فوج ضرور آئے گی
گجرات کے این اے 107 میں پاکستان مسلم لیگ ن کے ملک حنیف مضبوط امیدوار تھے، یہ بی اے نہ ہونے کی وجہ سے 2008ء کا الیکشن نہیں لڑ سکتے تھے، انھوں نے ہالینڈ سے اپنا بی اے پاس بھتیجا امپورٹ کیا، بھتیجے ملک جمیل اعوان نے الیکشن لڑا، یہ جیت گیا۔ یوں امپورٹیڈ بھتیجا قومی اسمبلی میں حلقے کی نمایندگی کرنے لگا، پارٹی کا خیال تھا۔
پانچ سال پورے ہونے کے بعد امپورٹیڈ ایم این اے ہالینڈ واپس چلا جائے گا، پاکستان مسلم لیگ ن ملک حنیف کو ٹکٹ دے گی، ملک حنیف الیکشن جیتیں گے اور یوں حق دار کو حق مل جائے گا لیکن بدقسمتی سے سپریم کورٹ نے دہری شہریت کے خلاف فیصلہ دے دیا، ملک جمیل اعوان اس فیصلے کی زد میں آگئے، یہ قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہوگئے، پاکستان مسلم لیگ ن نے ملک حنیف کو ٹکٹ دیا، 4 دسمبر کو ضمنی الیکشن ہوا اور چچا نے بھتیجے کی جگہ لے لی۔
آپ اسی طرح پی پی 26 جہلم کی مثال لیجیے، یہ حلقہ چوہدری خادم حسین کی اجارہ داری میں ہے، یہ بزرگ بھی ہو چکے ہیں، بیمار بھی ہیں اور یہ بی اے پاس بھی نہیں ہیں چنانچہ انھوں نے پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر اپنے بیٹے چوہدری ندیم خادم کو الیکشن لڑا دیا، یہ الیکشن جیت گئے، یہ بھی دہری شہریت کے ملزم نکلے، چوہدری خادم حسین نے بیٹے کی سیٹ پر آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا اور جیت گئے اور جیتنے کے بعد دوبارہ پاکستان مسلم لیگ ن میں شامل ہوگئے، آپ صورتحال ملاحظہ کیجیے، 4 دسمبر سے قبل دہری شہریت کا حامل صاحبزادہ پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر حلقے کا مالک تھا اور 4 دسمبر 2012ء کے بعد والد حلقے میں پاکستان مسلم لیگ ن کا نمایندہ ہو گیا اور یہ نمایندہ اس سے قبل پاکستان مسلم لیگ ق کا ایم پی اے اور وزیر تھا۔
یہ اگر سلامت نہ رہے یا انھوں نے 2013ء میں سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کر دیا تو ان کے برطانیہ پلٹ بھائی چوہدری لال حسین ن لیگ، ق لیگ یا پی پی کے ٹکٹ پر ان کی جگہ حلقہ سنبھال لیں گے اور یوں پارٹی آئی، پارٹی چلی گئی، ایم پی اے آیا، ایم پی اے چلا گیا اور اس کی جگہ نیا ایم پی اے آ گیا مگر حلقہ پی پی 26 کے عوام کا مقدر اسی طرح جھاڑیوں میں اٹکا رہا، عوام ایک ہی خاندان کے غلام رہے، ان کے مقدر کے صرف ندیم، خادم اور لال تبدیل ہوئے ان کا چوہدری وہیں قائم رہا اور یہ نوکری، انصاف اور آزادی کے لیے ایک ہی ڈیرے کے خادم بنے رہے۔
آپ اب چیچہ وطنی کے حلقہ این اے 162 کی مثال بھی لے لیجیے، 2008ء میں چوہدری زاہد اقبال اس حلقے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے، ان کی شہریت بھی دہری نکلی، انھوں نے استعفیٰ دیا، اپنی دوسری شہریت چھوڑ دی، پاکستان پیپلز پارٹی نے زاہد اقبال کو دوبارہ ٹکٹ دے دیا، زاہد اقبال نے14 اکتوبر 2012ء کو چھلانگ لگائی اور پاکستان مسلم لیگ ن میں چلے گئے، ن لیگ نے انھیں ٹکٹ دیا اور زاہد اقبال 4 دسمبر کو ایم این اے منتخب ہو گئے، کیا ہم اس تبدیلی کو بھی تبدیلی کہیں گے۔
کیا یہ تبدیلی ہے کہ کل جس مکان پر پاکستان پیپلز پارٹی کا جھنڈا لہرا رہا تھا آج وہاں پاکستان مسلم لیگ ن کا جھنڈا لگا ہے اور اگر کل ہوا نے رخ بدل لیا تو اس مکان پر پاکستان مسلم لیگ ق کا جھنڈا لگ جائے گا یا پھر کسی نئی جرنیلی پارٹی کا نشان چمکنے لگے گا، کیا یہ تبدیلی ہے؟ اور کیا ہم اس طرح بھینسے کے سینگوں کا رنگ بدل کر اسے ہرن بنا سکتے ہیں؟ کیا آپ اس طرز سیاست کے ساتھ ملک کو بحرانوں سے نکال سکیں گے؟ اور آج اگر ان نمایندوں کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی فیل ہو گئی ہے تو کیا کل میاں نواز شریف بھی اسی انجام کا شکار نہیں ہو جائیں گے؟ ؟ یہ ضمنی الیکشن قوم کے دماغ میں یہ سلگتے ہوئے سوال چھوڑ گیا۔
آپ ذرا ٹھنڈے دل سے صدر آصف علی زرداری کی مجبوری کا تجزیہ کیجیے، پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس 2008ء میں 124 نشستیں تھیں، حکومت بنانے کے لیے انھیں مزید 48 نشستیں درکار تھیں، صدر آصف علی زرداری کے پاس اس وقت دو آپشن تھے، یہ اپوزیشن میں بیٹھ جاتے اور جنرل پرویز مشرف پاکستان مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم، اے این پی، مسلم لیگ فنکشنل، فاٹا اور آزاد ارکان کو ملا کر حکومت بنا لیتے، اگر کوئی کمی رہ جاتی تو یہ پاکستان مسلم لیگ ن کے اندر یونی فکیشن یا ہم خیال بلاک بنواتے اور حکومت شروع کر دیتے، یہ صوبائی حکومتوں کے لیے نوٹوں کے بکسے بھجواتے اور وہاں بھی ان کی مرضی کی حکومتیں بن جاتیں۔
دوسرا آصف علی زرداری مفاہمتی سیاست کی طرف جاتے، یہ سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملاتے، جنرل پرویز مشرف کو نکالتے اور ملک کو جیسے تیسے آگے بڑھانے لگتے، آصف علی زرداری دوسرے آپشن کی طرف چلے گئے، مفاہمت کے اس آپشن کے نتیجے میں ملک میں جمہوریت تو چلتی رہی، اسمبلیاں بھی اپنی مدت پوری کر گئیں لیکن ملک کا بیڑا غرق ہو گیا کیونکہ حکومت کا ہر اتحادی اپنی بلیک میلنگ پاور سے واقف تھا اور یہ پانچ سال تک اس پاور کا بھرپور فائدہ اٹھاتا رہا، اس نے مرضی کی وزارتیں بھی لیں، مرضی کے صدارتی احکامات بھی جاری کروائے، مرضی کی پوسٹنگز اور ٹرانسفرز بھی کرائیں اور مرضی کے ترقیاتی فنڈز اور پرمٹ بھی لیے اور اس مرضی کے نتیجے میں حکومت کا ہر اتحادی کھرب پتی ہو گیا مگر ملک بھکاری بن گیا۔
یہ ایک خوفناک صورتحال تھی مگر اس صورتحال کے دو اچھے نتائج نکلے، ایک، کمزور جمہوریت کی کوکھ سے جنم لینے والی کمزور ترین اسمبلیاں پانچ سال پورے کر گئیں اور دو، فوج بھرپور عوامی مطالبے اور خواہش کے باوجود اقتدار پر قابض نہ ہو سکی لیکن اب سوال یہ ہے، کیا یہ ملک اس نوعیت کی ایک اور حکومت افورڈ کر سکتا ہے؟ ملک کے ہر حلقے میں جب کوئی نہ کوئی خادم حسین، کوئی نہ کوئی ملک حنیف اعوان اور کوئی نہ کوئی زاہد اقبال بیٹھا ہو اور ہماری سیاسی اخلاقیات کی حالت یہ ہو حنا ربانی کھر پاکستان مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر منتخب ہوتی ہوں، یہ وزیر بنتی ہوں، یہ اگلی بار پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ سے الیکشن جیتتی ہوں اور دوبارہ وزیر بن جاتی ہوں اور یہ اگر آج پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف ہاتھ بڑھا دیں تو انھیں ن لیگ بھی ٹکٹ دے دے گی اور یہ پاکستان مسلم لیگ ن کی وزیر بھی ہوجائیں گی لہٰذا ملک میں حکومتیں تبدیل ہو رہی ہیں۔
ملک میں ایک کے بعد دوسری پارٹی برسر اقتدار آ رہی ہے لیکن این اے 177 کے عوام کی " بی بی جی" ایک ہی ہیں، یہ نہیں بدل رہیں، ہماری حالت یہ ہے انجینئر امیرمقام 2008ء تک پرویز مشرف کے بھائی تھے، یہ مئی 2011ء میں پاکستان مسلم لیگ ق کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے، انھوں نے وزارت بھی قبول کر لی لیکن مرضی کی وزارت نہ ملنے پر یہ ن لیگ میں شامل ہو گئے اور اب میاں نواز شریف ان کے بھائی ہیں۔ خواجہ محمد ہوتی کل تک اس اے این پی کے رکن تھے جوقیام پاکستان سے پہلے پاکستان مسلم لیگ کی مخالفت میں الیکشن لڑتی آ رہی ہے، یہ پھر سونامی میں شامل ہوئے اور یہ اب پاکستان مسلم لیگ ن میں ہیں اور میاں نواز شریف ان کے مشن کو اپنا مشن قرار دے رہے ہیں، ہماری سیاسی بداخلاقی کا معاملہ یہاں تک محدود نہیں، ہماری آج کی پوری سیاسی تاریخ ایسی سیکڑوں مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
چنانچہ اگر ان حالات میں الیکشن ہوتے ہیں تو کیا ہو گا؟ پاکستان پیپلز پارٹی اپنے اُن اتحادیوں کے ساتھ دوبارہ اقتدار میں آ جائے گی جنہوں نے اسے پچھلے پانچ برسوں میں چلنے نہیں دیا چنانچہ یہ سسٹم چھ ماہ بعد مکمل طور پر بیٹھ جائے گا اور فوج کو آگے آنا پڑ جائے گا اور یوں جمہوریت ایک بار پھر دس سال پیچھے چلی جائے گی اور میاں نواز شریف تھوڑی سی زیادہ نشستوں کے ساتھ کامیاب ہو جائیں گے اور یہ بھی صدر آصف علی زرداری کی طرح ایم کیو ایم، اے این پی، جے یو آئی، جماعت اسلامی اور پاکستان مسلم لیگ ق کے ساتھ حکومت بنانے پر مجبور ہو جائیں گے اور یوں ان کا حشر بھی وہی ہو گا جو پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کا ہوا، ملک چھ ماہ بعد اس بند گلی میں آ جائے گا جہاں فوج مداخلت پر مجبور ہو جائے گی چنانچہ پیپلز پارٹی حکومت بنائے یا ن لیگ ان الیکشنوں کا نتیجہ فوجی مداخلت کی شکل ہی میں نکلے گا، ہمارے پاس اس صورتحال سے بچنے کا کیا طریقہ ہے؟
اس کا واحد طریقہ لمبی کیئر ٹیکر یا ٹیکنوکریٹس کی حکومت ہے، سیاسی جماعتوں کو چاہیے یہ خود ہی ایسی حکومت بنا لیں، یہ نہیں بناتے تو سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن بنائے، یہ حکومت سسٹم کو کلین کرے، سیاستدان اس دوران اپنی صفیں درست کر لیں، یہ صدارتی نظام پر اتفاق کر لیں یا نئی حلقہ بندیاں کر لیں، حلقوں سے اجارہ داریاں توڑ دیں، سیاسی لوٹوں کو جماعتوں سے نکال دیں اور یہ فیصلہ کر لیں پارٹیوں میں وراثتی سیاست نہیں ہو گی، باپ کی جگہ بیٹا اور بیٹے کی جگہ بھتیجا تخت پر نہیں بیٹھے گا، اہل ہی کو اقتدار ملے گا، یہ لوگ اگر ایسا نہیں کرتے تو پھر قوم فوجی مداخلت سے پاک ملک کے خواب دیکھنا بند کر دے، پھر فوج ضرور آئے گی اور اگر نہ آئی تو ملک میں انارکی آئے گی اور یہ انارکی ملک کو روانڈا بنا دے گی۔