فائنل راونڈ کی تیاریاں
طارق بشیر چیمہ نے اٹھتے اٹھتے کہا "چوہدری شجاعت حسین واپس آ گئے ہیں، آپ ان کا پتا کر لیں " وزیراعظم عمران خان نے حیرت سے پوچھا "وہ کہاں گئے تھے" یہ جواب حیران کن تھا، کیوں؟ کیوں کہ چوہدری شجاعت شدید علیل تھے اور یہ جرمنی کے شہر کاسل میں ڈیڑھ ماہ اسپتال میں داخل رہے تھے، پاکستان کے تمام اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز نے خبریں شایع کی تھیں، یہ ستمبر 2019 میں جرمنی سے واپس آئے اور لاہور میں ان کے گھر میں عیادت گزاروں کا تانتا بندھا ہوا تھا لیکن وزیراعظم ان کی بیماری سے بھی واقف نہیں تھے۔
ان کے باہر جانے کے بارے میں بھی نہیں جانتے تھے اور یہ ان کی واپسی سے بھی ناواقف تھے، طارق بشیر چیمہ کو برا لگا لیکن انھوں نے اس کے باوجود وزیراعظم کو تفصیل سے چوہدری شجاعت کی بیماری کے بارے میں بتایا، وزیراعظم نے وعدہ کیا یہ کل عیادت کے لیے چوہدری صاحب کو فون کریں گے اور گل دستہ بھی بھجوائیں گے لیکن وزیراعظم نے فون کیا اور نہ گل دستہ بھجوایا، چوہدری برادران کو وزیراعظم کا یہ رویہ بہت برا لگا اور یوں ق لیگ اور پی ٹی آئی میں فاصلہ بڑھ گیا۔
پاکستان مسلم لیگ ق اور پاکستان تحریک انصاف کا اتحاد 2014کے دھرنے سے پہلے قائم ہو گیا تھا، لندن میں دھرنے سے پہلے عمران خان، علامہ طاہر القادری اور چوہدری شجاعت کے درمیان ملاقات بھی ہوئی تھی، یہ بعد ازاں لندن پلان کے نام سے مشہور ہوئی، چوہدری صاحبان نے دھرنے کے دوران عمران خان کا بھرپور ساتھ دیا، مجھے اس دوران چوہدری شجاعت نے اپنے گھر بلایا اور چھوٹا سا انٹرویو ریکارڈ کرایا، اس میں ان کا کہنا تھا "قومی حکومت بنا کر یہ بحران ختم کیا جا سکتا ہے" بعد ازاں چوہدری شجاعت نے آف دی ریکارڈ تسلیم کیا تھا یہ دھرنا کام یاب نہیں ہوگا اور میاں نواز شریف حکومت کرتے رہیں گے۔
چوہدری صاحب نے ہنستے ہنستے یہ بھی کہا تھا "ہم عمران خان کے ہمدرد اور ساتھی ہیں لیکن یہ کسی کی سنتے اور مانتے نہیں ہیں " چوہدری صاحبان اس وقت بھی عمران خان سے خوش نہیں تھے لیکن اس کے باوجود محبت اور نفرت کا یہ تعلق جاری رہا، 2018کے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف اور ق لیگ میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو گئی، چوہدری صاحبان نے وفاق میں چار اور پنجاب اسمبلی میں 8سیٹیں لے لیں، پاکستان تحریک انصاف اکثریت حاصل کرنے کے باوجود حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔
جہانگیر ترین اور ان کا جہاز آگے بڑھا اورترین صاحب نے آزاد ایم این ایز اور ایم پی ایز کی لائین بھی لگا دی اور یہ سارے اتحادیوں کو بھی اکٹھا کر کے لے آئے، ایم کیو ایم بھی حکومت میں شامل ہو گئی اور جی ڈی اے، بی اے پی، بی این پی مینگل اورعوامی مسلم لیگ بھی اور یوں حکومت بن گئی، چوہدری صاحبان اس اتحاد میں سب سے سینئر، تجربہ کار اور معزز تھے، بعض تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ وزیراعظم انھیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ دے دیں گے لیکن یہ نہ ہو سکا۔
دونوں پارٹیوں کے درمیان تحریری معاہدہ ہوا، اس معاہدے کے تحت چوہدری صاحبان کو پنجاب اور وفاق دونوں میں دو دو وزارتیں اور پنجاب کی اسپیکرشپ ملنا تھی، چوہدری پرویز الٰہی کو اسپیکر بنا دیا گیا، ق لیگ کو پنجاب میں انوائرمنٹل پروٹیکشن، معدنیات اور وفاق میں ہاؤسنگ اینڈ ورکس کی وزارت دے دی گئی۔
وفاق کی دوسری وزارت (انڈسٹریز) چوہدری مونس الٰہی کو ملنا تھی لیکن وزیراعظم نے یہ وزارت روک لی اور یہاں سے اعتماد میں دراڑ آ گئی اور یہ دراڑ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی گئی، چوہدری شجاعت نے فروری میں مجھے چائے کی دعوت دی، میں ایف ایٹ میں ان کے گھر پہنچ گیا اور گھنٹہ بھر ان کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا، چوہدری مونس الٰہی اور چوہدری صاحب کے صاحبزادے چوہدری شافع حسین بھی موجود تھے، چوہدری صاحب اس دن حکومت سے خاصے ناراض تھے، ان کا کہنا تھا ہم اب مونس الٰہی کو کسی قیمت پر وزیر نہیں بنانا چاہتے، حکومت خود یہ خبریں چھوڑ کر ہمیں بدنام کر رہی ہے۔
چوہدری صاحب نے اس وقت پیشن گوئی کر دی تھی جہانگیر ترین اگلے شکار ہیں، یہ بہت جلد وزیراعظم کی گڈبک سے نکال دیے جائیں گے، میں نے وجہ پوچھی تھی تو یہ ہنس کر بولے، یہ سمجھ دار ہیں اور کوئی سمجھ دار شخص وزیراعظم کے قریب نہیں رہ سکتا، ان کا کہنا تھا" شیریں مزاری اور طارق بشیر چیمہ کے علاوہ کوئی وزیر پرائم منسٹر کے سامنے منہ نہیں کھول سکتا اور یہ صورت حال حکومتوں کے لیے ہمیشہ خطرناک ہوتی ہے، آپ جب کابینہ میں بھی کسی کی نہیں سنیں گے تو پھر سسٹم بیٹھ جائے گا اور ہم بڑی تیزی سے اس طرف بڑھ رہے ہیں " چوہدری صاحب نے مولانا فضل الرحمن کے دھرنے اور ڈیل کے بارے میں بھی بے شمار باتیں بتائیں، ان کا کہنا تھا وزیراعظم کے اپنے ساتھی ان کے ساتھ مخلص نہیں ہیں، یہ کریز کی دونوں سائیڈز پر کھیل رہے ہیں۔
مجھے وہاں بیٹھے بیٹھے پتا چلا چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی نے وزیراعظم کو اپنے استعفے پیش کر دیے تھے"ہم نے انھیں کہا آپ کو اگر ہم پر اعتبار نہیں تو آپ ہمارے استعفے لے لیں، ہمیں اسپیکر شپ چاہیے اور نہ کوئی وزارت، ہم پورٹ فولیو کے بغیر آپ کا ساتھ دیں گے" مگر وزیراعظم نے انھیں تسلی دے کر بھجوا دیا، میری چند دن بعد لاہور میں چوہدری پرویز الٰہی سے بھی ملاقات ہوئی۔
یہ بھی بری طرح نالاں تھے، ان کا کہنا تھا پنجاب کے بارے میں کہا جاتا ہے یہاں چوہدری سرور اور چوہدری صاحبان وزیراعلیٰ کے اختیارات انجوائے کر رہے ہیں، یہ سو فیصد غلط ہے، صوبے کا اصل چیف ایگزیکٹو چیف سیکریٹری ہے، یہ براہ راست وزیراعظم کو جواب دہ ہے اور یہ وزیراعلیٰ کی بھی نہیں سنتا، چوہدری صاحب کا کہنا تھا، حکومت کو سپورٹ ہماری سیاسی مجبوری ہے، ہم سپورٹ جاری رکھیں گے۔
جولائی 2020 میں ایک دل چسپ واقعہ پیش آیا، نیب نے اچانک چوہدری صاحبان کی فائلیں کھول لیں، چوہدری پرویز الٰہی کو اطلاع مل گئی نیب نے انھیں گرفتار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، یہ سیدھے لاہور ہائی کورٹ چلے گئے اور طارق بشیر چیمہ نے ٹیلی ویژن شوز میں کھل کر اپنی حکومت کی مذمت شروع کر دی، چوہدری صاحبان کا ردعمل اس قدر شدید تھا کہ نیب اور حکومت دونوں پیچھے ہٹ گئے۔
چوہدری صاحبان بہرحال حکومت سے ناراض ہیں، یہ سمجھتے ہیں وزیراعظم سے انھیں اتنی عزت نہیں ملتی جتنی انھیں ملنی چاہیے، یہ بھی سمجھتے ہیں ہمیں حکومت کسی بھی مشاورتی عمل میں شامل نہیں کرتی، ہمیں اکتوبر 2019میں مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مذاکرات کے لیے کہا گیا تھا، ہم نے مولانا سے بات چیت شروع کر دی لیکن وزیراعظم نے 17 اکتوبر 2019 کو مولانا کو ڈیزل کہہ دیا اور یوں مذاکرات کا عمل رک گیا، ہمیں اس دوران بھی وزیراعظم سے رابطے کے لیے بڑی کوششیں کرنی پڑتی تھیں۔
ہمارے وزیروں کے پاس بھی صرف پورٹ فولیوز ہیں، اختیارات نہیں اور ہمیں حلقوں میں فنڈز بھی نہیں دیے جاتے اور ہماری اسکیمیں بھی پاس نہیں کی جاتیں چناں چہ ہم اب حکومت کی کسی اتحادی نشست میں شامل نہیں ہوں گے، چوہدری صاحبان نے اس فیصلے کے بعد وزیراعظم کے پانچ نومبر کے ظہرانے کا بائیکاٹ کر دیا جس کے بعد وزیراعظم کے ذاتی دوست یوسف صلاح الدین نے اپنے ذاتی فون سے چوہدری شجاعت کے صاحبزادے شافع حسین کی عمران خان سے بات کرائی، وزیراعظم نے چوہدری شجاعت کی عیادت کی، چوہدری صاحب کا خیال تھا وزیراعظم 7نومبرکو حافظ آباد جانے کے لیے لاہور آئیں گے تو یہ چوہدری صاحب کی عیادت کے لیے اسپتال آئیں گے لیکن وزیراعظم حافظ آباد سے واپس چلے گئے یوں دراڑ مزید بڑھ گئی۔
یہ اختلافات کہاں تک جاتے ہیں سردست یہ نہیں کہا جا سکتا لیکن حکومت بہرحال گرداب میں پھنستی چلی جا رہی ہے، پی ڈی ایم فائنل راؤنڈ کی تیاری کر رہی ہے، یہ دسمبر میں دباؤ بڑھائے گی اور جنوری میں حکومت پر بھرپور حملہ کرے گی، یہ تجربہ کار کھلاڑی ہیں، یہ اب تک اپنے کارڈز بڑی سمجھ داری سے کھیل رہے ہیں، یہ بلاول کے بیان کے ذریعے حکومت کو خوش فہمیوں میں مبتلا کر دیتے ہیں، حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کر دیتی ہے اور اس کے بعد آصف علی زرداری آگے آ جاتے ہیں۔
یہ زرداری صاحب کے ساتھ ڈیل فائنل کرنے لگتے ہیں تو بلاول اور مریم نواز کے ایک جیسے بیانات آ جاتے ہیں اور حکومت ان دونوں کے درمیان ٹھک ٹھک ٹکراتی رہتی ہے، یہ کھیل کہاں تک چلتا ہے؟ یہ فیصلہ ق لیگ اور ایم کیو ایم کریں گی۔
یہ جس دن حکومت سے الگ ہو گئیں حکومت اس دن فارغ ہو جائے گی۔ جہانگیر ترین واپس آ چکے ہیں، یہ اس بار کس طرف کھیلیں گے سردست کسی کو کچھ معلوم نہیں تاہم یہ امکانات صاف دکھائی دے رہے ہیں عمران خان حکومت کو بچانے کی کوشش نہیں کریں گے، جس دن ق لیگ اور ایم کیو ایم نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا یہ اسمبلیاں توڑ کر سارا میچ خراب کر دیں گے، فائنل راؤنڈ کی تیاری دونوں سائیڈز سے ہو چکی ہے، اپوزیشن اور حکومت دونوں تیار بیٹھی ہیں، پہلا حملہ کون کرتا ہے بس یہ فیصلہ باقی ہے اور اس فیصلے میں بھی اب زیادہ وقت باقی نہیں، یہ سال جاتے جاتے بہت کچھ لے جائے گا۔