ہم مان رہے ہیں، آپ بھی مان لیں
ہمیں کچھ باتیں میاں نواز شریف کی ماننا پڑیں گی اور کچھ میاں صاحب کو بھی تسلیم کرنا ہوں گی۔
ہم مان لیتے ہیں میاں نواز شریف متحدہ پاکستان کے آخری بڑے لیڈر ہیں، ہم نے اگر حالات کی نزاکت پر توجہ نہ دی، ہم نے ملک میں پھیلی ہوئی منافرت، سرکاری نالائقی، اداروں کے درمیان ٹکراؤ اور مذہبی شدت پسندی پر قابو نہ پایا تو میاں نواز شریف کے بعد ملک کا شیرازہ بکھر جائے گا، یہ یوگو سلاویہ بن جائے گا یا پھر عراق جیسی صورتحال کا شکار ہو جائے گا، میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو سے لاکھ اختلافات سہی مگر یہ ملک کی یکجہتی کی علامت تھے۔
بے نظیر بھٹو27 دسمبر 2007ء کو دنیا سے رخصت ہو گئیں، یکجہتی کا ایک ستون ٹوٹ گیا، پاکستان پیپلز پارٹی نے 2008ء میں اکثریت حاصل کی، پانچ سال پورے کیے لیکن یہ آج کہاں ہے؟ ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی آج دیہی سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی، آدھا سندھ یعنی کراچی اور حیدرآباد ایم کیو ایم کے پاس ہے باقی آدھا سندھ پیپلز پارٹی اور قوم پرست جماعتوں میں تقسیم ہو گیا، قومی پارٹی سندھی پارٹی بن گئی۔ میاں نواز شریف قومی یکجہتی کے دوسرے ستون ہیں، یہ گر گئے تو شاید پاکستان مسلم لیگ ن بھی میاں شہباز شریف، چوہدری نثار یا اسحاق ڈار کی قیادت میں پانچ سال پورے کر لے مگر 2018ء میں یہ پارٹی بھی پنجاب تک محدود ہو کر رہ جائے گی اور یہ 2020ء تک جنوبی پنجاب سے بھی فارغ ہو جائے گی۔
بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی صورتحال آپ کے سامنے ہے، خیبر پختونخوا میں فاٹا، ہزارہ اور بلتستان تین نئے صوبے بن رہے ہیں، یہ تین نئے صوبے اٹک سے لے کر خیبر تک اور سوست باڈر سے لے کر ڈی آئی خان تک پورے علاقے کی ہیت بدل دیں گے، بلوچستان کے بارے میں سی آئی اے جنرل احمد شجاع پاشا کو دھمکی لگا چکی ہے "ہم نے افغانستان کی معدنیات نکالنی ہیں اگر پاکستان نے ہمیں راستہ نہ دیا تو ہم یہ دولت آزاد بلوچستان کے راستے نکال لے جائیں گے" آزاد بلوچستان امریکا اور یورپ کے لیے آئیڈیل جغرافیائی پوزیشن ہو گی، ہزار کلو میٹر کی کوسٹل لائین، تین بندرگاہیں، ایران کی ہمسائیگی اور عرب ممالک کی جغرافیائی دوستی، آزاد بلوچستان امریکا کے لیے آئیڈیل ملک ثابت ہو گا، میاں نواز شریف مستقبل کے ان برے دنوں کو ٹال سکتے ہیں، یہ ملک کو ٹوٹنے سے بھی بچا سکتے ہیں، نیوکلیئر پروگرام کو بھی محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
فوج کی سیاسی حفاظت بھی کر سکتے ہیں اور مختلف زبانوں، نسلوں اور فرقوں میں بٹے لوگوں کو اکٹھا بھی رکھ سکتے ہیں۔ ہمیں یہ حقیقت بہر حال ماننا ہو گی، ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا، میاں نوازشریف کی معاشی پالیسیاں درست ہیں، پاکستان معاشی لحاظ سے ترقی کر رہا ہے، زرمبادلہ کے ذخائربہتر ہو رہے ہیں، اسٹاک ایکسچینج توانا ہو چکی ہے، چین اور ترکی سرمایہ کاری کر رہے ہیں، صوبے موٹرویز کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑ رہے ہیں، میاں صاحب بجلی کے منصوبے بھی لگا رہے ہیں، ملک میں چار پانچ برسوں میں لوڈ شیڈنگ بھی ختم ہو جائے گی، میٹرو بسوں کے منصوبے بھی اچھے ہیں اور ملک میں کرپشن میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔
ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا پنجاب میں پچھلے چھ برسوں میں بہت کام ہوا، آپ پنجاب کے شہروں کا باقی صوبوں کے شہروں سے تقابل کر یں تو آپ کو واضح فرق محسوس ہو گا، آپ پنجاب میں آج بھی رات کے وقت باہر نکل سکتے ہیں جب کہ آپ سندھ، کے پی کے اور بلوچستان میں اس کا تصور تک نہیں کر سکتے، یہ ساری باتیں یہ سارے حقائق درست ہیں اور ہمیں دل بڑا کر کے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو ان کا کریڈٹ دینا ہو گا لیکن میری میاں صاحبان سے درخواست ہے، ہم اگر یہ حقائق مان رہے ہیں تو آپ بھی وہ حقائق مان لیں جن کو آپ فراموش کر کے بیٹھے ہیں، آپ میں بھی ایسی خامیاں موجود ہیں جن کی وجہ سے آپ مسائل کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، آپ اگر اپنا سیاسی سفر جاری رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی ان خامیوں پر قابو پانا ہو گا۔ آپ بھی انسان ہیں اور دنیا کا کوئی انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا، یہ اصلاح کا طالب رہتا ہے اورآپ کو بھی اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔
میاں صاحب کی سب سے بڑی خامی خاندانی سیاست ہے، یہ طاقت اور اختیار کو صرف اور صرف اپنے خاندان تک محدود رکھنا چاہتے ہیں، آپ کے خاندان کے 19 افراد اس وقت طاقت کے برآمدوں میں گھوم رہے ہیں، یہ لوگ بھی وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم جتنے بااختیار ہیں، پارٹی کے عملی سربراہ حمزہ شہباز ہیں، یہ ذاتی جہاز میں سفر کرتے ہیں اور وزیر اعلیٰ کی طرح احکامات جاری کرتے ہیں، سلمان شہباز معاشی اور تجارتی فیصلے کرتے ہیں، مریم نواز کو وزیر خارجہ کی ٹریننگ دی جا رہی ہے اور وزیر اعظم بھارت کے دورے پر جائیں تو یہ شاہ محمود قریشی اور خورشید شاہ کو ساتھ لے جانے کی بجائے حسین نواز شریف کو سعودی عرب سے بلا کر دہلی لے جاتے ہیں۔
لاہور شہر کے اندر سات وی وی آئی پی رہائش گاہیں ہیں اور ان کی حفاظت کے لیے ہزار سے دو ہزار اہلکار تعینات ہوتے ہیں، میاں صاحب کو یہ خاندانی سیاست ترک کر دینی چاہیے، میاں صاحبان کے بارے میں لوگوں کا خیال ہے، یہ خاندان کے بعد جن لوگوں کو توجہ کے قابل سمجھتے ہیں، ان کا کشمیری ہونا، بٹ ہونا، خواجہ ہونا یا لاہوری ہونا ضروری ہے، آپ کتنے ہی اہل کیوں نہ ہوں، آپ اگر بٹ یا لاہوری نہیں ہیں تو آپ کے ساٹھ فیصد نمبر کٹ جائیں گے، میاں صاحب کو یہ تاثر بھی ختم کرنا ہو گا، یہ زیادہ نہیں کر سکتے تو یہ کم از کم اپنے ساتھیوں کے نام سے بٹ، خواجہ اور میاں کا سابقہ اور لاحقہ ہی ختم کر دیں، یہ اپنے دائیں بائیں سندھی، بلوچی اور پشتون ہی بٹھا لیا کریں، میاں صاحبان کے بارے میں تاثر ہے، یہ کچن کابینہ تک محدود ہیں، تمام فیصلے تین چار لوگ کرتے ہیں، پارٹی کو صرف اطلاع دی جاتی ہے اور اکثر اوقات اطلاع کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی جاتی، میاں صاحب کی کچن کا بینہ میں بھی شدید اختلافات ہیں، چوہدری نثار، اسحاق ڈار اور خواجہ آصف کے اختلافات اب ڈھکی چھپی بات نہیں، یہ اختلافات بھی اب گُل کھلا رہے ہیں۔
وزیر اعظم کو یہ اختلافات بھی فوراً ختم کرانے چاہئیں، وزراء کی حدود طے کریں اور کوئی وزیر دوسرے وزیر کی حد میں داخل نہ ہو، فوج خواجہ آصف کی ذمے داری ہے تو چوہدری نثار فوجی معاملات میں مداخلت نہ کریں اور داخلی سلامتی اگر چوہدری نثار کے پاس ہے تو اسحاق ڈار اور خواجہ آصف اس میں قدم نہ رکھیں، وزیراعظم کو پالیسی سازی کا دائرہ بھی بڑھانا چاہیے، یہ اپنی کابینہ اور پھر پارٹی دونوں سے مشورے کریں اور ان مشوروں پر عمل بھی کریں، میاں نواز شریف کے بارے میں لوگوں کا تاثر ہے، یہ فوج کے ساتھ کمفرٹیبل نہیں ہیں، یہ آرمی چیف کو بھارت کی طرح سیکریٹری دفاع کے ماتحت کرنا چاہتے ہیں، یہ نفسیاتی طور پر 12 اکتوبر 1999ء سے باہر بھی نہیں نکلے، یہ جنرل پرویز مشرف کو ہر صورت سزا دینا چاہتے ہیں اور یہ آئی ایس آئی کی افغان اور بھارتی پالیسی سے بھی مطمئن نہیں ہیں چنانچہ فوج کے ساتھ ان کے اختلافات شروع ہو چکے ہیں۔
یہ اختلافات صرف افواہیں نہیں ہیں، میاں صاحب کو فوج کے بارے میں واقعی اپنی پالیسی تبدیل کرنی چاہیے، یہ درست ہے ملک کے ہر ادارے کو قانون اور ضابطے کا پابند ہونا چاہیے، ملک کا چیف ایگزیکٹو صرف ایک ہونا چاہیے، ماتحتوں کو باس اور باس کو ماتحتوں کی خدمات سرانجام نہیں دینی چاہئیں لیکن اس کے لیے جمہوریت اور حکمران دونوں کا مضبوط ہونا ضروری ہے، آپ طیب اردگان کی طرح قوم اور ملک پر توجہ دیں، ملک کے تمام ادارے خود بخود قانون کے ماتحت ہوتے چلے جائیں گے، فوجی پوری دنیا میں صرف اس شخص کو اپنا باس مانتے ہیں جو ایماندار ہو، بہادر ہو اور انٹلکچول ہو، فوج قائداعظم کا احترام کیوں کرتی ہے؟ اس لیے کہ ان میں یہ تینوں خوبیاں موجود تھیں اور امریکی فوج مسلمان باپ کے بیٹے باراک حسین اوبامہ کو کیوں سیلوٹ کرتی ہے؟ اس لیے کہ ان میں یہ تینوں خوبیاں موجود ہیں۔
آپ بھی اپنے انٹلکچول لیول اور جرات پر توجہ دیں، آپ ڈیلیور کریں اور آپ گلوبٹ کی قوم کو قائداعظم کی قوم بنائیں، فوج آپ کو اپنا ہیرو، اپنا لیڈر مان لے گی، آپ صرف احکامات کے ذریعے فوج کو اپنا ماتحت نہیں بنا سکیں گے، یہ کوشش آپ کو ایک نئے بحران کی طرف لے جائے گی اور میاں صاحب کے بارے میں یہ تاثر بھی عام ہے، یہ ایسی چیزوں پر توجہ دیتے ہیں جو نظر آتی ہیں، موٹروے، میٹرو بسیں، بجلی کے کارخانے، نئے جہاز اور لیپ ٹاپ یہ دکھائی دینے والی چیزیں ہیں، حکومت صرف اور صرف ان پر توجہ دے رہی ہے، یہ ان چیزوں کو استعمال کرنے والے لوگ، پرائمری اسکول کے بچے، بے روزگار نوجوان، گاڑیاں توڑنے والے گلو بٹ اور احتجاج کرنے والے وہ لوگ جو ہر شخص کو امام خمینی کی نظروں سے دیکھتے ہیں، یہ بے بس لوگ میاں صاحب کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں، پاکستانیوں کو خوش حال ملک نہیں چاہیے، خوشحال قوم چاہیے، آپ قوم کو قوم بنائیں، ملک خود بخود بن جائے گا۔
آپ پچاس لاکھ کا واش روم بنا دیں لیکن آپ واش روم استعمال کرنے والوں کو ہاتھ دھونے کی ٹریننگ نہ دیں تو پچاس لاکھ کا واش روم چند ماہ میں کھنڈر بن جائے گا، میاں صاحب واش روم بنا رہے ہیں مگر لوگوں کو واش روم استعمال کرنے کی ٹریننگ نہیں دے رہے اور یہ ان کی بہت بڑی سیاسی ناکامی ہے، ہم آج میٹرو بس سروس شروع کر رہے ہیں، یہ بہت اچھا فیصلہ ہے، قومیں پبلک ٹرانسپورٹ کے بغیر ترقی نہیں کرتیں لیکن ہم نے اگر قوم کو میٹرو بس کے استعمال اور میٹرو بس کی حفاظت کا طریقہ نہ سکھایا تو اس میٹرو بس کو مرحومہ والو بس یا جی ٹی ایس بنتے دیر نہیں لگے گی۔
میاں صاحب کو ملک کے ساتھ ساتھ قوم پر بھی توجہ دینی چاہیے ورنہ قوم اور ملک دونوں کو 12 اکتوبر کی طرح آنکھیں پھیرتے دیر نہیں لگے گی اور اگر یہ ہو گیا تو اس بار خواجگان بھی فاتحین کے ساتھ ہوں گے، یہ ڈوبتی کشتی میں سوار نہیں رہیں گے کیونکہ یہ میاں صاحب کا آخری دور حکومت ہے، اس کے بعد گم نامی کے اندھیرے ہیں اور ان اندھیروں میں روشنی تلاش کرتے اندھے خواب ہیں اور بس۔