حکمت کی واپسی
بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں، معاشروں اور قبیلوں کا سب سے بڑا اثاثہ ہوتے تھے، جس ملک کے پاس اچھی نسل کے گھوڑے ہوتے تھے، وہ ملک فوجی اور معاشی لحاظ سے دوسرے ملکوں سے بہت آگے ہوتا تھا، اس زمانے میں سپہ گری تین فنون کا مجموعہ ہوتی تھی، گھوڑا، تلوار اور نیزہ، جس شخص کو یہ تینوں ہینڈل کرنا آ جاتے تھے، وہ مرد میدان کہلاتا تھا اور جو ان میں کورا ہوتا تھا، لوگ اسے زنان کہتے تھے، تاتاریوں کے پورے انقلاب کی بنیاد گھوڑے تھے، چنگیز خان دنیا کا پہلا جرنیل تھا۔
جس نے اپنے سپاہیوں کو چلتے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر سونے اور دوڑتے گھوڑے کی پیٹھ سے تیر چلانے کی ٹریننگ دی، تاتاری سپاہی مسلسل سفر کرتے تھے، یہ آرام کے لیے نہیں رکتے تھے، یہ گھوڑی کے دودھ کی لسی پیتے تھے اور گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے سو جاتے تھے، گھوڑا بھاگتے بھاگتے مر جاتا تھا تو یہ اس کی گردن کاٹ کر اس کا خون دوسرے گھوڑے کو پلاتے اور چھلانگ لگا کر اس پر بیٹھ جاتے تھے یوں وہ ایک ماہ کا سفر دس دن میں طے کر لیتے تھے، تاتاریوں سے پہلے تیر چلانے کے لیے بھی گھوڑا روکنا پڑتا تھا لیکن چنگیز خان نے دوڑتے گھوڑے سے تیر چلانے کی تکنیک ایجاد کر لی۔
اس تکنیک اور اس اسپیڈ نے تموجن کو خان اعظم چنگیز خان بنا دیا چنانچہ دنیا میں اگر گھوڑا نہ ہوتا تو شاید چنگیز خان بھی نہ ہوتا، آج سے اڑھائی ہزار سال قبل ہندوستان میں گھوڑا، افیون، ستون اور پائجامہ نہیں ہوتا تھا، یہ چاروں چیزیں سکندر اعظم نے یہاں متعارف کرائیں، یونانی فوج گھوڑوں پر بیٹھ کر ہندوستان میں داخل ہوئی، ہندوستانیوں کے لیے گھوڑا نیا تھا اور یونانیوں کے لیے ہاتھی چنانچہ پورس کے ہاتھی گھوڑوں کو دیکھ کر پسپا ہو گئے اور سکندر کے گھوڑوں نے ہاتھی دیکھ کر ہمت ہار دی، امریکا میں بھی گھوڑا نہیں ہوتا تھا، یہ جانور ہسپانوی تاجر لے کر امریکا پہنچے، یورپی رائفل اور گھوڑے یہ دو ہتھیار تھے۔
جنہوں نے امریکا کے قدیم باشندوں ریڈ انڈینز کا صفایا کر دیا لیکن پھر ایک رات اسپین کے مہم جوؤں کے دو سو گھوڑے کھل گئے، یہ گھوڑے ریڈ انڈینز کے ہتھے چڑھ گئے، ریڈ انڈینز چند ماہ میں گھڑ سواری سیکھ گئے اور اس کے بعد انھوں نے گوروں کی مت مار دی، عربی لوگ بھی گھوڑوں کے معاملے میں بہت حساس ہوتے تھے، یہ اسے آسمانی تحفہ سمجھتے تھے، یہ لوگ گھوڑے کے معاملے میں کس قدر "عصبیت پسند"تھے، آپ اس کا اندازہ معراج کے واقعہ سے لگا لیجیے، نبی اکرمؐ نے جب فرمایا، میں رجب کی ستائیسویں شب کو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لیے عرش پر گیا تھا تو لوگوں نے آپؐ کی سواری براق کو دنیا کا تیز ترین گھوڑا قرار دے دیا، دنیا بھر میں آج بھی جب براق کی تصویر بنائی جاتی ہے تو مصور گھوڑے کے ساتھ دو پر لگا دیتا ہے اور یوں گھوڑا براق بن جاتا ہے، عربی گھوڑے دنیا کے بہترین گھوڑے سمجھے جاتے تھے۔
یہ جنگوں میں کامیابی کی ضمانت ہوتے تھے، حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور میں طائف میں جنگی گھوڑوں کا پہلا اصطبل بنایا، یہ دنیا میں عربی گھوڑوں کا پہلا فارم تھا، ان جیسے فارم بعد ازاں دنیا بھر میں قائم ہوئے اور ان فارموں کے گھوڑے جنگوں میں کامیابی کے ضامن بنے، عربی ادب کا ایک تہائی حصہ گھوڑوں پر مشتمل ہے، آپ آج بھی عربی ادب کی کوئی پرانی کتاب کھول لیجیے، آپ کو اس کے ہر صفحے پر گھوڑے کا ذکر ملے گا، عربی زبان کے بارے میں کہا جاتا ہے، اس سے اگر گھوڑوں کا تذکرہ نکال دیا جائے تو پیچھے صرف حروف تہجی رہ جائیں گے، میں عربی زبان کو تین حوالوں سے دنیا کی مقدس ترین زبان سمجھتا ہوں، یہ وہ زبان ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ آخری بار انسان سے مخاطب ہوا۔
دوسرا، یہ وہ زبان ہے جو ہمارے وہ نبیؐ بولتے تھے جن کی آن اور شان پر ہم اپنی جان قربان کر سکتے ہیں اور تیسری خوبی، یہ دنیا کی وہ زبان ہے جو کائنات کی کسی چیز کو بے نام نہیں رہنے دیتی، یہ ہر چیز کو لفظوں کا لباس دے دیتی ہے، عربی کے بعد یہ خوبی فرنچ زبان میں ہے، شاید اسی لیے فرنچ کو سفارت کاری کی زبان سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس میں بھی عربی کی طرح کوئی ابہام نہیں ہوتا، اس میں بھی گھوڑا صرف گھوڑا نہیں ہوتا، یہ سفید، سیاہ، مشکی، چھوٹا، بڑا، موٹا، باربرداری، سواری اور جنگی گھوڑا ہوتا ہے، عربی زبان کس قدر گہری اور بلیغ ہے، آپ اس کا اندازہ صرف ایک لفظ سے لگا لیجیے، وہ لفظ ہے حکمت، عرب گھوڑے کی لگام کو حکمت کہتے تھے، یہ لوگ گھوڑے کو طاقت کی علامت سمجھتے تھے، ان کا خیال تھا، لگام اس طاقت کو قابو میں رکھتی ہے، یہ نہ ہو تو گھوڑا اپنے سوار اور سامنے موجود لوگ دونوں کو روند ڈالے چنانچہ عرب لگام کے استعمال کو حکمت کہتے تھے۔
معاشرے بھی اتھرے گھوڑے ہوتے ہیں، ان کے نتھنوں میں اگر حکمت کی لگام نہ ہو تو یہ بھی خود کو اور دوسروں کو روند ڈالتے ہیں، ادب، مصوری اور موسیقی یہ تینوں معاشروں کی حکمت ہوتی ہیں، معاشروں کی یہ لگام جتنی مضبوط ہو گی، ان کی طاقت اتنی ہی قابو میں رہے گی، آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ پاکستان میں فنون لطیفہ کے زوال پر تحقیق کرلیں، آپ چند لمحوں میں ملک میں موجود دہشت گردی کی وجوہات تک پہنچ جائیں گے۔
ملک میں جب نثر، شاعری، مصوری، تھیٹر، موسیقی اور قوالی تھی تو اس وقت معاشرے میں امن، برداشت اور سکون بھی تھا لیکن جب ملک میں فنون لطیفہ سکڑنے لگے تو پھر دہشتگردی، عدم برداشت، بدامنی اور بے سکونی میں بھی اضافہ ہونے لگا، یہ ایک ایسا ملک تھا جس میں عطاء اللہ شاہ بخاریؒ جیسے خطیب موچی دروازے میں پوری پوری رات خطاب کرتے تھے اور جلسہ گاہ کے بالکل سامنے شرابی شراب خانے میں بیٹھ کر شغل مے کرتے تھے اور جلسے میں موجود کوئی شخص ان گناہ گاروں کے خلاف نعرہ لگاتا تھا اور نہ ہی یہ شرابی باہر نکل کر مولویوں کو مولوی کہتے تھے، یہ ایک ایسا معاشرہ تھا جس میں ہمارے علماء کرام لاکھ لاکھ لوگوں کو ساتھ لے کر مرزا غلام احمد قادیانی کے گاؤں قادیان چلے جاتے تھے۔
گاؤں میں پہنچ کر ختم نبوت پر تقریر کرتے تھے اور لوگ قادیانیوں کو گالی تک دیے بغیر واپس لاہور آ جاتے تھے اور یہ ایک ایسا ملک تھا جس میں فیض احمد فیض جیسے لبرل کمیونسٹ بھی تھے اور مولانا مودودی جیسے مذہبی اسکالر بھی اور یہ دونوں خوفناک اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کی بے انتہا عزت کرتے تھے، مولانا مودودی نے پوری زندگی فیض صاحب کو گالی دی اور نہ ہی فیض صاحب کے منہ سے مودودی صاحب کے خلاف کوئی فقرہ نکلا لیکن پھر فنون لطیفہ کو زوال آیا اور یہ زوال اپنے ساتھ طالبانائزیشن، فرقہ واریت اور دہشت گردی کا بھوت لے آیا، آج حالت یہ ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں فوج کے بغیر ربیع الاول اور محرم کے مہینے گزارنا مشکل ہوتے ہیں، امراء ان مقدس اسلامی مہینوں میں اپنی اور اپنے خاندان کی جان بچانے کے لیے غیر اسلامی ملکوں کی طرف نکل جاتے ہیں، یہ کیوں ہوا اور کیسے ہوا؟ یہ حکمت کی اس کمزور ہوتی لگام کی وجہ سے ہوا جو معاشرے جیسے اتھرے گھوڑے کو قابو رکھتی ہے، دہشت گردی اور فنون لطیفہ دونوں"سی سا"کا تختہ ہوتے ہیں، فنون لطیفہ کی سائیڈ جب بھی زمین کی طرف آئے گی تو دہشتگردی، بدامنی اور بے سکونی کی سائیڈ آسمان کی طرف اٹھے گی اور جب بھی دہشت گردی کی سائیڈ نیچے زمین کی طرف بڑھے گی تو فنون لطیفہ اوپر اٹھ جائیں گے اور یہ وہ حقیقت ہے جسے یورپ ہم سے پانچ سو سال پہلے سمجھ گیا تھا چنانچہ ان لوگوں نے سو سو سال لمبی جنگوں میں بھی قلم، کتاب، برش، آواز اور وائلن کو مرنے نہیں دیا اور یہ ان کی وہ حکمت تھی۔
جس نے آج یورپ کو یورپ بنا دیا جب کہ ہم معاشرے کو جنگ کے بغیر وہاں لے گئے جہاں لکھنے والے حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت ابو طالب کا نام لکھتے ہوئے گھبراتے ہیں، جہاں ہم کالموں میں فلم، موسیقی، پینٹنگ اور مجسموں کا ذکر کرتے ہوئے شرماتے ہیں اور جہاں ہمارے کالم نگار بھائی اپنی جان بچانے کے لیے آیات اور احادیث کا سہارا لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں، ہمارا بس نہیں چلتا ورنہ ہم قائداعظم اور علامہ اقبال کی تصویروں پر داڑھی لگا دیں اور فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کو برقعہ پہنا دیں، ہم نے آج فیصلہ کرنا ہے۔
ہمیں ملا عمر کا دہشت زدہ پاکستان چاہیے یا پھر قائداعظم اور علامہ اقبال کا وہ پرامن اوربرداشت سے لبریز پاکستان جس میں ملک کے پہلے گورنر جنرل کی حلف برداری کی تقریب کے ابتدائی کارڈ کراچی کی ہندو، پارسی اور آغا خانی کمیونٹی کو جاری ہوئے تھے اور جس میں علامہ اقبال جیسے عظیم مسلم مفکر نے عیسائیوں کی درس گاہ مرے کالج میں تعلیم حاصل کی تھی اور جس کا پہلا قومی ترانہ کسی مسلمان نہیں بلکہ جگن ناتھ آزاد جیسے ہندو شاعر نے لکھا تھا، ہمیں اس بے لگام اتھرے معاشرے جس میں عقیدہ "کاز آف ڈیتھ، بن رہا ہے، اس میں حکمت واپس لانی ہو گی ورنہ اسے وہ افغانستان بنتے دیر نہیں لگے گی جس میں افغان گلوکاراؤں کو سنگسار کر دیا جاتا ہے۔
عطاء الحق قاسمی فکری، نظریاتی اور جسمانی دہشت کے شکار اس معاشرے میں روشنی کا مینار ہیں، یہ گزشتہ چھ سال سے لاہور آرٹس کونسل کے چیئرمین ہیں، لاہور کی آرٹس کونسل اور الحمراء کمپلیکس عطاء الحق قاسمی کی چیئرمین شپ سے پہلے بھوت بنگلہ اور کھڈے لائین سرکاری ملازمین کا قبرستان تھی، قاسمی صاحب آئے اور انھوں نے اس قبرستان میں روح پھونک دی، یہ اب ملک کا سب سے بڑا اور متحرک ثقافتی مرکز بن چکا ہے، قاسمی صاحب تین برس سے ادبی اور ثقافتی فیسٹیول بھی منعقد کر رہے ہیں، قاسمی صاحب کے یہ میلے ملا عمر کے ظہور سے پہلے کے پاکستان کو دوبارہ زندہ کر رہے ہیں۔
لاہور میں اس سال بھی 11 سے 13 دسمبر تک تین دن ادبی اور ثقافتی میلا تھا، میں بھی یہ میلا دیکھنے لاہور گیا، الحمراء میں تین دن 38 نشستیں ہوئیں، ان نشستوں میں شاعری سے لے کر مصوری تک فنون لطیفہ کے تمام شعبوں کا احاطہ ہوا، ہر نشست لاجواب تھی اور ہر نشست میں پورا ہال بھرا ہوتا تھا، قاسمی صاحب نے فیسٹیول کے لیے پورے ملک سے ادیبوں، شاعروں، مصوروں، موسیقاروں، اداکاروں اور صحافیوں کو لاہور میں اکٹھا کیا، یہ لوگ عوام اور عوام ان لوگوں کو اس طرح دیکھ رہے تھے۔
جس طرح صحرا میں بھٹکتا ہوا پیاسا پانی کو دیکھتا ہے، یہ فیسٹیول صرف فیسٹیول نہیں تھا، یہ مستقبل کے پاکستان کا ریفرنڈم بھی تھا اور اس ریفرنڈم نے دنیا کو بتا دیا تھا، قائداعظم اور علامہ اقبال کے پاکستانیوں نے ملا عمر کا پاکستان مسترد کر دیا ہے، لوگ اب ایک آزاد، متوازن اور ہنستا گاتا پاکستان چاہتے ہیں، اس فیسٹیول نے یہ بھی ثابت کر دیا، پاکستان کی کھوئی ہوئی حکمت واپس آ رہی ہے، وہ لگام جو مستقبل میں اس اتھرے گھوڑے کو کنٹرول بھی کرے گی اور اسے غیرملکی لشکریوں سے بھی بچائے گی۔
میں قاسمی صاحب کو اس کامیاب کاوش پر مبارک باد پیش کرتا ہوں، واقعی قاسمی صاحب، قاسمی صاحب ہیں، ان کا کوئی مقابلہ نہیں۔