اپنا گریبان چاک
"اسی طرح کوئی فوجی کرنل کسی کرمنل کیس میں ملوث تھا، معاملہ جسٹس شمیم حسین قادری کے سامنے پیش ہوا، جسٹس صاحب نے کرنل کو برا بھلا کہہ دیا، ذوالفقار علی بھٹو نے چیف جسٹس سردار اقبال کو اسلام آباد طلب کیا اور ان سے کہا، آپ اپنے جج صاحبان کو سنبھالیے، ہم ابھی جنگل سے باہر نہیں نکلے، سردار اقبال نے جسٹس شمیم قادری کو بھٹو کا پیغام پہنچا دیا، جسٹس قادری اتنے خوفزدہ ہوئے کہ معافی تلافی کے لیے کمانڈر انچیف جنرل ٹکا خان تک جا پہنچے اور شاید اس کی درازی عمر کے لیے بکرے کی قربانی بھی دی" یہ ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب "اپنا گریبان چاک" کا اقتباس ہے۔
ڈاکٹر صاحب تین اکتوبر 2015ء کو 91 سال کی عمر میں ہم سب کو داغ مفارقت دے گئے، ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب آج سے بارہ سال قبل 2003ء میں شایع ہوئی، وہ جنرل پرویز مشرف کا مارشل لائی دور تھا، میڈیا کہنے کی حد تک آزاد تھا لیکن آزادی کی دیگ پر احتیاط کا ڈھکن چڑھا تھا، خوف کے اس زمانے میں"اپنا گریبان چاک" جیسی کتاب نے تہلکہ مچا دیا، ہم میڈیا کے لوگ ہمیشہ آزادی رائے کے لیے جدوجہد کا پرائیڈ لیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے اگر ملک میں رائے کی تھوڑی بہت آزادی ہے تو اس کا نوے فیصد کریڈٹ ڈاکٹر جاوید اقبال جیسے لوگوں اور ان کی "اپنا گریبان چاک" جیسی کتابوں کو جاتا ہے۔
پاکستان جیسے ملک میں، جس میں لوگ "گھوڑے شاہ" کے مزار کی مٹی اور حضرت بری امامؒ کے بھانبڑ کے نمک کو تعویز بنا لیتے ہوں اور جس میں لوگ مجذوبوں کے لنگر اور گٹر کے پانی کو طب سمجھتے ہوں، اس ملک میں علامہ اقبال کا بیٹا ہونا اور پھر نارمل زندگی گزارنا کمال ہے اور ڈاکٹر صاحب پوری زندگی یہ کمال کرتے رہے، میں کتابوں کا کیڑا ہوں، میری زندگی میں شاید ہی کوئی ایسا دن گزرا ہو گا۔
میں نے جس میں کتاب نہ پڑھی ہو، میں زندگی میں درجنوں مشاہیر سے بھی ملا ہوں لیکن ان میں جاوید اقبال جیسے لوگ اور "اپنا گریبان چاک" جیسی کتابیں بہت کم تھیں مثلاً ملک کا شاید ہی کوئی شخص یہ توقع کرتا ہو علامہ اقبال کا بیٹا اپنی سوانح عمری میں بڑھاپے کے مسائل بتاتے ہوئے یہ بھی لکھ دے گا، بڑھاپے میں مردانگی کی کمی بہت تکلیف دیتی ہے (نوٹ: میں نے یہاں ڈاکٹر صاحب کے اصل الفاظ نہیں لکھے، مجھ میں ان کے لفظ ری پروڈیوس کرنے کی جرأت نہیں) اور حضرت علامہ اقبال کا صاحبزادہ کتاب میں کیمبرج کے دور کی گرل فرینڈز کی تصویریں بھی چھاپ دے گا۔
اس کے لیے حقیقتاً جرأت، بہادری اور ایک خاص قسم کی درویشی چاہیے اور ڈاکٹر جاوید اقبال میں یہ درویشی اور یہ جرأت دونوں کوٹ کوٹ کر بھری تھیں، ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جس میں ہم نے ان ڈاکٹر محمد اقبال کو بھی علامہ، مولانا اور رحمۃ اللہ علیہ بنا دیا جو زندگی بھر مولاؤں اور علاماؤں سے بھاگتے رہے اور جن پر عمر بھر جید علامہ اور مولانا کفر کے فتوے لگاتے رہے، ہم ایک ایسے سماج میں رہ رہے ہیں جس میں ہمارا بس نہیں چلتا ورنہ ہم ڈاکٹر محمد اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویروں پر داڑھی لگا دیں اور ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ بھی ہیں جس میں آمر جعلی ریفرنڈم اور امریکا کو اپنے ہوائی اڈے دینے سے قبل سرکاری قاری سے تلاوت کرواتے ہیں۔
صلح حدیبیہ کی مثال دیتے ہیں اور جارج بش کو اپنا آقا مان لیتے ہیں، اس معاشرے، اس سماج اور اس ملک میں علامہ اقبال کا بیٹا ہو کر نارمل زندگی گزارنا، ایسی بے باک کتاب لکھنا اور کتاب کی اشاعت کے بعد بارہ سال تک بازاروں، کلبوں اور محفلوں میں آتے جاتے رہنا واقعی کمال تھا اور ڈاکٹر جاوید اقبال 91 سال کی عمر تک یہ کمال کرتے رہے، ڈاکٹر جاوید اقبال ہمارے مردہ معاشرے کے چند زندہ لوگوں میں شمار ہوتے تھے، یہ چلے گئے اور ان کے ساتھ ہی زندگی کی وہ قندیل بھی بجھ گئی جو منافقت سے بھرے معاشرے میں اعتدال کی علامت تھی۔
ڈاکٹر صاحب نے لکھا، یحییٰ بختیار بھٹو صاحب کے اٹارنی جنرل تھے، وہ اپنے کسی دوست کو جج بنوانا چاہتے تھے، اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سردار اقبال کو سفارش کی، چیف جسٹس نے جواب دیا "ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ، " اٹارنی جنرل ناراض ہو گئے، جاوید اقبال نے لکھا، 1997ء میں جب چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور میاں نواز شریف کے درمیان لڑائی ہوئی تو میاں نواز شریف کی گھبراہٹ کا یہ عالم تھا کہ یہ جیل جانے کی صورت میں نئے پارٹی لیڈر کے انتخاب کے لیے صلاح مشورے کر رہے تھے، میں نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا، آپ صدر فاروق لغاری کا مواخذہ کر دیں، چیف جسٹس اکیلا ہو جائے گا۔
میری تجویز مان لی گئی، فاروق احمد لغاری نے گھبرا کر استعفیٰ دے دیا اور یوں سارا بحران ٹل گیا، جسٹس جاوید اقبال کی کتاب تاریخی واقعات اور حقائق کا خزانہ ہے، انھوں نے کتاب میں ملک کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان کا بڑی محبت سے ذکر کیا، سر ظفر اللہ خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر اور پاکستان کے مستقل مندوب بھی رہے تھے، جاوید اقبال نے لکھا، سر ظفر اللہ خان وزیر خارجہ کی حیثیت سے بیروت کے دورے پر گئے، بیروت کے پاکستانی سفارتخانے میں ایک فلسطینی چپڑاسی کام کرتا تھا، چپڑاسی نے ایک دن وزیر خارجہ سے عرض کیا، ہم لوگ اسرائیل کے قیام سے پہلے خوشحال تھے لیکن اب ہم پر برا وقت ہے، میری بہن آکسفورڈ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے۔
آپ اگر اس کے ساتھ کاغذی شادی کر لیں تو اس کی فیس معاف ہو جائے گی، وہ جب تعلیم مکمل کر لے تو آپ اس کو طلاق دے دیں، سر ظفر اللہ نے سوچنے کے لیے وقت مانگا، سال گزر گیا، وہ ایک بار پھر بیروت گئے تو چپڑاسی نے دوبارہ درخواست کر دی، سر ظفر اللہ مان گئے، فیصلہ ہوا پاکستان کے وزیر خارجہ خاتون کے ساتھ صرف کاغذی شادی کریں گے، یہ اس کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم نہیں کریں گے، خاتون وظیفے پر آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کرنے لگی، جسٹس جاوید اقبال نے لکھا، میں نیویارک میں اقوام متحدہ کا مشن اٹینڈ کرنے گیا تو سر ظفر اللہ نے ان دنوں اس خاتون کو طلاق دے کر آزاد کر دیا کیونکہ وہ اپنی تعلیم مکمل کر چکی تھی، ڈاکٹر جاوید اقبال نے کینیڈا میں مقیم عالم دین ڈاکٹر فضل الرحمن کا ذکر بھی کیا، ڈاکٹر صاحب نے دعویٰ کیا، وہ علامہ اقبال کے بعد عالم اسلام کے دوسرے بڑے اسکالر تھے، وہ میکگل یونیورسٹی سے وابستہ تھے۔
ڈاکٹر جاوید اقبال ان کے پاس گئے، انھیں بڑی مشکل سے منایا اور انھیں پاکستان لے آئے، جنرل ایوب خان نے انھیں اسلامی نظریاتی کونسل کا سربراہ بنا دیا، ڈاکٹر صاحب نے پاکستان میں مستقل رہائش کا فیصلہ کر لیا، انھوں نے چند مربع زمین بھی خرید لی لیکن پھر پاکستانی علماء نے ان کے خلاف محاذ کھول دیا، یہ تحریک زور پکڑ گئی یہاں تک کہ ڈاکٹر فضل الرحمن امریکا چلے گئے، شکاگو یونیورسٹی سے منسلک ہوئے اور وہیں انتقال فرمایا، اسی طرح ڈاکٹر جاوید اقبال نے پیرس میں ڈاکٹر حمید اللہ سے ملاقات کا احوال بھی لکھا، ڈاکٹر صاحب نے لکھا، میں ایوب خان کا پیغام لے کر ڈاکٹر حمید اللہ کے پاس گیا، ڈاکٹر صاحب ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتے تھے۔
میں نے انھیں ایوب خان کا پیغام دیا اور ان سے عرض کیا "آپ پاکستان تشریف لے آئیں" ڈاکٹر حمید اللہ نے صاف انکار کر دیا، ان کا کہنا تھا، میں جب حیدر آباد دکن سے نکلا تو میں سیدھا پاکستان گیا مگر مجھے پاکستان کے باسیوں نے وہاں آباد نہ ہونے دیا، میرے ساتھ وہی سلوک ہوا جیسا ڈاکٹر عبدالسلام سے کیا گیا تھا، میں اب فرانس میں ہوں، پیرس میں روز چند فرانسیسی میری دعوت پر اسلام قبول کرتے ہیں، مجھے پاکستان آنے کی کیا ضرورت ہے" ڈاکٹر جاوید اقبال نے گورنر جنرل اسکندر مرزا کے ساتھ ایک لنچ کا احوال بھی لکھا، لنچ بہت سادہ اور دلچسپ تھا، اسکندر مرزا اور بیگم ناہید مرزا کے علاوہ کیبنیٹ لاج میں پرنس علی خان، امریکی سفیر اور ان کی اہلیہ اور اصفہانی اور ان کی بیگم لنچ پر موجود تھی۔
اسکندر مرزا محبت سے پیش آئے، ہر مہمان سے میرا تعارف کرایا "مجھے لنچ کے دوران ایک بات بری طرح کھٹکی، وہاں صرف دو زبانوں میں گفتگو ہو رہی تھی، انگریزی یا فارسی۔ مجھے سارا وقت یوں محسوس ہوتا رہا، میرے ملک کے حاکم پاکستانی نہیں ہیں، غیر ملکی ہیں" ڈاکٹر جاوید اقبال نے لکھا، جنرل ایوب خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنا تھا، میں اور بھٹو بھی صدر کے وفد میں شامل تھے، ذوالفقار علی بھٹو اسکندر مرزا کے ذریعے طاقت کے برآمدے میں آئے تھے، وہ اسکندر مرزا کے دور اقتدار میں سردار عبدالرب نشتر کے ذریعے گورنر جنرل ہاؤس کے باورچی خانے میں مرغیاں بھجوایا کرتے تھے، وہ بڑی مشکل سے اسکندر مرزا تک پہنچے، اسکندر مرزا نے انھیں کابینہ میں شامل کیا، ہم یو این کے وفد لاؤنج میں کھڑے تھے۔
اسکندر مرزا اپنی بیگم کے ساتھ گزرے، میں نے انھیں روک کر کافی پلائی، تھوڑی دیر بعد بھٹو وہاں سے گزرے، انھوں نے اسکندر مرزا کو دیکھا تو وہ نظریں چرا کر وہاں سے دوسری طرف نکل گئے، مجھے ان کا یہ رویہ اچھا نہ لگا چنانچہ میں نے بعد ازاں اس سے پوچھا، آپ نے ایسا کیوں کیا، بھٹو نے جواب دیا، میں نے سوچا، کہیں جنرل ایوب خان برا نہ مان جائیں، میں اس لیے اسکندر مرزا سے نہیں ملا، ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی ہمشیرہ منیرہ اقبال کی پیدائش کا واقعہ بھی لکھا "منیرہ کی ولادت زنان خانے کی درمیانی کوٹھڑی میں ہوئی تھی، انگریز ڈاکٹرانی کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔
جب میری والدہ کو بتایا گیا، بیٹی ہوئی ہے تو فوراً بول اٹھیں"ہائے اس کی شادی کس سے ہو گی؟ انھیں (علامہ اقبال کو) تو اس کے لیے کوئی بر پسند نہیں آئے گا" ڈاکٹر صاحب نے کتاب کے پہلے صفحے پر لکھا، میں گیارہ برس کا تھا تو میری والدہ کا انتقال ہو گیا، چودہ برس کا ہوا تو والد فوت ہو گئے، میں نے ان حادثوں سے سیکھا "جب ماں باپ کم عمری میں چل بسیں تو بعد کی زندگی میں کسی بھی عزیز کی موت کا اتنا رنج نہیں ہوتا" یہ اس کتاب کے چند اقتباسات ہیں، ڈاکٹر صاحب نے جتنی بھرپور زندگی گزاری تھی، انھوں نے اس سے زیادہ بھرپور کتاب لکھی، یہ کتاب پاکستان کی سیاسی، فکری اور سماجی تاریخ ہے اور اس تاریخ کے بغیر پاکستان کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکے گی۔
آپ ہمارا کمال دیکھئے، ہم نے قائداعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ کو ایوب خان سے شکست دلوائی جب کہ جاوید اقبال ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں ہار گئے لیکن ہم اس کے باوجود قائد اعظم کو بانی پاکستان اور علامہ اقبال کو مصور پاکستان بھی کہتے ہیں، جو قومیں اپنے بانیوں کے خاندانوں کو عزت نہیں دیتیں وہ اسی طرح در در بھٹکتی ہیں، وہ اسی طرح اپنی شناخت کے لیے کوچوں اور گلیوں میں ماری ماری پھرتی ہیں۔