ڈھیلی پتلونیں
ہمارے سیاسی نظام کے ساتھ وہ کچھ ہو رہا ہے جو امریکی نفسیات دان نے دنیا کے شرارتی ترین بچے کے ساتھ کیا تھا، کیلیفورنیا کے بچے کی عمر تین سال تھی لیکن وہ انتہائی شرارتی تھا، وہ روزانہ سترہ اٹھارہ گھنٹے اپنے دونوں ہاتھ اور دونوں پائوں استعمال کرتا تھا اور پورا قصبہ اس کی حرکتوں کی وجہ سے تنگ تھا، محلے کے لوگوں نے چندہ جمع کیا، یہ رقم نیویارک کے ایک نفسیات دان کو پیش کی۔
وہ نفسیات دان ٹاؤن میں آیا، بچے سے ملاقات کی، اس کے کپڑے تبدیل کرائے، محلے کے لوگوں کو جمع کیا اور خوش خبری سنائی "یہ بچہ اب کبھی شرارت نہیں کرے گا" نفسیات دان نے اس اعلان کے بعد بیگ اٹھایا اور نیویارک واپس چلا گیا، بچے نے واقعی سال بھر کوئی شرارت نہیں کی، ٹائون میں سکون رہا لیکن پھر بارہ تیرہ مہینے بعد بچہ دوبارہ ایکٹو ہو گیا، وہ اب ہر چیز کو ٹھڈا مار دیتا تھا اور اس ٹھڈے سے لوگوں کا ہزاروں ڈالر کا نقصان ہو جاتا تھا، نفسیات دان کو دوبارہ بلایا گیا، وہ آیا، اس نے بچے کو دیکھا، اس کے جوتے تبدیل کرائے۔
محلے کے لوگوں کو دوبارہ جمع کیا اور یہ خوش خبری سنائی " یہ بچہ اب کسی چیز کو ٹھڈا نہیں مارے گا" دوبارہ اپنا بیگ اٹھایا اور نیویارک واپس چلا گیا، بچے نے واقعی ٹھڈے مارنا چھوڑ دیے، یہ نفسیات دان کی بہت بڑی کامیابی تھی، دو سال بعد واشنگٹن میں بچوں کی نفسیات پر بین الاقوامی کانفرنس ہوئی، کانفرنس میں نفسیات دان سے کامیابی کا فارمولہ پوچھا گیا، نفسیات دان نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا " میں نے پہلی بار بچے کو کھلی پتلون پہنا دی تھی، یہ پتلون ڈھیلی تھی، بچہ سارا دن دونوں ہاتھوں سے اس ڈھیلی پتلون کو تھامے رکھتا تھا اور یوں اس کی توجہ شرارتوں سے پتلون پر شفٹ ہو گئی اور ٹائون میں امن ہوگیا۔
سال بعد بچے کو محسوس ہوا، میں پاؤں سے بھی شرارتیں کر سکتا ہوں چنانچہ اس نے دونوں ہاتھوں سے پتلون سنبھال کر پائوں سے ٹھڈے مارنا شروع کر دیے، میں ٹائون میں گیا، بچے کو ملا اور میں نے دوسری بار اسے تنگ جوتا پہنا دیا، بچے نے جوتا تنگ ہونے کی وجہ سے ٹھڈے مارنا بھی ترک کر دیا"شرارت روکنے کا یہ تیر بہدف نسخہ سن کر پورے ہال نے قہقہے لگائے، قہقہے رکے تو نفسیات دان دوبارہ بولا " خواتین و حضرات یہ نسخہ صرف بچوں تک محدود نہیں، آپ اسے سماجیات سے لے کر سفارت کاری تک دنیا کے ہر شعبے اور ہر شخص پر استعمال کر سکتے ہیں، آپ مشکل لوگوں کو ڈھیلی پتلونیں اور تنگ جوتے پہنائیں اور آرام سے زندگی گزاریں "۔
یہ فارمولہ نفسیات دان نے شاید پاکستان کے مقتدر حلقوں کو بھی سمجھا دیا، شاید اسی لیے یہ پاکستان میں مسلسل استعمال ہو رہا ہے، اندرونی اور بیرونی ادارے کبھی ہماری لیڈر شپ کی پتلونیں ڈھیلی کر دیتے ہیں اور کبھی انھیں تنگ جوتے پہنا دیتے ہیں اور یہ بے چارے پتلونیں سنبھالتے اور پائوں کو تکلیف سے بچاتے بچاتے اقتدار سے فارغ ہو جاتے ہیں، آپ دور نہ جائیے، آپ پچھلے پانچ سالہ دور کو دیکھ لیجیے، پاکستان پیپلز پارٹی کو2008ء میں اقتدار ملا، آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی میدان میں آ گئے لیکن انھیں اقتدار سنبھالنے سے قبل عدلیہ کی ڈھیلی پتلون پہنا دی گئی۔
یہ بے چارے پورا سال یہ پتلون سنبھالتے رہے، یہ اس سے فارغ ہوئے تو انھیں این آر او کی ڈھیلی پتلون پہنا دی گئی، یہ اگلے تین سال اس پتلون کو سنبھالتے رہے، یہ اس سے ذرا سے فارغ ہوئے تو انھیں سوئس کیسز، حج سکینڈل، ایفی ڈرین اور رینٹل پاور پلانٹس کی ڈھیلی پتلونیں پہنا دی گئیں، یہ انھیں بھی سنبھالتے رہے اور ان لوگوں نے ان پتلونوں کو سنبھالتے سنبھالتے پانچ سال پورے کر دیے، یہ لوگ اس دوران اگر کبھی سانس لے لیتے تھے تو ایم کیو ایم کی بیلٹ کھینچ لی جاتی تھی اور ان بے چاروں کے ہاتھ بے اختیار پتلون کی طرف چلے جاتے تھے۔
آصف علی زرداری کے بعد میاں نواز شریف کی باری آئی، میاں صاحب کو چار حلقوں کی ڈھیلی پتلون پہنا دی گئی، یہ حقیقت ہے 2013ء کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی تھی لیکن کیا یہ دھاندلی میاں نواز شریف یا میاں شہباز شریف نے کروائی تھی؟ یہ وہ سوالیہ نشان ہے جس کا جواب ہمیں کبھی نہیں مل سکے گا، میرا خیال ہے وہ دھاندلی، دھاندلی کم اور ڈھیلی پتلون زیادہ تھی اور اس ڈھیلی پتلون کا مقصد صرف اور صرف میاں نواز شریف کو الجھائے رکھنا تھا تا کہ یہ بھی آصف علی زرداری کی طرح اس ڈھیلی پتلون کو پانچ سال تک پکڑے رکھیں۔
میاں صاحب کا اقتدار اگست کے مہینے میں داخل ہو چکا ہے، میرا خیال ہے یہ اگر اس کرائسس سے نکل گئے تو نجم سیٹھی کے 35 پنکچرز کے ثبوت سامنے آ جائیں گے، یہ ان سے بھی بچ گئے تو حمزہ شہباز اور حسین نواز کے کاروبار کی خبریں آ جائیں گی اور اگر یہ قصے بھی بارآور نہ ہوئے تو سانحہ ماڈل ٹائون وہ ڈھیلی پتلون ثابت ہو گا جسے سنبھالتے سنبھالتے میاں برادران کے چار سال ختم ہو جائیں گے اور اگر خوش قسمتی سے میاں برادران یہ تمام مراحل بھی گزار گئے تو پھر جنرل پرویز مشرف کا تنگ جوتا کہیں نہیں گیا، یہ تنگ جوتا، شمالی وزیرستان کا آپریشن اور لوڈ شیڈنگ حکومت کو آرام سے نہیں چلنے دے گی اور یہ لوگ باقی مدت پائوں بچاتے بچاتے ہی پوری کریں گے۔
یہ ڈھیلی پتلون صرف وفاقی اور پنجاب حکومت تک محدود نہیں بلکہ عمران خان، آصف علی زرداری اور بلوچستان کی حکومت بھی ڈھیلی پتلون اور تنگ جوتے کے فارمولے کا شکار ہے، عمران خان کو خیبر پختونخواہ کی حکومت ملی لیکن ساتھ ہی شمالی وزیرستان کی ڈھیلی پتلون بھی مل گئی، یہ اس وقت دونوں ہاتھوں سے اسے سنبھالے ہوئے ہیں، آصف علی زرداری کو سندھ مل گیا لیکن یہ اس وقت کراچی کے بگڑتے ہوئے حالات کی ڈھیلی پتلون سنبھال کر کھڑے ہیں اور بلوچستان میں طویل مدت بعد خالص بلوچ حکومت قائم ہوئی۔
ڈاکٹر عبدالمالک شاندار انسان اور دیانتدار لیڈر ہیں لیکن یہ بھی مسنگ پرسنز اور قوم پرست علیحدگی پسندوں کی ڈھیلی پتلون کو پکڑے بیٹھے ہیں، یہ اس خوف کا شکار ہیں " میں جس دن کھڑا ہوں گا، میری پتلون گر جائے گی" ہم اگر ڈھیلی پتلون کے دائرے کو ذرا سا وسیع کر دیں تو ہمیں محسوس ہو گا چوہدری برادران گم نامی کی ڈھیلی پتلون تھامے کھڑے ہیں، یہ جانتے ہیں ہم اگر اب پانی کی سطح پر نہ آئے تو ہم ہمیشہ کے لیے ڈوب جائیں گے۔
علامہ طاہر القادری انقلاب کی ڈھیلی پتلون پکڑ کر کھڑے ہیں جب کہ الطاف حسین منی لانڈرنگ کیس کی ڈھیلی پتلون پر ہاتھ رکھے کھڑے ہیں، ہمارے وفاقی وزراء بھی ملتی جلتی صورتحال کا شکار ہیں، چوہدری نثار لاء اینڈ آرڈر، خواجہ آصف لوڈ شیڈنگ، خواجہ سعد رفیق ریلوے اور میرے عزیز ترین دوست پرویز رشید اطلاعات و نشریات کی ڈھیلی پتلونیں پکڑ کر کھڑے ہیں، یہ حضرات جانتے ہیں ہمارے ہاتھ جس دن ذرا سے ڈھیلے پڑیں گے اس دن نہ صرف ہماری ڈھیلی پتلونیں گر جائیں گی بلکہ انھیں دوسرے لوگ اٹھا کر بھاگ جائیں گے۔
ہم اب آتے ہیں صورتحال سے نکلنے کے طریقے کی طرف۔ ہم اگر واقعی اس ملک اور نظام سے مخلص ہیں تو پھر ہمیں ایک بڑا اور تاریخی فیصلہ کرنا ہوگا، میاں صاحب کو فوری طور پر قومی حکومت بنا دینی چاہیے، یہ تمام سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ کو جمع کریں اور انھیں اقتدار کا سٹیک ہولڈر بنا دیں، ہمیں ماننا پڑے گا کراچی کو صرف ایم کیو ایم صاف کر سکتی ہے، میاں صاحب الطاف حسین کو لندن سے بلا کر کراچی ان کے حوالے کر دیں، عمران خان کو وزیر خارجہ بنا دیا جائے، جنرل پرویز مشرف کو صدر بنا دیں اور مسئلہ کشمیر اور کالا باغ ڈیم آصف علی زرداری کے حوالے کر دیں۔
چوہدری نثار کو دہشت گردی کا مسئلہ سونپ دیں، شوکت عزیز کو واپس بلا کر معیشت اور صنعت ان کے حوالے کر دی جائے اور اسحاق ڈار کو آئین اور قانون کے سقم دور کرنے اور صوبوں کے درمیان تعلقات استوار کرنے کی ذمے داری دے دی جائے، ہماری سیاسی قیادت اس کے ساتھ ساتھ یہ فیصلہ بھی کرے، ہم مارشل لاء کو کسی قیمت قبول نہیں کریں گے اور فوج بھی یہ فیصلہ کر لے ہم اقتدار کی طرف مارچ نہیں کریں گے، یقین کیجیے ہمارے ملک کے حالات بدلنے لگیں گے، ہمیں ماننا ہو گا موجودہ حالات میں کوئی ایک جماعت ملک کے تمام مسائل حل نہیں کرسکتی۔
ہمارے ملک میں جو بھی شخص برسر اقتدار آئے گا ڈھیلی پتلون اس کا مقدر ہو گی، آج عمران خان یا علامہ طاہر القادری بھی آ جائیں تو صورتحال میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے ادوار سے مختلف نہیں ہو گی، یہ بھی ڈھیلی پتلون سنبھالتے رہیں گے اور ہم نے اگر ڈھیلی پتلونوں کا یہ سلسلہ بند نہ کیا تو ملک ڈھیلا ہو جائے گا اور ملک اگر ایک بار ڈھیلے ہو جائیں تو انھیں دوبارہ نہیں کسا جا سکتا۔
آپ کو یقین نہ آئے تو آپ چیکو سلواکیہ سے لے کر عراق اور ایسٹ تیمور سے لیبیا تک پچھلے 25 سال کی تاریخ دیکھ لیں، آپ جان جائیں گے دنیا کا جو بھی ملک ڈھیلا ہوا، وہ دوبارہ سلامتی کی طرف نہیں جا سکا، ملک مچھلیوں کی طرح ہوتے ہیں، یہ اگر ایک بار نظام کے پانیوں سے باہر آ جائیں تو پھر تڑپنا اور تڑپ تڑپ کر جان دینا ان کا مقدر ہو جاتا ہے، ہم بھی اگر ایک بار نظام سے باہر آ گئے تو پھر واپس نہیں جا سکیں گے چنانچہ آپ لوگ اپنادل بڑا کریں، آپ نے اگر آج دل بڑا نہ کیا تو دل بچے گا اور نہ ہی دل والے۔