گنجائش بھی باقی نہیں
یہ فیصلہ مشکل ہوتا جا رہا ہے عمران خان زیادہ ناکام ہیں یا اتحادی حکومت لیکن یہ بہرحال طے ہے عمران خان سے تحریک نہیں چل رہی اور حکومت سے معیشت لہٰذا اس وقت دونوں ناکام نظر آ رہے ہیں۔
ہم سب سے پہلے عمران خان کے المیے کی طرف آتے ہیں، عمران خان ایٹمی پروگرام کے بعد پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا سب سے بڑا پروجیکٹ تھا، اسٹیبلشمنٹ نے جس طرح ایٹمی پروگرام کے لیے دن رات ایک کر دیا، اپنی ہر چیز، اپنا ہر اثاثہ داؤ پر لگا دیا بالکل اسی طرح عمران خان کو بھی اقتدار میں لانے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی، ریاست کے سارے داؤ، ساری طاقتیں اور سارے کلیے استعمال کر دیے گئے یہاں تک کہ وہ تمام سیاست دان بھی قربان کر دیے گئے جو ریاست نے زیور کی طرح مشکل وقت کے لیے بچا کر رکھے ہوئے تھے۔
چین، سعودی عرب، ترکی اور امریکا کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات تک قربان کر دیے گئے اور عمران خان کے لیے عدلیہ کو عدلیہ، میڈیا کو میڈیا اور صنعت کاروں کو صنعت کار بھی نہیں رہنے دیا گیا اور یوں دانتوں تک پسینے کے بعد عمران خان اقتدار میں پہنچ گئے مگر اس کے بعد کیا ہوا؟ یہ کہانی اب کہانی نہیں رہی، عمران خان کے پونے چار سال کے اقتدار نے ملک کی چولیں ہلا کر رکھ دیں، پنجاب 12 کروڑ لوگوں کا صوبہ ہے۔
یہ صوبہ اس عثمان بزدار کے حوالے کر دیا گیا جس کی اہلیت صوبے دار سے زیادہ نہیں تھی اور اس نے ان پونے چار برسوں میں پنجابی تاریخ کے "بھنگی دور" کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، آپ یہ سن اور جان کر حیران رہ جاتے ہیں عثمان بزدار کو غیرقانونی کاموں کی چٹیں اور احکامات جلانے میں تین دن لگ گئے تھے، وہ تمام افسر اور ہاؤسنگ اسکیموں کے مالکان اپنے بیانات ریکارڈ کرا چکے ہیں جنھوں نے رقم، ہار اور انگوٹھیاں دے کر پوسٹنگز اور ٹرانسفرزکرائی تھیں یا این او سی لیے تھے، نوا سٹی کا مالک جنید چوہدری اب اپنے معاملات ٹھیک کرنے کے لیے وزیراعظم ہاؤس کے چکر کاٹ رہا ہے۔
فرح گوگی کے تحائف اور یہ جس جس نے خریدے وہ فہرست بھی بن چکی ہے اور وزراء کی ٹیلی فون کالز، اعترافات اور لین دین کا تمام کچا چٹھا بھی اکٹھا ہو چکا ہے بس وڈیوز اور آڈیوز کی ریلیز باقی ہے اور یہ کام جس دن ہو گیا عوام اس دن حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کو بھول جائیں گے، عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کا کام ختم ہو جانا چاہیے تھا لیکن ان پر بوجھ مزید بڑھ گیا، آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ہوں، تاجروں اور صنعت کاروں کو مطمئن کرنا ہو، چین، سعودی عرب اور یو اے ای سے امداد لینی ہو، امریکا کو راضی رکھنا ہو، کورونا ویکسین جمع کرنی ہو، عوام کو ویکسین لگوانی ہو، چیئرمین نیب کو بچانا ہو، بجٹ پاس کرانے ہوں۔
علیم خان اور جہانگیر ترین کو خاموش کرانا ہو، پارٹی کو ٹوٹنے سے بچانا ہو، اتحادیوں کو حکومت کے ساتھ لٹکائے رکھنا ہو، میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو خاموش کرانا ہو، مولانا فضل الرحمن کو اسلام آباد سے واپس بھجوانا ہو، ایران اور افغانستان کے ساتھ بات چیت کرنی ہو، کشمیر میں کرفیو کے خلاف آواز اٹھانی ہو یا پھر حکومت کے لیے وزیر خزانہ کا بندوبست کرنا ہو یہ سب اسٹیبلشمنٹ کی ذمے داری تھی جب کہ عمران خان صرف ایک کام کر رہے تھے، فلاں کو اٹھا لیں، فلاں کو اندر بند کر دیں اور فلاں کی ضمانت نہ ہونے دیں۔
وزیراعظم نے ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کو دفتر میں بلا کر خواجہ آصف کے خلاف غداری کا مقدمہ بنانے کا حکم دے دیا تھا اور رانا ثناء اللہ پر 15 کلو ہیروئن ڈال کر انھیں چھ ماہ کے لیے جیل میں بند کر دیا گیا تھااور سید خورشید شاہ دو سال ایک ماہ جیلوں میں بند رہے، یہ سلسلہ جیسے تیسے پونے چار سال چلتا رہا لیکن جب عمران خان نے ان نوازشات کو اپنا حق اور ریاست کی مجبوری سمجھنا شروع کر دیا، یہ برملا کہنے لگے "میرے علاوہ ان کے پاس کوئی آپشن نہیں " اور اس کے ساتھ ہی اگلے دس سال کی پلاننگ کر لی، اگلے آرمی چیف کا فیصلہ بھی کر لیا۔
سو ریٹائرڈ ججوں کو بھرتی کر کے نیب کورٹس بنانے اور کرپشن کے الزامات میں ملوث تمام لوگوں کو ڈس کوالی فائی کرنے، صدارتی نظام لانے اور اپنے دس سال کے اقتدار کے بعد ملک میں آمریت نافذ کرنے کا فیصلہ کرلیا تو ریاست کی بس ہو گئی اور اس نے اپنی غلطی سدھارنے کا فیصلہ کر لیا، باقی حالات آپ کے سامنے ہیں۔
عدم اعتماد کے بعد عمران خان کے پاس چار باعزت آپشن تھے، یہ استعفیٰ دیتے اور ملکی تاریخ کے مضبوط ترین اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرتے، یہ اگر یہ راستہ اختیار کرتے تو آج ان کا سیاسی قد مینار پاکستان سے بھی اونچا ہو چکا ہوتا، دوسرا یہ پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں توڑ دیتے اور ملک نئے الیکشنز کی طرف چلا جاتا لیکن عمران خان نے کم از کم ایک صوبے کے وسائل اپنے ہاتھ میں رکھنے کا فیصلہ کر لیا، تیسرا یہ حکومت کے ساتھ بیٹھتے، انتخابی اصلاحات کرتے اور اگلے الیکشن کی تیاریاں شروع کر دیتے اور چوتھا یہ اقتدار سے نکلنے کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات قائم رکھتے اور یہ آج تین ماہ بعد ایک بار پھر وزیراعظم ہوتے۔
عمران خان اگر ان چار میں سے کوئی ایک راستہ بھی اختیار کر لیتے تو یہ آج بنی گالا میں محصورنہ ہوتے اور یہ ہر کھانے کی چیز کو مشکوک نظروں سے نہ دیکھ رہے ہوتے لیکن عمران خان کی افتاد طبع انھیں بند گلی میں لے آئی اور یہ اب تیزی سے اکیلے ہوتے جا رہے ہیں اور دیکھنے والے ان کے ہاتھ سے تسبیح اور انگلی سے انگوٹھی اترنے کا انتظار کر رہے ہیں، کیوں؟ کیوں کہ عمران خان کو جاننے والے جانتے ہیں اب عثمان بزدار، فرح گوگی، احسن جمیل اور مانیکا فیملی کی باری ہے، خان صاحب اپنی بربادی کا ملبہ کسی بھی وقت ان پر گرا کر ان سے اپنی جان چھڑائیں گے اور نئی تحریک انصاف کی بنیاد رکھ دیں گے، یہ آگے چل پڑیں گے۔
ہم اب حکومت کی طرف آتے ہیں، میاں شہباز شریف بلاشبہ پاکستانی تاریخ کے کام یاب ترین وزیراعلیٰ تھے، پوری قوم کو ان سے بے تحاشا توقعات تھیں، وزیراعظم بننے کے بعد اسٹاک ایکسچینج اور ڈالر دونوں نے انھیں سلامی بھی دی لیکن شاید ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں یا ملکی مسائل ان کی توقع سے زیادہ ہیں لہٰذا یہ اب تک پرفارم نہیں کر سکے اوریوں ریاست اور قوم دونوں حیرت سے ان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
حکومت کا پہلا غلط فیصلہ مفتاح اسماعیل کو وزیر خزانہ بنانا تھا، مفتاح اسماعیل ایک غیرسنجیدہ انسان ہیں، یہ بڑے سے بڑا ظالمانہ فیصلہ بھی ہنستے ہنستے سناتے ہیں اور یہ ان کے عہدے کے شایان شان نہیں، یہ صنعت کار بھی ہیں اور صنعت کاروں کو روپے کی ڈی ویلیویشن سے ہمیشہ فائدہ ہوتا ہے چناں چہ یہ ڈالر کنٹرول نہ کر سکے یا انھوں نے ملک میں جان بوجھ کر معاشی ایمرجنسی بھی پیدا کر دی تاکہ انھیں فوری طور پر نہ ہٹایا جا سکے، حکومت اگر اسحاق ڈار کو واپس لے آتی یا یہ شوکت ترین کو کام جاری رکھنے کا موقع دے دیتی تو آج صورت حال بالکل مختلف ہوتی، ہمیں یہ ماننا ہو گا اسحاق ڈار اور شوکت ترین دونوں معیشت کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں چناں چہ دونوں کے دور میں معیشت بہتر ہوئی تھی جب کہ مفتاح اسماعیل نے اپنے دونوں ادوار میں بیڑہ غرق کر دیا۔
لہٰذا آج مفتاح اسماعیل ن لیگ کی مقبولیت کو تابوت بنا کر اس میں کیل ٹھونکتے چلے جا رہے ہیں اور مجھے یقین ہے اگر اسحاق ڈار واپس نہ آئے تو مفتاح اسماعیل اپنی جہد مسلسل سے ن لیگ کو الیکشن کے قابل نہیں چھوڑیں گے، دوسرا حکومت شروع میں بری طرح کنفیوز تھی، یہ پورا مہینہ یہ سوچتی رہی ہمارے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے، عمران خان کو گرین چٹ دے کر نکال لیا گیا ہے اور باقی تمام پارٹیوں کو گرتی ہوئی چٹان کے نیچے کھڑا کر دیا گیا ہے چناں چہ ہمیں پٹرول کی قیمتیں نہیں بڑھانی چاہییں اور جلد سے جلد الیکشنز کرا دینے چاہییں لیکن عمران خان نے جب میر صادق اور میر جعفر کی گردان شروع کی تو حکومت کی سانس میں سانس آئی مگر یہ اس کے باوجود 25مئی تک استعفیٰ دے کر الیکشن میں جانے کا فیصلہ بھی کرتے رہے۔
اس دوران یہ فیصلہ بھی ہو گیا وزیراعظم 27 مئی کو مستعفی ہو جائیں گے، اسمبلی ٹوٹ جائے گی اور یوں اکتوبر میں الیکشن ہو جائیں گے لیکن عمران خان غلطی کر گئے، انھوں نے 25 مئی کے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا، اس کے نتیجے میں حکومت ڈٹ گئی اور اس نے لڑنے کا فیصلہ کر لیا لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں میاں شہباز شریف کی حکومت عملاً 25 مئی کو شروع ہوئی اور یہ اگلے سال 25مئی تک قائم رہے گی، یہ جب تک معیشت کو الیکشن کے قابل نہیں بناتی یہ اس وقت تک قائم رہے گی، ملک ایف اے ٹی ایف کی وائٹ لسٹ میں آ رہا ہے۔
آئی ایم ایف بھی اپنا وزیر خزانہ لانے کے بعد اپنا پیکیج بحال کر دے گا، حکومت کو اس کے بعد چین اور سعودی عرب سے بھی امداد مل جائے گی اور انھیں قطر بھی تین بلین ڈالر کی ادھار ایل این جی اور 2 بلین ڈالر دے دے گا جس کے بعد ڈالر ایک سو نوے روپے سے نیچے آ جائے گا اورکسی حد تک مہنگائی کنٹرول ہو جائے گی، روس اور یوکرین کی جنگ نہ رکی تو حکومت امریکا کو راضی کر کے ایران سے سستا پٹرول بھی حاصل کر لے گی اور یوں حالات سنبھل جائیں گے لیکن یہ تمام چیزیں صرف دو چیزوں پر بیس کرتی ہیں۔
ایک شریف فیملی کو پنجاب کا اقتدار اپنے خاندان سے باہر کسی دوسرے کے حوالے کرنا ہو گا اور شہباز شریف کو آزادی سے فیصلے کرنے کی اجازت دینا ہو گی ورنہ دوسری صورت میں حالات ان کے ہاتھ سے بھی نکل جائیں گے، ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچے گااور اس کے بعد سیاست پر پابندی لگ جائے گی۔
ملک میں آنے والے دن کیسے ہوں گے؟ میں نہیں جانتا تاہم یہ دیوار پر لکھا ہے ہم سوئی کی نوک پر اٹکے ہوئے ہیں، ہماری ایک غلطی، ہماری مزید ایک حماقت ہمیں کھائی میں گرا دے گی لہٰذا اب تو عقل استعمال کر لیں، اب تو گنجائش بھی نہیں بچی۔