اللہ کے کرم کے دروازے
ملک ریاض پچھلے بیس برسوں سے "لائم لائٹ" میں ہیں، یہ ہر حکومت میں متنازعہ ہوتے ہیں، یہ میڈیا، پارلیمنٹ، بیورو کریسی اور سیاسی جماعتوں میں زیر بحث رہتے ہیں، لوگ ان پر تنقید کرتے ہیں، حکومتیں انھیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں، ان کے وارنٹ بھی جاری ہو جاتے ہیں اور ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے بھی شروع ہو جاتے ہیں مگر پھر ایک خاص حد کے بعد یہ تمام کارروائیاں رک جاتی ہیں اور پھر ان کے خلاف کارروائی کا حکم دینے والے، ان کے خلاف چھاپے مارنے والے، ان پر تنقید کرنے والے اور انھیں برا بھلا کہنے والے ان کے دوست بن جاتے ہیں، یہ ان کے ڈرائنگ روم، ان کے دفتر اور ان کے ڈائننگ روم میں بیٹھے ہوتے ہیں، میں نے اپنی بیالیس سال کی عمر اور 20 سالہ صحافتی کیریئر میں کسی شخص کو ان سے زیادہ متنازعہ اور ان سے زیادہ دبائو میں نہیں دیکھا مگر یہ اس کے باوجود قائم رہتے ہیں، یہ کھڑے رہتے ہیں، یہ ایک وقت میں کسی سیاسی جماعت کے ولن ہوتے ہیں اور دوسرے وقت میں وہی جماعت اور اس کی قیادت انھیں اپنا ہیرو مان لیتی ہے۔
ان پر زمینوں پر قبضے اور قتل تک کے مقدمے درج ہوتے ہیں مگر یہ ہر بحران سے بڑی آسانی سے نکل آتے ہیں، محترمہ بے نظیر بھٹو ہوں، میاں نواز شریف ہوں یا پھر جنرل پرویز مشرف ہوں ملک کا ہر حکمران اپنے اقتدار کا آغاز ملک ریاض کے خلاف کارروائی سے کرتا ہے مگر چند دنوں بعد ملک ریاض اس کے سب سے قریبی دوست ہوتے ہیں، کیوں؟ یہ وہ سوال ہے جو اس تحریر کا محرک بنا، میں اگر ملک ریاض کو قریب سے نہ جانتا تو شاید میں بھی ملک کے ہزاروں لاکھوں لوگوں کی طرح اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتا کہ یہ لوگوں کو خرید لیتے ہیں یا ملک کے بڑے بڑے لوگ ان کے " پے رول" پر ہیں یا یہ سیاست اور بیورو کریسی کو ٹھیکیداری نظام کے تحت چلا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ مگر میں جس ملک ریاض کو جانتا ہوں یہ اس کی سلامتی، اس کے بچائو اور اس پر اللہ کے کرم کی ہرگز وجہ نہیں، پیسہ یا رسوخ ملک ریاض کے تمام سیاسی، فوجی، کاروباری اور بیوروکریٹ دوستوں کا ایشو نہیں ہوتا، محترمہ بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف، چوہدری شجاعت حسین اور جنرل پرویز مشرف کو صرف پیسوں کے لیے ملک ریاض سے دوستی کی کیا ضرورت تھی؟
یہ لوگ خود کھربوں میں کھیلتے ہیں یا کھیلتے تھے اور یہ صرف ایک دستخط کے ذریعے ملک ریاض کی کل دولت سے دوگنا پیسہ کما سکتے ہیں یا کما سکتے تھے پھر انھیں صرف پیسوں کے لیے ملک ریاض کو دوست بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ اثر و رسوخ میں بھی ملک ریاض سے بہت آگے ہیں، آپ خود سوچئے جن لوگوں کے لیے سعودی شاہ سے لے کر امریکی صدر تک کے دروازے کھل جاتے ہیں یا جو پورے ملک کا قانون یا آئین بدل سکتے ہیں یا جو ایک حکم کے ذریعے اپنی مرضی کے شخص کو آرمی چیف، چیف جسٹس، چیئرمین نیب، آئی جی اور چیف سیکریٹری بنا سکتے ہیں یا جو کسی شخص کو بھی وزارت، سفارت اور صدارت دے سکتے ہیں، ان لوگوں کو رسوخ کے لیے ملک ریاض کو دوست بنانے کی کیا ضرورت ہے اور یہ لوگ دانش وری اور دانش مندی میں بھی ملک ریاض سے بہت آگے ہیں، یہ دنیا کے کسی بھی دانش ور، ماہر اور ذہین شخص کی سروسز حاصل کر سکتے ہیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے مارک سیگل جیسے شخص کو اپنا پبلک ریلیشنز آفیسر بنا رکھا تھا اور جان کیری میاں نواز شریف کی لابنگ کر رہے ہیں اور دنیا بھر کے ذہین اور فطین لوگ جنرل پرویز مشرف کا جھنڈا اٹھا کر پھرتے تھے لہٰذا پھر ان لوگوں کو میٹرک پاس ملک ریاض کی کیا ضرورت ہے؟ اور ملک ریاض کسی سیاسی جماعت کو ایک دو کروڑ ووٹ بھی لے کر نہیں دے سکتے چنانچہ پھر ان تعلقات اور آفتوں سے بچائو کی وجہ کیا ہے؟ ۔
یہ وجہ بہت دلچسپ اور دنیا کا قدیم ترین نسخہ ہے، ملک ریاض ملک میں سب سے زیادہ چیریٹی کرنے والے شخص ہیں، یہ دنیا کے ہر شخص کو انکار کر سکتے ہیں مگر اللہ کے نام پر پھیلے ہاتھ کو واپس نہیں کرتے، انھوں نے چیریٹی کو باقاعدہ سسٹم کی شکل دے دی ہے، ملک ریاض نے دو فنڈز بنا رکھے ہیں، یہ ایک فنڈ میں بینکوں سے حاصل ہونے والا سارا منافع ڈال دیتے ہیں، یہ منافع ویلفیئر کے مختلف کاموں پر خرچ ہو جاتا ہے، دوسرا فنڈ ان کے روزانہ کے منافع یا اخراجات سے منسلک ہے، ان کی کسی بھی اسکیم میں جہاں بھی ایک کروڑ روپے کی ٹرانزیکشن ہوتی ہے، یہ اس میں سے دو لاکھ روپے الگ کر دیتے ہیں اور یہ رقم سیدھی اس فنڈ میں چلی جاتی ہے، یہ اس فنڈ سے بعد ازاں چیریٹی اسپتال چلاتے ہیں، ملک بھر میں قائم 55 دستر خوان چلاتے ہیں، اولڈ ہومز، آرفن ہومز اور غریب بچوں کے اسکول چلاتے ہیں اور غریب بچیوں کو جہیز فراہم کرتے ہیں، اس فنڈ میں 48 کروڑ روپے ہیں، یہ فنڈ روزانہ خرچ ہوتا ہے مگر یہ کم نہیں ہوتا، اس میں کسی نہ کسی طرف سے رقم آ جاتی ہے اور یوں ضرورت مندوں کی مدد کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
ملک ریاض کے دو تازہ ترین کارناموں نے مجھے حیران کر دیا اور یہ کارنامے اس کالم کی دوسری بڑی بنیاد ہیں، ہمارے ملک میں ہارٹ اٹیکس کے بعد برین ہیمرج دوسری بڑی ایمرجنسی ہے، ہم روز خبریں سنتے یا پڑھتے ہیں فلاں شخص کے دماغ کی نس پھٹ گئی اور وہ دنیا سے رخصت ہو گیا، برین ہیمرج کے ساٹھ فیصد کیسوں میں ہلاکت ہو جاتی ہے جب کہ باقی چالیس فیصد مریض فالج کا شکار ہو جاتے ہیں اور یہ باقی زندگی بستر پر سسک سسک کر جان دے دیتے ہیں، ملک ریاض نے لاہور میں برین ہیمرج ایمرجنسی بنا دی ہے، ان کی والدہ کا نام بیگم اختر رخسانہ تھا، ملک ریاض نے ان کے نام سے لاہور اور راولپنڈی میں میموریل اسپتال بنائے ہیں، لاہور کے بیگم اختر رخسانہ میموریل اسپتال کے لیے نیورالوجسٹ ڈاکٹر قاسم بشیر کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، یہ امریکا میں کام کرتے تھے، ملک صاحب انھیں وہاں سے پاکستان لے آئے ہیں، ڈاکٹر صاحب نے دماغ کی پھٹی ہوئی نسیں بند کرنے اور دماغ کو خون سپلائی کرنے والی رگیں کھولنے کا طریقہ ایجاد کر لیا ہے۔
یہ اینجیو پلاسٹی کی طرح برین ہیمرج کے شکار مریض کی رگ میں باریک تار ڈالتے ہیں، یہ تار دماغ میں پہنچ کر پھٹی ہوئی نس کو بند کر دیتی ہے اور خون کی بند سپلائی کھول دیتی ہے، اس طریقہ علاج کی وجہ سے مریض کی جان بھی بچ جاتی ہے اور یہ مفلوج ہونے سے بھی محفوظ رہتا ہے، برین ہیمرج کا شکار شخص اگر حملے کے تین گھنٹے کے اندر بیگم اختر رخسانہ میموریل اسپتال پہنچ جائے تو اس کی جان بچ جاتی ہے، یہ پاکستان میں اس نوعیت کا پہلا سینٹر ہے، میری لاہور کے گرد و نواح میں رہنے والے لوگوں سے درخواست ہے اگر آپ کے کسی عزیز کو برین ہیمرج ہو جائے یا آپ کو اطلاع ملے تو آپ اس مریض کو فوری طور پر ملک ریاض کے اسپتال پہنچا دیں، اسپتال میں مریض کا مفت علاج ہو گا، میری ملک کے دوسرے مخیر حضرات یا وہ حضرات جو چیریٹی اسپتال چلا رہے ہیں ان سے درخواست ہے آپ اپنے ڈاکٹروں کو ڈاکٹر قاسم بشیر کے پاس بھجوائیں، ڈاکٹروں کو ٹریننگ دلوائیں اور اپنے اسپتالوں میں برین ہیمرج یونٹ قائم کروائیں اس سے ہزاروں لاکھوں لوگوں کا بھلا ہو گا اور اللہ تعالیٰ آپ کو اجر عطا کرے گا۔
ملک ریاض کا دوسرا کارنامہ گونگے بہرے بچوں کی سماعت اور گویائی لوٹانا ہے، دنیا میں سماعت سے محروم بچے گویائی کی نعمت سے بھی محروم ہوتے ہیں، یہ بچے اگر سن سکیں تو یہ بولنا بھی سیکھ لیتے ہیں، مانچسٹر کے ایک ڈاکٹر اور ایک برطانوی کمپنی نے اس طبی مسئلے کا حل ایجاد کر لیا ہے، انھوں نے ایک ایسا آلہ ایجاد کر لیا ہے جس کے ذریعے قوت سماعت سے محروم بچے سننے کے قابل بن جاتے ہیں، ملک صاحب اس ڈاکٹر کو پاکستان بلاتے رہتے ہیں، یہ ڈاکٹر بچوں کے کان میں آلہ لگا دیتا ہے اور یوں سماعت سے محروم بچے سننے کے قابل ہو جاتے ہیں، اس علاج پر شروع میں 22 لاکھ روپے خرچ آتا تھا لیکن یہ اب چودہ پندرہ لاکھ روپے میں ممکن ہو چکا ہے، ملک صاحب یہ علاج فری کرواتے ہیں، یہ اب تک درجن بھر بچوں کو سماعت کی نعمت لوٹا چکے ہیں۔
آپ کا بچہ بھی اگر سماعت سے محروم ہے اور آپ اس کا علاج افورڈ نہیں کر سکتے تو آپ بیگم اختر رخسانہ اسپتال لاہور میں ڈاکٹر جواد سے رابطہ کر سکتے ہیں، یہ لوگ یقینا آپ کی مدد کریں گے، ملک کے دوسرے مخیر حضرات بھی یہ ٹیکنالوجی حاصل کر کے ایسے سینٹر بنوا سکتے ہیں، ہم لوگ اگر ہزار بچوں کو بھی ٹھیک کرا دیں تو یہ کمال ہو گا، ملک ریاض ملک میں پہلی ہیلی کاپٹر ایمبولینس سروس بھی شروع کر رہے ہیں، یہ دو ایمبولینس ہیلی کاپٹر خرید چکے ہیں اور یہ ہیلی کاپٹر شروع میں موٹر وے پر حادثات کے لیے فری سروس فراہم کریں گے، یہ آہستہ آہستہ اس سروس کو دوسرے علاقوں تک بھی پھیلا دیں گے، ملک کے دیگر مخیر حضرات بھی ایسی ہیلی کاپٹر سروس شروع کر سکتے ہیں جس کا عام لوگوں کو فائدہ ہو گا۔
ملک ریاض چیریٹی کے معاملے میں اس قدر کھلے دل کے انسان ہیں کہ میں نے 4 اگست 2013ء کو کاروان علم فائونڈیشن کے لیے کالم لکھا تھا، فائونڈیشن کو طلبہ کے اسکالر شپس کے لیے 3 کروڑ روپے چاہیے تھے، ملک ریاض نے ان تمام طالب علموں کی ذمے داری اٹھا لی، یہ ان بچوں کو براہ راست وظیفہ دیں گے اور یہ وہ نسخہ ہے جس کی وجہ سے ملک ریاض ہر مصیبت سے بھی بچ جاتے ہیں اور ان کے بڑے سے بڑے دشمن بھی ان کے دوست بن جاتے ہیں، ہمارے ملک میں ملک ریاض جیسے درجنوں امیر لوگ ہیں مگر یہ حوصلے میں ان سے بہت پیچھے ہیں چنانچہ کوئی ایک مصیبت انھیں زمین کے ساتھ لگا دیتی ہے جب کہ ملک ریاض مسائل کے ہر قسم کے کیچڑ سے سلامت نکل جاتے ہیں، آپ بھی برین ہیمرج کا ایک سینٹر بنائیں یا کسی ایک گونگے بہرے بچے کو آواز کی لذت سے روشناس کروائیں آپ پر بھی اللہ تعالیٰ کے کرم کے دروازے کھل جائیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ انسانوں پر مہربانی کرنے والوں کو کبھی اپنی مہربانی سے محروم نہیں کرتا۔