کارٹرفارمولا
جمی کارٹر امریکا کے 39ویں صدر تھے، یہ 1977ءسے 1981ءتک دنیا کی سپر پاور کے سربراہ رہے، یہ 1924ءمیں جارجیا کے چھوٹے سے گاؤں پلینز میں پیدا ہوئے، زمین دار فیملی کے ساتھ تعلق تھا، والد مونگ پھلی اگاتے تھے، جوانی میں نیوی جوائن کر لی، والد کے انتقال کے بعد کھیتی باڑی شروع کر دی، یہ بھی مونگ پھلی اگانے لگے، امریکا میں ساٹھ کی دہائی میں کالوں کے حقوق کی تحریک شروع ہوئی، جمی کارٹر سیاہ فاموں کے رائیٹس کے لیے سیاست میں کود پڑے اور پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔
جارجیا کے گورنر بنے اور پھر چلتے چلتے امریکا کے صدر بن گئے، یہ 1981ءمیں دوسری مرتبہ منتخب نہ ہو سکے اور یہاں ان کا سیاسی کیریئر ختم ہو گیا مگر اس ناکامی کے بعد ایک نئے جمی کارٹر نے جنم لے لیا، پلینز کے چھوٹے سے زمین دار نے کارٹر سنٹر کے نام سے این جی او بنائی اور معاشرے کی فلاح وبہبود کا سلسلہ شروع کر دیا، یہ زمانہ ان کے صدارتی دور سے کہیں زیادہ پراثر ثابت ہوا، یہ پوری دنیا میں مشہور ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ انہیں 2002ءمیں امن کا نوبل انعام پیش کر دیاگیا، نوبل انعام کے بعد جمی کارٹر کا خدمات کا کیریئر بھی ختم ہو گیا اور انہیں بظاہر اب ریٹائر ہو جانا چاہیے تھا لیکن یہاں سے ایک چوتھے جمی کارٹر نے جنم لے لیا، یہ استاد بن گئے، جمی کارٹر نے اپنے گاؤں کا چھوٹا سا چرچ پسند کیا اور یہ وہاں اتوار کے دن لیکچر دینے لگے اور کمال کر دیا، یہ اس وقت 96 برس کے ہیں اور امریکا کی تاریخ کے سینئر ترین صدر ہیں لیکن ان کے لیکچرز کی دو ماہ قبل بکنگ ہو جاتی ہے، چرچ میں صرف تیس چالیس لوگوں کی گنجائش ہے مگر ہر اتوار یہاں چار ساڑھے چار سو لوگ جمع ہو جاتے ہیں اور جمی کارٹر کی وزڈم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
جمی کارٹر نے چند ہفتے قبل اپنے ایک لیکچر میں امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک فون کال کا ذکر کیا، ان کا کہنا تھا ڈونلڈ ٹرمپ نے مجھے فون کیا اور مجھ سے پوچھا، سر چین بڑی تیزی سے پوری دنیا کی معیشت پر حاوی ہو رہا ہے، ہم اس کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟ میں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو جواب دیا، آپ سب سے پہلے یہ دیکھیں چین نے یہ ترقی کیسے کی؟ ٹرمپ نے پوچھا، سر کیسے کی؟ میں نے جواب دیا، چین ایک سمارٹ ملک ہے۔ اس نے پچھلے چالیس برسوں میں کوئی جنگ لڑی اور نہ یہ دنیا کے کسی عسکری تنازعے میں پڑا جب کہ ہم چالیس برسوں سے مسلسل جنگیں لڑ رہے ہیں۔
ہم نے سوویت یونین سے طویل کولڈ وار کی، ہم کیوبا اور وینزویلا سے بھی الجھے، ہم افغانستان، عراق اور لیبیا میں بھی کود پڑے، ہم نے خود کو ایران اور کویت میں بھی الجھائے رکھا اور ہم یوگوسلاویہ اور ایسٹ تیمور میں بھی پھنسے رہے چناں چہ ہماری توجہ معیشت سے ہٹ گئی، ہم ایک متحارب قوم بن گئے اور جناب صدر! یہ یاد رکھیں دنیا کی کوئی قوم اتنی جنگوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی لہٰذا میرا مشورہ ہے آپ اگر چین کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو پھر چین کی فلاسفی پر چلے جائیں، آپ جنگیں اور تنازعے ختم کریں اور صرف اور صرف معیشت پر توجہ دیں، آپ چین کے مقابلے کے قابل ہو جائیں گے۔
جمی کارٹر کا یہ تجزیہ سو فیصد درست ہے، جنگیں دنیا کا مہنگا اور سفاک ترین کھیل ہوتی ہیں اور کوئی قوم جب اس کھیل میں کود پڑتی ہے تو پھر یہ کوئی دوسرا کام نہیں کر سکتی، آپ اپنے دائیں بائیں بھی دیکھ لیں، آپ کو دشمنیوں اور لڑائیوں کے شکار خاندانوں کے افراد ان پڑھ، گنوار، بیمار اور پریشان حال ملیں گے، آپ کو یہ خاندان ترقی کے دائرے سے بھی باہر ملیں گے اور یہ عام خاندانوں کی دشمنیوں کا نتیجہ ہے، آپ اس سے جنگوں کے شکار ملکوں کے مستقبل کا اندازہ کر لیجیے۔
جنگیں المیہ ہوتی ہیں لیکن پاکستانی قوم اس سے بھی بڑے المیے کا شکار ہے، ہم 72 برسوں سے نہ صرف سرحدوں پر لڑ رہے ہیں بلکہ ہم نے ملک کے اندربھی بے شمار جنگیں چھیڑ رکھی ہیں، ایک طرف ہمارے تین بارڈر حساس ہیں، پاک بھارت سرحد 72 سال سے گرم ہے، ہم روز یہاں سے کوئی نہ کوئی لاش اٹھاتے ہیں، بھارت بھی اٹھاتا ہو گا، پاک افغان سرحد بھی چالیس سال سے سلگ رہی ہے، ہم نے اپنی فوج کا بڑا حصہ یہاں تعینات کر رکھاہے اور ایران پاکستان سرحد بھی محفوظ نہیں یہاں بھی اکثر اوقات کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے۔
بھارت، افغانستان اور ایران تینوں ملکوں سے پاکستان کے اندر تخریب کاری بھی ہوتی رہتی ہے اور یہ عمل بھی تیس چالیس سال سے مسلسل جاری ہے، ہماری ترقی کا عمل روکنے کے لیے یہ جنگیں ہی کافی تھیں لیکن دوسری طرف ہم نے بدقسمتی سے ملک کے اندر بھی درجنوں مورچے کھول رکھے ہیں، ہم آج تک اپنی کوئی قومی پالیسی تشکیل نہیں دے سکے، ہم ہر دو تین سال بعد پورے ملک کا قبلہ تبدیل کر دیتے ہیں، ہم مسلم امہ سے "سب سے پہلے پاکستان" پر آتے دو منٹ نہیں لگاتے۔
ہم آج تک یہ فیصلہ بھی نہیں کر سکے ملک کس نے چلانا ہے، سپریم ادارہ کون ہے؟ ہم جمہوریت اور آمریت کے درمیان بھی پنڈولم کی طرح ڈول رہے ہیں، ملک ثقافتوں، زبانوں اور روایات کا مربہ بھی بن چکا ہے، ملک کی آدھی آبادی اردو بول اور پڑھ نہیں سکتی، ہم فرقہ واریت کا شکار بھی ہیں، ہمیں ہر دو ماہ بعد ڈبل سواری اور موبائل فون بند کرنا پڑتے ہیں اور ہماری سیاسی جماعتیں بھی ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریباں رہتی ہیں، یہ ایک دوسرے کو سیکورٹی رسک اور غدار قرار دیتے ہوئے ایک منٹ نہیں لگاتیں اور اب قومی ادارے بھی ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوچکے ہیں۔
آپ سندھ پولیس کا تازہ بحران دیکھ لیں، آئی جی سندھ کو رات چار بجے گھر سے لے جایاگیا اور کیپٹن صفدر کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے اور گرفتار کرنے کا حکم دیا گیا، آئی جی نے صبح ساڑھے سات بجے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو بتایا، وزیراعلیٰ نے انہیں خاموش رہنے کا حکم دے دیا، یہ ایشو سارا دن چلتا رہا، اگلے دن پولیس کے اعلیٰ حکام وزیراعلیٰ سے ملے اور شدید احتجاج کیا، وزیراعلیٰ نے انہیں تسلی دی لیکن پریس کانفرنس کے دوران آئی جی کا نام تک نہ لیا۔
صحافیوں کو بھی سوال کرنے سے روک دیا گیا، آئی جی مشتاق مہر یہ بے عزتی برداشت نہ کر سکے اور چھٹی پر جانے کا فیصلہ کر لیا، مشتاق مہر ایک ایمان دار اور دبنگ افسر ہیں چناں چہ پولیس فورس ان کے ساتھ کھڑی ہو گئی، سات ایڈیشنل آئی جیز اور 20 ڈی آئی جیز نے بھی چھٹی کی درخواست دے دی، ایڈیشنل آئی جی عمران یعقوب منہاس نے آغاز کیا، عمران یعقوب منہاس نے اپنی درخواست سوشل میڈیا پر بھی جاری کر دی، یہ "ٹو مچ" تھا لہٰذا پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس پولیس فورس کا ساتھ دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا۔
بلاول بھٹو نے پریس کانفرنس کی اور براہ راست آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سے نوٹس لینے کا مطالبہ کر دیا، یہ آئی جی کے گھر بھی گئے یوں ایک معمولی سے ایشو نے پولیس اورفوج کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا جس سے ثابت ہو گیا ملک کے اندر اداروں کی لڑائی بھی شروع ہو چکی ہے، یہ لڑائی آنے والے دنوں میں مزید بھی بڑھے گی، کیوں؟ کیوں کہ حکومت نے پی ڈی ایم توڑنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کو ساتھ ملانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
یہ کراچی پیکج سندھ حکومت کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہے، یہ جزیروں کا ایشو بھی سیٹل کر دے گی، اومنی گروپ کے مقدمات بھی "سلو ڈاؤن" ہو جائیں گے، این ایف سی ایوارڈ میں بھی سندھ کو حصہ مل جائے گا جس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی پی ڈی ایم سے الگ ہو جائے گی اور اس کے بعد ملک میں مزید گند پڑ جائے گا، پردے مزید ہٹ جائیں گے۔ ہمیں آج یہ ماننا ہوگا یہ صورت حال حکومت کی بیڈ گورننس نے پیدا کی اور عسکری اداروں کو مجبوراً آگے آنا پڑ گیا۔
آج ملک کا ہر ادارہ کنفیوژن اور بدانتظامی کا شکار ہے اور ادارے چلانے کے لیے ان لوگوں کو میٹنگ میں بیٹھنا پڑرہا ہے جن کا سرے سے یہ کام نہیں ہے، حکومت کو چلانے کے لیے چند مزید اقدامات بھی کیے جارہے ہیں، آنے والے دنوں میں پوری ٹاپ بیورو کریسی بدل دی جائے گی، وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کوبھی تبدیل کر دیا جائے گا اور کابینہ میں بھی تبدیلیاں ہوں گی لیکن سوال یہ ہے اگر ان تبدیلیوں کے باوجود حالات نہ بدلے تو پھر کیا ہو گا؟
پھر جو بھی ہو گا وہ ملک کے لیے بہت برا ہو گالہٰذا ہمیں سوچنا ہوگاہم اگر یہ ملک بچانا اور چلانا چاہتے ہیں تو پھر میری درخواست ہے آپ کارٹر فارمولے پر چلے جائیں، آپ بیرونی اور اندرونی دونوں تنازعے ختم کر دیں کیوں کہ ہم بیک وقت دو دو جنگوں کے متحمل نہیں ہو سکتے، آپ یہ فیصلہ بھی کر لیں ملک کس نے چلانا ہے؟ ہم اگر آمریت کے ذریعے بچ سکتے ہیں تو آپ بے شک ملک میں تیس چالیس سال کے لیے مارشل لاءلگا دیں، ہمیں اگر کوئی ارطغرل غازی چاہیے تو آپ ملک میں بے شک خلافت قائم کر دیں اور ہمیں اگر جمہوریت بچا سکتی ہے تو پھر آپ جمہوریت کو پھلنے اور پھولنے کا موقع دیں۔
ملک چل پڑے گا ورنہ دوسری صورت میں ہم باہر اور اندر دونوں محاذوں پر لڑتے لڑتے ختم ہو جائیں گے۔ فیصلے کی گھڑی آ چکی ہے، آپ خود کر لیں گے تو ٹھیک ورنہ دوسری صورت میں وقت ہمیں مزید وقت نہیں دے گا، یہ ہمیں روند کر آگے نکل جائے گا۔