ڈار ڈے
یہ میاں نواز شریف حکومت کی دوسری بڑی کامیابی ہے اور اس کا سہرا بہرحال وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے سر جاتا ہے، حکومت نے 4 سے 12 مارچ کے دوران صرف آٹھ دنوں میں ڈالر کو 98 روپے تک پہنچا دیا، یہ معجزہ پاکستان کی تاریخ میں صرف دوبار ہوا، ڈالر 1998ء میں 67 روپے تک پہنچ گیا تھا، میاں نواز شریف کی حکومت اسے 52 روپے پر لے کر آئی تھی، اس وقت بھی یہ کارنامہ اسحاق ڈار نے سرانجام دیا تھا، ملک کی تاریخ میں ڈالر دوسری بار مارچ کے دوسرے ہفتے میں نیچے آیا، یہ بھی ڈار صاحب کا کمال ہے، یہ حکومت کی دوسری بڑی کامیابی ہے، حکومت کی پہلی کامیابی 47 دن میں بجلی کے 480 ارب روپے کے گردشی قرضوں کا خاتمہ تھا، یہ قرضے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت چھوڑ گئی تھی، سابق حکومت کا خیال تھا میاں نواز شریف یہ قرضے نہیں اتار سکیں گے، نئی حکومت کو لوڈ شیڈنگ کا تحفہ ملے گا اور یہ تحفہ حکومت کو اڑنے سے پہلے زمین پر دے مارے گا لیکن ڈار صاحب نے حکومت کے ابتدائی ڈیڑھ ماہ میں یہ قرضے ادا کر کے پورے ملک کو حیران کر دیا، یہ حکومت کی پہلی کامیابی تھی، ان دو کامیابیوں نے میاں نواز شریف کے قدم مضبوط کر دیے ہیں اور اب صرف تین معاملات باقی ہیں .
حکومت نے اگر یہ تین معاملات بھی ٹھیک کر دیے تو پھر میاں نواز شریف کو کوئی طاقت ملک کا عہد ساز لیڈر بننے سے نہیں روک سکے گی، پہلا معاملہ طالبان ہیں، میاں نواز شریف اگر طالبان کو قابو کر لیتے ہیں اور ملک میں دہشت گردی ختم ہو جاتی ہے تو حکومت کامیابی کے ٹریک پر آ جائے گی، طالبان کے معاملے میں میاں نواز شریف کی اپروچ ٹھیک ہے، میاں صاحب نے اب تین کام کیے، ایک، ڈائیلاگ کے ذریعے طالبان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا، ایک حصہ مذاکرات کے ذریعے خود کو ریاست کے سامنے سرینڈر کرنے کے لیے تیار ہے جب کہ دوسرا مرنے تک جدوجہد جاری رکھنا چاہتا ہے، اس تقسیم سے طالبان کی قوت ٹوٹ چکی ہے اور ریاست کے لیے اب ان سے نبٹنا آسان ہو گیا، دو، مذاکرات کے لیے تیار گروپس کے مطالبات بڑی تیزی سے آئین کے دائرے میں آ رہے ہیں، یہ صرف مقدمات کی واپسی پر ریاست کے سامنے سرینڈر کرنے کے لیے تیار ہیں جب کہ حکومت متحارب گروپوں کے خلاف خوفناک آپریشن لانچ کر دے گی، یہ آپریشن افغانستان تک جائے گا، افغان حکومت اور امریکا بھی اس آپریشن میں پاکستان کی مدد کرے گا کیونکہ اگر پاکستان کو ان دونوں طاقتوں کی طرف سے تعاون نہیں ملتا تو پھر پاکستان اور طالبان امریکا کو واپسی کے لیے راستہ نہیں دیں گے اور امریکا سرے دست یہ افورڈ نہیں کر سکتا، طالبان کو تقسیم کرنے پر چوہدری نثار مبارک باد کے مستحق ہیں، ہم ان پر تنقید کرتے ہیں اور یہ "کام" مستقبل میں بھی جاری رکھیں گے لیکن جہاں تک ان کی کامیابی کا تعلق ہے.
ہمیں یہ بھی تسلیم کرنی چاہیے، چوہدری نثار نے طالبان کو بھی تقسیم کیا، تین، عمران خان نے نیٹو سپلائی بھی بحال کردی اور یہ مذاکرات کی آخری کمیٹی کے لیے تعاون پر بھی قائل ہو گئے چنانچہ یوں محسوس ہوتا ہے میاں نواز شریف دہشت گردی کا مسئلہ بھی حل کر لیں گے۔ میاں نواز شریف کے لیے دوسرا بڑا چیلنج لوڈ شیڈنگ ہے، حکومت تیزی سے اس پر قابو پا رہی ہے، گرمیوں میں لوڈ شیڈنگ ہو گی لیکن پچھلے برسوں کے مقابلے میں کم ہو گی، حکومت کی کوشش ہو گی، شہروں میں کم سے کم لوڈ شیڈنگ ہو اور حکومت اگر اگلے سال تک لوڈ شیڈنگ کو پچاس فیصد بھی کم کر لیتی ہے تو یہ اس کی بڑی کامیابی ہو گی اور میاں نواز شریف کی تیسری کامیابی جنرل پرویز مشرف کا ٹرائل ہے، حکومت نے تمام تر اندرونی دباؤ اور بیرونی دباؤ کے باوجود جنرل پرویز مشرف کو ملک سے نہیں جانے دیا، یہاں تک کہ جنرل مشرف فوجی اسپتال میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے، حکومت اس معاملے میں " تھکا دیں " کی پالیسی پر گامزن ہے، جنرل مشرف کو اے ایف آئی سی میں 72 دن ہو چکے ہیں، فوج ان کی سیکیورٹی کے لیے بھاری اخراجات برداشت کر رہی ہے، فوج یہ اخراجات کب تک برداشت کرے گی؟ رہی سہی کسر جنرل پرویز مشرف کے وکلاء عدالت اور میڈیا میں فوج کومتنازعہ بنا کر پوری کر رہے ہیں چنانچہ فوج کسی بھی وقت جنرل مشرف سے ہاتھ اٹھا لے گی اور یوں جنرل پرویز مشرف کا ٹرائل شروع ہو جائے گا اور حکومت اگر ایک بار جنرل مشرف کو سزا دلوانے میں کامیاب ہو گئی تو میاں نواز شریف کے قدم پوری طرح مضبوط ہو جائیں گے، آپ اس کے بعد انھیں ہلا نہیں سکیں گے۔
ہم اسحاق ڈار کی کامیابی کی طرف واپس آتے ہیں، ہم ڈار صاحب پر درجنوں اعتراضات کر سکتے ہیں لیکن جہاں تک ان کی خوبیوں کا تعلق ہے ان سے انکار ممکن نہیں، یہ ہر وقت درود شریف کا ورد کرتے رہتے ہیں، یہ اس درود شریف کی برکت ہے، یہ جس کام میں ہاتھ ڈالتے ہیں یہ اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں، یہ صرف اپنی وزارت کا کام نہیں کرتے بلکہ کھاد کی قیمتوں کا تعین ہو، ملک میں کینسر کی ادویات کی سستی ڈلیوری ہو یا پھر وزارت خارجہ کے امور ہوں حکومت کے زیادہ تر کام ان کی میز پر آ جاتے ہیں اور یہ مسئلہ حل بھی کر دیتے ہیں، یہ دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پرہونے کی وجہ سے بلٹ پروف گاڑی استعمال کرتے ہیں مگر یہ واحد وزیر ہیں جنہوں نے بلٹ پروف گاڑی اپنی جیب سے خریدی، یہ سرکاری بلٹ پروف گاڑی استعمال نہیں کرتے اور یہ ہفتے میں سات دن صبح سے رات تین تین بجے تک کام کرتے ہیں اور ان کاموں کا کریڈٹ بھی نہیں لیتے، یہ ان کی خوبیاں ہیں .
ہم اب آتے ہیں ڈالر کی قیمت کی طرف! ملک میں جوں ہی ڈالر کی قیمت گری کراچی سے لے کر پشاور تک مختلف قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں، ان قیاس آرائیوں میں کچھ حقیقتیں ہیں اور کچھ افسانے۔ ہم سب سے پہلے حقیقتوں کی طرف آتے ہیں، پاکستان کے تمام ایکسپورٹر اپنی مصنوعات ڈالرز میں بیچتے ہیں، یہ مال بھجواتے ہیں اور یہ رقم ڈالر میں وصول کرتے ہیں، ان لوگوں نے ملک سے باہر اکاؤنٹس کھلوا رکھے ہیں، پاکستان میں جب روپے کی قیمت گرنا شروع ہوئی تو ان لوگوں نے اپنے ڈالرز باہر "ہولڈ" کر لیے، اسحاق ڈار نے ڈالر کی قیمت کم کر کے انھیں پریشان کر دیا چنانچہ یہ لوگ دھڑا دھڑ اپنے ڈالرز پاکستان لانے لگے اور یوں ڈالر آٹھ دن میں 98 روپے پر پہنچ گیا، دوسری حقیقت پٹرول ہے، پاکستان ہر سال 18 بلین ڈالرز کا تیل خریدتا ہے، حکومت نے سعودی عرب کے ساتھ کوئی ایسی ڈیل کی جس کی وجہ سے یہ 18 ارب ڈالر بچ رہے ہیں، اس رقم نے بھی ڈالر پر اثر ڈالا، مارچ کے شروع میں پاکستان کے اکاؤنٹ میں باہر کی دو طاقتوں نے 750 اور 750 ملین ڈالر جمع کرائے، یہ رقم کس نے دی اور کیوں دی، حکومت سرے دست اسے خفیہ رکھ رہی ہے مگر اس ڈیڑھ بلین ڈالر نے ملکی معیشت پر صحت مندانہ اثر چھوڑا، بیمار معیشت صحت یاب ہونے لگی۔
ہم اب آتے ہیں افسانوی قیاس آرائیوں اور افواہوں کی طرف۔ اسلام آباد کے سیاسی اور سفارتی حلقوں میں یہ قیاس آرائی اور افواہ گردش کر رہی ہے، پاکستان ایک برادر اسلامی ملک کو ایک بریگیڈ فوج بھجوا رہا ہے، امریکی فوج اس ملک سے واپس جا رہی ہے لہٰذا اس ملک کو ایک ڈویژن فوج چاہیے، ان کی نگاہ انتخاب پاکستان پر پڑی، افواہ ساز دلیل دیتے ہیں کہ ایک ماہ میں اس ملک کی چار اعلیٰ شخصیات نے پاکستان کا دورہ کیاہے، یہ شخصیات وزیراعظم سے "ون آن ون" ملتی رہیں، ملاقاتوں کے دوران نوٹس تک لینے کے لیے کسی کو نہیں بلایا گیا، صرف ایک ملاقات میں میاں شہباز شریف پانچ منٹ کے لیے شریک ہوئے، یہ ملاقاتیں بار آور ثابت ہوئیں، حکومت نے ڈویژن کے بجائے ایک بریگیڈ فوج دینے کا عندیہ دے دیا، دوسری قیاس آرائی کا تعلق بھی ایک عرب ملک سے ہے، یہ ملک پاکستان سے سابق فوجی بھرتی کرنا چاہتا ہے، یہ پرائیویٹ فوج ہو گی جسے شاید شام کے بارڈر کی حفاظت کی ذمے داری سونپی جائے گی، یہ معاہدہ بھی خفیہ رہے گا، برادر اسلامی ملک کے لوگ آئیں گے اور ریٹائرڈ فوجی بھرتی کر کے چپ چاپ چلے جائیں گے، سفارتی حلقوں کا کہنا ہے، یہ ڈیڑھ بلین ڈالر ان دو ممالک نے ہمارے اکاؤنٹ میں جمع کرائے اور یہ اس ڈیل کا حصہ تھا، یہ قیاس آرائیاں محض قیاس آرائیاں اور افواہیں ہیں یا ان میں کوئی حقیقت بھی ہے، یہ فیصلہ مستقبل میں ہو گا لیکن آج ڈار صاحب کا دن ہے، ڈار صاحب نے جیسے بھی کیا، کمال کر دیا اور تاریخ اب ان سے یہ دن نہیں چھین سکتی، یہ دن ہمیشہ کے لیے ڈار صاحب کا دن رہے گا، ڈار ڈے۔