عمران خان پر مولانا کی مہربانی
ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر ہیں، ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں، ماضی میں جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کے رکن ہوتے تھے، دین دار اور سماجی شخصیت ہیں اور کوہاٹ میں بہت معروف ہیں، یہ 21 اپریل کے ضمنی الیکشن میں پی کے 91 کوہاٹ سے جے یو آئی کے امیدوار تھے، کوہاٹ کا یہ حلقہ جے یو آئی کی امانت کہلاتا ہے، یہاں سے2013ء اور 2018ء میں بھی جے یو آئی کے امیدوارمنتخب ہوئے تھے چناں چہ ڈاکٹر اقبال کی جیت کا امکان تھا لیکن الیکشن سے چند دن قبل مولانا فضل الرحمن کی ہدایت پر ڈاکٹر اقبال فنا نے اپنے کاغذات واپس لے لیے اور یہ حلقہ سنی اتحاد کونسل کے امیدوار دائود شاہ کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا یوں 21 اپریل کو سنی اتحاد کونسل گھوڑے کے نشان پر 22998 ووٹوں سے کوہاٹ سے جیت گئی۔
دائود شاہ پاکستانی اسمبلیوں میں سنی اتحاد کونسل کا پہلا امیدوار ہے جس کے بعد الیکشن کمیشن کی بنیادی شرط پوری ہوگئی، الیکشن کمیشن کے قوانین کے مطابق صرف وہ جماعت مخصوص سیٹوں کی حق دار ہے جس کی کسی نہ کسی اسمبلی میں نمائندگی ہوگی، پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کے لیے 19فروری کو سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئی تھی لیکن اسمبلیوں میں نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے انہیں کے پی اور قومی اسمبلی میں مخصوص سیٹیں مل سکیں اور نہ یہ کے پی سے اپنے سینیٹرز منتخب کر سکے، سنی اتحاد کونسل نے اب کے پی اسمبلی میں سیٹ حاصل کر لی ہے جس کے بعد الیکشن کمیشن کی شرط پوری ہو چکی ہے اور یہ اب مخصوص سیٹیں بھی حاصل کر سکے گی اور کے پی اسمبلی سے اپنے سینیٹرز بھی منتخب کرا لے گی اور اسے وہ تمام آئینی اور قانونی حقوق بھی مل جائیں گے جس سے یہ اب تک محروم تھی اور یہ عمران خان کے لیے موجودہ "سیٹ اپ" میں پہلا این آر او ہے اور یہ این آر او انہیں ریاست کے ساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمن نے دیا۔
مولانا اگر سنی اتحاد کونسل کے مقابلے میں اپنا امیدوار نہ بٹھاتے تو سنی اتحاد کونسل کوہاٹ سے کام یاب ہو سکتی اور نہ یہ اسمبلی میں اپنی پہلی نشست حاصل کر سکتی اور اگر اسٹیبلشمنٹ بھی پی ٹی آئی کو رعایت نہ دیتی، یہ کوہاٹ میں اپنی آنکھیں بند نہ کرتی تو بھی سنی اتحاد کونسل کا گھوڑا (یہ پارٹی کا انتخابی نشان ہے) اسمبلی نہیں پہنچ سکتا تھا چناں چہ یہ سیٹ اسٹیبلشمنٹ اور مولانا فضل الرحمن کی دین ہے اور یہ وہ سیاسی رعایت اور لین دین تھا جس کا ذکر پچھلے ایک ماہ سے ہو رہا ہے اور جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا عمران خان سے رابطے ہو رہے ہیں اور عن قریب کوئی درمیان کا راستہ نکل آئے گا اور وہ راستہ نکل آیا، سنی اتحاد کونسل نے ڈی آئی خان سے قومی اسمبلی کی سیٹ بھی حاصل کر لی، یہ بھی مولانا کی مہربانی ہے لہٰذا معاملہ قومی اسمبلی میں بھی فٹ ہوگیا۔
سیاست واقعی بڑی بے رحم اور سنگ دل چیز ہوتی ہے، اس کے کھانے اور دکھانے والے دانت بھی مختلف ہوتے ہیں، بے شک اس کے دشمن اور دوست بھی مستقل نہیں ہوتے، سیاست وہ واحد چشمہ ہے جس پر جنگل کے تمام جانور دن بھر لڑنے کے بعد شام کے وقت اکٹھے ہو جاتے ہیں، آپ مولانا فضل الرحمن کا دس سال کا ڈیٹا جمع کر لیں، مولانا نے عمران خان کو کیا کیا نہیں کہا، یہ ان کی نظر میں یہودی ایجنٹ بھی تھا، غیر ملکی طاقتوں کا آلہ کار بھی اور ملک کی ترقی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بھی اور دوسری طرف عمران خان مولانا کو کیا کیا نہیں کہتے تھے، یہ کے پی میں ایک دوسرے کے خوف ناک سیاسی حریف بھی تھے لیکن آج یہ دونوں کہاں کھڑے ہیں؟ آج مولانا عمران خان کو تاریخی فیور دے رہے ہیں اور عمران خان ان کی مہربانی وصول کر رہے ہیں، دوسری طرف عمران خان روزانہ جنگل کے بادشاہ کے خلاف تقریر کر رہے ہیں، یہ "میں جیل میں مر جائوں گا لیکن غلامی قبول نہیں کروں گا" کے دعوے بھی کر رہے ہیں اور ادھر جنگل کے بادشاہ سے ایک ایسی رعایت بھی لے رہے ہیں جس سے ان کی پارٹی کے راستے کی تمام قانونی اور آئینی رکاوٹیں دور ہو جائیں گی۔
ہم اسے کیا کہیں؟ ہم اسے کچھ بھی کہہ سکتے ہیں لیکن کم از کم اصول نہیں کہہ سکتے! ہمیں اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ماننا ہوگا سیاست میں اصول مکمل طور پر فوت ہو چکے ہیں اور تمام سیاسی جماعتوں کا اب صرف ایک ہی اصول ہے اور وہ ہے اقتدار اور جس پارٹی کو یہ مل جائے گا وہ اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی ہوگی اور جو اس سے محروم ہوگی وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہو جائے گی اور یہ اس وقت تک اینٹی اسٹیبلشمنٹ رہے گی جب تک اسے اقتدار کا موقع نہیں دیا جاتا، آپ حکومتی اتحاد کو دیکھ لیں، یہ سب ماضی میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوتے تھے لیکن جوں ہی انہیں اچھا پیکج ملا یہ چھلانگ لگا کر جیپ میں سوار ہو گئے اور جو جیپ پر نہیں چڑھ سکے وہ اب اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں، یہ ایک خوف ناک المیہ ہے لیکن اس سے بھی زیادہ خوف ناک المیہ یہ ہے یہ دونوں فریق اپنے اس موقف میں مخلص نہیں ہیں۔
حکومتی اتحاد اس وقت تک اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہے جب تک یہ لوگ اقتدار میں ہیں، یہ جس دن جیپ سے اتار دیے جائیں گے یہ اس دن پورے ملک میں"مجھے کیوں اتارا" کے نعرے لگائیں گے اور دوسری طرف عمران خان اور ان کے نام نہاد اتحادی اس وقت تک اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں جب تک انہیں اقتدار سے اپنی مرضی کی بوٹی نہیں ملتی جس دن یہ مل گئی اس دن جنرل عاصم منیر جنرل باجوہ کی طرح جمہوریت پسند آرمی چیف ہوں گے اور ریاستی ایجنسیاں پاکستان کی سیاسی اور نظریاتی محافظ اور ملک میں ان کا عمران خان سے بڑا سپورٹر اور وکیل کوئی نہیں ہوگا، کھیل صرف اتنا ہے، اس ملک میں طاقتور ایک دوسرے کو الیکٹ اور سلیکٹ کر رہے ہیں، وزیراعظم اپنی مرضی کا آرمی چیف سلیکٹ کرتا ہے اور اس سلیکشن کے بدلے اس سے ذاتی وفاداری کی امید باندھ لیتا ہے اور جو آرمی چیف اپنی مدت میں اضافہ کرنا چاہتا ہے وہ اپنی مرضی کی حکومت لے آتا ہے اور اس لین دین میں ملک کا جنازہ نکل چکا ہے، اللہ کرے اس مرتبہ ایسا نہ ہو اور تاریخ کا دھارا اس سمت ہو جائے جس سمت اسے بہنا چاہیے، ہم صرف دعا ہی کر سکتے ہیں اور ہم دل و جان سے یہ کر رہے ہیں۔
سن 2000ء سے نئی صدی کا آغاز ہوا تھا، اس صدی کو ایشیا کی صدی کہا جاتا ہے، پچھلے 23 برسوں میں پورے ایشیا نے ترقی کی، جاپان سے لے کر ترکی تک ایشیائی ملکوں کی گروتھ، کوالٹی آف لائف اور معاشرتی اصولوں میں غیرمعمولی ترقی ہوئی، چین، روس اور بھارت میں 2000ء میں ایک بھی ارب پتی نہیں تھا لیکن آج صرف 23 برسوں میں چین میں 406، روس میں 120اور بھارت میں 274ارب پتی ہیں، ترکی 2000ء میں مرد بیمار تھا لیکن آج یہ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں شامل ہے، بھارت 2000ء میں پاکستان سے بجلی امپورٹ کر رہا تھا لیکن آج اس کے ریزروز642بلین ڈالرز ہیں، آپ تھائی لینڈ، انڈونیشیا، ملائیشیا اور ویت نام کو بھی دیکھ لیں یہ بھی بڑی تیزی سے ترقی یافتہ ملکوں میں شامل ہو رہے ہیں، بنگلہ دیش کی ایکسپورٹس بھی 50 بلین ڈالرزتک پہنچ گئی ہیں، پورا سینٹرل ایشیا ڈویلپ ہو چکا ہے۔
آپ ازبکستان، قازقستان، تاجکستان، ترکمانستان اور آذربائیجان کو دیکھیں، آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی، آپ اقتصادی پابندیوں کے باوجود ایران کی ترقی دیکھیں، آپ کی نیندیں اڑ جائیں گی، یہ پابندیوں کے باوجود اسرائیل سے لڑ رہا ہے اور امریکا اور یورپ نے ایران سے لڑائی کی صورت میں اسرائیل کی مدد سے انکار کر دیا ہے، عرب ملک بھی اب دنیا کی بڑی طاقتیں ہیں، یہ بڑی حد تک خود کو تیل کی کمائی سے الگ کر چکے ہیں، یو اے ای کی اکانومی میں تیل کا کنٹری بیوشن صرف 20 فیصد رہ گیا ہے، اس کی 80فیصد کمائی دوسرے سیکٹرز سے ہو تی ہے، قطر اور سعودی عرب بھی متبادل ذرائع پر شفٹ ہو رہے ہیں، سعودی عرب کے نئے شہر، سیاحت اور عمرہ عن قریب پورے ملک کا معاشی بوجھ اٹھا لے گا اور پیچھے رہ گیا چین تو یہ اب سپر پاور ہے، ہم اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے، ریجن کی اس دوڑ میں صرف پاکستان اور افغانستان پیچھے رہ گئے ہیں، افغانستان بھی اندھیرے میں سمت ٹٹول رہا ہے اور پاکستان بھی "مینجمنٹ فیلیئر" کی بڑی کیس سٹڈی بن چکا ہے۔
ہم آبادی میں پانچویں اور وسائل میں دسویں نمبر پر ہیں مگر صحت سے لے کر انصاف تک انسانی زندگی کے تمام تقاضوں میں ریڈ لائین سے نیچے ہیں، آئی ایم ایف نے چار دن قبل ہمیں معاشی لحاظ سے چھٹا خطرناک ملک ڈکلیئر کیا، افغانستان، عراق، صومالیہ، شام اور لیبیا ہمارے ساتھ ہیں، یہ کیا ثابت کرتا ہے؟ یہ ثابت کرتا ہے ہم ایک ایسا جہاز بن چکے ہیں جو تیزی سے زمین پر گر رہا ہے لیکن پائلٹ آرام سے برگر انجوائے کر رہا ہے، اسے جہاز اور اپنی تباہی کا ذرا بھی ملال نہیں لیکن سوال یہ ہے ہم اس انجام تک کیسے پہنچے؟ صرف ایک جواب ہے ہم نے اپنی ذات کو ملک سے زیادہ اہمیت دی اور ہم اب اس کرب ناک انجام سے کیسے بچ سکتے ہیں اس کا بھی صرف ایک ہی جواب ہے ہمیں ملک کو اپنی ذات سے زیادہ اہمیت دینا ہوگی اور اس کا صرف ایک ہی فارمولا ہے۔
ملک میں فوری طور پر ہر قسم کی ایکسٹینشن پر پابندی لگا دی جائے تاکہ یہ دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے، ہم اس کے بعد ایک سو فیصد جینوئن الیکشن کمیشن اور الیکشن سسٹم لے کر آئیں اور پھر ججوں کی تقرری کا نظام ٹھیک کر دیں اور انہیں ہر قسم کی آزادی دے دیں، ملک کی سمت ٹھیک ہو جائے گی ورنہ مولانا اور عمران خان مل کر ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے، یہ اکٹھے ہو چکے ہیں، یہ اب کچھ نہیں چھوڑیں گے۔