ اپنے والدین کاا چھا علاج نہیں کرائیں گے؟ آپ کا جواب ہاں میں ہو گا، آپ کے دس لاکھ روپے یقینا ملک کے درجنوں دکانداروں کی جیب میں شفٹ ہو جائیں گے اور یہ دکاندار یہ رقم پورے معاشرے میں پھیلا دیں گے اور آپ اگر کنجوس ہیں تو بھی آپ یہ رقم بینک میں جمع کرا دیں گے یوں یہ رقم بینک کے ذریعے پورے معاشرے میں پھیل جائے گی چنانچہ یہ ہو یا وہ ہو آپ کے دس لاکھ روپے ہزاروں لوگوں کی معاشی زندگی بن جائیں گے۔
شوکت عزیز کے دو فیصلوں نے بھی یہ کیا تھا، ٹیلی کام اور ٹیلی ویژن نے پورے ملک کی معیشت کا پہیہ چلا دیا، ایک کروڑ نئے لوگوں کو نوکریاں ملیں، پاکستان پیپلز پارٹی نے ان دو شعبوں میں رئیل اسٹیٹ کا اضافہ کر دیا، ملک میں نئی ہاؤسنگ سوسائٹیز بنیں، تعمیرات شروع ہوئیں اور ملک کی ساٹھ بڑی صنعتیں چل پڑیں، آپ گھر بنائیں، آپ ایک ہزار مصنوعات خریدیں گے اور یہ ہزار مصنوعات دس لاکھ گھروں کے چولہے جلائیں گی چنانچہ پیپلز پارٹی کے دور میں رئیل اسٹیٹ نے روزگار کے نئے ذرائع پیداکر دیئے، میاں نواز شریف نے آ کر ڈویلپمنٹ کے پراجیکٹس شروع کرا دیئے، میٹروز بنیں، انڈر پاسز اور اوور ہیڈ برج بنے، اورنج لائن ٹرین شروع ہوئی۔
موٹر ویز اور ہائی ویز شروع ہوئیں، بجلی کے کارخانے لگے اور ایل این جی کے ٹرمینل بھی لگ گئے، اس کے نتیجے میں میگا ڈویلپمنٹ پراجیکٹس کی کمپنیاں بنیں اور تعمیراتی مٹیریل بکنا شروع ہو گیا، آپ کسی دن ٹھنڈے دل ودماغ سے 2013ء کا پاکستان دیکھئے اور پھر 2018ء کا ملک دیکھئے، آپ کو اس میں بہت فرق ملے گا، لوگ میاں شہباز شریف پر اعتراض کرتے ہیں یہ پل اور میٹروز بناتے رہے، انہیں پہلے ہسپتال اور اسکول بنانے چاہیے تھے، میں اس اعتراض سے اتفاق کرتا ہوں لیکن سوال یہ ہے ملک کے باقی تین صوبوں کی حکومتوں نے میٹروز، پل اور موٹروے نہیں بنائے تھے، ان میں کتنے ہسپتال اور اسکول بن گئے؟
ایک اکیلا شخص دس سال میں پورے صوبے کی حالت بدل گیا، اس نے بجلی بھی پوری کر دی، سڑکیں، پل، ہسپتال، میٹروز اور اورنج لائن بھی بنا دی اور شہر بھی صاف ستھرے کر دیئے جبکہ پیپلز پارٹی دس سال میں کراچی کو پبلک ٹرانسپورٹ دے سکی اور نہ پاکستان تحریک انصاف پانچ برسوں میں 80 ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود پشاور میٹرو مکمل کر سکی، حد تو یہ ہے عثمان بزدار جیسا عظیم وزیراعلیٰ چھ ماہ میں اورنج لائن نہیں چلا سکا، آپ آج لاہور کا چکر لگا لیں، آپ کو ایماندار عثمان بزدار اور کرپٹ میاں شہباز شریف کا فرق معلوم ہو جائے گا۔
میں دل سے سمجھتا ہوں عمران خان اگر دل بڑا کر کے پشاور میٹرو، لاہور کی اورنج لائن اور پی کے ایل آئی میاں شہباز شریف کے حوالے کر دیں تو یہ اپوزیشن میں رہ کر بھی تین ماہ میں یہ تینوں پراجیکٹس چلا دیں گے لیکن کینے سے بھری قوم اس اعلیٰ ظرفی سے محروم ہے چنانچہ ہم آج تک اپنی غلطیوں کے زخم چاٹنے کے سوا کچھ نہیں کر سکے۔
میں موضوع کی طرف واپس آتا ہوں، ملک کو چار انڈسٹریز ٹیلی کام، پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلز، رئیل اسٹیٹ اور میگا ڈویلپمنٹ کمپنیاں ٹھیک ٹھاک چلا رہی تھیں، ملک میں پیسہ بھی تھا، روزگار بھی، سرگرمی بھی اور خوش حالی بھی، نئے نئے مالزبن رہے تھے، ریستوران اور کافی شاپس کی مارکیٹس بھی ڈویلپ ہو رہی تھیں اور سیاحت کی انڈسٹری بھی ٹیک آف کر رہی تھی، 2017ء میں تاریخ میں پہلی بار 75 لاکھ پاکستانیوں نے گلگت بلتستان کا وزٹ کیا لیکن پھر یہ حکومت آئی اور اس نے چاروں بڑی صنعتیں روک دیں، ملک ریاض ملک کا سب سے بڑا رئیل اسٹیٹ پلیئر تھا، یہ سپریم کورٹ کیلیے وقف ہو کر رہ گیا۔
یہ ہاتھی کا وہ پاؤں تھا جو رکا تو پوری رئیل اسٹیٹ انڈسٹری رک گئی، اس کے نتیجے میں 60 صنعتیں بھی رک گئیں، حکومت نے میگا ڈویلپمنٹ پراجیکٹس کو ترجیحات کی فہرست سے نکال دیا، یہ کمپنیاں بھی بند ہو گئیں، ٹیلی کام اور ٹیلی ویژن انڈسٹری بھی دباؤ میں آ گئی اور ریستورانوں، کافی شاپس، جوتوں، کاسمیٹک، کپڑوں، گروسری اور آخر میں چینی اور مشروبات بنانے والی صنعتیں بھی بحران کا شکارہو گئیں، نیسلے، لیور برادرز اور شیل جیسی کمپنیاں بھی دباؤ میں آگئیں جس کے نتیجے میں بے روزگاری اور مہنگائی کا سیلاب آیا اور رہی سہی کسر بجلی، گیس اور ٹیکسوں نے پوری کر دی چنانچہ پورا ملک اس وقت دہائیاں دے رہا ہے، بیورو کریسی بھی قلم چھوڑ کر غیراعلانیہ ہڑتال پر ہے مگر حکومت حالات کے ادراک کی بجائے انا، ضد اور حماقت کی سیڑھیاں چڑھتی چلی جا رہی ہے، یہ اب آخری خودکشی کی طرف بڑھ رہی ہے۔
میری حکومت سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر اپنی پالیسی پر نظرثانی کریں، آپ خواہ ملک ریاض پر بھاری جرمانہ عائد کر دیں لیکن اسے کام کرنے دیں، اس سے رئیل اسٹیٹ انڈسٹری "ری وائیو" ہو جائے گی، آپ میگا پراجیکٹس بھی دوبارہ شروع کردیں، ٹیلی کام اور ٹیلی ویژن انڈسٹری کو بھی 2017ء کے ماڈل پر لے جائیں، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کے راستے کی رکاوٹیں بھی اٹھا دیں اور پچھلی حکومتیں عوام کو جو سبسڈی دے رہی تھیں آپ وہ بھی بحال کر دیںاور آپ اس کے بعد اصل ایشوز پر توجہ دیں، ملک کے پی آئی اے اور اسٹیل مل جیسے 195 کاروباری ادارے ہر سال گیارہ سو ارب روپے کھا جاتے ہیں، آپ ان کو فوری طور پر نیلام کر دیں، ہمارے ملک میں سالانہ 230 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے۔
22فیصد لائن لاسز ہیں اور 22 فیصد گیس چوری ہو جاتی ہے، اس کی وجہ سے 12 سو ارب روپے کے گردشی قرضے جمع ہو چکے ہیں، آپ یہ چوری روکیں، 16 لاکھ مقدمے زیر التواء ہیں، آپ یہ ختم کریں، ہمارا صحت اور تعلیم کا نظام نہیں چل رہا، آپ یہ چلائیں، ہم بزنس اور انویسٹمنٹ فرینڈلی نہیں ہیں، آپ لوگوں کو کام اور کاروبار پر لگائیں اور ہم ایک بے ہنر قوم ہیں، آپ پوری قوم کو ہنر مند بنا دیں، لوگ آپ کو قائداعظم ثانی بنا لیں گے لیکن آپ نے اگر یہ نہ کیا۔
آپ اگر انا اور ضد کی چوٹی سے نیچے نہ آئے تو پورا ملک بیٹھ جائے گا، یہ چلنے کے قابل نہیں رہے گا اور 22 کروڑ عوام فوج کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو جائیں گے، یہ فوج سے کہہ اٹھیں گے خدا کیلیے آ پ آ جائیں، ہم مزید برداشت نہیں کر سکتے اور اس کے بعد آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے ساتھ عمران خان بھی لندن میں ہوں گے، میرا خیال ہے حکومت یہ چاہتی ہے!