بات غلط نہیں
مجھے فرنچ نہیں آتی لیکن اخبار کی تصویر اور اس تصویر کے اوپر چھپے اعداد و شمار سمجھنے کے لیے فرنچ جاننا ضروری نہیں تھا، یہ 7 مئی 2012ء کا دن تھا، فرانس میں صدارتی الیکشن مکمل ہوئے، اخبار میں پولنگ کی تصویریں چھپی تھیں اور ساتھ لکھا تھا 17%۔ میں سمجھ گیا الیکشن میں 17 فیصد لوگوں نے ووٹ نہیں دیا، میں نے یہ اندازہ کیسے لگایا؟ اس اندازے کی وجہ برادرم عقیل نقوی ہیں، عقیل صاحب اسلام آباد کے فرانسیسی سفارت خانے میں کام کرتے ہیں۔
پاکستان کے پچھلے سے پچھلے الیکشن کے دوران فرانس کا ایک نوجوان سفارت کار اسلام آباد میں تعینات ہوا، یہ ایمبیسی کے پبلک افیئرز ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتا تھا، یہ کسی پاکستانی صحافی سے ملنا چاہتا تھا، عقیل نقوی نے میری اس سے ملاقات کرا دی، گفتگو کے دوران نوجوان سفارت کار نے پوچھا " پاکستان میں الیکشن ہو رہے ہیں، ملک میں ٹرن آؤٹ کتنا ہوگا" میں نے جواب دیا "پینتیس سے چالیس فیصد" اس نے افسوس سے سر ہلایا اور کہا " اگر 60 فیصد لوگ ووٹ نہیں دیں گے تو آپ کے ملک میں جمہوریت کیسے مستحکم ہو گی" نوجوان سفارت کار نے اس کے بعد انکشاف کیا، ہمارے ملک میں الیکشن کے بعد اخبارات میں یہ سرخیاں نہیں لگتیں فرانس کے کتنے ووٹروں نے ووٹ دیے بلکہ ہماری سرخیاں ہوتی ہیں، ہمارے کتنے ووٹروں نے ووٹ نہیں دیے اور ہماری حکومت ہر الیکشن کے بعد ووٹ نہ دینے والے شہریوں کا تجزیہ کرتی ہے اور ہم پالیسی بناتے ہیں، ہم اگلے الیکشن میں ان ووٹروں کوووٹ کاسٹ کرنے پر کیسے مجبور کریں؟ " نوجوان سفارت کار کی یہ بات میرے ذہن میں بیٹھ گئی چنانچہ میں اخبار اٹھاتے ہی سمجھ گیا الیکشن میں 17 فیصد لوگوں نے ووٹ کاسٹ نہیں کیے ہیں۔
دنیا کے تمام ممالک ووٹ، ووٹروں اور الیکشن کے بارے میں حساس ہیں، کیوں؟ کیونکہ یہ جانتے ہیں، عوام جب تک حکومت سازی کے عمل کا حصہ نہیں بنتے ملک میں اس وقت تک اچھی حکومت نہیں آتی اور ملک میں جب تک اچھی حکومت نہ آئے اس وقت تک عوام کے مسائل حل نہیں ہوتے چنانچہ تمام ممالک زیادہ سے زیادہ عوام کو حکومت سازی کے عمل میں شریک کرتے ہیں، سوائے ہمارے۔ ہم الیکشن، ووٹر اور ووٹ پر اتنی توجہ کیوں نہیں دیتے؟ اس سوال کا جواب بہت واضح ہے، ہمارا آمرانہ ذہن جانتا ہے، ہمارے ملک میں جب بھی انتخابی اصلاحات ہوں گی اس دن ہماری آمرانہ سوچ، آمرانہ جمہوریت اور آمرانہ لیڈر شپ کا بستر گول ہو جائے گا، ملک میں اس کے بعد فوج آ سکے گی اور نہ ہی خاندانی سیاسی جماعتیں "باریاں " لگا سکیں گی اور یہ ریاستی اداروں کو "وارہ" کھاتا ہے اور نہ ہی شمشیر ابن شمشیر ابن شمشیر لیڈروں کو چنانچہ ملک میں الیکشن اصلاحات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ مجھے پچھلے ماہ بھارت جانے کا اتفاق ہوا، بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔
بھارت کے 81 کروڑ چالیس لاکھ ووٹر ہر پانچ سال بعد اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں، بھارت کا الیکشن سسٹم خاصا متاثر کن ہے، ہم اگر ملک میں فرنچ، برٹش، امریکن یا آسٹریلین الیکشن سسٹم نافذ نہیں کرسکتے تو نہ کریں مگر ہم اپنے ہمسائے سے بے شمار چیزیں سیکھ سکتے ہیں، انڈیا کا الیکشن کمیشن خودمختار بھی ہے اور با اختیار بھی۔ یہ الیکشن کے دوران ہر قسم کا حکم جاری کرسکتا ہے اور سرکاری مشینری اس حکم پر عملدرآمد کی پابند ہوتی ہے، بھارت میں الیکشن سے قبل نگران حکومت نہیں بنتی، پرانی حکومت چلتی رہتی ہے، صدر، وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ اپنے عہدوں پر فائز رہتے ہیں، یہ خود مختار الیکشن کمیشن کی وجہ سے الیکشن پر ایک فیصد اثر انداز نہیں ہو پاتے، انڈیا میں 28 ریاستیں (صوبے) ہیں، وفاقی اسمبلی (لوک سبھا) کے الیکشن مختلف ریاستوں میں مختلف اوقات میں ہوتے ہیں، موجودہ الیکشن کا پہلا مرحلہ 7 اپریل کو شروع ہوا تھا اور آخری مرحلہ کل 12مئی کو مکمل ہوا، الیکشن کمیشن 16 مئی کو نتائج کا اعلان کرے گا۔
81 کروڑ چالیس لاکھ ووٹروں کے انگوٹھوں اور انگلیوں کے نشان الیکشن کمیشن کے ڈیٹا بینک میں موجود ہیں، ووٹر پولنگ اسٹیشن پر جاتا ہے، مشین پر اپنی انگلی رکھتا ہے اور اس کا ووٹ کھل جاتا ہے، اسکرین پر امیدواروں کے نام اور انتخابی نشان بھی آ جاتے ہیں، یہ انگلی سے کسی ایک انتخابی نشان کو ٹچ کر دیتا ہے اور اس کا ووٹ کاسٹ ہو جاتا ہے، یہ اس کے بعد ملک کے کسی حصے میں دوبارہ ووٹ نہیں ڈال سکتا، مشین دوسری بار اس کا ووٹ قبول نہیں کرتی، کسی سیاسی جماعت کو نتائج پر اعتراض ہو تو یہ فیس جمع کرا کر پورا ڈیٹا دیکھ سکتی ہے، ملک کا ایک ایک ووٹ اس کے سامنے آ جاتا ہے، سیاسی جماعتیں اور امیدوار حلقے میں بینر لگا سکتے ہیں، پوسٹر لگا سکتے ہیں اور نہ ہی چاکنگ کر سکتے ہیں۔ میں چار شہروں میں گیا، مجھے کسی جگہ کوئی بورڈ، جھنڈا، بینر اور پوسٹر نظر نہیں آیا، پتہ کیا، معلوم ہوا، جو امیدوار یہ غلطی کرتا ہے وہ الیکشن سے پہلے الیکشن سے فارغ ہو جاتا ہے.
امیدوار حلقوں میں جلسے بھی نہیں کر سکتے، جلوس بھی نہیں نکال سکتے اور ریلیاں بھی منعقد نہیں کر سکتے، یہ سہولت صرف سیاسی جماعتوں کے قائدین کو حاصل ہے، یہ مختلف حلقوں میں جاتے ہیں، یہ جلسہ کرتے ہیں، یہ خطاب کرتے ہیں اور اس حلقے کا امیدوار اس خطاب اور جلسے میں شریک ہوتا ہے، یہ صرف اپنے قائد کی موجودگی میں خطاب کرسکتا ہے، الیکشن کے دوران تشہیر کا سارا کام ٹیلی ویژن چینلز کے ذریعے ہوتا ہے، ملک کی تمام ریاستوں میں مقامی ٹیلی ویژن چینلز ہیں، پارٹیاں ان چینلز پر اشتہارات دیتی ہیں، قومی سطح کے چینلز پر بھی اشتہارات دیے جاتے ہیں، ان اشتہارات پر کوئی قدغن نہیں چنانچہ تمام سیاسی جماعتیں جی بھر کر اس سہولت کا فائدہ اٹھاتی ہیں، امیدوار اگر پریس کانفرنس کرنا چاہیں تو یہ صرف سرکٹ ہاؤس میں کر سکتے ہیں، امیدوار اپنا منشور بتانے کے لیے حلقے کے صرف ہزار لوگ اکٹھے کر سکتے ہیں، اگر تعداد زیادہ ہو جائے تو ان کے خلاف کارروائی شروع ہو سکتی ہے۔
ہم اگر بھارتی الیکشن کمیشن کا مطالعہ کریں تو ہمیں اس میں تین خوبیاں نظر آتی ہیں، ایک، الیکشن مختلف ریاستوں میں مختلف اوقات میں ہوتے ہیں، اس سے الیکشن کمیشن کو نتائج جمع کرنے میں سہولت ہوتی ہے، یہ ایک مرحلہ مکمل کرنے کے بعد دوسرے مرحلے کی طرف بڑھتے ہیں، یوں عملہ بھی کم درکار ہوتا ہے اور وسائل بھی کم خرچ ہوتے ہیں، دو، بائیو میٹرک سسٹم کی وجہ سے دھاندلی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں، کم وقت میں زیادہ ووٹ بھگت جاتے ہیں، پولنگ اسٹیشنز پر زور آزمائی اور دھونس کے واقعات بھی نہیں ہوتے، پولنگ اسٹیشنز پر ووٹوں کی گنتی نہیں ہوتی، ووٹ سینٹرل ڈیٹا میں چلے جاتے ہیں اور کمپیوٹر ان کی کاؤنٹنگ کرتا ہے یوں پولنگ اسٹیشنوں پر ہیرا پھیری کا امکان ختم ہو گیا۔
ملک میں غیر حتمی نتائج کا اعلان نہیں ہوتا، الیکشن کمیشن ایک ہی مرتبہ اعلان کرتا ہے اور یہ اعلان حتمی ہوتا ہے، اس حتمی اعلان سے قبل ہر قسم کا اعلان غیر قانونی ہوتا ہے۔ تین امید وار پوسٹروں، بینروں، جلوسوں اور جلسوں سے ووٹروں کو متاثر نہیں کرسکتے، یہ صرف اور صرف "مین ٹو مین" ریلیشن سے ووٹ مانگ سکتے ہیں، یہ الیکشن سے مہینوں اور بعض اوقات برسوں قبل اپنی انتخابی مہم شروع کرتے ہیں، یہ ایک ایک شخص کے پاس جاتے ہیں یوں یہ اپنے ووٹروں سے واقف ہو جاتے ہیں اور ووٹر ان کی شخصیت سے پوری طرح آگاہ ہو جاتے ہیں چنانچہ امیدوار اور ووٹر کا بانڈ زیادہ مضبوط ہوجاتا ہے، بھارت میں لوگ صرف امیدوار کو ووٹ نہیں دیتے، یہ پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں اور یوں پارٹی اپنے منشور پر عمل درآمد کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
ہمیں پاکستان میں سنجیدگی کے ساتھ الیکشن اصلاحات کی ضرورت ہے، عمران خان کا مطالبہ غلط نہیں، ہمارے انتخابی نظام میں حقیقتاً درجنوں سوراخ ہیں اور عوامی مینڈیٹ ہر بار ان سوراخوں سے باہر گر جاتا ہے، حکومت کو چاہیے یہ فوری طور پر اعلیٰ سطحی کمیشن بنائے اور یہ کمیشن الیکشن اصلاحات کرے، ہمارے نادرا کے پاس جدید ترین نظام اور سافٹ ویئر موجود ہیں، حکومت بڑی آسانی سے الیکشن سسٹم کو کمپیوٹرائزڈ کر سکتی ہے، الیکشن کمیشن کو آزاد امیدواروں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، امیدواروں کا کسی نہ کسی جماعت کے ساتھ وابستہ ہونا ضروری قرار دیا جائے کیونکہ آزاد امیدوار کامیاب ہونے کے بعد گھوڑے بن جاتے ہیں اور یہ گھوڑے حکومت بننے سے قبل حکومت کو کرپٹ کر دیتے ہیں۔
انتخابی مہم کو بھارت کی طرح ٹیلی ویژن چینلز تک محدود کیا جائے تاکہ ملک بورڈوں، جلوسوں، جلسوں، ریلیوں، چاکنگ اور بینروں کی پلوشن سے پاک رہے، الیکشن کا عمل تیس چالیس حصوں میں تقسیم کیا جائے، صوبوں اور وفاق کے الیکشن الگ الگ ہونے چاہئیں، ووٹ کاسٹ نہ کرنے والوں کے لیے جرمانہ طے کیا جائے اور حکومت بنانے کے لیے کم از کم پچاس فیصد ووٹوں کی حد مقرر کی جائے، 2013ء کے الیکشن میں کل ووٹروں کی تعداد 8 کروڑ 61 لاکھ تھی۔
مسلم لیگ ن نے ایک کروڑ 48 لاکھ ووٹ حاصل کیے، یہ کل ووٹوں کا 32 فیصد بنتا ہے، ہم 32فیصد کو ہیوی مینڈیٹ کہتے ہیں جب کہ 68 فیصد لوگ میاں نواز شریف کو مسترد کر چکے ہیں، آج افغانستان میں بھی صدر کے لیے پچاس فیصد ووٹ ضروری ہوتے ہیں مگر ہم 32 فیصد ووٹ لینے والوں کو ہیوی مینڈیٹ دے کر حکومت بنانے کا اختیار دے دیتے ہیں، کیا یہ غلط نہیں؟ ہمیں الیکشن کمیشن پر فوری طور پر توجہ دینا ہوگی ورنہ دوسری صورت میں ہمارے ہر الیکشن کے بعد دھاندلی کا الزام بھی لگے گا اور ہماری ہر حکومت کو دھرنوں، ریلیوں اور جلوسوں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
میاں صاحب اگر ٹھنڈے دل سے غور کریں تو انھیں محسوس ہو گا عمران خان غلط نہیں کہہ رہے! یہ بات، یہ مطالبہ غلط نہیں۔