ہائی الپائن روڈ پر
یہ سفر بروک سے شروع ہوا، بروک ایلپس کے دامن میں آسٹریا کا ایک خاموش مگر مطمئن گاؤں ہے، آپ جب بھی اس گاؤں کو دیکھیں گے، آپ کو یہ سردیوں کی دھوپ میں لیٹا ہوا بیل محسوس ہو گا، شاد، مطمئن، خاموش اور جگالی کرتا ہوا، گاؤں کے تین اطراف سبز پہاڑ ہیں، پہاڑوں سے ندیاں اور ٹھنڈی ہوائیں گاؤں میں اترتی ہیں، شام کے وقت جب سورج کی کرنیں اپنے دھاگے سمیٹتی ہیں تو ہواؤں کی تندی، ہواؤں کی دستک میں اضافہ ہو جاتا ہے یہاں تک کہ گاؤں پر رات اتر آتی ہے۔
رات اترتے ہی گاؤں میں اندھیرے، تیز شور مچاتی ہواؤں اور پانی کے قہقہوں کے سوا زندگی کی تمام علامتیں سو جاتی ہیں، یہ گاؤں اس رومانوی سڑک کا دروازہ ہے میں جس کے چکر میں دوسری بار آسٹریا پہنچا، یہ سڑک 48 کلو میٹر لمبی ہے اور یہ دنیا کی خوبصورت ترین سڑکوں میں شمار ہوتی ہے، یہ سڑک ہائی الپائن روڈ یا پینا رامک روڈ کہلاتی ہے، بروک اس روڈ کا نقطہ آغاز ہے، آپ جوں ہی سڑک پر سفر شروع کرتے ہیں، آپ کے دونوں اطراف جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں، میں پچھلے سال اکتوبر کے آخر میں یہاں پہنچا تھا لیکن شدید برفباری کی وجہ سے سڑک بند ہو چکی تھی، یہ سڑک اکتوبر کے وسط تک بند ہو جاتی ہے چنانچہ میں اس سال یکم اکتوبر کو بروک پہنچ گیا، ہم تین تھے۔
مبشر شیخ، ملک ضیغم اور میں۔ ہم نے صبح کے وقت سفر شروع کیا، پہاڑوں پر برفباری شروع ہو چکی تھی، ہمارے دونوں اطراف گھاٹیاں تھیں، گھاٹیوں میں پائین کے اونچے درخت، جنگلی سیب، چیری اور بلیو بیری کے پودے تھے، درختوں پر سیب لٹک رہے تھے، دور نیچے گاؤں بھی نظر آ رہے تھے، چراگاہیں بھی اور چمنیوں کا دھواں بھی۔ ہم جوں جوں آگے بڑھتے گئے، برف اور سردی میں اضافہ ہوتا گیا، ہمارے دائیں بائیں اب برف تھی اور یخ ہوائیں تھیں، ہائی الپائن روڈ پر لاتعداد ویو پوائنٹ اور ریستوران ہیں، آپ رک کر برف میں تصویر بھی بنا سکتے ہیں اور چائے کافی بھی لے سکتے ہیں، ہم رکتے رہے اور آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ ہائی الپائن روڈ کا آخری سرا آگیا، اونچائی اڑھائی ہزار میٹر تھی، برف باری ہو رہی تھی۔
ہمارے چاروں اطراف دھند، برف، سردی اور ایلپس کا جادو تھا، وہ خواب کی دھند میں لپٹا ہوا ایک ایسا منظر تھا جو صدیوں کے لیے روح کا لباس بن جاتا ہے، وہاں ہائی الپائن روڈ کے آخری سرے پر پہنچنے سے پہلے تک ہماری روحیں ننگی تھیں مگر ہم نے جوں ہی اس سرے کو چھوا ہماری ننگی روح کو کپڑے مل گئے، ہماری روح کو لباس مل گیا، منظر بھی دوستوں اور کھانوں کی طرح رزق ہوتے ہیں، آپ کے قدموں نے موت سے پہلے اپنے اپنے حصے کی زمینوں کو ضرور چھونا ہوتا ہے، آپ کی آنکھوں نے بند ہونے سے پہلے آپ کے حصے کے منظروں کا ذائقہ بھی ضرور چکھنا ہوتا ہے اور ہائی الپائن روڈ کا وہ آخری سرا اور اس آخری سرے پر دھند میں لپٹا ہوا وہ منظر ہمارے مقدر کا رزق تھا اور ہم نے یکم اکتوبر کو اپنا حصہ وصول کر لیا۔
ہائی الپائن روڈ آسٹریا، اٹلی اور سوئٹرز لینڈ تین ملکوں کے بارڈر پر ہے، ہم نے چوٹی کی دوسری طرف اترنا شروع کر دیا، سڑک کا اختتام چھوٹے سے آسٹرین گاؤں پر ہوا، بارش ہو رہی تھی، گاؤں بارش میں نکھرا ہوا تھا، دریا کے کنارے چرچ تھا، چرچ کا مینار گاؤں کی بلند ترین عمارت تھا، چرچ کی دیوار کے ساتھ چھوٹا سا قبرستان تھا، قبروں پر تازہ پھول ہوا میں رقص کر رہے تھے، بازار چھوٹا مگر صاف ستھرا تھا، مکان جنگل میں بنے تھے اور ہر مکان کے قریب سے چھوٹی سی ندی گرزتی تھی۔
وہ گاؤں اس قدر پرسکون اور خوبصورت تھا کہ میں نے اس کا نام ڈیلیٹ کر دیا، سیاحت کے مذہب میں خوبصورت جگہوں کا نام یاد رکھنا گناہ کبیرہ ہوتا ہے کیونکہ میرا تجربہ ہے خوبصورت دیہات، مقامات اور لوگوں کے نام عموماً خوبصورت نہیں ہوتے، آپ جب بھی نام جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ اکثر اوقات چوہڑ کانا نکلتے ہیں چنانچہ آپ کو جب بھی کوئی خوبصورت جگہ، مقام، گاؤں یا شخص نظر آئے تو آپ میری طرح آنکھ سے اس کی تصویر بنائیں اور اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے جینز کی ہارڈ ڈرائیو میں محفوظ کر لیں، وہ منظر، وہ مقام نسلوں تک کے لیے آپ کے لہو میں محفوظ ہو جائے گا، میں نے آنکھوں سے اس گاؤں کی تصویر اتاری اور اپنے جینز میں سیو کر لی، یہ گاؤں اب بارش میں بھیگی ہوئی اپنی خوبصورت دوپہر کے ساتھ میری آنے والی نسلوں کو منتقل ہو جائے گا۔
برگ (Brig) ہماری اگلی منزل تھا، یہ سوئٹزر لینڈ کا خوبصورت ٹاؤن ہے، برگ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر فیش (Fesch) نام کا گاؤں ہے، ہم نے اس گاؤں میں ٹھہرنا تھا، یہ ہائی الپائن روڈ سے سات گھنٹے کی ڈرائیو پر تھا، ہم اندھیرے سے پہلے وہاں پہنچنا چاہتے تھے، اترائی کا سفر شروع ہو گیا، سڑک سنگل بھی تھی اور خطرناک بھی۔ پہاڑ کی اترائیوں پر گھاس کے میلوں لمبے میدان تھے، ہوائیں جب گھاس کے بدن میں اتر کر اسے گدگداتی تھیں تو یہ لمحوں میں اپنا رنگ بدلتی تھی۔
ہمارے سر پر نیلا آسمان تھا، سامنے سورج کی سرخ شعاعیں تھیں اور دائیں بائیں گھاس کے میدان تھے اور ان میدانوں کو گدگداتی ہوائیں تھیں اور گھاس کے بدلتے ہوئے رنگ تھے اور ان تبدیل ہوتے ہوئے رنگوں کے درمیان ہماری گاڑی بہہ رہی تھی، ہم اس وقت قدرت کی اس وسیع پینٹنگ کا حصہ تھے، ہم اٹلی کے پہاڑی شہر بل زانو کو چومتے ہوئے ٹیورن کے قریب سے گزرے، میلان اور سینٹ مورس دونوں وہاں سے زیادہ دور نہیں تھے۔
یورپ میں ایلپس کے سائے میں سفر بہترین علاج ہے، نکھری ہوئی فضا، جنگل، آبشاریں، ندیاں اور میلوں تک پھیلے گھاس کے میدان یہ آپ کی ساری ٹینشن، ساری فرسٹریشن چوس لیتے ہیں، آپ کو اگر اللہ تعالیٰ نے وسائل، صحت اور حوصلہ دے رکھا ہے تو آپ جب بھی پریشان ہوں آپ سوئٹزر لینڈ، اٹلی یا آسٹریا کی طرف سے ایلپس کے پہاڑی علاقوں میں نکل جائیں، میرا دعویٰ ہے آپ تین چار دن میں مکمل صحت مند ہو جائیں گے، آپ کاغان، سوات یا سکردو بھی جا سکتے ہیں لیکن وہاں وہ سہولتیں نہیں ہیں جو آپ کو یورپ کے اس سکردو، سوات یا کاغان میں ملتی ہیں۔
یورپ نے تمام دیہات تک بجلی، سڑک، ریل، شاپنگ سینٹرز، اسپتال اور امن و امان پہنچا دیا ہے، آپ یقین کیجیے میں خود کو جتنا محفوظ ان اجنبی پہاڑوں میں فیل کرتا ہوں میں اتنا اپنے علاقوں میں محسوس نہیں کرتا جب کہ میرے لیے ان ملکوں کی زبان، کلچر اور خوراک تینوں ناقابل برداشت ہیں، ہم اگر اپنے علاقوں میں امن قائم کر لیں، ہم وہاں تک سڑک اور بجلی پہنچا دیں اور ہم وہاں صفائی کا بندوبست کر لیں تو ہمارے شمالی علاقہ جات یورپ سے آگے نکل جائیں مگر قدرت ہم پر جتنی مہربان ہے ہم اتنے ہی سنگدل اور ظالم ہیں، ہم قدرت سے چن چن کر اس کی مہربانیوں کا بدلہ لے رہے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اگر کبھی نعمتوں کی ناشکری پر قوموں کا حساب شروع کیا تو ہم اس کے قہر کا نشانہ بننے والی پہلی قوم ہوں گے۔
مجھے بعض اوقات یہ بھی محسوس ہوتا ہے، ہم قدرت کے قہر کا نشانہ بن رہے ہیں، خدا کی پناہ جن لوگوں نے سوات، کالام، ناران اور دیوسائی کے میدان تک گندے کر دیے ہوں، ان پر اللہ کا عذاب نہیں اترے گا تو کیا گل پاشی ہو گی؟ ہم نے روشنی میں برگ پہنچنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہو گئے، ہماری ناکامی کی وجہ ہم تینوں کی شاعرانہ طبیعت تھی، ہماری گاڑی میں چائے کی کیٹل تھی، یہ کیٹل گاڑی کی بیٹری سے گرم ہو جاتی تھی، ملک ضیغم چلتی گاڑی میں چائے بنانے کے ایکسپرٹ ہیں چنانچہ ہمیں جہاں گھنا جنگل، آبشار، ندی یا سیب کا باغ نظر آتا، ہم چائے کے کپ اٹھا کر وہاں کھڑے ہو جاتے، موٹروے پر ایسے درجنوں اسپاٹ تھے، مجھے یہ اسپاٹ دنیا جہاں میں ملے، اگر نہیں ملے تو اپنے ملک میں نہیں ملے، میرے ایک دوست ہر ہفتے موٹر وے پر جاتے ہیں۔
یہ دریا کے پل پر رکتے ہیں، گاڑی سائیڈ پر کھڑی کرتے ہیں، فولڈنگ چیئر نکالتے ہیں اور پل کے نیچے چلے جاتے ہیں، پل کے نیچے جالی ٹوٹی ہوئی ہے، میرے دوست جالی کراس کر کے پل کے نیچے دریا کے کنارے بیٹھ جاتے ہیں، تھرماس سے کافی نکال کر پیتے ہیں، میوزک سنتے ہیں اور واپس آ جاتے ہیں، کاش ہائی وے ڈیپارٹمنٹ ایسے لوگوں کی مجبوری کو سمجھ لے، یہ موٹروے پر مختلف خوبصورت اسپاٹ بنا دے، ان اسپاٹس کو راستہ دے دے تو سیکڑوں لوگ روزانہ لاہور اور اسلام آباد سے آ کر ان اسپاٹس سے فائدہ اٹھائیں تاہم یہ خیال رکھا جائے، یہ اسپاٹس قدرتی ہونے چاہئیں۔
وہاں ریستوران یا چائے خانہ بنانے کی اجازت نہ دی جائے، لوگ اپنی چائے، کافی خود بنا کر انجوائے کریں، ملک کے بڑے شہروں اور خوبصورت مقامات پر باربی کیو ایریاز بھی ہونے چاہئیں اور ایسی جگہیں بھی جہاں نوجوان اچھل کود سکیں، ناچ گا سکیں، یہ مقامات معاشرے کی گھٹن میں کمی لائیں گے، ہمیں سماجی تبدیلی کا ایک محکمہ بھی بنانا چاہیے، یہ محکمہ لوگوں کی تربیت کرے، یہ لوگوں کو ہاتھ دھونے، تھوکنے، کھانسنے، سلام کرنے، بات کرنے، قطار میں کھڑے ہونے، اپنی ذاتی، گھریلو، خاندانی اور محلے کی صفائی، کپڑے پہننے اور اختلاف رائے کی ٹریننگ دے، یہ لوگوں کو بتائے سیوریج کا پانی کس طرح ندیوں، نالوں اور نلکوں میں شامل ہو جاتا ہے اور آپ لوگ کس طرح خود اپنے ہی سیوریج کا پانی پیتے ہیں۔
اس سے وضو کرتے ہیں اور کپڑے دھوتے ہیں، یہ محکمہ لوگوں کو بتائے آپ ٹوائلٹ کے بعد ہاتھ نہیں دھوتے، اس سے تیس روپے کا صابن بچ جاتا ہے لیکن آپ گندے ہاتھوں کی وجہ سے کالے یرقان کا شکار ہو جاتے ہیں، یہ کالا یرقان آپ کا جگر نگل جاتا ہے اور لیور ٹرانسپلانٹ کے لیے آپ کو کم از کم تیس لاکھ روپے چاہئیں چنانچہ آپ نے فیصلہ کرنا ہے، آپ نے اپنے اور اپنے خاندان کے اوپر 30 روپے خرچ کرنے ہیں یا پھر ساری زمین جائیداد بیچ کر 30 لاکھ روپے کا بندوبست کرنا ہے، یہ محکمہ لوگوں کو صاف پانی، صاف ماحول اور جسمانی صفائی کی تربیت بھی دے، یہ لوگوں کو بتائے لوگ دواء اور دولت کے بغیر کیسے سو سال تک صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں، ہمارے ملک کو ایسے محکمے، ایسی این جی اوز اور ایسے رضا کاروں کی شدید ضرورت ہے۔
ہم برگ (Brig) پہنچے تو رات ہو چکی تھی۔