جوکم صاحب بہادر
جان جیکب 1812میں انگلینڈ میں پیدا ہوا، وہ خاندانی فوجی تھا، 16 سال کی عمر میں ایسٹ انڈیا کمپنی میں بھرتی ہوا، ہندوستان آیا اور پھر کبھی واپس نہ گیا یہاں تک کہ 6 دسمبر1858 کو 46 سال کی عمر میں فوت ہوا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سندھ کی زمین میں دفن ہو گیا، وہ پیشے کے لحاظ سے فوجی لیکن مزاجاً آرکی ٹیکٹ اور مکینیکل انجینئر تھا۔
1838ء میں پہلی "اینگلو افغان وار" کے لیے سندھ آیا، سرجان کین (John Keane) کی کمانڈ میں میانی کی جنگ لڑی، سندھ ہارس رجمنٹ کی کمان کی اور اپر سندھ کا ایڈمنسٹریٹر بنا دیا گیا، وہ بہادر اور بہترین منصوبہ ساز تھا چنانچہ کمپنی نے اس کی رجمنٹ کو 36 جیکب ہارس کا نام دے دیا، وہ 1847 میں اپنی رجمنٹ کے ساتھ اپر سندھ کے صحرا میں چھوٹے سے گائوں خان گڑھ میں مقیم ہو گیا، یہ پورا علاقہ صحرائی تھا، پانی اور سبزے کا نشان تک نہیں تھا۔
مقامی لوگوں کا صرف ایک پیشہ تھا، ڈاکہ زنی، خان گڑھ سے شکار پور کے تجارتی قافلے گزرتے تھے، یہ قافلے بلوچستان سے ہوتے ہوئے افغانستان، ایران، ازبکستان اور روس جاتے تھے، مقامی لوگ یہ قافلے لوٹ لیتے تھے، جان جیکب کے اندر کا آرکی ٹیکٹ جاگا اور اس نے پورے علاقے کا مقدر بدلنے کا فیصلہ کر لیا، اس نے خان گڑھ میں بہت بڑا تالاب کھدوایا، گدو بیراج سے نہر نکالی اور تالاب پانی سے بھر دیا، یہ پانی لوگوں کی ضروریات بھی پوری کرنے لگا اور علاقے میں ہریالی بھی آگئی۔
جان جیکب اس کے بعد نہر کو وسیع کرتا چلا گیا اور ہزاروں ایکڑ زمینیں سیراب ہوتی چلی گئیں، صحرا نخلستان میں تبدیل ہو گیا، جیکب نے اس کے بعد خان گڑھ کو 600 میل (965) کلو میٹر لمبی سڑکوں کے ساتھ بھی جوڑ دیایوں یہ علاقہ ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ جڑ گیا، وائسرائے کو اس کی کارکردگی کا علم ہوا تو اس نے خان گڑھ کا نام تبدیل کر کے جیکب آباد رکھ دیا اور اسے کرنل سے بریگیڈیئر جنرل بنا دیا اور میں اتوار 17فروری کو اس جیکب آباد تھا۔
جیکب آباد پاکستان کا گرم ترین شہر ہے، یہ شہر25مئی 2010کو دنیا کاچوتھا گرم ترین سٹی بھی ڈکلیئر کیاگیا تھا، گرمیوں میں یہاں کا درجہ حرارت 50ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے مگر یہ پگھلا دینے والا شہر اس کے باوجود قابل دید ہے، کیوں؟ اس کی وجہ اس کے تین عجائب ہیں، آپ کو یہ عجائب برصغیر کے کسی دوسرے شہر میں نہیں ملتے، پہلا عجوبہ جیکب کلاک ہے، یہ پوری دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد کلاک ہے۔
جان جیکب نے زندگی میں اپنے ہاتھوں سے دو گھڑیاں بنائی تھیں، یہ دونوں عجوبہ تھیں، پہلی گھڑی 27 دسمبر 2007کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے روز مقامی لوگوں نے جلا دی جب کہ جیکب کلاک آج بھی موجود ہے، یہ کلاک جان جیکب کی ایک سو ستر سال پرانی رہائش گاہ میں نصب ہے، جیکب کا گھر اب ڈی سی ہائوس بن چکا ہے، جان جیکب نے اپنی رہائش گاہ میں کنواں کھدوایا، اس کے اوپر چھ بائی چھ کا آبنوسی لکڑی کا باکس بنوایا اور اس میں اپنے ہاتھوں سے پیتل کا کلاک بنا کر لگوا دیا۔
یہ کشش ثقل کے ساتھ چلنے والا دنیا کا اپنی نوعیت کا واحد کلاک ہے، یہ دن، ہفتہ، مہینہ اور سال بھی بتاتا ہے، اس پر روزچاند کی تاریخ، پوزیشن اور سائز بھی آتا ہے اوراس کی ایک سائیڈ پر پاکستانی اور دوسری سائیڈ پر برطانیہ کا وقت آتا ہے اور اس وقت میں 168 برس میں کوئی خرابی، کوئی خامی سامنے نہیں آئی، کلاک کے نیچے پیتل کا چالیس کلو گرام وزنی سیلنڈر بندھا ہے، یہ سیلنڈر چابی کے ذریعے اوپر آتا ہے اور سولہ سے سترہ دنوں میں آہستہ آہستہ کنوئیں میں اترتا چلا جاتا ہے۔
کلاک کوسولہ دن بعد دوبارہ چابی دی جاتی ہے، چابی خاصی وزنی ہے اور اس کے لیے باقاعدہ زور لگانا پڑتا ہے، جان جیکب نے ایک مقامی خاندان کو کلاک کی صفائی، مرمت اور چابی کی ٹریننگ دی تھی، یہ خاندان چار نسلوں سے کلاک کی خدمت کر رہا ہے، یہ ذمے داری اب جہانگیر خان کے کندھوں پر عائد ہے، یہ نوجوان خاندان کی چوتھی نسل ہے اور یہ ڈیلی ویجز پر ڈی سی آفس میں کام کرتا ہے، اسسٹنٹ کمشنر نے بتایا، ہم نے جہانگیر خان کی مستقل تقرری کے لیے وزیراعلیٰ سندھ کو لکھ کر بھیج دیا ہے لیکن اس بے چارے کی فائل فائلوں کے انبار میں دب کر رہ گئی ہے۔
میں نے کلاک اور جہانگیر خان کی تصویر کھینچ کر سید مراد علی شاہ کو بھجوا دی، میری وزیراعظم اور وزیراعلیٰ دونوں سے درخواست ہے آپ اس کلاک کو بھی قومی اثاثہ ڈکلیئر کر دیں اور جہانگیر خان اور اس کے خاندان کو بھی خصوصی مراعات کے ساتھ مستقل ملازمت دے دیں، یہ اور کلاک دونوں اس اعزاز کے حق دار ہیں، یہ دنیا میں اس نوعیت کی پہلی اور آخری ایجاد ہے اور یہ ایجاد ہر گھنٹے بعد گھنٹی بجا کراپنے انوکھے ہونے کا اعلان بھی کرتی ہے۔
مجھے جیکب ہائوس میں کمشنر لاڑکانہ سلیم رضا سے ملاقات کا موقع بھی ملا، یہ دورے پر جیکب آباد تشریف لائے تھے، میں زندگی میں بے شمار بیورو کریٹس سے ملا ہوں لیکن میں نے کسی میں سلیم رضا سے زیادہ تاریخ فہمی اور جغرافیائی علم نہیں دیکھا، یہ افسر کم اور پروفیسر زیادہ ہیں، وہ دیر تک کتابوں اور تہذیبوں کا ذکر کرتے رہے اور مجھے اپنی کم علمی اور کم فہمی کا احساس ہوتا رہا، میں ان کے ساتھ بعد ازاں جان جیکب کا کبوتر خانہ دیکھنے گیا۔
جنرل جان جیکب نے یہ کبوتر خانہ 1850 میں اپنے آفس کے احاطے میں بنایا تھا، یہ اینٹوں کی دس بائی دس فٹ چوڑی اور ساٹھ فٹ اونچی عمارت ہے، اس میں کبوتروں کے چھوٹے چھوٹے گھونسلے ہیں، اینٹوں کو کبوتروں کی بینٹھوں کی تیزابیت سے بچانے کے لیے عمارت پر مٹی کا لیپ کیا جاتا تھا، یہ لیپ جان جیکب نے شروع کرایا تھا اور یہ آج تک ہوتا ہے، یہ کبوتر اس زمانے میں سرکاری پیغام رسانی کا کام کرتے تھے، جنرل جیکب ان کے پائوں کے ساتھ رقعہ باندھ کر انھیں اڑا دیتا تھا اور یہ جیکب آباد کا پیغام سکھر پہنچا دیتے تھے، یہ جواب لے کر واپس بھی آتے تھے۔
ڈاکیے کبوتروں کی یہ نسل آج بھی موجود ہے، کبوتر خانے میں 320 کبوتر موجود ہیں، حکومت کے پاس ان کی خوراک کے لیے بجٹ نہیں ہوتا چنانچہ یہ خیرات پر پل رہے ہیں، شہر کے ایک تاجران بے چارے کبوتروں کو روزانہ دس کلو دانا ڈالتے ہیں، یہ کبوتر خانہ بھی قومی اثاثہ ہونا چاہیے کیونکہ صرف پاکستان نہیں بلکہ پورے برصغیر میں اس قسم کا کوئی دوسرا کبوتر خانہ موجود نہیں، میری صوبائی اور وفاقی دونوں حکومتوں سے درخواست ہے آپ اس کبوتر خانے کو بھی اپنی نگرانی میں لے لیں، یہ بری طرح شکست وریخت کا شکار ہے، یہ ہلکا ہلکا جھک بھی رہا ہے، مجھے خطرہ ہے جس دن جیکب آباد میں بارش ہو گئی۔
یہ کبوتر خانہ اس دن اپنے انجام کو پہنچ جائے گا اور میں آخر میں کمشنر سلیم رضا کے ساتھ جان جیکب کی قبر پر بھی گیا، جان جیکب کا دل جیکب آباد سے لگ گیا تھا، اس نے وصیت کی تھی انتقال کے بعد اسے جیکب آباد میں دفن کر دیا جائے، وہ 46 سال کی عمر میں بے شمار کمالات کے بعد 6 دسمبر 1858 کو انتقال کر گیا۔
اس نے مرنے سے پہلے برطانوی فوج کے لیے ایسی رائفلیں اورگولیاں بھی ایجاد کیں جو 9 اعشاریہ 7 کلو میٹر کے فاصلے پر ہدف کو نشانہ بنا سکتی تھیں اور ایسی ہلکی توپیں بھی بنائیں جو 14 میل کے فاصلے پر گولہ داغ سکتی تھیں اور ایسی برق رفتار رجمنٹ (36 جیکب ہارس) بھی تیار کی جو چند گھنٹوں میں پورے اپر سندھ کی پٹرولنگ کر لیتی تھی اور اس نے ایک ایسا ہر بھرا شہر بھی بنا دیا جس نے چند برسوں میں صحرا کی ریت سے جنم لیا، وہ ان تمام کمالات کے بعد فوت ہوا تو مقامی لوگوں اور اس کے جوانوں نے اسے جیکب آباد کی ریت میں دفن کر دیا، وہ لوگوں کا محسن تھا چنانچہ مقامی لوگوں نے اسے پیر کا درجہ دے دیا۔
یہ آج بھی جوکم صاحب بہادر کہلاتا ہے اور لوگ 161برس بعد بھی اس کی قبر پر دیے جلاتے ہیں، جان جیکب کی قبر کے سرہانے سیاہ پتھر تھا اور اس سیاہ پتھر پر دیے رکھے تھے، مقامی لوگ جان جیکب کی قبر پر آ کر اپنے بیمار بچوں کی شفاء کے لیے منت مانگتے ہیں اور آپ کمال دیکھیے ان کے بیمار بچے صحت یاب بھی ہو جاتے ہیں، یہ لوگ منت پوری ہونے کے بعدجان جیکب کی قبرکے سرہانے دیے جلاتے ہیں، جان جیکب کا قبرستان گورا قبرستان کہلاتا ہے، وہاں دو درجن عیسائیوں کی قبریں ہیں تاہم قبرستان کی حالت بہت خستہ ہے، یوں محسوس ہوتا ہے جان جیکب، اس کے عجوبے اور یہ قبرستان کسی کی ترجیح میں شامل نہیں، ہم نے اس قبرستان کو احسان فراموشی کی بدترین مثال بنا کر رکھ دیا ہے۔
حکومت کے پاس اگر وقت نہیں تو میری ائیر چیف مارشل مجاہد انور خان سے درخواست ہے آپ ہی مہربانی فرما دیں، جیکب آباد میں فضائیہ کا بہت بڑا ائیر بیس ہے چنانچہ اگرائیر چیف رحم کریں اور یہ جان جیکب کے قبرستان، قبر، کبوترخانے اور کلاک کی ذمے داری اٹھا لیں تو یہ اثاثے بھی بچ جائیں گے اور ملک کی نیک نامی بھی ہو گی، وزیراعظم بھی اس پر توجہ دیں، یہ سیاحت کو انڈسٹری بنانا چاہتے ہیں اور سیاحت ان اثاثوں کے بغیر انڈسٹری نہیں بن سکتی۔
ہم سیاحوں کو گدھوں کی دم دکھا کر اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکیں گے لہٰذا آپ جیکب آباد کے اثاثوں کو اپنی نگرانی میں لے لیں یا پھر انھیں فضائیہ یا آئی بی اے سکھر کے حوالے کر دیں، یہ بچ جائیں گے ورنہ یہ بھی جیکب کی طرح خاک میں مل کر فنا ہو جائیں گے اور ایک بار پھر ثابت ہو جائے گا ہم نئی چیزیں بنانا تو دور ہم میں پرانی بھی سنبھالنے کی اہلیت نہیں۔