ڈیڈ اینڈ
ارنسٹ ہیمنگ وے نوبل انعام یافتہ ادیب تھا اور یہ دہائیوں سے انسانی فکر کو متاثر کررہا ہے، ہم میں سے کم لوگ جانتے ہیں ہیمنگ وے نے اپنا کیریئر صحافی کی حیثیت سے شروع کیا تھا، یہ وار رپورٹر تھا، محاذ جنگ سے ڈائری لکھتا تھا اور لاکھوں لوگ اس کی تحریروں کا انتظار کرتے تھے، اس کا معرکۃ الآراء ناول "اے فیئر ویل ٹو آرمز" بھی پہلی جنگ عظیم کے واقعات پر مشتمل تھا، یہ تمام واقعات اس کے ساتھ پیش آئے تھے۔
اس کی زندگی کا بڑا حصہ پیرس میں گزرا تھا، یہ روز شام کو اپنے وقت کے عظیم صحافیوں اور فرنچ فلاسفرز کے ساتھ "کیفے ڈی فلور" میں بیٹھتا تھا، کیفے میں آج بھی اس کی کرسی موجود ہے اور لوگ اس کرسی پر بیٹھ کرتصویریں بنواتے ہیں، صحافی کی حیثیت سے اس کا کیریئر بہت شان دار تھا، یہ اگر اس پیشے کو جاری رکھتا تو یہ دنیا کا سب سے بڑا صحافی ہوتا لیکن پھر اس نے اچانک صحافت کو خیر باد کہا اور باقی زندگی ادب کے لیے وقف کر دی اورکمال کر دیا، ہیمنگ وے کے اس فیصلے سے بے شک ادب کو ایک لازوال لکھاری مل گیا لیکن صحافت ایک عظیم صحافی سے محروم ہو گئی۔
ہیمنگ وے نے صحافت کیوں چھوڑی تھی یہ سوال ایک دن کسی نوجوان صحافی نے اس سے پوچھا تھا اور اس نے ہنس کر جواب دیا تھا "صحافی جب لکھنے سے پہلے یہ سوچنے لگے لوگ کیا سوچیں گے تو پھر اسے صحافت چھوڑ دینی چاہیے اور میں نے لکھنے سے پہلے یہ سوچنا شروع کر دیا تھا"۔
ارنسٹ ہیمنگ وے کی یہ بات سونے میں لکھنے کے قابل ہے، صحافت بے خوف لوگوں کا پیشہ ہے اور یہ پیشہ ہمیشہ بے خوف معاشروں میں پروان چڑھتا ہے، آپ اگر بے خوف ہیں تو آپ صحافی بن سکیں گے اور اگر معاشرہ بھی بے خوف ہے تو یہ آپ کے سچ کو قبول کرے گا ورنہ دوسری صورت میں صحافی اور معاشرہ دونوں فوت ہو جائیں گے اور بدقسمتی سے آج ہمارا معاشرہ اور صحافی دونوں اس فیز سے گزر رہے ہیں، صحافیوں کو ہر بار لکھنے سے پہلے یہ سوچنا پڑتا ہے "لوگ کیا سوچیں گے" اور یہ احساس ملک اور صحافت دونوں کے لیے زہر قاتل ہے۔
میں ایسے بے شمار صحافی دوستوں کو جانتا ہوں جنھوں نے قتل کے خوف سے اپنے نام بدل لیے ہیں، یہ اب قادری، زیدی اور جھنگوی نہیں رہے، آپ خوف کا عالم ملاحظہ کیجیے، صحافی میاں نواز شریف کی والدہ پر بھی لکھتے ہوئے ڈر رہے ہیں، یہ خوف زدہ ہیں کہیں انھیں بھی اٹھا کر شریف فیملی کے کھاتے میں نہ ڈال دیا جائے، یہ خوف بے جا نہیں ہے، صحافی بے چارے صرف صحافی ہوتے ہیں، یہ رانا ثناء اللہ یا حنیف عباسی نہیں ہوتے کہ یہ ریاست کا بلڈوزر سہہ سکیں، آپ حنیف عباسی کا انجام دیکھ لیں۔
اس کے کھاتے میں وہ پراپرٹیز بھی ڈال دی گئی ہیں یہ جن کے کبھی قریب سے بھی گزرے تھے لیکن یہ شخص ابھی تک ڈٹا ہوا ہے، رانا ثناء اللہ بھی تگڑے ہیں، یہ 15 کلو گرام ہیروئن کا بوجھ بھی برداشت کر گئے مگر کیا صحافت میں بھی حنیف عباسی یا رانا ثناء اللہ جیسے لوگ موجود ہیں، جی نہیں، چناں چہ ہم صحافیوں میں سے کچھ کورونا کا شکار ہو رہے ہیں اور باقی خاموشی کے کورونا میں مبتلا ہو رہے ہیں، آپ اس سے معاشرے کے مستقبل کا اندازہ کر لیجیے لیکن اس خوف کے باوجود نواز شریف کی والدہ کے صبر کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی۔
ہم اگر شریف خاندان کو بیک وقت ملک کا خوش نصیب اور بدنصیب ترین خاندان کہیں تو غلط نہیں ہو گا، آپ خوش نصیبی دیکھیے، خاندان کا آغاز ریلوے روڈ لاہور پر لوہا کوٹنے سے ہوا، میاں نواز شریف کے والد میاں شریف اس خاندان کے اصل لیڈر، اصل ہیرو تھے، یہ دن کو لوہا کوٹتے تھے اور شام کے وقت پڑھائی کرتے تھے، سات بھائیوں میں تیسرے نمبر پر آتے تھے، صرف یہ اسکول جاتے تھے، ان کی محنت اور مشقت نے استادوں کا دل نرم کر دیا، اسکول نے ان کی فیس بھی معاف کر دی اور انھیں ہوم ورک سے بھی مستثنیٰ کر دیا، میٹرک کے بعد لوہے کی ایک بھٹی پر منشی بھرتی ہو گئے۔
تین سو روپے جمع کیے، آج کے وفاقی وزیر حماد اظہر کے دادا میاں فضل سے پرانی بھٹی خریدی اور اپنا کام شروع کر لیا، اللہ نے ہاتھ پکڑ لیا اور یہ خوش حال ہوتے چلے گئے، ساتوں بھائیوں نے مل کر اتفاق فائونڈری بنائی اور پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا، ایوب خان کے دور میں اتفاق گروپ ملک کا دوسرا بڑا صنعتی گروپ تھا، چین کے وزیراعظم چو این لائی ان کی فیکٹری دیکھنے لاہور آئے تھے لیکن پھر ان سے ایک غلطی ہو گئی، میاں شریف نے 1970کے الیکشن میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف علامہ اقبال کے صاحبزادے اور سینیٹر ولید اقبال کے والد جاوید اقبال کو سپورٹ کر دیا۔
میاں شریف نے الیکشن کے دن جاوید اقبال کے ووٹروں کے لیے ٹرانسپورٹ کا بندوبست بھی کیا تھا اور انھیں قیمے کے نان بھی کھلائے تھے، بھٹو صاحب نے اس گستاخی کا بدلہ 1972 میں لیا، یہ جوں ہی مغربی پاکستان کے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے، انھوں نے تمام صنعتیں قومیا لیں اور یوں پورا اتفاق گروپ بحق سرکار ضبط ہو گیا، میاں شریف کو اللہ تعالیٰ نے حیران کن خوبیوں سے نواز رکھا تھا، آپ یہ جان کر حیران ہوں گے یہ شخص پوری زندگی لیٹ نہیں ہوا، یہ صبح سات بجے دفتر پہنچتے تھے اور یہ انتقال تک سات بجے پہنچتے رہے۔
انھوں نے پوری زندگی اپنے جوتے خود پالش کیے، یہ وہیل چیئر پر جدہ میں بھی اپنے جوتے خود پالش کرتے تھے، پوری زندگی اپنے انڈر گارمنٹس خود دھوئے، یہ اپنی بیگم کو بھی انھیں ہاتھ نہیں لگانے دیتے تھے، پوری زندگی انکار نہیں کیا، یہ اگر کسی کا کام نہیں کرنا چاہتے تھے تو یہ خاموش رہتے تھے لیکن انکار نہیں کرتے تھے اور میاں شریف نے پوری زندگی کبھی شکست نہیں مانی، یہ 1972 میں اپنی ساری ملیں ضبط کرانے کے بعد بھی سوموار کے دن ٹھیک صبح سات بجے تیار ہوئے۔
میاں نواز شریف اور شہباز شریف کو ساتھ لیا اور یہ اردو بازار میں اپنا برف کا بند کارخانہ کھول کر بیٹھ گئے، یہ کارخانہ حکومت کی نظر سے بچ گیا تھا، میاں شریف نے ایک بار پھر کام شروع کیا اور ٹھیک پانچ سال بعد یہ دوبارہ چھ کارخانوں کے مالک تھے۔
بھٹو صاحب کی نیشنلائزیشن نے میاں شریف کو اپنے بڑے صاحب زادے نواز شریف کو سیاست میں دھکیلنے پر مجبور کر دیا اور پھر عروج وزوال کی ایک دل چسپ داستان بنی اور لکھی گئی، یہ خاندان سیاست میں آتا اور جاتا رہا، اقتدار ہر بار آتے جاتے ان کا کچھ نہ کچھ چھینتا بھی رہا اور اس سب کچھ میں میاں شریف اور ان کی اہلیہ بیگم شمیم اختر بھی شامل تھیں، مرحومہ ایک دین دار اور گھریلو خاتون تھیں، یہ پوری زندگی تنگی اور کشادگی کے درمیان پنڈولم کی طرح لٹکی رہیں، جوانی محنت اور مشقت میں گزر گئی، خوش حالی آئی تو ساری ملیں قومیا لی گئیں۔
بچے اقتدارمیں آئے تو بڑا بیٹا تین بار وزیراعظم اور چھوٹا بیٹا پنجاب کا وزیراعلیٰ بنالیکن اس کے بعد عرش سے فرش اور فرش سے عرش کا کھیل شروع ہو گیا، جلاوطنیاں بھی بھگتیں اور جیلیں اور مقدمے بھی، ماریں بھی کھائیں اور یہ سب کچھ میاں برادران کے والد اور والدہ دونوں نے دیکھا، والد کا انتقال 2004 میں جدہ میں ہوا، پاکستان صرف میت پہنچی اور میت کو بھی خاندان کی غیرموجودگی میں دفن کیاگیا، تدفین کے وقت پوری پارٹی سے صرف شاہد خاقان عباسی اور ان کی ہمشیرہ سعدیہ عباسی موجود تھیں، باقی سب رانجھے بھینسوں سمیت غائب ہو چکے تھے۔
والدہ کا آخری وقت بھی تکلیف میں گزرا، میاں نواز شریف اور مریم نواز 2018 میں جیل میں محبوس ہو گئے، یہ خبر ان سے چھپا لی گئی، خاندان نے ان کے کمرے کا ٹیلی ویژن تک بند کر دیا، یہ پوچھتی تھیں تو بتایا جاتا تھا دونوں لندن میں ہیں، بہت جلد واپس آئیں گے، میاں شہباز شریف روز بڑے بھائی کی طرف سے گلے مل لیتے تھے لیکن یہ خبر زیادہ دنوں تک خفیہ نہ رہ سکی لہٰذا یہ اپنا سامان لے کر جیل پہنچ گئیں اور واپس جانے سے انکار کر دیا۔
ان کا کہنا تھا "میں اپنے بیٹے کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں " پورے خاندان نے بڑی مشکل سے انھیں سمجھا بجھا کر گھر بھجوایا، میاں نواز شریف نومبر 2019 میں لندن چلے گئے، یہ بھی لندن چلی گئیں اور لندن میں 22 نومبر کو ان کا انتقال ہو گیا، آدھا خاندان لندن میں تھا اور آدھا جیلیں اور مقدمے بھگت رہا تھا، میت ڈبے میں بند ہو کر آئی اور چھوٹا بیٹا پیرول پر رہا ہو کر تدفین کے لیے پہنچا، ہم اسے کیا کہیں گے؟ خوش نصیبی یا بدنصیبی، خوش نصیبی دیکھیں تو یہ خاندان ہندوستان کی تاریخ کے ان چند خوش نصیب ترین خاندانوں میں شمار ہوتا ہے جس نے دولت اور اقتدار دونوں کی معراج کو چھو لیا اور اگر بدنصیبی دیکھیں تو یہ خاندان گراف کے مدوجزر کی طرح کبھی آسمان اور کبھی زمین کو چھوتا رہا، شریف خاندان کا یہ عروج وزوال ثابت کرتا ہے اللہ کی ذات کے سوا کسی کا عروج سدا نہیں رہتا، یہ صرف وہ ہے جس کی شان کو زوال نہیں، ہم سب مٹی ہیں اور مٹی کا مٹی میں مل جانا مقدر ہے، کل وہ چلے گئے، آج ہم جا رہے ہیں اور کل آج والے چلے جائیں گے، قصہ ختم۔
ہم سب چلے جائیں گے، یہ حقیقت ہے لیکن اس سے بڑی افسوس ناک حقیقت بیگم شمیم اختر کے انتقال پر حکومت اور معاشرے کا ردعمل ہے، حکومتی ترجمانوں نے میاں نواز شریف کی والدہ کی میت کو بھی سیاسی ترجمانی کا ذریعہ بنا لیا تھا اور عوام نے تابوت کو بھی سوشل میڈیا پر گھسیٹنا شروع کر دیا تھا، یہ کیا ہے؟
کیا اب اس معاشرے میں موت بھی سنجیدہ نہیں رہی، کیاکسی کی موت کے بعد بھی ہمارے دلوں میں خوف خدا نہیں اترتا اور کیا اس المیے کے بعد مزید کسی المیے کی ضرورت رہ جاتی ہے کہ لوگ اپنے مخالف کی والدہ کے انتقال کو بھی سیاست کا روزگار بنا لیتے ہیں اور انھیں شرم بھی نہیں آتی! آپ یقین کریں یہ انسانیت کا وہ ڈیڈ اینڈ ہے جس کے بعد انسان پر انسان کا گوشت حلال ہو جاتا ہے اور ہمارے معاشرے میں اب صرف یہ کمی باقی ہے، ہم کسی دن یہ کمی بھی پوری کر دیں گے، ہم ایک دوسرے کا گوشت بھی کھانا شروع کر دیں گے۔