کیمبرج اینالیٹیکا
یہ بنیادی طور پر تین نوجوانوں کا پراجیکٹ تھا، ان کا نام نائیجل اوکس (Nigel Oakes)، الیگزینڈر نکس (Alexender Nix) اور الیگزینڈر اوکس (Alexander Oakes) تھا، یہ تینوں برطانوی ہیں اور ڈیٹا اور گلوبل الیکشن مینجمنٹ کے ایکسپرٹ ہیں۔
میں بات آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو یہ بتاتا چلوں دنیا کی تمام بڑی ڈیٹا کمپنیاں اپنی سروسز فری دیتی ہیں، آپ گوگل اور فیس بک کوہی لے لیجیے، گوگل کی برینڈ ویلیو 323 بلین ڈالر ہے، یہ کتنی بڑی رقم ہے آپ اس کا اندازہ صرف ایک حقیقت سے لگا لیجیے، پاکستان نے اپنی کل معیشت بچانے کے لیے سعودی عرب سے تین بلین ڈالر قرض لیا تھا، سعودی عرب ایک بلین ڈالر واپس لے چکا ہے، یہ دو بلین ڈالر واپس مانگ رہا ہے اور ہم یہ کمی پوری کرنے کے لیے چین سے مدد مانگ رہے ہیں جب کہ دوسری طرف گوگل صرف اپنا نام اور لوگو بیچ دے تو اسے 323 بلین ڈالر مل جائیں۔
گوگل میں ایک لاکھ20 ہزار لوگ ملازم ہیں، فیس بک کی برینڈ ویلیو 40 بلین ڈالر ہے اور اس میں 52ہزار 500لوگ کام کرتے ہیں جب کہ یہ دونوں ادارے پوری دنیا کو فری سروسز دیتے ہیں، اب سوال یہ ہے یہ دونوں ادارے اپنے اربوں ڈالر کے اخراجات کیسے پورے کرتے ہیں اور ان کی برینڈ ویلیو کیسے بڑھ رہی ہے؟ بات سیدھی ہے یہ ادارے اپنے صارفین کا ڈیٹا بیچتے ہیں، ہم جب یہ ایپلی کیشنز استعمال کرتے ہیں تو ہمارے کوائف ان کے پاس آ جاتے ہیں، ہماری پسند اور ناپسند بھی ان کے سرور میں چلی جاتی ہے۔
یہ بعدازاں یہ معلومات مختلف برینڈز کو فروخت کرتے ہیں اور اس سے اربوں ڈالر کماتے ہیں، یہ کاروبار ڈیٹا بزنس یا ڈیٹا انیلیسز بزنس کہلاتا ہے اور یہ تینوں نوجوان اس بزنس سے وابستہ ہیں، یہ لندن میں بیٹھ کر ایس سی ایل (SCL) کے نام سے ڈیٹا کمپنی چلا رہے تھے، یہ الیکشن مینجمنٹ کا کام کرتے تھے، یہ سیاسی جماعتوں کو ووٹروں کا ڈیٹا بھی نکال کر دیتے تھے اور انھیں ووٹروں کے رجحانات کے بارے میں بھی بتاتے تھے، 2013میں کنزرویٹو پارٹی کا ایک سابق وزیر جوناتھن پیٹر مارلینڈ(Jonathan Peter Marland) ان کے ساتھ مل گیا۔
مارلینڈ نے بعد ازاں ارب پتی بزنس مین ونسنٹ ٹینگوئز (Vincent Tchenguiz) کو راضی کیا، اس نے امریکا کے سرمایہ کار رابرٹ مرسر (Robert Mercer) کو قائل کیا، ان دونوں نے ایس سی ایل میں سرمایہ کاری کی، برطانیہ میں کیمبرج اینا لیٹیکا (Cambridge Analytica) کے نام سے ایک نئی کمپنی رجسٹرڈ ہوئی، اس کمپنی نے لندن، نیویارک اور واشنگٹن میں دفتر بنائے اور 2014میں امریکا کے کانگریس اور سینیٹ کے 44 حلقوں پر کام شروع کر دیا، یہ لوگ فیس بک پر جعلی اکاؤنٹ بنا کر اس حلقے کے ووٹروں کا ڈیٹا چراتے تھے، ووٹروں کے رجحانات کا تجزیہ کرتے تھے اورپھر انھیں ان کے رجحانات کے مطابق اپنے امیدواروں کی تصویریں، اشتہار اور فلمیں دکھاتے تھے، مثلاًآپ فرض کیجیے فلپ ایک ووٹر ہے اور یہ کتوں میں خصوصی دل چسپی رکھتا ہے۔
کیمبرج اینالیٹیکا اس کے فیس بک، ای میل اور واٹس ایپ پر اپنے امیدوار کی صرف ایسی تصویریں دکھاتا تھا جس میں وہ فلپ کی مرضی کے کتوں کے ساتھ کھڑا ہوتا تھا چناں چہ وہ اس امیدوار میں دل چسپی لینا شروع کر دیتا تھا اور یوں یہ اسے ووٹ دے دیتا تھا، کیمبرج اینا لیٹیکا نے اس تکنیک کے ذریعے 44 حلقوں میں اپنے کلائنٹس کو الیکشن جتوا دیا، یہ ایک بڑی کام یابی تھی، 2015 میں ٹیکساس کے ٹیڈ کروز (Ted Cruz) صدارتی ریس میں اترے، ٹیڈ نے کیمبرج اینالیٹیکا کی سروسز حاصل کیں اور یہ بڑی تیزی سے اوپر آتے چلے گئے لیکن یہ بدقسمتی سے آخری سیڑھی پر نہ پہنچ سکے مگر یہ آئیڈیا ٹیڈ سے ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس چلا گیا اور ڈونلڈ ٹرمپ نے 2015 میں کیمبرج اینا لیٹیکا کی سروسز حاصل کر لیں۔
کمپنی نے امریکا میں فیس بک پر دو لاکھ 70 ہزار اکاؤنٹس بنائے، ان کے ذریعے 8 کروڑ 70 لاکھ امریکی ووٹرز کا ڈیٹا حاصل کیا اور ان لوگوں کو ٹرمپ کے انجیکشن لگانا شروع کر دیے، یہ لوگ ہندوؤں کو ٹرمپ کے صرف ہندوازم کے بارے میں خیالات سناتے اور دکھاتے تھے، سیاہ فام باشندوں کو سیاہ فاموں کے حقوق کے بارے میں ٹرمپ کی پالیسی سناتے تھے، شہداء کی فیملیز کو ٹرمپ کے عراق اور افغانستان سے فوجوں کی واپسی کے اعلانات پہنچاتے اور گورے شہریوں کو ٹرمپ کے گورا ازم کے بارے میں معلومات دیتے تھے۔
لوگ گلیوں میں نکلتے تھے یا یہ ٹیلی ویژن دیکھتے تھے تو انھیں ہیلری پاپولر دکھائی دیتی لیکن یہ جب موبائل یا کمپیوٹر کھولتے تھے تو انھیں ہر طرف ٹرمپ ہی ٹرمپ دکھائی دیتے تھے، اس کا یہ نتیجہ نکلا، 9نومبر 2016 کو ڈونلڈ ٹرمپ خلاف توقع جیت گئے اور ہیلری کلنٹن ہار گئی، ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت حیران کن تھی چناں چہ جب میڈیا نے سرچ شروع کی تو کیمبرج اینا لیٹیکا سامنے آ گئی اور جب اس پر تحقیق کی گئی تو کھرا فیس بک تک چلا گیا یوں مارک زکر برگ کے خلاف تحقیقات شروع ہو گئیں، تحقیقات کے دوران پتا چلا کیمبرج اینالیٹیکا کی کارستانیاں صرف امریکا تک محدود نہیں تھیں بلکہ اس نے بریگزٹ کا ایشو بھی مینج کیا تھا۔
اس نے صرف انٹرنیٹ کی مدد سے برطانیہ کو یورپی یونین سے الگ کر دیا تھا، یہ بھی پتا چلا کیمبرج اینالیٹیکا اب تک سوشل میڈیا کے ذریعے 68 ملکوں کے 200 الیکشنز میں دھاندلی کرا چکی ہے اور ان ملکوں میں آسٹریلیا، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، ملائیشیا، کولمبیا، سائپرس، زمبابوے، ساؤتھ افریقہ، رومانیہ، اٹلی، لتھونیا، مالٹا، چیک، کینیا، میکسیکو، نائیجیریا، فلپائن، برازیل، بھارت اور پاکستان بھی شامل ہیں، کیمبرج اینالیٹیکا کی بنیادی کمپنی ایس سی ایل نے 2010 میں بہار کا ریاستی الیکشن چوری کرایا تھا۔
اس نے فیس بک کے 355 جعلی اکاؤنٹس بنا کر بہار کے پانچ لاکھ 62 ہزار 4سو 53 ووٹروں کا ڈیٹا لیا تھا اور یہ ووٹر جنتا دل کے امیدوار نیتش کمار کے کھاتے میں ڈال دیے تھے اور یہ جیت گیا تھا، ایس سی ایل اور بعدازاں کیمبرج اینا لیٹیکا نے نریندر مودی کو بھی جتوایا تھا، برطانیہ کے تحقیقاتی اداروں نے جب کیمبرج اینالیٹیکا کا ڈیٹا حاصل کیا تو پتا چلا یہ کمپنی 68 ملکوں میں کام کر چکی ہے اور ان ملکوں میں پاکستان بھی شامل ہے، کیمبرج اینالیٹیکا نے 2018 کے الیکشنز میں ایک سیاسی جماعت کو سروسز فراہم کی تھیں۔
یہ جماعت کون تھی آپ اس کے لیے کمپنی کے چیف فنانسر ونسنٹ ٹینگوئز کے دوستوں کی فہرست نکال کر دیکھ لیں آپ کو مزید معلومات کی ضرورت نہیں رہے گی بہرحال یہ سکینڈل سامنے آیا اور کیمبرج اینالیٹیکا پر پابندی لگ گئی مگر آپ اگر آج بھی گوگل پر کمپنی کو سرچ کریں تو آپ کو 68 ملکوں کی فہرست میں پاکستان کا نام بھی مل جائے گا، آپ کو یاد ہو گا پاکستان میں 2014 کے بعد اچانک سوشل میڈیا دہشت گردی کا آغاز ہو گیا تھا، سیاست دانوں اور صحافیوں کو بے تحاشا نشانہ بنایا گیا تھا، وہ ایک خوف ناک دور تھا۔
اس دور میں ہر معزز شخص کو ننگا کر کے حمام میں دھکیل دیا گیا تھا اوریہ کام کون کر رہا تھا؟ یہ سارا کیمبرج اینا لیٹیکا کا کمال تھا، یہ اپنے کلائنٹس کو ڈیٹا بھی نکال کر دیتی تھی اور یہ پھر اس سیاست دان، افسر اور صحافی کے خلاف مواد کو ہر وال پر پھینک دیتی تھی اور یوں چند منٹوں میں پورا ملک اس شخص کو گالیاں دے رہا ہوتا تھا، یہ رجحان 2018 کے بعد کم ہوتا چلا گیا، کیوں؟ کیوں کہ کیمبرج اینالیٹیکا بھی بند ہو گئی اور اس کی سروسز بھی ختم ہو گئی تھیں۔
ہم اب امریکا کے حالیہ الیکشن کی طرف آتے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ یہ الیکشن بری طرح ہار گئے اور جوبائیڈن جیت گئے، ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے یہ ہار تسلیم کرنا مشکل ہے، کیوں؟ کیوں کہ یہ سمجھ رہے ہیں میں نے 2016 کے الیکشن میں اپنے ووٹرز سے جو وعدے کیے تھے میں نے وہ سارے پورے کر دیے تھے، میں امریکی تاریخ کا واحد صدرہوں جس نے ملک میں سفید فام لوگوں کا مقدمہ لڑا، میں نے سفید فام امریکی عوام کی خواہش پر غیرملکی مہاجرین کا راستہ روکا، مسلمانوں کو ملک بدر کرنا شروع کیا اور" امریکا امریکیوں کا" کا نعرہ لگایا، میں امریکا کے دس صدور میں سے واحد صدر ہوں جس کے دور میں امریکا کسی نئی جنگ میں نہیں کودااور میں نے فوجوں کی واپسی کا سلسلہ بھی شروع کرایا لیکن میں اس کے باوجود الیکشن بھی ہار گیا اور عوام میری ہار کا جشن بھی منا رہے ہیں۔
کیوں؟ کیا یہ عجیب بات نہیں! یہ واقعی عجیب بات ہے لیکن اس سے بھی بڑی عجیب بات 77سال کے بزرگ جوبائیڈن کا جیت جانا ہے، امریکی عوام بزرگ سیاست دانوں کی بجائے نوجوان لیڈروں کو پسند کرتے ہیں لیکن امریکی عوام نے اس بار اپنی فطرت کے خلاف جوبائیڈن کو ووٹ دے کر پوری دنیا کو حیران کر دیا، ٹرمپ بھی اس وقت حیران ہیں، یہ امریکی تاریخ کے 11 ویں صدر ہیں جو دوسری مرتبہ صدر نہیں بن سکے، آخری صدر جارج بش سینئر تھے۔
عوام نے انھیں عراق جنگ کی وجہ سے 1992 میں دوسری بار صدر منتخب نہیں کیا تھا، ٹرمپ 28 برس بعد اس انجام کا نشانہ بنے چناں چہ ان کی حیرت بجا ہے لیکن کیوں؟ بات سیدھی اور واضح ہے، اس بار ٹرمپ کے پیچھے کیمبرج اینالیٹیکا نہیں تھی، ٹرمپ ووٹروں پر اپنا جادو نہیں چلا سکے۔
ٹرمپ کے بعد اب مودی کی باری ہے، یہ بھی اب کیمبرج اینا لیٹیکا کے بغیر سیاست پر مجبور ہیں چناں چہ یہ بھی بری طرح بدنام ہو رہے ہیں تاہم اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے عمران خان کسی کے محتاج نہیں ہیں، عوام ان سے حقیقتاً محبت کرتے ہیں لہٰذا ملک میں اگر بیڈ گورننس، مہنگائی اور سیاسی حماقتوں میں مزید سوگنا اضافہ ہو جائے تو بھی حکومت کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں ہو گی، عوام اپنے کپتان سے اسی طرح پیار کرتے رہیں گے، کیوں؟ کیوں کہ عوام کا یہ پیارحقیقی ہے، یہ کسی کیمبرج اینالیٹیکا اور کسی ونسنٹ ٹینگوئز کا محتاج نہیں۔