جینا ہے تو ذلت سیکھ لو
میرے ایک دوست کراچی میں رہتے ہیں، یہ انتہائی پڑھے لکھے، مہذب اور ایماندار انسان ہیں، یہ انجینئر تھے، سی ایس ایس کیا، پوزیشن لی اور سول سروس میں آ گئے، اچھے ذوق کے مالک ہیں اور مصوری، شاعری، ادب، موسیقی اور آثار قدیمہ سے دلچسپی رکھتے ہیں، آپ دنیا کی کسی مشہور کتاب یا مصنف کا نام لیں، یہ اس سے نہ صرف واقف ہوں گے بلکہ انھوں نے اس کا مطالعہ بھی کر رکھا ہو گا، میرے اس دوست کے ساتھ چند دن قبل انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا، یہ دوائیں خریدنے کے لیے کراچی کی ایک مارکیٹ میں گئے، یہ گاڑی سے اتر رہے تھے کہ گلی سے اچانک دو نوجوان نکلے، ایک ان کی گاڑی کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور دوسرے نے ان کی کنپٹی پر پستول رکھ دیا، میرے دوست کو جیبیں خالی کرنے کا حکم دیا گیا، انھوں نے پرس اور موبائل فون نوجوان کے ہاتھ میں دے دیا، پرس میں ستائیس ہزار روپے تھے، نوجوانوں نے رقم نکالی، موبائل سے سم نکال کر باہر پھینکی، موبائل جیب میں ڈالا اور وہاں سے جانے لگے.
میرے دوست نے ہاتھ جوڑ کر نوجوان سے درخواست کی "بیٹا پرس میں میرے کارڈز ہیں، یہ آپ کے کسی کام نہیں آئیں گے، آپ اگر مہربانی کر کے یہ مجھے دے دیں تو میں آپ کا ممنون ہوں گا" نوجوان نے قہقہہ لگایا، پرس زمین پر پھینکا اور میرے دوست کو گالی دے کر بولا "چل، جھک اور میرے پیروں سے یہ پرس اٹھا"۔ نوجوان کے ہاتھ میں پستول تھا، میرے دوست کو محسوس ہوا "میں نے اگر اس کی بات نہ مانی تو یہ مجھے گولی مار دے گا" میرا دوست اس کے قدموں میں جھکا، اپنا پرس اٹھایا، زمین پر بیٹھا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، نوجوانوں نے قہقہے لگائے اور بھاگ کر گلی میں گم ہو گئے، میرا یہ دوست اس دن سے نفسیاتی مریض بن چکا ہے، یہ بس ایک ہی بات کرتا ہے "میں اس ملک کا باعزت شہری تھا لیکن جوں ہی میرے بیٹے کی عمر کے لڑکے نے میری کنپٹی پر پستول رکھا، مجھے ماں کی گالی دی اور مجھے اپنے پاؤں میں جھکنے کا حکم دیا، میں نے اسی وقت اپنی عزت، عزت نفس، انا اور ملک سے محبت کھو دی" وہ بار بار کہتا تھا "مجھے اس وقت اپنے ذلیل ہونے کا احساس ہوا اور میں شاید اب پوری زندگی ذلت کے اس احساس سے باہر نہ نکل سکوں "۔ مجھے اپنے دوست کے احساس سے اتفاق ہے، آپ خود سوچئے، آپ انتہائی پڑھے لکھے ہوں، آپ ایماندار، نفیس اور مہذب بھی ہوں اور آپ پاکستان کی بااختیار سروس کے ممبر بھی ہوں مگر ایک ان پڑھ، جاہل اور گنوار لڑکا چلتی سڑک پر آپ کی کنپٹی پر پستول رکھ دے، آپ کو گالی دے اور پھر آپ اس کے پاؤں میں جھکنے پر مجبور ہو جائیں تو آپ کی کیا حالت ہو گی؟ کیا آپ خود کو آئینے میں دیکھنے کے قابل رہیں گے اور کیا آپ اپنی نظروں کا سامنا کر سکیں گے؟ ۔
میں آپ کو ذاتی واقعہ بھی سناتا ہوں، میں رات سوا نو بجے اپنے پروگرام کا ابتدائی حصہ ریکارڈ کراتا ہوں، ساڑھے نو بجے اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ جاتا ہوں، ہم گپ شپ کرتے ہیں، لطیفے سنتے اور سناتے ہیں اور میں دس بجے اسٹوڈیو چلا جاتا ہوں، میرے ساتھیوں میں ہارون احمد نام کا ایک نان لینئر ایڈیٹر (این ایل ای) بھی شامل تھا، جمعرات 9 جنوری کی رات ہم لوگوں نے گپ شپ کی، میں دس بجے اسٹوڈیو چلا گیا اور ہارون احمد گھر روانہ ہو گیا، یہ راولپنڈی شہر میں رہتا تھا، ساڑھے دس بجے اطلاع آئی ہارون احمد کو کمرشل مارکیٹ میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا، میں نے پروگرام کے وقفے میں تفصیل معلوم کی تو پتہ چلا، دو نوجوانوں نے کمرشل مارکیٹ میں اس سے موبائل فون چھیننے کی کوشش کی، ہارون نوجوان تھا، اس نے یہ ذلت گوارہ نہ کی، اس نے مزاحمت کی اور نوجوانوں نے اس کے سر میں گولی مار دی، ہارون احمد شہید ہو گیا، آپ تصور کیجیے، آپ ایک نوجوان سے روز ملتے ہوں، وہ آپ کے پاس سے اٹھ کر جائے اور آپ کو پھر اس کی موت کی خبر ملے تو آپ کی نفسیاتی حالت کیا ہو گی اور موت کا باعث بھی اڑھائی ہزار روپے کا موبائل فون ہو تو آپ کیا محسوس کریں گے؟
مجھے اور میری ٹیم کو اس وقت اپنی ذلت اور بے بسی کا جتنا احساس ہوا آپ اس کا تصور نہیں کر سکتے، ہمیں محسوس ہوا، ہم ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں جس میں آپ کا پرس، آپ کا اڑھائی ہزار روپے کا موبائل آپ کی جان، آپ کی عزت نفس اور آپ کے وقار سے زیادہ قیمتی ہے، میرے ایک کالم نگار دوست ہیں، یہ لاہور میں رہتے ہیں، یہ بھی انتہائی پڑھے لکھے اور نفیس انسان ہیں، ان کا خاندان تین صدیوں سے معزز ہے، ان کے ساتھ لاہور میں واقعہ پیش آیا، یہ اپنی بیٹی کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے، گاڑی کھڑی کی، ان کی اہلیہ گاڑی میں بیٹھ گئی، یہ ڈاکٹر کے پاس چلے گئے، یہ واپس آئے، گاڑی کے نزدیک پہنچے تو ایک نوجوان نے پستول نکالا اور ان کی اہلیہ پر تان دیا، آپ ذرا تصور کیجیے، آپ کے ساتھ آپ کی بیٹی ہو اور اہلیہ پر پستول تانا جا چکا ہو تو آپ کیا کریں گے، انھوں نے بھی پرس نکالا اور نوجوان کے حوالے کر دیا، نوجوان نے ان کی اہلیہ کو سونے کی چوڑیاں اتارنے کا حکم دیا، بھابھی نے بھی اپنی چوڑیاں اتار کر اس کے حوالے کر دیں، اس نے گاڑی کی چابی نکالی، موٹر سائیکل پر بیٹھا اور یہ کہہ کر روانہ ہو گیا "آپ کو چابی تھوڑی دور سڑک پر مل جائے گی" وہ نوجوان ڈاکو چلا گیا اور میرے کالم نگار دوست سڑک پر جھک کر چابی تلاش کرنے لگے، چابی مل گئی، یہ سیدھے بھی ہو گئے لیکن ان کی عزت نفس، انا اور ملک اور معاشرے سے محبت اسی سڑک پر کہیں رہ گئی، وہ واپس نہ مل سکی۔
آپ گوجرانوالہ کے ایک بزنس مین کا واقعہ بھی ملاحظہ کیجیے، یہ گھر میں سوئے ہوئے تھے، ڈاکو گھر میں داخل ہوئے، خاندان کو ڈرائنگ روم میں جمع کیا، بزنس مین کو فرش پر اکڑوں بیٹھنے کا حکم دے دیا گیا، یہ انتہائی معزز انسان تھے، پورے شہر میں ان کی عزت تھی لیکن یہ پستول کی نلی کی وجہ سے اپنی بیوی، بہوؤں، بیٹی اور بیٹوں کے سامنے فرش پر اکڑوں بیٹھ گئے، گھر کی تمام چابیاں ڈاکوؤں کے حوالے کر دی گئیں، ڈاکو چار گھنٹے ان کے گھر میں رہے، وہ چلے گئے لیکن یہ آج بھی اندر سے زخمی ہیں، یہ آج بھی اپنی بیوی، اپنی بہوؤں کا سامنا نہیں کر پاتے، میں نومبر میں تھائی لینڈ جا رہا تھا، میرے ساتھ کراچی کے ایک مشہور سرجن بیٹھے تھے، یہ مائیکرو سرجری کے ماہر ہیں، اس سرجری میں انسانی بدن پر چیرا نہیں لگایا جاتا، انسانی بدن کے قدرتی سوراخوں مثلاً ناف، ناک اور حلق میں نالی ڈال کر کیمرے کے ذریعے آپریشن کیا جاتا ہے، یہ ملک میں اس نوعیت کے واحد سرجن ہیں، یہ برطانیہ سے ملک کی محبت میں کراچی آئے، یہ نوجوان سرجنوں کو سرجری کی نئی تکینک بھی سکھا رہے ہیں، یہ مجھے بتانے لگے، میں رات کے وقت ایمرجنسی آپریشن کے لیے اسپتال جا رہا تھا، مجھے موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوانوں نے روکا، ایک گاڑی کے سامنے کھڑا ہو گیا جب کہ دوسرے نے دروازہ کھلوایا، میرا پرس اور موبائل فون لیا اور موٹر سائیکل پر بیٹھ کر گلیوں میں غائب ہو گئے" ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا "وہ میری زندگی کا ذلت آمیز ترین لمحہ تھا، میں نے جتنی بے بسی اور لاچاری اس وقت محسوس کی، میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھی" میں نے ان سے پوچھا " آپ نے مزاحمت کیوں نہیں کی" وہ بڑے دکھ سے بولے "میں روز ایسے تین چار زخمیوں کا آپریشن کرتا ہوں جنھوں نے ڈاکوؤں سے آرگومنٹ کی غلطی کی، گولی کھائی اور موت اور حیات کی کشمکش میں مبتلا ہو کر اسپتال کے آپریشن تھیٹر میں پہنچ گئے، میں لوگوں کو روز مرتے دیکھتا ہوں چنانچہ میں نے جب نوجوانوں کو دیکھا تو میں نے منہ سے ایک لفظ نکالے بغیر موبائل فون اور پرس انھیں پکڑا دیا"۔
یہ چند واقعات ہیں، آپ کو کراچی سے لے کر پشاور اور گلگت سے لے کر تربت تک ایسی ہزاروں کہانیاں ملیں گی، یہ کہانیاں، یہ واقعات ثابت کرتے ہیں، ملک میں لاء اینڈ آرڈر نام کی کوئی چیز موجود نہیں، آپ خواہ کوئی بھی ہیں، آپ خواہ کسی بھی طبقے، کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں، آپ کو کسی بھی وقت کسی بھی جگہ روک کر لوٹ لیا جائے گا اور آپ بے بسی سے لٹنے کے سوا کچھ نہیں کر سکیں گے، ڈاکے میں دو نقصان ہوتے ہیں، مال اور انا۔ مال کے نقصان کی ویلیو صرف دس فیصد ہوتی ہے، نوے فیصد نقصان آپ کی انا، آپ کی عزت نفس اور آپ کا احساس تفاخر اٹھاتا ہے، آپ نیا موبائل خرید لیتے ہیں، آپ دولت بھی دوبارہ کما لیتے ہیں لیکن آپ کی مجروح عزت نفس، آپ کی زخمی انا اور آپ کا کٹا پھٹا احساس دوبارہ بحال نہیں ہوتا، آپ زندگی بھر اس ٹرامے سے باہر نہیں آتے چنانچہ میرا آپ کو مشورہ ہے، آپ نے اگر اس ملک میں رہنا ہے، آپ اگر زندہ رہنا چاہتے ہیں تو پھر آپ ذلت سیکھ لیں، آپ اپنی عزت نفس اور انا کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو جائیں کیونکہ آپ کو اب زندگی اور عزت نفس میں سے کوئی ایک قربان کرنا پڑے گی، آپ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو پھر ڈاکوؤں کے ہاتھوں ذلیل ہو کر زندہ رہیں اور آپ کو اگر یہ قبول نہیں تو پھر کسی ڈاکو کی گولی کا انتظار کریں، یہ انتظار آپ کی شہریت، آپ کا شناختی کارڈ ہے۔